عمران احمد سلفی
مبتدی
- شمولیت
- فروری 14، 2017
- پیغامات
- 9
- ری ایکشن اسکور
- 3
- پوائنٹ
- 10
اسلامک دعوۃ سنٹر طائف کے ہفتہ واری درس میں یہ سوال کیا گیا کہ پیشانی،ہاتھ اور قدموں کا بوسہ دینا کیسا ہے؟ کیوں کہ ہم عرب کو دیکھتےہیں جب وہ اپنے کسی عمررسیدہ رشہ دار سے ملاقات کرتے ہیں یا اپنے والدین سے تو ان کو بوسہ دیتے ہیں؟۔
الجواب بعون اللہ الوھاب۔
الحمد للہ : سوال کی اہمیت کے پیش نظر جواب قدرسے مفصل لکھنے کی کوشش کی گئی ہے،اللہ رب العزت ہم سب کو علم کے ساتھ عمل کی توفیق دے۔آمین
اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے اور اللہ تعالی نے اس دین کو قیامت تک کے آنے والے تمام انسان اور جنوں کیلئے روشن شاہراہ اور دنیا وآخرت میں نجات کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اسلام نے جہاں عبادات پر جمے رہنے کی تاکید کی ہے وہیں اخلاقیات و معاملات پر بھی انسانوں کی رہنمائی کی ہے،اور عبادات کے بعد سب سے زیادہ اخلاقیات و آداب پر زور دیا ہے۔شریعت اسلامیہ نے آداب سکھلاتے ہوئے کم عمر اور چھوٹے بچوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے سے بڑوں کا احترام کریں ان کی توقیر کریں،اور ان سے زبان درازی نہ کریں،اور ایسے ہی بڑوں کو حکم دیا گیا کہ اپنے سے کم عمروں کے ساتھ رحمت و شفقت کا معاملہ کریں۔
بزرگوں کے ادب و احترام کی بیشمار صورتیں کتاب و سنت نے بیان کی ہیں ان ہی میں سے ایک صورت یہ ہیکہ انسان ادبا و احتراما اپنے والدین ،بڑے بھائی، بہن،چچا،ماموں،عادل حکمراں ،عابد و زاہد علما کرام اوراساتذہ کے سر و پیشانی اور ہاتھ کا بوسہ دے سکتا ہے،جیساکہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ (( وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَآهَا [أي: ابنتَه فاطمة رضي الله عنها] قَدْ أَقْبَلَتْ رَحَّبَ بِهَا، ثُمَّ قَامَ إِلَيْهَا فَقَبَّلَهَا، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِهَا فَجَاءَ بِهَا حَتَّى يُجْلِسَهَا في مَكَانِهِ، وَكَانَت إِذَا أَتَاهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحَّبَتْ بِهِ، ثُمَّ قَامَتْ إِلَيْهِ فَقَبَّلَتْهُ، وَأَنَّهَا دَخَلَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ، فَرَحَّبَ وَقَبَّلَهَا )) ترجمہ :اللہ کے نبی ﷺ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کو آتے ہوئے دیکھتے تو کھڑے ہو کر ان کی طرف بڑھتے ان کا استقبال کرتے اور ان کا ہاتھ تھام لیتے اور ان کو بوسہ دیتے اور اپنی بیٹھنے کی جگہ پر ان کو بٹھاتے،اور رسول اللہ ﷺ جب ان کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ آپ کے پاس لپک کر پہنچتیں ،آپ ﷺکا ہاتھ تھام لیتیں،آپ کو بوسہ دیتیں ، اور اپنی جگہ پر بیٹھاتیں،اور آپ ﷺ کے مرض الموت میں آپ کے پاس آئیں تو آپ نے انکا استقبال کیا اور بوسہ دیا(بخاری الادب المفرد/947، ابوداود/5217، ترمذی/3827،علامہ البانی نے ادب المفرد کی تخریج میں صحیح کہا ہے/729،947)۔ ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (( لَمَّا قَدِمَ جَعْفَرٌ مِنْ هِجْرَةِ الْحَبَشَةِ، تَلَقَّاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَانَقَهُ، وَقَبَّلَ مَا بَيْنَ عَيْنَيْهِ)) ترجمہ : جب حضرت جعفر رضی اللہ عنہ حبشہ کی ہجرت سے لوٹے اور نبی کریم ﷺ سے ملاقات ہوئی آپ ﷺ نے انہیں چمٹا لیا (معانقہ کیا) اور ان کے دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔(ابوداود/5220،السلسلہ الصحیحہ/2657)۔ اس تعلق سے ایک روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہیکہ(( فَأَخَذَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِبْرَاهِيمَ، فَقَبَّلَهُ وَشَمَّهُ )) ترجمہ : اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے بیٹے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کو گود میں لےکر بوسہ دیا اور سونگھا۔(صحیح بخاری/1303) ایسے ہی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : (( أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رضي الله عنه لَمَّا تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صلَّى الله عليه وسلَّم كَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ، ثُمَّ أَكَبَّ عَلَيْهِ فَقَبَّلَهُ)) ترجمہ : جب اللہ کے رسولﷺ کی وفات ہوئی تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کے چہرے مبارک سے چادر ہٹایا اور جھک کر کے آپ کے چہرے مبارک کا بوسہ لیا۔(صحیح بخاری/1241)۔ سلف صالحین سے بھی سر اور ہاتھ کا بوسہ دینا ثابت ہےجیساکہ حضرت عبد الرحمن بن رزین فرما تے ہیں کہ ہم (ربذہ) نامی مقام سے گزر رہے تھے ،ہمیں خبر دی گئی کہ یہاں حضرت سلمہ بن اکواع رضی اللہ عنہ موجود ہیں،ہم ان کےپاس آئے اور سلام کیا،انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ باہر نکالے اور فرمایا کہ انہیں ہاتھوں سے میں نے اللہ کےرسول ﷺ کی بیعت کی ہے،انہوں نے اپنی ہتھیلی نکالی ان کی ہتھیلی بہت بھاری تھی ہم کھڑے ہوئے اور ان کی ہتھیلی کا بوسہ دیا۔(بخاری الادب المفرد/973 و حسنہ الالبانی)۔
دور حاضر کے کچھ معروف مشہور علما کرام کے آرا ء پیش کرتے ہیں جس سے مسئلہ مزید واضح ہو جائے گا،شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:"قابل احترام شخصیت کے ہاتھ عزت افزائی کرتے ہوئے چومنے میں کوئی حرج نہیں ، جیسے کہ والد، عمر رسیدہ بزرگ، اور استاد وغیرہ، ہاں اگر کسی نقصان کا اندیشہ ہوتو پھر جائز نہیں، مثال کے طور پرجس کہ آپ ہاتھ چوم رہے ہو وہ خود پسندی کا شکار ہوجائے، اور یہ سمجھنے لگے کہ وہ بلند مرتبے پر فائز ہے، تو اس خرابی کی وجہ سے ہم اسکو منع سمجھیں گے" ماخوذ از: "لقاء الباب المفتوح" (177/ 30) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق۔ ابن جبرین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: ہاتھ کو چومنے کا کیا حکم ہے؟ اور قابل قدر شخصیت کے ہاتھ چومنے کا کیا حکم ہے جیسے استاد وغیرہ؟ اسی طرح چچا، اور ماموں اور دیگر عمر رسیدہ افراد کے ہاتھ پر بوسہ لینے کا کیا حکم ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: "اگر احترام اور عزت افزائی کیلئے ہو تو ہم والدین، علماء، قابل قدر شخصیات ، اور رشتہ داروں میں سے عمر رسیدہ افراد کیلئے اسے جائز سمجھتے ہیں،ابن الاعرابی نے ہاتھ وغیرہ کا بوسہ لینے کے بارے میں ایک رسالہ بھی تحریر کیا ہے، اسکو بھی پڑھیں۔ عمر رسیدہ رشتہ داروں، اور قابل قدر شخصیات کے ہاتھوں پر بوسہ صرف احترام کیلئے ہوگا، انکے سامنے جھکنے کیلئے نہیں، اور نہ ہی انکی تعظیم کیلئے ۔
مذکورہ دلائل اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ ہاتھ اور سر کا بوسہ دینا جائز اور درست ہے ،اب اہم مسئلہ یہ ہےکہ کیا پاؤں کا بوسہ دینا جائز و درست ہے؟ پاؤں کے بوسہ دینے علماء کےدرمیان اختلاف ہے مگر راحج مسلک یہی ہے کہ احتراما پاؤں کا بھی بوسہ دے سکتے ہیں اس کے جواز کی دلیل مندرجہ ذیل ہے ۔
دلیل : ام ابان بنت وازع بن زارع اپنے دادا زارع - جو کہ وفد عبد القیس میں شامل تھا -سے بیان کرتی ہیں: جب ہم مدینہ آئے تو ہم اپنی سواریوں سے اتر کر جلدی جلدی نبی ﷺ کی طرف دوڑے اور آپکے ہاتھ و پاؤں پر بوسہ دیا۔(اسے ابو داود (5227) نے روایت کیا ہے، اور حافظ ابن حجر نے اسکی سند کو"فتح الباری" (11/57) میں جید کہا ہے، جبکہ البانی نے "صحيح أبو داود" میں حسن قرار دیا ہے، اور مزید وضاحت کی کہ "حسنٌ ، دون ذِكر الرِّجْلين" (دونوں قدموں کے علاوہ والا ٹکڑا حسن ہے)۔اس حدیث پر ابو دادو رحمہ اللہ نے عنوان قائم کیا: "باب ہے قدم پر بوسہ کے بارے میں"۔
اگر ہم قدموں کو بوسہ دینے کے بارے میں جواز کے قائل ہوتے ہیں تو اسکے قواعد وضوابط ہونے چاہئیں، جن میں کچھ درج ذیل ہیں جیساکہ شیخ محمد صالح منجد نے ذکر کیا ہے ۔
۱ (یہ صرف والدین اور اہل علم کیلئے ہونا چاہئے۔
۲ (قدموں کا بوسہ [انکے احترام کے ذریعے]اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے ہو، دنیاوی مقاصد یا اپنے آپ کو ذلیل کرنے کیلئے نہ ہو۔ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "کسی کے ہاتھ کو مالداری، دنیاداری، اور شان وشوکت کی وجہ سے چومنا بہت سخت مکروہ ہے، جبکہ متولی نے: "یہ جائز ہی نہیں" کہہ کر اسکے حرام ہونے کی طرف اشارہ کیاہے۔"المجموع شرح المهذب" (4/636( اور ایک جگہ کہا: "سر یا پاؤں کے بوسہ کا حکم ہاتھ کے بوسہ کی طرح ہے""المجموع شرح المهذب" (4/636 ، 637)
۳ (جو شخص خود سے یہ چاہتا ہوکہ اسکےاعضاء کو بوسہ دیا جائے، تو ایسے شخص کو بوسہ نہیں دینا چاہئے، بلکہ جو اپنے ہاتھ کے بارے میں یہ چاہے کہ لوگ بوسہ لیں، تو اسکے ہاتھ کو بوسہ نہیں دینا چاہئے، اور قدموں کو تو پھر بالاولی جائز نہیں ہوگا۔ چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "جو شخص لوگوں سے ہاتھ پر بوسے دلوانے کیلئے خود ہی اپنا ہاتھ لوگوں کی طرف ہاتھ بڑھائے ، تو بوسہ دینے سے بلا اختلاف روک دیا جائےگا، چاہے کوئی بھی ہو، لیکن اگر بوسہ لینے والا خود ہی بوسہ لیتا ہے، تو اسکا حکم کچھ اور ہے" "المستدرك على مجموع الفتاوى" (1/29) شیخ عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: "بعض لوگوں کی کچھ عادات قابل گرفت ہیں، کہ جب کوئی انہیں سلام کہتا ہے تو وہ اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھا دیتا ہے، جیسے کہ وہ زبان حال سے کہہ رہا ہو: "میرے ہاتھ کو بوسہ دو!"یہ قابل گرفت بات ہے، ایسی حالت میں کہا جائے گاکہ: بوسہ نہیں دینا" "شرح رياض الصالحين" (4/452)
۴ (کوئی ایسی وجوہات پائی جائیں جنکا تقاضا ہو کہ بوسہ دیا جائے، یا کبھی کبھار دیا جائے، ہر بار ملنے پر نہ دیا جائے۔ شیخ عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: "جو شخص آپکے ہاتھ، یا سر،یا پیشانی کو بوسہ تکریم و عزت افزائی کیلئے دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن یہ ہر ملاقات میں نہیں ہونا چاہئے؛ کیونکہ پہلے یہ گزر چکا ہے کہ رسول اللہ صلوسلم عل سے پوچھا گیا کہ : جب کوئی اپنے بھائی سے ملے تو کیا اسکے سامنے جھکے؟ تو آپ نے فرمایا: (نہیں) پھر پوچھا کہ کیا اسکا بوسہ لے اور گلے ملے؟ آپ نے فرمایا: (نہیں) پھر پوچھا : کہ کیا مصافحہ کرے؟ تو آپ نے فرمایا: (ہاں(لیکن اگر کسی سبب کی بنا پر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں جیسے مسافر ۔۔۔"ا نتہی"شرح رياض الصالحين" (4/452)
تحریر : عمران احمد ریاض الدین سلفی
داعی و مبلغ اسلامک دعوہ سنٹر طائف
رابطہ : 966506116251+
الجواب بعون اللہ الوھاب۔
الحمد للہ : سوال کی اہمیت کے پیش نظر جواب قدرسے مفصل لکھنے کی کوشش کی گئی ہے،اللہ رب العزت ہم سب کو علم کے ساتھ عمل کی توفیق دے۔آمین
اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے اور اللہ تعالی نے اس دین کو قیامت تک کے آنے والے تمام انسان اور جنوں کیلئے روشن شاہراہ اور دنیا وآخرت میں نجات کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اسلام نے جہاں عبادات پر جمے رہنے کی تاکید کی ہے وہیں اخلاقیات و معاملات پر بھی انسانوں کی رہنمائی کی ہے،اور عبادات کے بعد سب سے زیادہ اخلاقیات و آداب پر زور دیا ہے۔شریعت اسلامیہ نے آداب سکھلاتے ہوئے کم عمر اور چھوٹے بچوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے سے بڑوں کا احترام کریں ان کی توقیر کریں،اور ان سے زبان درازی نہ کریں،اور ایسے ہی بڑوں کو حکم دیا گیا کہ اپنے سے کم عمروں کے ساتھ رحمت و شفقت کا معاملہ کریں۔
بزرگوں کے ادب و احترام کی بیشمار صورتیں کتاب و سنت نے بیان کی ہیں ان ہی میں سے ایک صورت یہ ہیکہ انسان ادبا و احتراما اپنے والدین ،بڑے بھائی، بہن،چچا،ماموں،عادل حکمراں ،عابد و زاہد علما کرام اوراساتذہ کے سر و پیشانی اور ہاتھ کا بوسہ دے سکتا ہے،جیساکہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ (( وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَآهَا [أي: ابنتَه فاطمة رضي الله عنها] قَدْ أَقْبَلَتْ رَحَّبَ بِهَا، ثُمَّ قَامَ إِلَيْهَا فَقَبَّلَهَا، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِهَا فَجَاءَ بِهَا حَتَّى يُجْلِسَهَا في مَكَانِهِ، وَكَانَت إِذَا أَتَاهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحَّبَتْ بِهِ، ثُمَّ قَامَتْ إِلَيْهِ فَقَبَّلَتْهُ، وَأَنَّهَا دَخَلَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ، فَرَحَّبَ وَقَبَّلَهَا )) ترجمہ :اللہ کے نبی ﷺ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کو آتے ہوئے دیکھتے تو کھڑے ہو کر ان کی طرف بڑھتے ان کا استقبال کرتے اور ان کا ہاتھ تھام لیتے اور ان کو بوسہ دیتے اور اپنی بیٹھنے کی جگہ پر ان کو بٹھاتے،اور رسول اللہ ﷺ جب ان کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ آپ کے پاس لپک کر پہنچتیں ،آپ ﷺکا ہاتھ تھام لیتیں،آپ کو بوسہ دیتیں ، اور اپنی جگہ پر بیٹھاتیں،اور آپ ﷺ کے مرض الموت میں آپ کے پاس آئیں تو آپ نے انکا استقبال کیا اور بوسہ دیا(بخاری الادب المفرد/947، ابوداود/5217، ترمذی/3827،علامہ البانی نے ادب المفرد کی تخریج میں صحیح کہا ہے/729،947)۔ ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (( لَمَّا قَدِمَ جَعْفَرٌ مِنْ هِجْرَةِ الْحَبَشَةِ، تَلَقَّاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَانَقَهُ، وَقَبَّلَ مَا بَيْنَ عَيْنَيْهِ)) ترجمہ : جب حضرت جعفر رضی اللہ عنہ حبشہ کی ہجرت سے لوٹے اور نبی کریم ﷺ سے ملاقات ہوئی آپ ﷺ نے انہیں چمٹا لیا (معانقہ کیا) اور ان کے دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔(ابوداود/5220،السلسلہ الصحیحہ/2657)۔ اس تعلق سے ایک روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہیکہ(( فَأَخَذَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِبْرَاهِيمَ، فَقَبَّلَهُ وَشَمَّهُ )) ترجمہ : اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے بیٹے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کو گود میں لےکر بوسہ دیا اور سونگھا۔(صحیح بخاری/1303) ایسے ہی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : (( أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رضي الله عنه لَمَّا تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صلَّى الله عليه وسلَّم كَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ، ثُمَّ أَكَبَّ عَلَيْهِ فَقَبَّلَهُ)) ترجمہ : جب اللہ کے رسولﷺ کی وفات ہوئی تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کے چہرے مبارک سے چادر ہٹایا اور جھک کر کے آپ کے چہرے مبارک کا بوسہ لیا۔(صحیح بخاری/1241)۔ سلف صالحین سے بھی سر اور ہاتھ کا بوسہ دینا ثابت ہےجیساکہ حضرت عبد الرحمن بن رزین فرما تے ہیں کہ ہم (ربذہ) نامی مقام سے گزر رہے تھے ،ہمیں خبر دی گئی کہ یہاں حضرت سلمہ بن اکواع رضی اللہ عنہ موجود ہیں،ہم ان کےپاس آئے اور سلام کیا،انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ باہر نکالے اور فرمایا کہ انہیں ہاتھوں سے میں نے اللہ کےرسول ﷺ کی بیعت کی ہے،انہوں نے اپنی ہتھیلی نکالی ان کی ہتھیلی بہت بھاری تھی ہم کھڑے ہوئے اور ان کی ہتھیلی کا بوسہ دیا۔(بخاری الادب المفرد/973 و حسنہ الالبانی)۔
دور حاضر کے کچھ معروف مشہور علما کرام کے آرا ء پیش کرتے ہیں جس سے مسئلہ مزید واضح ہو جائے گا،شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:"قابل احترام شخصیت کے ہاتھ عزت افزائی کرتے ہوئے چومنے میں کوئی حرج نہیں ، جیسے کہ والد، عمر رسیدہ بزرگ، اور استاد وغیرہ، ہاں اگر کسی نقصان کا اندیشہ ہوتو پھر جائز نہیں، مثال کے طور پرجس کہ آپ ہاتھ چوم رہے ہو وہ خود پسندی کا شکار ہوجائے، اور یہ سمجھنے لگے کہ وہ بلند مرتبے پر فائز ہے، تو اس خرابی کی وجہ سے ہم اسکو منع سمجھیں گے" ماخوذ از: "لقاء الباب المفتوح" (177/ 30) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق۔ ابن جبرین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: ہاتھ کو چومنے کا کیا حکم ہے؟ اور قابل قدر شخصیت کے ہاتھ چومنے کا کیا حکم ہے جیسے استاد وغیرہ؟ اسی طرح چچا، اور ماموں اور دیگر عمر رسیدہ افراد کے ہاتھ پر بوسہ لینے کا کیا حکم ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: "اگر احترام اور عزت افزائی کیلئے ہو تو ہم والدین، علماء، قابل قدر شخصیات ، اور رشتہ داروں میں سے عمر رسیدہ افراد کیلئے اسے جائز سمجھتے ہیں،ابن الاعرابی نے ہاتھ وغیرہ کا بوسہ لینے کے بارے میں ایک رسالہ بھی تحریر کیا ہے، اسکو بھی پڑھیں۔ عمر رسیدہ رشتہ داروں، اور قابل قدر شخصیات کے ہاتھوں پر بوسہ صرف احترام کیلئے ہوگا، انکے سامنے جھکنے کیلئے نہیں، اور نہ ہی انکی تعظیم کیلئے ۔
مذکورہ دلائل اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ ہاتھ اور سر کا بوسہ دینا جائز اور درست ہے ،اب اہم مسئلہ یہ ہےکہ کیا پاؤں کا بوسہ دینا جائز و درست ہے؟ پاؤں کے بوسہ دینے علماء کےدرمیان اختلاف ہے مگر راحج مسلک یہی ہے کہ احتراما پاؤں کا بھی بوسہ دے سکتے ہیں اس کے جواز کی دلیل مندرجہ ذیل ہے ۔
دلیل : ام ابان بنت وازع بن زارع اپنے دادا زارع - جو کہ وفد عبد القیس میں شامل تھا -سے بیان کرتی ہیں: جب ہم مدینہ آئے تو ہم اپنی سواریوں سے اتر کر جلدی جلدی نبی ﷺ کی طرف دوڑے اور آپکے ہاتھ و پاؤں پر بوسہ دیا۔(اسے ابو داود (5227) نے روایت کیا ہے، اور حافظ ابن حجر نے اسکی سند کو"فتح الباری" (11/57) میں جید کہا ہے، جبکہ البانی نے "صحيح أبو داود" میں حسن قرار دیا ہے، اور مزید وضاحت کی کہ "حسنٌ ، دون ذِكر الرِّجْلين" (دونوں قدموں کے علاوہ والا ٹکڑا حسن ہے)۔اس حدیث پر ابو دادو رحمہ اللہ نے عنوان قائم کیا: "باب ہے قدم پر بوسہ کے بارے میں"۔
اگر ہم قدموں کو بوسہ دینے کے بارے میں جواز کے قائل ہوتے ہیں تو اسکے قواعد وضوابط ہونے چاہئیں، جن میں کچھ درج ذیل ہیں جیساکہ شیخ محمد صالح منجد نے ذکر کیا ہے ۔
۱ (یہ صرف والدین اور اہل علم کیلئے ہونا چاہئے۔
۲ (قدموں کا بوسہ [انکے احترام کے ذریعے]اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے ہو، دنیاوی مقاصد یا اپنے آپ کو ذلیل کرنے کیلئے نہ ہو۔ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "کسی کے ہاتھ کو مالداری، دنیاداری، اور شان وشوکت کی وجہ سے چومنا بہت سخت مکروہ ہے، جبکہ متولی نے: "یہ جائز ہی نہیں" کہہ کر اسکے حرام ہونے کی طرف اشارہ کیاہے۔"المجموع شرح المهذب" (4/636( اور ایک جگہ کہا: "سر یا پاؤں کے بوسہ کا حکم ہاتھ کے بوسہ کی طرح ہے""المجموع شرح المهذب" (4/636 ، 637)
۳ (جو شخص خود سے یہ چاہتا ہوکہ اسکےاعضاء کو بوسہ دیا جائے، تو ایسے شخص کو بوسہ نہیں دینا چاہئے، بلکہ جو اپنے ہاتھ کے بارے میں یہ چاہے کہ لوگ بوسہ لیں، تو اسکے ہاتھ کو بوسہ نہیں دینا چاہئے، اور قدموں کو تو پھر بالاولی جائز نہیں ہوگا۔ چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "جو شخص لوگوں سے ہاتھ پر بوسے دلوانے کیلئے خود ہی اپنا ہاتھ لوگوں کی طرف ہاتھ بڑھائے ، تو بوسہ دینے سے بلا اختلاف روک دیا جائےگا، چاہے کوئی بھی ہو، لیکن اگر بوسہ لینے والا خود ہی بوسہ لیتا ہے، تو اسکا حکم کچھ اور ہے" "المستدرك على مجموع الفتاوى" (1/29) شیخ عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: "بعض لوگوں کی کچھ عادات قابل گرفت ہیں، کہ جب کوئی انہیں سلام کہتا ہے تو وہ اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھا دیتا ہے، جیسے کہ وہ زبان حال سے کہہ رہا ہو: "میرے ہاتھ کو بوسہ دو!"یہ قابل گرفت بات ہے، ایسی حالت میں کہا جائے گاکہ: بوسہ نہیں دینا" "شرح رياض الصالحين" (4/452)
۴ (کوئی ایسی وجوہات پائی جائیں جنکا تقاضا ہو کہ بوسہ دیا جائے، یا کبھی کبھار دیا جائے، ہر بار ملنے پر نہ دیا جائے۔ شیخ عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: "جو شخص آپکے ہاتھ، یا سر،یا پیشانی کو بوسہ تکریم و عزت افزائی کیلئے دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن یہ ہر ملاقات میں نہیں ہونا چاہئے؛ کیونکہ پہلے یہ گزر چکا ہے کہ رسول اللہ صلوسلم عل سے پوچھا گیا کہ : جب کوئی اپنے بھائی سے ملے تو کیا اسکے سامنے جھکے؟ تو آپ نے فرمایا: (نہیں) پھر پوچھا کہ کیا اسکا بوسہ لے اور گلے ملے؟ آپ نے فرمایا: (نہیں) پھر پوچھا : کہ کیا مصافحہ کرے؟ تو آپ نے فرمایا: (ہاں(لیکن اگر کسی سبب کی بنا پر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں جیسے مسافر ۔۔۔"ا نتہی"شرح رياض الصالحين" (4/452)
تحریر : عمران احمد ریاض الدین سلفی
داعی و مبلغ اسلامک دعوہ سنٹر طائف
رابطہ : 966506116251+