محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,799
- پوائنٹ
- 1,069
بشریٰ امیر کا خصوصی کالم "پھولوں کو مسلنے نہ دو"
#UrduArtical
بچہ نہایت خوبصورت ہستی کا نام ہے۔ اس سے پیار و محبت کا عنصر پایا جاتا ہے۔ بچہ چاہے کسی کا ہو سب کو بھاتا ہے۔ ہر رحم دل کو اس ننھی جان پر رحم آتا ہے۔ بچے کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ وہ کسی فرقے سے تعلق نہیں رکھتا۔ رسول اکرمؐ نے بتلا دیا کہ بچہ فطرت اسلام پر ہوتا ہے اس کے ماں باپ اسے یہودی، عیسائی اور نصرانی بنا دیتے ہیں۔ آپ نے بچوں سے پیار و محبت کی اعلیٰ مثالیں پیش کر کے بتلا دیا کہ ان ننھی جانوں سے پیار کرو۔ اقرع بن حابس نے دیکھا کہ حضرت محمد کریمؐ حسن و حسینؓ کو چوم رہے ہیں تو کہنے لگے حضور! میرے دس بچے ہیں، میں نے کبھی کسی کو نہیں چوما۔ آپ نے فرمایا جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ (بخاری) اور پھر فرمایا اگر اللہ نے تیرے دل سے رحم کو نکال دیا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔
حضرت محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف اپنے بچوں سے بلکہ مدینہ میں رہنے والے بچوں سے بھی پیار، شفقت اور محبت کرتے تھے۔ صحابہ کرام کے بچوں سے بے تکلّفانہ پیار کرتے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میرا چھوٹا بھائی تھا، اس کا نام ابو عمیر تھا۔ اس کے پاس ایک چڑیا تھی۔ آپؐ صلی اللہ علیہ وسلم ابو عمیرؓ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور فرمانے لگے: یا ابا عمیر مافعل النغیر یعنی اے ابو عمیر تیری چڑیا کو کیا ہوا؟ (بخاری)۔ بچوں کے ساتھ ہی نہیں بچیوں کے ساتھ بھی پیار اور نرمی کا مظاہرہ کرتے۔ مدینے کی بچیوں کے ساتھ بھی محبت اور شفقت سے پیش آتے، انہیں تحائف دیتے۔ ایک دفعہ آپؐ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام خالد کو بلایا، بذات خود اس لڑکی کو قمیص پہنایا اور فرمایا: اس وقت تک پہنو کہ یہ پرانا ہو جائے (بخاری)۔ آپؐ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کی دل لگی اور انہیں خوش کرنے کی ترکیبیں اپناتے۔ یہ تو مدینہ میں رہنے والے مسلمان صحابہ کرامؓ کے بچوں سے پیار کی مثالیں تھیں۔ آپؐ نے تو بچوں کے معاملے میں یہودی بچوں کے ساتھ بھی کوئی امتیاز نہ رکھا۔
کفار کے بچوں کے ساتھ آپؐ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو طرز عمل ہے، وہ ناقابل بیان ہے۔ ایک یہودی شخص کا لڑکا آپ کی خدمت میں تھا وہ ایک دفعہ بیمار ہو گیا۔ آپ نے ازخود تشریف لا کر اس کی عیادت فرمائی، اس بچے کے سرہانے بیٹھے پھر اس بچے سے فرمایا: اسلام قبول کر لو۔ اس بچے نے اپنے والد پر نظر ڈالی والد نے بھی کہا: ابو القاسم کی اطاعت کر لو، لہٰذا وہ بچہ مسلمان ہو گیا۔ رحمۃ للعالمینؐ یہ کہتے ہوئے نکلے، الحمدللہ الذی انقذہ من النار۔ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے اس کو آگ سے بچا لیا۔ (بخاری) اس سے معلوم ہوا کہ بچے پر شفقت و نرمی کرنی چاہئے۔ بچہ چاہے کافر ہی کا کیوں نہ ہو!
جی ہاں! اسلام دین فطرت بھی ہے اور پررحمت بھی، اسلام انسانیت کے احترام کا درس سکھلاتا ہے اور ہر ذی روح سے رحم کی تلقین کرتا ہے۔
میری بہنو! بچوں سے محبت اور شفقت کا عنصر جس میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے، وہ ہستی ہے ماں۔ ماں کی اپنے بچے سے محبت بے مثال ہے۔ اللہ نے اپنی رحمت کا ایک حصہ دنیا میں دیا جس کی وجہ سے ہر ایک ماں اپنے بچے سے اس قدر محبت کرتی ہے۔
میرا دل اس وقت کٹ کر رہ گیا جب میں نے برما کے مسلمانوں پر ظلم کی ایک تصویر دیکھی کہ ماں نے گود میں بچہ اٹھا رکھا ہے جس کا سر کٹ کر گرا ہوا ہے ماں کے تڑپتے دل کو کوئی نہ دیکھ سکا۔ ماں کے گرتے آنسو فریاد کناں تھے کہ اس کا قصور کیا تھا؟ اس معصوم نے کسی کا کیا بگاڑا تھا؟ برما میں ہونے والے مظالم میں سے ایک بچے کی روح فرسا تصویر نے دل دہلا کر رکھ دیا۔ بچے پر وزنی بوجھ ڈالا جا رہا ہے جس سے بچے کا جسم پھٹ کر اس سے خون رس رہا ہے۔ ہائے افسوس! ظلم انتہا کو پہنچ گیا۔ عالم اسلام کی بے حسی پر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے پالتو تو صرف بچوں کے عالمی دن پر نمودار ہوں گے اپنے پلان کے مطابق دو چار بچوں کے حق میں تقاریر کریں گے اور پھر سال بھر خاموش، کہنے کو تو بچوں کو پوری انسانیت کا اثاثہ سمجھا جاتا ہے جن پر توجہ دینا ہے کہ یہ کل کے معمار ہیں، لیکن سچائی اور حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ تشدد بھی بچوں پر ہوتا ہے اور نظرانداز بھی بچے ہی ہوتے ہیں۔
یورپین ممالک میں تو بچوں کے لئے قانون سازی کر لی گئی ہے کہ وہاں والدین بھی بچوں کے ساتھ ظلم و زیادتی نہیں کر سکتے، لیکن دنیا کے کئی ملکوں میں بچوں پر ہونے والے مظالم کی داستان بہت طویل ہے۔ اس ظلم میں بھارت کا مکروہ چہرہ صف اول میں ہے جہاں مندر بچوں کے مقتل گاہ بن چکے ہیں۔ بارشوں، اولاد نرینہ اور جادو طاقتیں حاصل کرنے کے لئے آسام میں ہر سال 100 کے قریب بچوں کی قربانی دی جاتی ہے۔ تازہ سانحہ جمعرات کو آسام کے علاقے تارا جولی چائے باغ میں پیش آیا جہاں مقامی پجاری نانو مردھانے 5 سالہ بچے کاشی کو مندر کے صدر دروازے پر بلایا جب بچہ مندر کے دروازے پر آیا تو پجاری نے لپک کر کاشی کو پکڑ لیا اور اپنے ہاتھ میں پکڑی تیز دھار درانتی لہراتے ہوئے بلایا کہ گاؤں والے مندر میں چڑھاوا نہیں چڑھاتے، اس وجہ سے ’’کالی ماتا‘‘ سخت ناراض ہے۔ چنانچہ اب وہ اس بچے کی بھینٹ دے کر ’’کالی ماتا‘‘ کو منائے گا۔ یہ کہہ کر شقی القلب پجاری بچے کو بالوں سے گھسیٹتا ہوا مندر لے گیا۔ کئی بدبخت خدمت گار بھی وہاں موجود تھے لیکن کسی نے نہ روکا۔ اس کمبخت نے بچے کے گلے پر تیز دھار آلہ پھیر دیا۔ اس دوران بلند آواز سے منتر بھی پڑھنا شروع کر دیا اور پھر بچے کے خون سے دیوی کو نہلانا شروع کر دیا۔ کسی آدمی نے دیکھا تو پولیس کو اطلاع دی جس پر پولیس اہلکاروں نے بچے کی لاش کو ہسپتال منتقل کر دیا۔
بھارتی جریدے ٹریبون کی رپورٹ کے مطابق پانچ سالہ کاشی کا قتل اس مہینے میں پیش آنے والا تیسرا واقعہ ہے۔ مئی کے پہلے ہفتے میں بھی ایک بچے کی لاش کوشلیا مندر کے قریب سے ملی تھی۔ پوسٹ مارٹم میں بھی یہ بات ثابت ہو گئی تھی کہ سات سالہ شیام کو بھی مندر میں دیوی کے قدموں میں ’’قربان‘‘ کیا گیا ہے کیونکہ اس کے جسم سے سیندور کی خوشبو آ رہی تھی۔ بچے کا سر مندر کے اندر سے برآمد ہوا تھا۔ ایک نامعلوم پجاری کے بنائے گئے عارضی طور پر پتھروں کے مندر میں بھی ایک ایسا واقعہ پیش آیا جہاں ایک بچی کو دیوی کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیمیں کہتی ہیں کہ ریاست آسام قبائلی نظام اور توہم پرستی کا گڑھ ہے۔ یہاں دیوی کے آگے بچوں کو قربان کرنے کی رسم صدیوں سے جاری ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اگر وہ خاص راتوں میں بچے کی بھینٹ چڑھائیں گے تو انہیں جادوئی طاقت حاصل ہو گی۔ اس کے علاوہ یوگنڈا میں بھی مال و دولت حاصل کرنے کے لئے بچے کو قربان کیا جاتا ہے۔ رپورٹس کے مطابق امیر مقامی لوگ بچے فروخت کرنے والوں سے بچے خریدتے ہیں۔ بچوں کو اغوا کیا جاتا ہے اور بعد میں قربانی کی رسم پر عمل کروانے کے لئے امیروں کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔ اب بہت سے غریب والدین اپنے بچوں کے جسموں پر چھید کر دیتے ہیں۔ چھید کیا ہوا بچہ قربانی کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔
ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال تین ہزار سے زائد بچے صرف قدرتی طاقتوں کو خوش کرنے کے لئے دنیا بھر میں ذبح ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی گزشتہ سال بچوں کی قربانی کے دو واقعات منظر عام پر آئے۔ ایک جعلی عامل کے کہنے پر جنات کو خوش کرنے کے لئے اور بدلے میں مال و دولت حاصل کرنے کے لئے اپنی بیوی اور دو بیٹوں کو قربان کر دیا۔ یہ سب جہالت اور دین سے دوری ہے۔ ہندوانہ رسم و رواج عقیدے کا گند اور ہندو سادھوؤں کے سکھائے ہوئے طریقے ہیں۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہ بچوں کے ساتھ تشدد کے واقعات تو الگ رہے، مزدور بچوں کے ساتھ تشدد کے واقعات تو روز اخبارات میں پڑھ کر دل دکھی ہو جاتا ہے۔ مصر کے ایک یتیم گھر میں یتیموں پر تشدد کی ویڈیو دیکھی نہ جاتی تھی۔ یتیم بچے اور بچیوں پر وہاں کا نگران بہت بری طرح تشدد کرتا تھا اور بچوں کی چیخیں اس ظالم کے علاوہ سب کو سنائی دے رہی تھیں۔ جرم یہ تھا کہ بچے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ ان بچوں کا تعلق غزہ سے تھا۔ سوشل میڈیا اور یو ٹیوب پر اس ویڈیو کے آنے سے مالک کو حراست میں لے لیا گیا اور بچوں کو کہیں اور منتقل کر دیا گیا۔ عراق، کشمیر، شام، فلسطین، برما، یمن، لیبیا جہاں جہاں جنگیں ہو رہی ہیں، بچوں کا پرسان حال ہی کوئی نہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق وسطی افریقہ، عراق، جنوبی سوڈان، شام، یوکرین اور فلسطین میں جاری فسادات اور لڑائیوں میں ایک کروڑ 50 لاکھ بچے متاثر ہوئے۔ افریقہ میں جاری خانہ جنگی میں 23 لاکھ بچے متاثر ہوئے جس میں سے 10 ہزار بچوں کو مسلح گروپوں نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جبکہ 430 جان کی بازی ہار گئے۔ 538 بچے اسرائیلی حملوں اور سربریت کا شکار ہوئے۔ جبکہ 3370 زخمی اور سینکڑوں ماں باپ کی شفقت سے محروم ہو گئے۔ شام کی خانہ جنگی میں 73 لاکھ بچے متاثر ہوئے جن میں 17 لاکھ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ 700 اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اقوام متحدہ کے تمام معاہدے، پروٹوکول اور طریقہ کار جنگ سے متاثر بچوں کو 13.5 ملین تحفظ فراہم کرتے ہیں لیکن کیا یہ اقدامات ان کو ان کا بچپن اور ان کی محرومیاں مٹانے کے لئے کافی ہوں گے اور پھر ہندوؤں کے ہاتھوں قربان ہونے والے بچوں کا پیچھا کون کرے گا؟ کاش بچوں کے لئے کوئی مسیحا پیدا ہو جائے، بچوں کے لئے رسول کریم رحمۃ للعالمینؐ پر چلنے والی قیادت آ جائے۔
اے اللہ! رحم کرنے والے حکمران عطا کر دے۔ بے رحمی کرنے والوں کے ہاتھ روکنے اور توڑنے والا حکمران دے دے۔(آمین)
#UrduArtical
بچہ نہایت خوبصورت ہستی کا نام ہے۔ اس سے پیار و محبت کا عنصر پایا جاتا ہے۔ بچہ چاہے کسی کا ہو سب کو بھاتا ہے۔ ہر رحم دل کو اس ننھی جان پر رحم آتا ہے۔ بچے کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ وہ کسی فرقے سے تعلق نہیں رکھتا۔ رسول اکرمؐ نے بتلا دیا کہ بچہ فطرت اسلام پر ہوتا ہے اس کے ماں باپ اسے یہودی، عیسائی اور نصرانی بنا دیتے ہیں۔ آپ نے بچوں سے پیار و محبت کی اعلیٰ مثالیں پیش کر کے بتلا دیا کہ ان ننھی جانوں سے پیار کرو۔ اقرع بن حابس نے دیکھا کہ حضرت محمد کریمؐ حسن و حسینؓ کو چوم رہے ہیں تو کہنے لگے حضور! میرے دس بچے ہیں، میں نے کبھی کسی کو نہیں چوما۔ آپ نے فرمایا جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ (بخاری) اور پھر فرمایا اگر اللہ نے تیرے دل سے رحم کو نکال دیا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔
حضرت محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف اپنے بچوں سے بلکہ مدینہ میں رہنے والے بچوں سے بھی پیار، شفقت اور محبت کرتے تھے۔ صحابہ کرام کے بچوں سے بے تکلّفانہ پیار کرتے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میرا چھوٹا بھائی تھا، اس کا نام ابو عمیر تھا۔ اس کے پاس ایک چڑیا تھی۔ آپؐ صلی اللہ علیہ وسلم ابو عمیرؓ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور فرمانے لگے: یا ابا عمیر مافعل النغیر یعنی اے ابو عمیر تیری چڑیا کو کیا ہوا؟ (بخاری)۔ بچوں کے ساتھ ہی نہیں بچیوں کے ساتھ بھی پیار اور نرمی کا مظاہرہ کرتے۔ مدینے کی بچیوں کے ساتھ بھی محبت اور شفقت سے پیش آتے، انہیں تحائف دیتے۔ ایک دفعہ آپؐ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام خالد کو بلایا، بذات خود اس لڑکی کو قمیص پہنایا اور فرمایا: اس وقت تک پہنو کہ یہ پرانا ہو جائے (بخاری)۔ آپؐ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کی دل لگی اور انہیں خوش کرنے کی ترکیبیں اپناتے۔ یہ تو مدینہ میں رہنے والے مسلمان صحابہ کرامؓ کے بچوں سے پیار کی مثالیں تھیں۔ آپؐ نے تو بچوں کے معاملے میں یہودی بچوں کے ساتھ بھی کوئی امتیاز نہ رکھا۔
کفار کے بچوں کے ساتھ آپؐ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو طرز عمل ہے، وہ ناقابل بیان ہے۔ ایک یہودی شخص کا لڑکا آپ کی خدمت میں تھا وہ ایک دفعہ بیمار ہو گیا۔ آپ نے ازخود تشریف لا کر اس کی عیادت فرمائی، اس بچے کے سرہانے بیٹھے پھر اس بچے سے فرمایا: اسلام قبول کر لو۔ اس بچے نے اپنے والد پر نظر ڈالی والد نے بھی کہا: ابو القاسم کی اطاعت کر لو، لہٰذا وہ بچہ مسلمان ہو گیا۔ رحمۃ للعالمینؐ یہ کہتے ہوئے نکلے، الحمدللہ الذی انقذہ من النار۔ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے اس کو آگ سے بچا لیا۔ (بخاری) اس سے معلوم ہوا کہ بچے پر شفقت و نرمی کرنی چاہئے۔ بچہ چاہے کافر ہی کا کیوں نہ ہو!
جی ہاں! اسلام دین فطرت بھی ہے اور پررحمت بھی، اسلام انسانیت کے احترام کا درس سکھلاتا ہے اور ہر ذی روح سے رحم کی تلقین کرتا ہے۔
میری بہنو! بچوں سے محبت اور شفقت کا عنصر جس میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے، وہ ہستی ہے ماں۔ ماں کی اپنے بچے سے محبت بے مثال ہے۔ اللہ نے اپنی رحمت کا ایک حصہ دنیا میں دیا جس کی وجہ سے ہر ایک ماں اپنے بچے سے اس قدر محبت کرتی ہے۔
میرا دل اس وقت کٹ کر رہ گیا جب میں نے برما کے مسلمانوں پر ظلم کی ایک تصویر دیکھی کہ ماں نے گود میں بچہ اٹھا رکھا ہے جس کا سر کٹ کر گرا ہوا ہے ماں کے تڑپتے دل کو کوئی نہ دیکھ سکا۔ ماں کے گرتے آنسو فریاد کناں تھے کہ اس کا قصور کیا تھا؟ اس معصوم نے کسی کا کیا بگاڑا تھا؟ برما میں ہونے والے مظالم میں سے ایک بچے کی روح فرسا تصویر نے دل دہلا کر رکھ دیا۔ بچے پر وزنی بوجھ ڈالا جا رہا ہے جس سے بچے کا جسم پھٹ کر اس سے خون رس رہا ہے۔ ہائے افسوس! ظلم انتہا کو پہنچ گیا۔ عالم اسلام کی بے حسی پر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے پالتو تو صرف بچوں کے عالمی دن پر نمودار ہوں گے اپنے پلان کے مطابق دو چار بچوں کے حق میں تقاریر کریں گے اور پھر سال بھر خاموش، کہنے کو تو بچوں کو پوری انسانیت کا اثاثہ سمجھا جاتا ہے جن پر توجہ دینا ہے کہ یہ کل کے معمار ہیں، لیکن سچائی اور حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ تشدد بھی بچوں پر ہوتا ہے اور نظرانداز بھی بچے ہی ہوتے ہیں۔
یورپین ممالک میں تو بچوں کے لئے قانون سازی کر لی گئی ہے کہ وہاں والدین بھی بچوں کے ساتھ ظلم و زیادتی نہیں کر سکتے، لیکن دنیا کے کئی ملکوں میں بچوں پر ہونے والے مظالم کی داستان بہت طویل ہے۔ اس ظلم میں بھارت کا مکروہ چہرہ صف اول میں ہے جہاں مندر بچوں کے مقتل گاہ بن چکے ہیں۔ بارشوں، اولاد نرینہ اور جادو طاقتیں حاصل کرنے کے لئے آسام میں ہر سال 100 کے قریب بچوں کی قربانی دی جاتی ہے۔ تازہ سانحہ جمعرات کو آسام کے علاقے تارا جولی چائے باغ میں پیش آیا جہاں مقامی پجاری نانو مردھانے 5 سالہ بچے کاشی کو مندر کے صدر دروازے پر بلایا جب بچہ مندر کے دروازے پر آیا تو پجاری نے لپک کر کاشی کو پکڑ لیا اور اپنے ہاتھ میں پکڑی تیز دھار درانتی لہراتے ہوئے بلایا کہ گاؤں والے مندر میں چڑھاوا نہیں چڑھاتے، اس وجہ سے ’’کالی ماتا‘‘ سخت ناراض ہے۔ چنانچہ اب وہ اس بچے کی بھینٹ دے کر ’’کالی ماتا‘‘ کو منائے گا۔ یہ کہہ کر شقی القلب پجاری بچے کو بالوں سے گھسیٹتا ہوا مندر لے گیا۔ کئی بدبخت خدمت گار بھی وہاں موجود تھے لیکن کسی نے نہ روکا۔ اس کمبخت نے بچے کے گلے پر تیز دھار آلہ پھیر دیا۔ اس دوران بلند آواز سے منتر بھی پڑھنا شروع کر دیا اور پھر بچے کے خون سے دیوی کو نہلانا شروع کر دیا۔ کسی آدمی نے دیکھا تو پولیس کو اطلاع دی جس پر پولیس اہلکاروں نے بچے کی لاش کو ہسپتال منتقل کر دیا۔
بھارتی جریدے ٹریبون کی رپورٹ کے مطابق پانچ سالہ کاشی کا قتل اس مہینے میں پیش آنے والا تیسرا واقعہ ہے۔ مئی کے پہلے ہفتے میں بھی ایک بچے کی لاش کوشلیا مندر کے قریب سے ملی تھی۔ پوسٹ مارٹم میں بھی یہ بات ثابت ہو گئی تھی کہ سات سالہ شیام کو بھی مندر میں دیوی کے قدموں میں ’’قربان‘‘ کیا گیا ہے کیونکہ اس کے جسم سے سیندور کی خوشبو آ رہی تھی۔ بچے کا سر مندر کے اندر سے برآمد ہوا تھا۔ ایک نامعلوم پجاری کے بنائے گئے عارضی طور پر پتھروں کے مندر میں بھی ایک ایسا واقعہ پیش آیا جہاں ایک بچی کو دیوی کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیمیں کہتی ہیں کہ ریاست آسام قبائلی نظام اور توہم پرستی کا گڑھ ہے۔ یہاں دیوی کے آگے بچوں کو قربان کرنے کی رسم صدیوں سے جاری ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اگر وہ خاص راتوں میں بچے کی بھینٹ چڑھائیں گے تو انہیں جادوئی طاقت حاصل ہو گی۔ اس کے علاوہ یوگنڈا میں بھی مال و دولت حاصل کرنے کے لئے بچے کو قربان کیا جاتا ہے۔ رپورٹس کے مطابق امیر مقامی لوگ بچے فروخت کرنے والوں سے بچے خریدتے ہیں۔ بچوں کو اغوا کیا جاتا ہے اور بعد میں قربانی کی رسم پر عمل کروانے کے لئے امیروں کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔ اب بہت سے غریب والدین اپنے بچوں کے جسموں پر چھید کر دیتے ہیں۔ چھید کیا ہوا بچہ قربانی کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔
ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال تین ہزار سے زائد بچے صرف قدرتی طاقتوں کو خوش کرنے کے لئے دنیا بھر میں ذبح ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی گزشتہ سال بچوں کی قربانی کے دو واقعات منظر عام پر آئے۔ ایک جعلی عامل کے کہنے پر جنات کو خوش کرنے کے لئے اور بدلے میں مال و دولت حاصل کرنے کے لئے اپنی بیوی اور دو بیٹوں کو قربان کر دیا۔ یہ سب جہالت اور دین سے دوری ہے۔ ہندوانہ رسم و رواج عقیدے کا گند اور ہندو سادھوؤں کے سکھائے ہوئے طریقے ہیں۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہ بچوں کے ساتھ تشدد کے واقعات تو الگ رہے، مزدور بچوں کے ساتھ تشدد کے واقعات تو روز اخبارات میں پڑھ کر دل دکھی ہو جاتا ہے۔ مصر کے ایک یتیم گھر میں یتیموں پر تشدد کی ویڈیو دیکھی نہ جاتی تھی۔ یتیم بچے اور بچیوں پر وہاں کا نگران بہت بری طرح تشدد کرتا تھا اور بچوں کی چیخیں اس ظالم کے علاوہ سب کو سنائی دے رہی تھیں۔ جرم یہ تھا کہ بچے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ ان بچوں کا تعلق غزہ سے تھا۔ سوشل میڈیا اور یو ٹیوب پر اس ویڈیو کے آنے سے مالک کو حراست میں لے لیا گیا اور بچوں کو کہیں اور منتقل کر دیا گیا۔ عراق، کشمیر، شام، فلسطین، برما، یمن، لیبیا جہاں جہاں جنگیں ہو رہی ہیں، بچوں کا پرسان حال ہی کوئی نہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق وسطی افریقہ، عراق، جنوبی سوڈان، شام، یوکرین اور فلسطین میں جاری فسادات اور لڑائیوں میں ایک کروڑ 50 لاکھ بچے متاثر ہوئے۔ افریقہ میں جاری خانہ جنگی میں 23 لاکھ بچے متاثر ہوئے جس میں سے 10 ہزار بچوں کو مسلح گروپوں نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جبکہ 430 جان کی بازی ہار گئے۔ 538 بچے اسرائیلی حملوں اور سربریت کا شکار ہوئے۔ جبکہ 3370 زخمی اور سینکڑوں ماں باپ کی شفقت سے محروم ہو گئے۔ شام کی خانہ جنگی میں 73 لاکھ بچے متاثر ہوئے جن میں 17 لاکھ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ 700 اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اقوام متحدہ کے تمام معاہدے، پروٹوکول اور طریقہ کار جنگ سے متاثر بچوں کو 13.5 ملین تحفظ فراہم کرتے ہیں لیکن کیا یہ اقدامات ان کو ان کا بچپن اور ان کی محرومیاں مٹانے کے لئے کافی ہوں گے اور پھر ہندوؤں کے ہاتھوں قربان ہونے والے بچوں کا پیچھا کون کرے گا؟ کاش بچوں کے لئے کوئی مسیحا پیدا ہو جائے، بچوں کے لئے رسول کریم رحمۃ للعالمینؐ پر چلنے والی قیادت آ جائے۔
اے اللہ! رحم کرنے والے حکمران عطا کر دے۔ بے رحمی کرنے والوں کے ہاتھ روکنے اور توڑنے والا حکمران دے دے۔(آمین)