• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پی ایچ ڈی کی ڈگریاں: صورت احوال واقعی

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
پی ایچ ڈی کی ڈگریاں: صورت احوال واقعی

''نئی بات'' کے معتبر کالم نگار جناب فرخ سہیل گویندی کے کالم (۴؍ فروری) پر برادرم ڈاکٹر انور سدید کا مراسلہ نظر سے گزرا۔ راقم گذشتہ 30, 35 سال سے پی ایچ ڈی ریسرچ سے وابستہ رہا ہے، اس لیے اس موضوع پر دو ایک باتیں عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہے۔ نقارخانے تک طوطی کی آواز پہنچانے میں مدد کیجیے۔

ڈاکٹر عطاء الرحمن (سابق صدر نشین ہائر ایجوکیشن کمیشن) نے چند روز قبل اپنے کالم (جنگ، 24 ؍ جنوری 2014ء) میں لکھا ہے: ''پاکستان کو اصل خطرہ تو اپنے ہی ملک کے بدعنوان سیاست دانوں سے ہے جو ملک کو بری طرح تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ہمارا معیار تو اس قدر گر گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وفاقی وزیر برائے تعلیم وقاص اکرم بھی جعلی ڈگریوں کے حامل پائے گئے''۔۔۔

تو جناب، بنیادی بات یہ ہے کہ جب ملک کا مجموعی سیاسی نظام زوال اور پستی کا شکار ہو گا تو صرف تعلیم میں بہتری اور معیار کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ پھر جہاں بعض وزراء اور بہت سے ممبران اسمبلی جعلی ڈگریوں والے (یعنی جھوٹے اور کذّاب) ہوں گے، وہاں تعلیم کا معیار پست ترین سطح پر کیوں نہیں ہو گا۔

دوسری بات یہ ہے کہ گزشتہ دس پندرہ برسوں میں ہمارے ہاں جامعات کی کثرت ہو گئی ہے، اور جگہ جگہ کثیر تعداد میں اُن کے کیمپس کھل گئے ہیں مثلاً جامعہ اگر کراچی میں ہے تو اس کا ایک ایک کیمپس لاہور، اسلام آباد، ملتان یعنی ہر بڑے شہر میں بھی ہو گا اور ہر کیمپس میں پی ایچ ڈی کی ایک ایک فیکٹری چالو ہو گی، مسلّمہ اصول ہے کہ جہاں کثرت ہو گی، وہاں معیار گر جائے گا۔

بلاشبہ محترم ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب نے نیک نیتی سے اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے بڑے درد مندانہ پاکستانی جذبے سے پی ایچ ڈی کی تعداد بڑھانے کی کوشش کی تھی۔ تعداد تو بڑھ گئی مگر سسش ، معیار گم ہو گیا۔ معیار کی اس گمشدگی میں میری ناقص راے میں ہماری جامعات اور جامعات کے استاد (مقالات کے نگران اور سپروائزر) اور جامعات کی مجالس اور کمیٹیاں (جو مقالات کی منظوری دیتی ہیں) اور ممتحن اساتذہ بھی برابر کے شریک ہیں۔

جب تک جامعات میں پی ایچ ڈی ریگولر پروگرام شروع نہیں ہوئے تھے (2000ء سے پہلے) نگران اساتذہ کسی زائد الاؤنس یا معاوضے کے بغیر رہنمائی کا فرض انجام دیتے تھے اور یہ رہنمائی اساتذہ کے فرائض منصبی میں شامل تھی، پھر جب ایم فل اور پی ایچ ڈی ریگولر پروگرام کا آغاز ہوا تو ایچ ای سی کی ہدایت کے مطابق ہر پی ایچ ڈی مکمل کرانے پر نگران استاد کو ایک لاکھ روپے ملنے لگا اور ایم فل مکمل کرانے پر تیس ہزار روپے جو اَب بھی نگران اساتذہ کو مل رہے ہیں۔ قدرتی طور پر اساتذہ کی خواہش ہوتی ہے کہ انھیں زیادہ سے زیادہ مقالہ نویسوں کا نگران بنایا جائے (اور کہیں کہیں آپس میں کھینچا تانی بھی ہوتی ہے)۔ غور فرمایئے جب ایک استاد بیک وقت دس، بیس مقالوں کی نگرانی کر رہا ہو گا تو مقالات کا معیار کیسے برقرار رہے گا؟

راقم کو اچھی طرح یاد ہے کہ چند برس قبل شعبۂ اقبالیات (علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد) سے وابستہ ایک بزرگ استاد ایک وقت میں تقریباً پچاس ایم فل مقالات کی نگرانی فرما رہے تھے (کچھ پی ایچ ڈی کے بھی ہوں گے)۔

محترم انور سدید صاحب نے لکھا ہے کہ اب مقالے معاوضے پر لکھوا کر ڈگریاں لی جاتی ہیں، اس سلسلے میں عرض ہے کہ ضابطے کی رو سے پی ایچ ڈی کے مقالے یونیورسٹی لائبریری میں محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ مجھے ایک کتاب دار نے بتایا کہ تقریباً دس فیصد مقالے لائبریری سے غائب ہیں یعنی دس فیصد لائبریری میں پہنچے ہی نہیں، اگر پہنچے تو کسی طرح نکلوا کر معدوم کر دیے گئے۔ راقم کا تعلق شعبۂ اردو سے ہے، میرے علم میں ہے (اور یہ بات بہت سے لوگ جانتے ہیں) کہ اردو کے بعض پروفیسر ڈاکٹر صاحبان، جو اونچے تدریسی اور انتظامی عہدوں پر فائز رہے، ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالوں کا وجود کہیں نہیں ہے۔ ان معدوم مقالوں کی بنیاد پر انھوں نے ڈگریاں لیں اور سالہا سال تک پی ایچ ڈی الاؤنس وصول کرتے رہے اور ترقی پاتے رہے۔

محترم انور سدید صاحب نے تجویز کیا ہے کہ پی ایچ ڈی اساتذہ کو جو پانچ یا دس ہزار روپے ماہانہ وظیفہ ملتا ہے، اسے ختم کر دیا جائے تاکہ روپے کے لالچ میں تحقیق کرنے والے باز آ جائیں۔ عرض ہے کہ جب تک روپے کی ہوس ختم نہیں ہو گی اور مغرب نے ہمیں نام نہاد ''معیار زندگی'' اونچا کرنے کا جو ٹاسک دیا ہے، اسے ترک کر کے ہم ''معیار اخلاق'' بلند کرنے کی فکر نہیں کریں گے، ہمارا مجموعی تعلیمی معیار نیچا اور پست ہی رہے گا۔

آخر میں یہ عرض کروں کہ برادرم انور سدید صاحب نے چند نامور اساتذہ کے معیاری مقالوں کا ذکر کیا ہے۔ راقم کا خیال ہے کہ خود انور سدید صاحب کا تحقیقی مقالہ ''اردو ادب کی تحریکیں'' بھی ایک معیاری اور نمونے کا مقالہ ہے۔

ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
یہاں ایک تیر نظر آ رہا ھے اس پر کلک کرنے سے آپ اصل مراسلہ میں پہنچ جائیں گے۔
پی ایچ ڈی کی ڈگری بالخصوص آرٹس کے مضامین میں، حاصل کرنا ایک ”فن“ ہے۔ اس کا علم و فضل سے کوئی علاقہ نہیں۔ اگر آپ کے تعلقات کسی بھی ایسے استاد سے اچھے ہوں جو کسی جامعہ میں پی ایچ ڈی کرواتے ہوں تو آپ ان سے چند ٹپس لے کر بآسانی پی ایچ ڈی ڈاکٹر بن سکتے ہیں۔ ویسے آجکل تو ڈاک سے بھی پی ایچ ڈی کی ڈگری مل جایا کرتی ہے۔ میرے ایک واقف کار امریکہ میں ٹیکسی چلاتے ہیں اور پی ایچ ڈی ہیں۔ ایک دفعہ میں نے مذاقاً کہ دیا کہ مجھے بھی پی ایچ ڈی کا بڑا شوق ہے۔ کہنے لگے کوئی مسئلہ نہیں۔ تھوڑے سے پیسے بلکہ ڈالر لگیں گے، آپ کو پی ایچ ڈی کی سند دلوادوں گا۔

آج سے کوئی دو ڈھائی عشرہ قبل میں ایک ہفت روزہ سے منسلک تھا اور کالم نویسی کے علاوہ بھی جملہ صحافتی امور نمٹایا کرتا تھا۔ ایک دن مدیر اعلیٰ صاحب نے مجھے ایک کتاب دی کہ اس پر کچھ لکھو۔ یہ میرے بھارتی بھتیجے کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔ یہ مقالہ اردو کے ممتاز ادیب راجندر سنگھ بیدی کے فن اور شخصیت پر لکھا گیا تھا۔ کتاب پڑھنے کے بعد میں نے اپنے آپ سے کہا کہ اگر کوئی جامعہ مجھے بی اس طرح کے مقالہ لکھنے پر پی ایچ ڈی کی سند دینے کی حامی بھرے تو میں ایسے ایسے کئی مقالے لکھ سکتا ہوں۔ فکر معاش کے لئے در بدر پھرنے کے سبب پھر موقع ہی نہیں ملا ورنہ ہم بھی آج ڈاکٹر کہلواتے (مسکراہٹ)
========

سرقہ کا الزام، جرمن وزیر تعلیم مستعفی

جرمن وزیر تعلیم انیٹ شیوین نے اپنے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے مقالے میں سرقہ کرنے کے الزامات کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔

انیٹ نے استعفیٰ ڈوسلڈرف کی ہینریخ ہائنی یونیورسٹی کی جانب سے ان کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری منسوخ کیے جانے کے فیصلے کے بعد دیا جس نے ان کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری سرقے کی وجہ سے منسوخ کر دی تھی۔

انیٹ کو چانسلر آنگیلا میرکل کی قریبی ساتھی مانا جاتا ہے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ یونیورسٹی کے اس فیصلے پر قانونی چارہ جوئی کریں گی۔

دو ہزار گیارہ میں جرمن وزیر دفاع کارل تھیوڈور زو گوٹب برگ نے بھی اپنے مقالے سے متعلق سرقہ بازی کے الزامات کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

انیٹ کی جگہ پر جوہانا وانکا کو نئی جرمن وزیر تعلیم مقرر کیا گیا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ وزیر تعلیم کی ذمہ داریوں میں سے جرمن یونیورسٹیوں کی نگرانی بھی ایک ہے۔

انیٹ نے اپنے استعفے میں چانسلر آنگیلا میرکل کی دوستی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر اپنی پارلیمان کی رکنیت پر توجہ مرکوز کریں گی۔

انہوں نے کہا کہ ’میں یونیورسٹی کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتی اور اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کروں گی۔ میں نے کبھی سرقہ نہیں کیا اور اس الزام نے مجھے بہت تکلیف پہنچائی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ان کی بنیادی ذمہ داری اپنی وزارت اور حکومت کو بچانا تھا جس کا احساس کرتے ہوئے انہوں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’جب ایک وزیر تعلیم ایک یونیورسٹی پر مقدمہ کرتا ہے تو اس سے اس کے عہدے، دفتر اور جماعت پر دباؤ پڑے گا جس سے میں بچنا چاہتی ہوں۔‘

یونیورسٹی آف ڈوسلڈرف نے انیٹ کی انیس سو اسی کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے مقالے پر نظر ثانی کا فیصلہ تب کیا جب ایک گمنام بلاگر نے اس پر سوالات اٹھائے۔

یونیورسٹی کے متعلقہ شعبے کو تحقیق سے معلوم ہوا کہ انیٹ نے ’باقاعدہ اور جانتے بوجھتے‘ اپنے مقالے کے بعض حصے سرقہ کیے تھے۔

یاد رہے کہ انیٹ نے سابق وزیر دفاع گوٹن برگ پر شدید تنقید کی تھی جب ان پر سرقہ بازی کے الزامات لگائے گئے تھے۔

مبصرین انیٹ کے استعفے کو چانسلر میرکل کے لیے بہت زیادہ شرمندگی کا باعث قرار دے رہے ہیں۔

ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
سابقہ جرمن وزیر خارجہ شٹائن مائر پر سرقے کا الزام

سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیئر جرمن سیاستدان فرانک والٹر شٹائن مائر پر ڈاکٹریٹ کے مقالے میں سرقے کا الزام لگایا گیا ہے۔ اشٹائن مائر نے اس کی تردید کی ہے۔

جرمنی کے ایک اور اہم سیاستدان فرانک والٹر اشٹائن مائر پر پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول کے لیے لکھے گئے مقالے میں سرقہ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران چانسلر انگیلا میرکل کے دو وزراء کو اسی قسم کے الزام کے بعد وزارت کے ساتھ ساتھ سیاست سے بھی کنارہ کشی کرتے دیکھا گیا۔ شٹائن مائر پر سرقے کے الزامات ہفت روزہ فوکس میں شائع کیے گئے ہیں۔

اس الزام کی فوری طور پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی لیڈران میں سے ایک فرانک والٹر اشٹائن مائر نے تردید کرتے ہوئے اسے لغو قرار دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنی سابقہ یونیورسٹی کے ذریعے پی ایچ ڈے کے مقالے پر نظرثانی کے لیے تیار ہیں۔ وسطی ہیسے میں واقع گیسن یونیورسٹی نے کہا ہے کہ ایک دوسری یونیورسٹی کے پروفیسر کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے تناظر میں شٹائن مائر کے مقالے کا ایک مرتبہ پھر جائزہ لیا جائے گا۔ اس مناسبت سے آج گیسن یونیورسٹی کی انتظامیہ کوئی فیصلہ کرے گی۔ جرمن یونیورسٹیوں میں ایک خصوصی کمپیوٹر پروگرام کے ذریعے پی ایچ ڈی کے مقالوں کی جانچ پڑتال ممکن ہے اور یہ بغیر ریفرنس کے دیے گئے کسی اور کےجملوں کی نشاندہی کر دیتا ہے۔

پروفیسر کامینس کا کہنا ہے کہ انہوں نے شٹائن مائر کے مقالے میں کم از کم پانچ سو مقامات کو تلاش کیا ہے جو مشتبہ ہیں

ہفت روز فوکس نے اشٹائن مائر کے مقالے کے حوالے سے ایک پروفیسر اُوے کامینس کا ایک بیان شائع کیا ہے۔ اس بیان میں پروفیسر کامینس کا کہنا ہے کہ انہوں نے شٹائن مائر کے مقالے میں کم از کم پانچ سو مقامات کو تلاش کیا ہے جو مشتبہ ہیں۔ اشٹائن مائر نے سن 1991 میں قانون کے شعبے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ پروفیسر کامینس نے ان مقامات کی نشاندہی سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان کے مقالے کے تقابلی جائزے کے دوران کی۔

چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کے ساتھ حکومت سازی کے مذاکرات کے لیے منتخب کی گئی چھ رکنی ٹیم میں شٹائن مائر بھی شامل ہیں۔ سن 2005 میں میرکل کے پہلے دور حکومت کے آغاز پر ایس پی ڈی اور سی ڈی یو کے درمیان قائم ہونے والی گرینڈ مخلوط حکومت کے دوران وہ وزیر خارجہ تھے۔ ان دنوں وہ ایس پی ڈی کے پارلیمانی گروپ کی قیادت بھی کر رہے ہیں۔

رواں برس فروری میں انگیلا میرکل کی وزیر تعلیم آنیٹے شاوان نے سرقے کے الزام پر وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ڈسلڈورف یونیورسٹی نے آینٹے شاوان کے تھیسس کو منسوخ کر دیا تھا۔ تقریباً دو سال قبل میرکل کے وزیر دفاع کارل تھیوڈور سو گٹن برگ نے بھی پی ایچ ڈی کے مقالے میں سرقے کے الزام کے تناظر میں وزارت دفاع کے منصب سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے کو بھی متعلقہ یونیورسٹی نے منسوخ کر دیا تھا۔

ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
جرمنی کے وزیرِ دفاع کا استعفیٰ

جرمنی کے وزیرِ دفاع کارل تھیوڈور ژو گٹنبرگ نے اس انکشاف کے بعد کے ان کے ڈاکٹریٹ کے تھیسیس کا ایک بڑا حصہ نکل کیا ہوا ہے، اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے تک یہ کہا جا رہا تھا کہ کارل گٹنبرگ اگلے چانسلر بنیں گے۔ ان کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری ان سے پہلے ہی واپس لے لی گئی ہے۔

انہوں نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ وہ تمام سیاسی عہدوں سے استعفیٰ دے رہے ہیں۔

بیس ہزار سے زائد جرمن اساتذہ نے سوموار کو چانسلر انجیلا مرکل کو لکھا تھا کہ گٹنبرگ کیوں ابھی تک اپنے عہدے پر قائم ہیں۔

تاہم چانسلر نے ان کی حمایت جاری رکھی اگرچہ اس ماہ کے آخر میں ان کی پارٹی کو تین ریاستی انتخابات کا سامنا ہے۔

گٹنبرگ نے کہا کہ ’میں چانسلر کی حمایت کی وجہ سے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں لیکن میں اپنی قوتِ برداشت کی آخری حد تک پہنچ چکا ہوں۔‘

انتالیس سالہ گٹنبرگ ایک مالدار شخص ہیں اور ان کی اس حرکت کا اس وقت علم ہوا جب برمین یونیورسٹی کے ایک قانون کے ایک پروفیسر نے اپنے 2006 میں مکمل کیے جانے والے تھیسیس کا انٹرنیٹ کی مدد سے ازسرِ نو جائزہ لینا شروع کیا۔

اس کے بعد خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ ایک اخباری رپورٹ کو لفظ بہ لفظ نکل کیا گیا ہے اور اس کے بعد یہ بھی معلوم ہوا کہ امریکی سفارتخانے کی ویب سائٹ سے بھی مواد بغیر اسے منسوب کیے استعمال کیا گیا ہے۔

آخرکار یونیورسٹی آف بیریوئتھ نے جس نے گٹنبرگ کو ڈگری جاری کی تھی یہ فیصلہ کیا کہ انہوں نے اپنے ’سائنسی فرائض کو بڑے حد تک نظر انداز کیا ہے۔‘

ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
نو منتخب ایرانی صدر کا پی ایچ ڈی مقالہ علمی سرقے کا نتیجہ ہے: ٹیلی گراف

لندن، امریکا میں مقیم دو افراد کی ڈگری دینے والی یونیورسٹی کو شکایت

برطانوی اخبار 'دی ٹیلی گراف' نے انکشاف کیا ہے کہ ایران کے نو منتخب صدر ڈاکٹر حسن روحانی کا پی ایچ ڈی مقالہ ان کے اپنے ہی ایک ہم وطن کی کتاب کے 'علمی سرقے' پر مشتمل ہے۔

لندن میں مقیم ایک لکھاری بہداد مرشدی کے حوالے سے اخبار کا کہنا ہے کہ 'ایرانی تجربہ اور شریعت کی آسانیاں' کے عنوان سے حسن روحانی کا پی ایچ ڈی مقالہ دراصل ان کے اپنے ہی ہم وطن محمد ہاشم کمالی کی ایک کتاب کے بعض حصوں کے 'عملی سرقے' پر مشتمل ہے۔ ہاشم کمالی بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ برائے ایڈوانس اسلامی اسٹڈیز کے سربراہ ہیں۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر حسن روحانی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری گلاسگو کیلنڈونین یونیورسٹی نے جاری کی ہے۔

مقالے اور علمی سرقے کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے شخصیت نے اپنا قلمی نام مرشدی استعمال کیا ہے۔ کمالی، ایران میں حکومتی حلقوں کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ علمی سرقے کے تنازع کا باعث بننے والی کتاب انہوں نے اپنے اصلی نام سے تحریر کی ہے۔ 'ہم پی ایچ ڈی کی ڈگری منسوخی کے لئے یونیورسٹی میں پٹیشن دائر کرنے والے ہیں،" مرشدی نے مزید کہا۔

ادھر یونیورسٹی کے ایک ترجمان نے تصدیق کی ہے انہیں ایسی ہی شکایت امریکا میں مقیم ایک شخص نے بھی کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی معاملے کی چھان بین کر رہی ہے۔

ٹیلی گراف کے مطابق حسن روحانی کے پانچ سو صفحات پر مشتمل مقالے میں دو پیراگراف محل نظر بتائے جاتے ہیں۔ بعض اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ روحانی نے اسکاٹ لینڈ کی ڈگریاں ان دنوں لی ہیں جب وہ ایران کی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے۔ اس عہدے پر وہ سن 1989 سے 2005 تک فائز رہے۔

ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521

وہ غیر مسلم ہیں، لیکن کتنے ایماندار۔۔۔۔! دواؤں میں وہ ملاوٹ نہیں کرتے، کھانے پینے کی اشیاء کے معیار کا خاص خیال رکھتے ہیں، جو چیزیں باسی ہو جائیں انھیں نئی پیکنگ اور نئی ایکسپائری ڈیٹ کے ساتھ دوبارہ مارکیٹ میں لاکر انسانی زندگیوں سے نہیں کھیلتے، وہ جانوروں کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے، کیونکہ وہ بھی اسی خدا کی مخلوق ہیں جس نے انسان کو پیدا کیا۔ وہ الیکشن میں دھاندلی نہیں کرتے، اور ہارنے والا جیتنے والے پر دھاندلی کا الزام نہیں لگاتا۔ کیونکہ وہ غیر مسلم ہیں، اسی لیے اپنی غلطیوں پر شرمسار بھی ہوتے ہیں اور معافی بھی مانگ لیتے ہیں، کیونکہ ان کی سوسائٹی کرپٹ اور جھوٹے لوگوں کی سوسائٹی نہیں ہے، جرمنی کی وزیر تعلیم انیتا شافان پر پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے چوری کے مقالے کا الزام لگایا گیا۔

ان الزامات کے بعد وہ فوراً اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئیں۔ جب کہ سرقہ کا الزام ابھی ثابت نہیں ہوا ہے اور وہ اس الزام کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کی قریبی دوست بھی ہیں۔ لیکن انھوں نے چانسلر سے دوستی کا کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ ہے نا حیرت کی بات؟ کیا ہم اس قسم کے مثبت رویے کا تصور بھی کر سکتے ہیں؟ اس کے باوجود ہمیں اگر فخر ہے تو صرف مسلمان ہونے پر۔ اسلام کے نام پر ہر قسم کی بے ایمانی ہمارا قومی مزاج ہے۔ زائد المیعاد دوائیں، کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر اشیاء دھڑلے سے فروخت کی جاتی ہیں اور اس پر ندامت کے بجائے یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ تاجر اپنا سرمایہ کیوں ڈبوئے؟ دواؤں کی بوتلوں اور بیرونی ڈبوں پر نئی تاریخ کا اسٹیکر عام طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے یہ دیدہ دلیری خوب پروان چڑھ رہی ہے، چلیے اور باتوں کو تو چھوڑیئے کہ الیکشن میں دھاندلی سے لے کر دیگر خرافات معاشرے کی جڑوں میں دیمک کی طرح بیٹھ گئی ہیں۔ ہم مجموعی طور پر اس حد تک بے حس ہوچکے ہیں کہ صرف اور صرف اپنے لیے سوچتے ہیں، میری گاڑی پہلے نکل جائے، میں قطار توڑ کر سب سے پہلے بل جمع کروا دوں وغیرہ وغیرہ۔ بس ایک عمومی رویہ یہ ہے کہ:
تمام شہر جلے‘ ایک میرا گھر نہ جلے۔

صرف جرمن وزیر تعلیم کے حوالے سے بھی اگر بات کی جائے تو پاکستان میں ’’ڈگری، ڈگری ہے، جعلی ہو یا اصلی‘‘۔ ایک وزیر کا یہ بیان اس کی ذہنی حالت کا بین ثبوت ہے۔ ایک طرف وہ غیر مسلم جرمن وزیر تعلیم جس نے الزام کی تردید سے پہلے استعفیٰ دے دیا اور دوسری طرف ہم مسلمان اور پاکستانی۔ جہاں ارکان اسمبلی میں سے بیشتر کی ڈگریاں جعلی ہیں۔ ہائرایجوکیشن نے جب چھان بین شروع کی تو ادارے کے ذمے دار افسران کو دھمکیاں ملنے لگیں اور یوں یہ معاملہ جو بلبلے کی طرح اٹھا تھا، یکدم سے بیٹھ گیا۔ کیونکہ جعلی ڈگری کے حامل اراکین کو بڑی سیاسی جماعتوں کی خوشنودی حاصل تھی۔ اگر ان کی ڈگری منسوخ ہو جاتی تو ساتھ ہی اسمبلی کی رکنیت بھی منسوخ ہو جاتی اور سیاسی پارٹیاں یتیم ہو جاتیں۔

کثیر تعداد میں جعلی ڈگریاں رکھنے سے سیاسی پارٹیوں کی ساکھ تو بری طرح متاثر ہوئی ہے، لیکن جب ان کے قائدین اور وہ خود ہٹ دھرمی کے ساتھ انگلیوں سے ’’V‘‘ یعنی وکٹری کا نشان بناتے ہوئے، بے شرمی سے ہنستے ہوئے، ڈھٹائی سے قہقہے لگاتے ہوئے، اپنی اپنی قیمتی گاڑیوں میں کھڑے اس سسٹم کا مذاق اڑا رہے تھے، جہاں انصاف کیا نہیں جاتا بلکہ خریدا جاتا ہے۔ تو سنجیدہ اور محب وطن لوگ سوچ رہے تھے کہ وہ کہاں رہ رہے ہیں، کیا یہ کوئی جنگل ہے، جہاں طاقت کی حکمرانی ہوتی ہے، کمزور جانوروں کو طاقت ور جانور ڈکار لیے بغیر ہضم کر جاتے ہیں، اور کوئی ان کو روک نہیں سکتا؟ چرچل نے صحیح کہا تھا کہ ’’انھیں آزادی نہ دو، یہ اس کے لائق نہیں ہیں‘‘ جس ملک میں جعلی ڈگریوں کا کام یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین کی ملی بھگت سے ہو رہا ہو، وہاں آیندہ کا منظرنامہ بخوبی سمجھ میں آجاتا ہے۔ جرمن وزیر اعظم صرف الزام لگنے پر مستعفی ہوجاتی ہے اور ہمارے اساتذہ سرقے کی ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں ماتھے پر سجائے بیٹھے ہیں جب کہ بیشتر اساتذہ کا نام باقاعدہ اخبارات میں آچکا ہے ، لیکن ان میں سے اکثر اپنے اپنے شعبے کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ بعض نے تو اپنے ہی شعبے کے ایک استاد کا مقالہ چوری کرکے ڈگری لے لی، اور پھر بعد میں دونوں میں معافی تلافی بھی ہو گئی، کیونکہ دونوں ایک ہی سیاسی جماعت کے سپوت ہیں۔

مزے کی بات یہ کہ دونوں کے نگراں بھی ایک ہی ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے؟ یا اندر کوئی اور بھی کہانی ہے؟ کالم میں اتنی گنجائش نہیں کہ ان ہولناک انکشافات کی تفصیل بتائی جائے۔ لیکن لوگ جانتے ہیں کہ سرقے کی ڈگریاں کس طرح لی جاتی ہیں۔ دراصل نگراں استاد کو اب اتنی فرصت نہیں کہ وہ ہر شاگرد کا کام بنظر غائر دیکھے۔ ان کے لیے فخر کا مقام صرف یہ ہے کہ ان کے زیرنگرانی کتنے لوگ پی ایچ ڈی کر رہے ہیں، اس عاشقی میں انھیں ’’عزت سادات‘‘ کے جانے کا بھی کوئی غم نہیں، کیونکہ عزت اور خاندانی نجابت اب ماضی کی باتیں ہیں۔ سرقہ کرنے والے استاد جب اپنے مخاطب طالب علموں کو ’’ایمانداری، پارسائی اور خاندانی نجابت‘‘ سے آگاہ کرتے ہیں تو سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ خود چوری کے مقالے سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے والے منبر پر کھڑے ہو کر ’’سچ کی تلقین‘‘ کرتے اچھے نہیں لگتے، لیکن یہ وہ ملک ہے جہاں مذہب اور سیاست میں سب کچھ جائز ہے۔ سرقے کے مقالے اپنے ماتھوں پر سجائے، انھیں مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی آشیرواد حاصل ہے۔

نگراں پروفیسر صاحبان اب نہ ’’ببلوگرافی‘‘ کی تحقیق کرتے ہیں نہ ہی لکھے گئے مقالے کے مندرجات کو پڑھتے ہیں، کیونکہ پڑھنے کی انھیں فرصت ہی نہیں، اس لیے ان معزز نگرانوں کو کچھ پتہ ہی نہیں چلتا کہ سرقہ کہاں سے کیا گیا ہے۔ وہ تو بس صفحات دیکھ کر ’’دستخط‘‘ کر دیتے ہیں کہ انھیں صرف اپنے معاوضے سے مطلب ہے۔ خود نگراں اساتذہ کا مطالعہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی لیے وہ چوری پکڑ نہیں سکتے، گزشتہ دس تا بارہ سال کے درمیان پی ایچ ڈی کرنے والے حضرات سے بات کر کے دیکھیے تو بیشتر کو تو اپنے موضوع سے بھی پوری واقفیت نہیں، کیونکہ اب یہ کام بھی ٹھیکے پر ہو رہا ہے۔ بعض تھوک فروشوں نے بڑی تعداد میں کچھ خوردہ فروشوں سے مختلف موضوعات پر کام کروا کے محفوظ کر لیا ہے۔ کسی بھی ڈاکٹریٹ کے طلبگار جنھیں اپنی تنخواہ بڑھوانی ہو یا صرف نام سے پہلے ’’ڈاکٹر‘‘ کا لاحقہ لگانے کا شوق ہو۔ وہ جب ان سے رابطہ کرتے ہیں تو تھوک فروش انھیں چند عنوانات بتا دیتے ہیں، جو ان کے پاس پہلے سے ہی موجود ہوتے ہیں، ان میں سے ایک کا انتخاب کرکے خریدار معاملات طے کرلیتا ہے اور ۔۔۔۔۔ پھر صرف دو سال کے قلیل عرصے میں وہ ڈاکٹر کہلانے لگتا ہے۔ یہ تو سرقے سے بھی بڑا فراڈ ہے۔ جو بڑی کامیابی سے ملک کی بہت سی یونیورسٹیوں میں نہایت کامیابی سے جاری ہے۔

جنھیں دو لفظ بولنا نہیں آتے، جو ’’عوام‘‘ کو مونث بولتے اور لکھتے ہیں، جو ’’سمجھ میں نہیں آتا‘‘ کو ’’سمجھ نہیں آتی‘‘ لکھتے اور بولتے ہیں، جو ’’دل برداشتہ‘‘ کو ’’دلبر داشتہ‘‘لکھتے ہیں، جو ’’میں نے کہا‘‘ کو ’’میں نے بولا‘‘ کہتے اور لکھتے ہیں وہ اپنے نام کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ کا دم چھلا لگائے پھرتے ہیں کہ دو نمبر کے جعلی اور بے ایمان معاشرے میں، کوّے کا پر ہُما کا پر سمجھا جاتا ہے۔

رئیس فاطمہ
 
Top