کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
پی ایچ ڈی کی ڈگریاں: صورت احوال واقعی
''نئی بات'' کے معتبر کالم نگار جناب فرخ سہیل گویندی کے کالم (۴؍ فروری) پر برادرم ڈاکٹر انور سدید کا مراسلہ نظر سے گزرا۔ راقم گذشتہ 30, 35 سال سے پی ایچ ڈی ریسرچ سے وابستہ رہا ہے، اس لیے اس موضوع پر دو ایک باتیں عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہے۔ نقارخانے تک طوطی کی آواز پہنچانے میں مدد کیجیے۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن (سابق صدر نشین ہائر ایجوکیشن کمیشن) نے چند روز قبل اپنے کالم (جنگ، 24 ؍ جنوری 2014ء) میں لکھا ہے: ''پاکستان کو اصل خطرہ تو اپنے ہی ملک کے بدعنوان سیاست دانوں سے ہے جو ملک کو بری طرح تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ہمارا معیار تو اس قدر گر گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وفاقی وزیر برائے تعلیم وقاص اکرم بھی جعلی ڈگریوں کے حامل پائے گئے''۔۔۔
تو جناب، بنیادی بات یہ ہے کہ جب ملک کا مجموعی سیاسی نظام زوال اور پستی کا شکار ہو گا تو صرف تعلیم میں بہتری اور معیار کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ پھر جہاں بعض وزراء اور بہت سے ممبران اسمبلی جعلی ڈگریوں والے (یعنی جھوٹے اور کذّاب) ہوں گے، وہاں تعلیم کا معیار پست ترین سطح پر کیوں نہیں ہو گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ گزشتہ دس پندرہ برسوں میں ہمارے ہاں جامعات کی کثرت ہو گئی ہے، اور جگہ جگہ کثیر تعداد میں اُن کے کیمپس کھل گئے ہیں مثلاً جامعہ اگر کراچی میں ہے تو اس کا ایک ایک کیمپس لاہور، اسلام آباد، ملتان یعنی ہر بڑے شہر میں بھی ہو گا اور ہر کیمپس میں پی ایچ ڈی کی ایک ایک فیکٹری چالو ہو گی، مسلّمہ اصول ہے کہ جہاں کثرت ہو گی، وہاں معیار گر جائے گا۔
بلاشبہ محترم ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب نے نیک نیتی سے اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے بڑے درد مندانہ پاکستانی جذبے سے پی ایچ ڈی کی تعداد بڑھانے کی کوشش کی تھی۔ تعداد تو بڑھ گئی مگر سسش ، معیار گم ہو گیا۔ معیار کی اس گمشدگی میں میری ناقص راے میں ہماری جامعات اور جامعات کے استاد (مقالات کے نگران اور سپروائزر) اور جامعات کی مجالس اور کمیٹیاں (جو مقالات کی منظوری دیتی ہیں) اور ممتحن اساتذہ بھی برابر کے شریک ہیں۔
جب تک جامعات میں پی ایچ ڈی ریگولر پروگرام شروع نہیں ہوئے تھے (2000ء سے پہلے) نگران اساتذہ کسی زائد الاؤنس یا معاوضے کے بغیر رہنمائی کا فرض انجام دیتے تھے اور یہ رہنمائی اساتذہ کے فرائض منصبی میں شامل تھی، پھر جب ایم فل اور پی ایچ ڈی ریگولر پروگرام کا آغاز ہوا تو ایچ ای سی کی ہدایت کے مطابق ہر پی ایچ ڈی مکمل کرانے پر نگران استاد کو ایک لاکھ روپے ملنے لگا اور ایم فل مکمل کرانے پر تیس ہزار روپے جو اَب بھی نگران اساتذہ کو مل رہے ہیں۔ قدرتی طور پر اساتذہ کی خواہش ہوتی ہے کہ انھیں زیادہ سے زیادہ مقالہ نویسوں کا نگران بنایا جائے (اور کہیں کہیں آپس میں کھینچا تانی بھی ہوتی ہے)۔ غور فرمایئے جب ایک استاد بیک وقت دس، بیس مقالوں کی نگرانی کر رہا ہو گا تو مقالات کا معیار کیسے برقرار رہے گا؟
راقم کو اچھی طرح یاد ہے کہ چند برس قبل شعبۂ اقبالیات (علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد) سے وابستہ ایک بزرگ استاد ایک وقت میں تقریباً پچاس ایم فل مقالات کی نگرانی فرما رہے تھے (کچھ پی ایچ ڈی کے بھی ہوں گے)۔
محترم انور سدید صاحب نے لکھا ہے کہ اب مقالے معاوضے پر لکھوا کر ڈگریاں لی جاتی ہیں، اس سلسلے میں عرض ہے کہ ضابطے کی رو سے پی ایچ ڈی کے مقالے یونیورسٹی لائبریری میں محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ مجھے ایک کتاب دار نے بتایا کہ تقریباً دس فیصد مقالے لائبریری سے غائب ہیں یعنی دس فیصد لائبریری میں پہنچے ہی نہیں، اگر پہنچے تو کسی طرح نکلوا کر معدوم کر دیے گئے۔ راقم کا تعلق شعبۂ اردو سے ہے، میرے علم میں ہے (اور یہ بات بہت سے لوگ جانتے ہیں) کہ اردو کے بعض پروفیسر ڈاکٹر صاحبان، جو اونچے تدریسی اور انتظامی عہدوں پر فائز رہے، ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالوں کا وجود کہیں نہیں ہے۔ ان معدوم مقالوں کی بنیاد پر انھوں نے ڈگریاں لیں اور سالہا سال تک پی ایچ ڈی الاؤنس وصول کرتے رہے اور ترقی پاتے رہے۔
محترم انور سدید صاحب نے تجویز کیا ہے کہ پی ایچ ڈی اساتذہ کو جو پانچ یا دس ہزار روپے ماہانہ وظیفہ ملتا ہے، اسے ختم کر دیا جائے تاکہ روپے کے لالچ میں تحقیق کرنے والے باز آ جائیں۔ عرض ہے کہ جب تک روپے کی ہوس ختم نہیں ہو گی اور مغرب نے ہمیں نام نہاد ''معیار زندگی'' اونچا کرنے کا جو ٹاسک دیا ہے، اسے ترک کر کے ہم ''معیار اخلاق'' بلند کرنے کی فکر نہیں کریں گے، ہمارا مجموعی تعلیمی معیار نیچا اور پست ہی رہے گا۔
آخر میں یہ عرض کروں کہ برادرم انور سدید صاحب نے چند نامور اساتذہ کے معیاری مقالوں کا ذکر کیا ہے۔ راقم کا خیال ہے کہ خود انور سدید صاحب کا تحقیقی مقالہ ''اردو ادب کی تحریکیں'' بھی ایک معیاری اور نمونے کا مقالہ ہے۔
ح