• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پیمرا کی نشریاتی اداروں کو کالعدم تنظیموں کی خبریں نشر نہ کرنے کی ہدایت

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
پیمرا کی نشریاتی اداروں کو کالعدم تنظیموں کی خبریں نشر نہ کرنے کی ہدایت
ویب ڈیسک، منگل 3 نومبر 2015

پیمرا نوٹی فکیشن کے مطابق کالعدم جماعتوں میں جماعت الدعوۃ، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن، لشكر طیبہ اور دیگر تنظیمیں شامل ہیں، فوٹو: فائل


اسلام آباد: پاكستان الیكٹرونك میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ( پیمرا) نے تمام ٹیلی ویژن چینلز اور ایف ایم ریڈیو کو کالعدم تنظیموں سے متعلق خبریں اور ان کے فنڈز اکٹھا کرنے کے اشتہارات نشر نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

پیمرا كی طرف سے جاری نوٹی فیكشن میں 28 اكتوبر كو وفاقی حكومت كی جانب سے 72 كالعدم تنظمیوں کی فہرست کا حوالہ دیا گیا ہے جن کی خبریں نشر کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے جب کہ ان جماعتوں میں جماعت الدعوۃ، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن، لشكر طیبہ اور دیگر تنظمیں شامل ہیں جن پر اقوام متحدہ كی سلامتی كونسل كی طرف سے پابندی عائد كی گئی ہے۔

الیكٹرانك میڈیا كے ضابطہ اخلاق 2015 میں بھی اس بات كا پابند بنایا گیا ہے كہ وہ لائسنس حاصل كرنے كے بعد اس بات كو یقنیی بنائیں گے كہ وہ مروجہ ضابطہ اخلاق كی خلاف ورزی نہیں كر سكیں گے۔
ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
صرف تشہیر پر پابندی یا کارروائیوں پر بھی؟
ہارون رشید بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
5 گھنٹے پہلے
کالعدم تنظیموں کا اپنا ایک متوازی میڈیا ہے جہاں سے وہ جہاد کی ترویج کرتے ہیں
حکومت پاکستان نے بظاہر بین الاقوامی دباؤ کے تحت بعض بھارت مخالف تنظیموں اور ان کے فلاحی اداروں کی قومی میڈیا میں کوریج پر پابندی عائد کر دی ہے۔ لیکن بعض ماہرین کے خیال میں ان تنظیموں کا اپنا متوازی میڈیا اتنا وسیع ہے کہ انھیں کسی قومی میڈیا کی ضرورت ہی نہیں۔


پاکستان میں شدت پسند تنظیموں کا میڈیا افغانستان میں سویت یونین کی مداخلت کے دوران پنپتا رہا۔ افغان ’مجاہدین‘ اور دیگر تنظیمیں اپنے اخبارات، رسائل، ویب سائٹوں، پمفلٹوں اور سی ڈیز کے ذریعے اپنے موقف اور سوچ کا پرچار کرتی رہی ہیں۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کی ایک تحقیق کے مطابق ان تنظیموں کو نہ نجی شعبے میں قائم الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اعتبار تھا اور نہ ہی سرکاری میڈیا پر۔ اسی وجہ سے یہ تنظیمیں اپنا متوازی میڈیا تشکیل دینے کے لیے ایک عرصے سے سرگرم ہیں۔

الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی پیمرا کے اعلان کے مطابق تمام ٹی وی چینل اور ریڈیو سٹیشن پابند ہیں کہ وہ کالعدم تنظیم لشکرِ طیبہ، جماعت الدعوۃ اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن سمیت 72 کالعدم تنظیموں کی کوریج نہ کریں۔

ان تنظیموں کی فنڈنگ کے لیے میڈیا پر کسی بھی قسم کے اشتہارات چلانے کو بھی ممنوع قرار دیا ہے۔ لیکن پیمرا کا اعلان اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ جماعت الدعوۃ دراصل کالعدم لشکر طیبہ کا نیا نام ہے۔
جہادی تنظیمیں اپنی کارروائیوں کی کوریج کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتی رہی ہیں
کالعدم تنظیم لشکر طیبہ تو کافی عرصے سے میڈیا سے اس حد تک غائب ہے کہ اس کی جانب سے کبھی کسی کارروائی کی ذمہ داری یا بیان سامنے نہیں آتا، لیکن جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت خاصی متحرک تنظیمیں رہی ہیں۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کی جانب سے 2013 میں شائع ہونے والی کتاب ’ملیٹنس میڈیا ان پاکستان‘ کے مطابق جماعت الدعوۃ سات رسائل نکالتی ہے جن میں انگریزی ماہانہ ’وائس آف اسلام،‘ عربی زبان میں ’الانفعال،‘ اور اردو میں ’مجلہ الدعوۃ‘ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ عورتوں کے لیے ’طیبات‘ اور بچوں کے لیے ’روزتل،‘ ’الاطفال،‘ نوجوانوں اور طلبہ کے لیے ’ضرب طیبہ‘ اور سندھی زبان میں ’باب السلام‘ بھی ہیں۔

ان رسائل کی قیمتیں قومی اخبارات اور رسائل کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں۔ ان تمام تصانیف کی اداراتی پالیسی میں جہاد کی ترویج غالب ہے۔

اسی طرز پر تقریباً ہر تنظیم کی اپنی اشاعات جاری ہیں۔ الامین ٹرسٹ جو پہلے الرشید ٹرسٹ کے نام سے سرگرم تھا، وہ بھی 1996 سے ہفتہ وار ’ضرب مومن‘ شائع کرتا چلا آ رہا ہے۔

لیکن شدت پسندی پر کڑی نگاہ رکھنے والے محقق عامر رانا کا کہنا ہے کہ ان تنظیموں کو پھر بھی قومی میڈیا کی ضرورت پڑتی ہے۔ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا متبادل میڈیا کافی مضبوط اور وسیع ہو چکا ہے لیکن ان تنظیموں خصوصاً جماعت الدعوۃ کے امیر اور دیگر عہدیدار وقتاً فوقتاً ٹی وی پر دکھائی دیتے رہے ہیں۔ میڈیا پرنٹ اور الیکٹرانک دونوں ہو سکتے ہیں۔ انھیں اپنی حمایت بڑھانے کے لیے قومی میڈیا کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ انھیں جب اپنی پالیسی بیان یا وضاحت کرنا پڑتی ہے تو اپنے سے زیادہ قومی میڈیا ان کی ضرورت بن جاتا ہے۔‘

دیکھنے کے بات یہ ہے کہ پاکستانی الیٹرانک میڈیا پیمرا کے حکم پر کیسے عمل درآمد کرتا ہے۔ پاکستان میں اکثر ٹی وی چینلوں پر ہدایات کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں بعض اوقات انھیں سزا ملتی ہے اور کبھی نہیں بھی۔

لیکن عامر رانا کا کہنا ہے کہ ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ کشیدگی اور الٹرا نیشنلزم میں اضافہ ہے تو اس تناظر میں بعض حلقے سوچتے ہیں کہ پاکستان کو بھی اس کا جواب دینا چاہیے۔ ’فی الحال جو تنظیم ایسا کر سکتی ہے وہ جماعت الدعوۃ جیسی تنظیمیں ہی ہیں۔‘

اس تازہ حکومتی فیصلے کے بعد اس کی وضاحت ہو جانی چاہیے تھی کون سی تنظیمیں کالعدم ہیں یا نہیں۔ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ ابہام ابھی بھی موجود ہے۔ ان تنظیموں کی تشہیر پر تو پابندی ہوگی لیکن سرگرمیوں پر نہیں۔

عامر رانا تسلیم کرتے ہیں کہ پیمرا کے اعلان کے فوراً بعد وزیر داخلہ کی اس وضاحت سے ابہام میں اضافہ ہوا ہے کہ ان کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہ صورت حال پالیسی کی سطح پر ابہام ہی کو سامنے لاتی ہے۔

ح
 
Top