• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

چار دن قربانی کی شرعی حیثیت

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
أن نافع بن جبير بن مطعم رضي الله عنه أخبره عن رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم قد سماه نافع فنسيته أن النبي صلى الله عليه و سلم قال لرجل من غفار Y قم فأذن إنه لا يدخل الجنة إلا مؤمن وأنها أيام أكل وشرب أيام منى زاد سليمان بن موسى وذبح يقول أيام ذبح بن جريج يقوله
کیا یہ روایت پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے ؟ اس روایت کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ مرسل ہے اس میں کتنی صداقت ہے ؟
اپنے اپنے خیالات کا اظہار فرمائین
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
أن نافع بن جبير بن مطعم رضي الله عنه أخبره عن رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم قد سماه نافع فنسيته أن النبي صلى الله عليه و سلم قال لرجل من غفار Y قم فأذن إنه لا يدخل الجنة إلا مؤمن وأنها أيام أكل وشرب أيام منى زاد سليمان بن موسى وذبح يقول أيام ذبح بن جريج يقوله
کیا یہ روایت پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے ؟ اس روایت کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ مرسل ہے اس میں کتنی صداقت ہے ؟
اپنے اپنے خیالات کا اظہار فرمائین
ٌٌٌّّّّعلامہ البانی نے اس سند کے بارے کھا ہے :
هذا إسناد صحيح رجاله كلهم ثقات ، لكن ليس فيه قول :
" و ذبح " الذي هو موضع الشاهد و إنما فيه أن ابن جريج رواه عن سليمان بن موسى
. يعني مرسلا لأنه لم يذكر إسناده . فهو شاهد قوي مرسل للطرق الموصولة السابقة

ایک نئی تحقیق میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا گیا ہے جو محل نظر ہے کیوں کہ اس میں سماع کی صراحت نہیں ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ٌٌٌّّّّعلامہ البانی نے اس سند کے بارے کھا ہے :
هذا إسناد صحيح رجاله كلهم ثقات ، لكن ليس فيه قول :
" و ذبح " الذي هو موضع الشاهد و إنما فيه أن ابن جريج رواه عن سليمان بن موسى
. يعني مرسلا لأنه لم يذكر إسناده . فهو شاهد قوي مرسل للطرق الموصولة السابقة

ایک نئی تحقیق میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا گیا ہے جو محل نظر ہے کیوں کہ اس میں سماع کی صراحت نہیں ہے
امام بیہقی اس سند کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
عن سليمان بن موسى عن نافع بن جبير بن مطعم عن أبيه أن النبي صلى الله عليه و سلم قال Y أيام التشريق كلها ذبح الأول مرسل وهذا غير قوي لأن
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
یاد رہے کہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ تین دن قربانی کو راجح قرار دیتے ہیں اور چار دن کی قربانی کو مرجوع۔ حافظ صاحب رحمہ اللہ یہ نہیں کہتے کہ چار دن قربانی کرنا غلط ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
بھائی یہاں پر آپ کیا کہے گے -

ایک طرف شیخ شیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ اور دوسری طرف

قربانى كرنے كا وقت

قربانى كا جانور كس وقت ذبح كيا جائيگا ؟

الحمد للہ:

قربانى كرنے كا وقت عيد الاضحى كى نماز كے بعد شروع ہوتا اور تيرہ ذوالحجہ كے دن غروب آفتاب كے وقت ختم ہوتا ہے، يعنى قربانى ذبح كرنے كے ليے چار يوم ہيں، ايك دن عيد والا اور تين اس كے بعد.

ليكن افضل يہ ہے كہ نماز عيد كے بعد قربانى جلد كى جائے جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمل تھا، اور پھر عيد والے دن وہ سب سے پہلے اپنىقربانى كا گوشت كھائے.

مسند احمد ميں بريدہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد الفطر كے روز كچھ كھا كر نماز عيد كے ليے جاتے، اور عيد الاضحى كے روز نماز عيد كے بعد آ كر اپنى قربانى كے گوشت ميں سے كھاتے "

مسند احمد حديث نمبر ( 22475 ).

زيلعى رحمہ اللہ نے نصب الرايۃ ميں ابن قطان سے نقل كيا ہے كہ يہ حديث صحيح ہے.

ديكھيں: نصب الرايۃ ( 2 / 221 ).


زاد المعاد ميں ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى كا قول ہے: ايام نحر ( يعنى قربانى كے ايام ) يو النحر ( يعنى عيد والا دن ) اور اس كے بعد تين يوم ہيں"

اہل بصرہ كے امام حسن، اور اہل مكہ كے امام عطاء بن ابى رباح، اور اہل شام كے امام الاوزاعى رحمہم اللہ اور فقھاء كے امام امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے، اور ابن منذر رحمہ اللہ نے بھى اسے ہى اختيار كيا ہے، اور اس ليے كہ تين ايام اس ليے كہ يہ منى اور رمى جمرات كے ساتھ خاص ہيں، اور يہى ايام تشريق ہيں، اور ان كے روزے ركھنا منع ہے، چنانچہ يہ ان احكام ميں ايك جيسے بھائى ہيں، تو پھر بغير كسى نص اور اجماع كے ذبح كرنے كے جواز ميں فرق كيسے كيا جا سكتا ہے.

اور دو مختلف وجوہات سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مروى ہے كہ آپ نے فرمايا:

" منى سارے كا سارا نحر كرنے كے ليے جگہ ہے، اور سارے كے سارے ايام تشريق ذبح كرنے كے دن ہيں " انتہى.

اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الصحيحۃ حديث نمبر ( 2476 ) ميں صحيح كہا ہے.

ديكھيں: زاد المعاد ( 2 / 319 ).


اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ " احكام الاضحيۃ " ميں قربانى كرنے كے وقت كے متعلق كہتے ہيں:

" يوم النحر والے دن نماز عيد كے بعد سے ليكر ايام تشريق كے آخرى دن كا سورج غروب ہونے تك ہے اور يہ آخرى دن تيرہ ذوالجہ كا ہوگا، تو اس طرح قربانى كرنے كے ايام چار ہيں، عيد والا دن، اور تين يوم اس كے بعد والے، چنانچہ جس شخص نے بھى نماز عيد سے فارغ ہونے سے قبل ہى قربانى كر لى، يا پھر تيرہ ذوالحجہ كے غروب آفتاب كے بعد ذبح كى تو اس كى قربانى صحيح نہيں ہوگى ....

ليكن اگر اس كے ليے ايام تشريق سے تاخير ميں كوئى عذر پيش آ جائے، مثلا اس كى كوتاہى كے بغير قربانى كا جانور بھاگ جائے اور وہ وقت ختم ہونے كے بعد اسے ملے، يا پھر اس نے كسى شخص كو قربانى كرنے كا وكيل بنايا تو وكيل قربانى كرنا ہى بھول گيا حتى كہ وقت نكل جائے، تو عذر اور نماز بھول جانے يا سوئے رہنے والے شخص پر قياس كرتے ہوئے كہ جب اسے ياد آئے يا پھر بيدار ہو تو نماز ادا كر لے اس قياس كى بنا پر وقت نكل جانے كے بعد قربانى كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

اور ان چار ايام ميں دن يا رات كے كسى بھى وقت قربانى كرنى جائز ہے، ليكن دن كے وقت قربانى كرنا زيادہ بہتر اور افضل ہے، اور ان ايام ميں سے بھى عيد والے روز دونوں خطبوں كے بعد قربانى كرنا زيادہ افضل ہے، اور ہر پہلا دن دوسرے دن سے افضل ہے، كيونكہ ايسا كرنے ميں نيكى اور بھلائى اور خير ميں جلدى كرنا ہے " انتہى مختصرا.

اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

" اہل علم كے صحيح قول كے مطابق حج تمتع اور حج قران كى قربانى كرنے كے چار دن ہيں، ايك عيد والا دن، اور تين يوم اس كے بعد، اور قربانى كا وقت چوتھے روز كا سورج غروب ہونے پر ختم ہو جاتا ہے "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 406 ).

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/36651
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
بھائی یہاں پر آپ کیا کہے گے -

ایک طرف شیخ شیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ اور دوسری طرف

قربانى كرنے كا وقت

قربانى كا جانور كس وقت ذبح كيا جائيگا ؟

الحمد للہ:

قربانى كرنے كا وقت عيد الاضحى كى نماز كے بعد شروع ہوتا اور تيرہ ذوالحجہ كے دن غروب آفتاب كے وقت ختم ہوتا ہے، يعنى قربانى ذبح كرنے كے ليے چار يوم ہيں، ايك دن عيد والا اور تين اس كے بعد.

ليكن افضل يہ ہے كہ نماز عيد كے بعد قربانى جلد كى جائے جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمل تھا، اور پھر عيد والے دن وہ سب سے پہلے اپنىقربانى كا گوشت كھائے.

مسند احمد ميں بريدہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد الفطر كے روز كچھ كھا كر نماز عيد كے ليے جاتے، اور عيد الاضحى كے روز نماز عيد كے بعد آ كر اپنى قربانى كے گوشت ميں سے كھاتے "

مسند احمد حديث نمبر ( 22475 ).

زيلعى رحمہ اللہ نے نصب الرايۃ ميں ابن قطان سے نقل كيا ہے كہ يہ حديث صحيح ہے.

ديكھيں: نصب الرايۃ ( 2 / 221 ).


زاد المعاد ميں ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى كا قول ہے: ايام نحر ( يعنى قربانى كے ايام ) يو النحر ( يعنى عيد والا دن ) اور اس كے بعد تين يوم ہيں"

اہل بصرہ كے امام حسن، اور اہل مكہ كے امام عطاء بن ابى رباح، اور اہل شام كے امام الاوزاعى رحمہم اللہ اور فقھاء كے امام امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے، اور ابن منذر رحمہ اللہ نے بھى اسے ہى اختيار كيا ہے، اور اس ليے كہ تين ايام اس ليے كہ يہ منى اور رمى جمرات كے ساتھ خاص ہيں، اور يہى ايام تشريق ہيں، اور ان كے روزے ركھنا منع ہے، چنانچہ يہ ان احكام ميں ايك جيسے بھائى ہيں، تو پھر بغير كسى نص اور اجماع كے ذبح كرنے كے جواز ميں فرق كيسے كيا جا سكتا ہے.

اور دو مختلف وجوہات سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مروى ہے كہ آپ نے فرمايا:

" منى سارے كا سارا نحر كرنے كے ليے جگہ ہے، اور سارے كے سارے ايام تشريق ذبح كرنے كے دن ہيں " انتہى.

اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الصحيحۃ حديث نمبر ( 2476 ) ميں صحيح كہا ہے.

ديكھيں: زاد المعاد ( 2 / 319 ).


اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ " احكام الاضحيۃ " ميں قربانى كرنے كے وقت كے متعلق كہتے ہيں:

" يوم النحر والے دن نماز عيد كے بعد سے ليكر ايام تشريق كے آخرى دن كا سورج غروب ہونے تك ہے اور يہ آخرى دن تيرہ ذوالجہ كا ہوگا، تو اس طرح قربانى كرنے كے ايام چار ہيں، عيد والا دن، اور تين يوم اس كے بعد والے، چنانچہ جس شخص نے بھى نماز عيد سے فارغ ہونے سے قبل ہى قربانى كر لى، يا پھر تيرہ ذوالحجہ كے غروب آفتاب كے بعد ذبح كى تو اس كى قربانى صحيح نہيں ہوگى ....

ليكن اگر اس كے ليے ايام تشريق سے تاخير ميں كوئى عذر پيش آ جائے، مثلا اس كى كوتاہى كے بغير قربانى كا جانور بھاگ جائے اور وہ وقت ختم ہونے كے بعد اسے ملے، يا پھر اس نے كسى شخص كو قربانى كرنے كا وكيل بنايا تو وكيل قربانى كرنا ہى بھول گيا حتى كہ وقت نكل جائے، تو عذر اور نماز بھول جانے يا سوئے رہنے والے شخص پر قياس كرتے ہوئے كہ جب اسے ياد آئے يا پھر بيدار ہو تو نماز ادا كر لے اس قياس كى بنا پر وقت نكل جانے كے بعد قربانى كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

اور ان چار ايام ميں دن يا رات كے كسى بھى وقت قربانى كرنى جائز ہے، ليكن دن كے وقت قربانى كرنا زيادہ بہتر اور افضل ہے، اور ان ايام ميں سے بھى عيد والے روز دونوں خطبوں كے بعد قربانى كرنا زيادہ افضل ہے، اور ہر پہلا دن دوسرے دن سے افضل ہے، كيونكہ ايسا كرنے ميں نيكى اور بھلائى اور خير ميں جلدى كرنا ہے " انتہى مختصرا.

اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

" اہل علم كے صحيح قول كے مطابق حج تمتع اور حج قران كى قربانى كرنے كے چار دن ہيں، ايك عيد والا دن، اور تين يوم اس كے بعد، اور قربانى كا وقت چوتھے روز كا سورج غروب ہونے پر ختم ہو جاتا ہے "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 406 ).

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/36651

شاہد آپ میری بات کو سمجھے نہیں -

میں یہی کہہ رہا ہوں کہ اب کون سا موقف مانا جا ے -

زبیر علی زئی رحم اللہ کا یا جو آپ نے پیش کیا



 
Top