رؤیت ہلال حقائق اور مغالطے
[SUP]
تحریر و تحقیق: ساجد محمود مسلم[/SUP]
رؤیت ہلال
حقائق اور مغالطے تحریر و تحقیق: ساجد محمود مسلم اسلامی تہذیب کا ایک نمایاں وصف خالص قمری تقویم ہے، جس کی بنیاد منازلِ قمر پر رکھی گئی ہے۔
اللہ وحدہٗ لاشریک کا ارشاد ہے:
ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالحَقِّ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
(یونس: 5)
’’
وہی (اللہ) ہے جس نے سورج کو ضیا اور چاند کو چمکتا ہوا بنایا اور اس نے اس (چاند) کی منزلیں مقرر کردیں تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب جان سکو۔ اللہ نے یہ سب حق کے ساتھ پیدا فرمایا، وہ اپنی نشانیاں کھول کر بیان کرتا ہے علم والوں کیلئے‘‘
دینِ اسلام نے عبادات کو شمسی تقویم کی بجائے قمری تقویم سے متعلق کیا ہے، جس کا ایک سبب یہ ہے کہ منازلِ قمر ظاہری آنکھ سے دکھائی دیتی ہیں، لہٰذا ہر صاحبِ بصارت ان کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ چاند کی پہلی منزل ہلال ہے جو ایک نورانی قوس کی شکل میں دکھائی دیتا ہے۔ اس کے بعد چاند کی قوس بڑھتی جاتی ہے، یہاں تک کہ چاند بدر کی شکل میں طلوع ہوتا ہے۔ پھر یہ گھٹنا شروع ہوجاتا ہے اور گھٹتے گھٹتے نظروں سے بالکل اوجھل ہو جاتا ہے۔ پھراگلی رات دوبارہ ہلال کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ منازلِ قمر کے اس مکمل چکر کو دورِ قمر
(Lunar Cycle) کہتے ہیں۔
منازلِ قمر کی سائنسی توجیہ یہ ہے کہ چاند، زمین کے گرد قدرے بیضوی مدار میں مخالف گھڑی وار (Anti-clockwise) گردش کرتا ہے۔ زمین اپنے چاند سمیت سورج کے گرد مخالف گھڑی وار گردش کرتی ہے۔ چاند کی سورج کے گرد گردش کے دوران ایک مقام ایسا آتا ہے کہ سورج، زمین اور چاند اس طرح ایک سیدھ میں آجاتے ہیں کہ چاند، سورج اور زمین کے درمیان ہوتا ہے۔ اس حالت میں ایک خط سورج ،چاند اور زمین کے مراکز کو ملاتا ہے۔ اس لمحے کو فلکیاتی اصطلاح میں قِرانِ شمس و قمر یا اجتماعِ شمس و قمر
(Luni-solar Conjunction) کہتے ہیں۔
چاند سورج کی روشنی منعکس کرتا ہے، جس کی وجہ سے وہ روشن دکھائی دیتا ہے۔ قِران کے وقت چاند کا روشن حصہ سورج کی طرف ہوتا ہے اور چاند کا وہ رخ زمین کی طرف ہوتا ہے جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچ رہی ہوتی۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قِران کے وقت چاند زمین سے دکھائی نہیں دیتا۔ اس فطری مظہر کو محاق کہا جاتا ہے جس کا لغوی مطلب ہے مٹ جانا۔ کیونکہ چاند وقتِ قران ظاہراً آسمان سے مٹ جاتا ہے، اس لئے اس لمحے کو محاق بھی کہتے ہیں۔
(الہیءۃ الوُسطٰی: ص 405-406)
اس تاریک چاند کو جدید فلکیاتی اصطلاح میں
نیومون کہا جاتا ہے۔
چاند اور سورج مسلسل حرکت میں ہیں، ان کی رفتارِ حرکت مختلف ہونے کی وجہ سے چاند سورج سے پیچھے رہ جاتا ہے، لہٰذا محاق کے بعد چاند اور سورج کے قرص
(Disks) ایک دوسرے سے الگ ہونے لگتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں چاند کے روشن حصے کا نہایت باریک کنارہ ایک قوسِ نور
(Arc of Light) کی شکل میں برآمد ہوجاتا ہے۔ ابتدا میں یہ قوسِ نور اس قدر باریک اور چھوٹی ہوتی ہے کہ زمین سے دکھائی نہیں دیتی۔ اس کے نظر نہ آنے کا ایک سبب سورج کی تیز روشنی بھی ہے، جیسے چراغ کی لو سورج کی روشنی میں نظر نہیں آتی، ایسے ہی ابتدائی قوسِ نور سورج کی تیز روشنی میں نظر نہیں آتی۔ آہستہ آہستہ سورج اور چاند کا درمیانی زاویائی فاصلہ بڑھتا جاتا ہے، جس کی وجہ سے قوسِ نور بڑی اور موٹی ہونے لگتی ہے۔ چونکہ قوسِ نور سورج اور چاند کے درمیان زاویائی فاصلہ کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتی ہے اس لئے اس کی پیمائش درجاتِ زاویہ کے ذریعے کی جاتی ہے، قوسِ نور کے لئے دوسری فلکیاتی اصطلاح
Luni-solar Elongation استعمال ہوتی ہے۔ جب قوسِ نور کی مقدار دس
(10) درجے ہوجاتی ہے تو یہ زمین سے دکھائی دیتی ہے، اس قابلِ مشاہدہ قوسِ نور کو شرعی اصطلاح میں ہِلال
(New Crescent) کہتے ہیں۔ کسی مخصوص مقام سے ہلال کے دکھائی دینے کے لئے ضروری ہے کہ قوسِ نور کی مقدار دس
(10) درجے ہو اور غروبِ شمس کے وقت چاند افق سے کم از کم آٹھ
(8) درجے بلند ہو۔
دنیا کے جن مقامات پر مذکورہ شرطیں پوری ہوں وہاں ہلال دکھائی دینے کا قوی امکان ہوتا ہے۔ وہ تمام علاقے جہاں ہلال دکھائی دیتا ہے ، انہیں مجموعی طور پر مطلعِ قمر کہتے ہیں۔ پوری دنیا میں ہلال ایک ہی دن دکھائی نہیں دیتا، بلکہ مختلف مقامات پر مختلف دنوں میں نظر آتا ہے۔ ہلال کا اس طرح مختلف ایام میں دکھائی دینے کے مظہر کو اختلافِ مطالع کہتے ہیں۔
جوں جوں دن گزرتے ہیں قوسِ نور کی مقدار بڑھتی جاتی ہے، یہاں تک کہ یہ ایک سواسّی (180) درجے ہو جاتی ہے تو چاند بدر کی شکل میں طلوع ہوتا ہے۔ اس کے بعد قوسِ نور پھر گھٹنا شروع ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ قوسِ نور غائب ہوجاتی ہے۔ اس لمحے دوبارہ قِرانِ شمس وقمر ہوتا ہے، جو کہ عموماً قمری ماہ کی آخری تاریخ کو ہوتا ہے۔ قران کے دوران چاند اوسطاً بیس
(20) گھنٹے تک زمین والوں کے لئے غائب رہتا ہے۔ تاآنکہ قوسِ نور دوبارہ دس
(10) درجے ہوجائے اور نیا ہلال زمین سے دکھائی دینے لگے۔
اس طرح ایک دورِ قمر مکمل ہو جاتا ہے۔
قرآن حکیم نے اس دورِ قمر کو مختصراً ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
وَ الْقَمَرَ قَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ حتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ
(یٰسین: 39)
’’
اور ہم نے چاند کی منزلیں مقرر کردیں، یہاں تک کہ وہ دوبارہ کھجور کی بوسیدہ خمدار شاخ کی طرح ہو جاتا ہے۔‘‘
اَلْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْم کا لغوی مطلب کھجور کی بوسیدہ شاخ ہے جو سوکھ کر پتلی اور خمدار ہو جاتی ہے۔ اس سے مراد نیا ہلال ہے جو قمری ماہ کی پہلی رات طلوع ہوتا ہے۔
( لسان العرب:ج13،ص 281)
پس اسلامی قمری ماہ کی ابتدا قابلِ رؤیت، ہلال سے ہوتی ہے ناں کہ قرانِ شمس وقمر یا نیو مون سے باور کر لیجئے کہ رؤیتِ ہلال نہایت اہم فقہی مسئلہ ہے جس کے بارے شرع نے واضح اور دوٹوک ہدایات فراہم کی ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْاَھِلَّۃِ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ
(البقرۃ: 189)
’’
(اے نبی) یہ لوگ آپ سے ہلال کے بارے پوچھتے ہیں، انہیں بتا دیجئے کہ یہ لوگوں کے لئے اور حج کے لئے مواقیت (معیارِ وقت) ہیں۔‘‘
سیدنا معاذ بن جبل اور سیدنا ثعلبہ بن غنم رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ہلال کا کیا معاملہ ہے کہ یہ دھاگے کی مانند باریک حالت سے ابتدا کرتا ہے، پھر بڑھنا شروع ہوجاتا ہے حتیٰ کہ پورا چاند طلوع ہوتا ہے، پھر گھٹتا رہتا ہے حتیٰ کہ ابتدائی حالت پر لوٹ آتا ہے، سورج کی طرح ایک حالت پر قائم نہیں رہتا؟ تب سورۃ البقرہ کی مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی۔
(مفاتیح الغیب: ج 2 ص 281)
اس آیت سے پہلے رمضان المبارک کا بیان جاری ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
فَمَنْ شَھِدَمِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ
(البقرۃ :185)
’’
تم میں سے جو کوئی (رمضان کا) مہینہ پائے، اسے چاہیے کہ وہ پورے مہینے کے روزے رکھے‘‘
رمضان کا مہینہ پانے سے مراد رمضان کی رؤیتِ ہلال ہے، جیسا کہ شارحِ قرآن محمد رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وضاحت کی ہے:
سیدنا ابو ہریرہ صسے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صُوْمُوْا لِرُؤْیَتِہٖ وَ اَفْطِرُوْا لِرُؤْیَتِہ
’’
ہلال دیکھ کر روزے رکھو اور ہلال دیکھ کر روزہ رکھنا موقوف کرو‘‘
(مسند احمد: ح 9365، صحیح بخاری: ح 1909، صحیح مسلم : ح 1081)
رؤیتِ ہلال سے متعلق یہ قولی حدیث حدِ تواتر تک پہنچی ہوئی ہے۔ متعدد صحابہ کرام نے رؤیتِ ہلال سے متعلق احادیث روایت کی ہیں، جن میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی کے علاوہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی ، سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالی، سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی شامل ہیں۔ ان تمام احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رمضان، حج، عیدین اور دیگر قمری مہینوں کا معیارِ وقت (Time Standard) رؤیتِ ہلال ہے ناں کہ تاریک نیو مون۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں ہلالِ رمضان دیکھنے کے لئے جس قدر اہتمام فرماتے تھے ، اتنے تردد کے ساتھ دوسرے مہینوں کا اہتمام نہیں فرماتے تھے۔
(مسند احمد: ح25676، سنن ابو داؤد: ح 2325)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ
ایک اعرابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا ’’میں نے رمضان کا ہلال دیکھا ہے‘‘، آپ نے فرمایا ’’کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں؟‘‘ اس نے کہا ’’جی ہاں‘‘ پھر آپ نے فرمایا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟‘‘ اس نے کہا ’’جی ہاں‘‘ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے بلال! لوگوں میں منادی کر دو کہ کل کا روزہ رکھیں۔
(سنن ابوداؤد: ح2340)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لوگوں
(صحابہ کرام) نے ہلال دیکھا اور
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ میں نے ہلال دیکھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
( سنن ابو داؤد: ح 2342)
سیدنا نافع بن عبداللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب شعبان کے انتیس دن گزر جاتے تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کسی کو ہلال دیکھنے کے لئے بھیجتے تھے۔
(مسند احمد : ح 4488 )
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ، آپ کے اپنے عمل اور صحابہ کرامؓ کے تواتر عملی سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی قمری مہینے کی ابتدا رؤیتِ ہلال سے ہوتی ہے، نیو مون کی ولادت سے نہیں۔ نیز یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رؤیتِ ہلال سے مراد محض ولادتِ ہلال نہیں بلکہ آنکھوں سے ہلال کا دیکھنا مراد ہے۔
لغاتِ قرآن کے ماہر امام حسین بن محمد راغب اصفہانی رحمہ اللہ
(متوفی507ھ) فرماتے ہیں:
اَھَلَّ الْہِلَال کے معنی (نیا) چاند نظر آنے کے ہیں
(مفردات القرآن: ج 2، ص 1166)
امام فخرالدین محمد بن ضیا ء الدین عمر الرازی الشافعی رحمہ اللہ
(متوفی606ھ) فرماتے ہیں:
الاھلۃ جمع الھلال و ھو اول حال القمر حین یراء الناس
’’
اَہِلَّۃ جمع ہے ہلال کی، یہ چاند کی پہلی حالت ہے جس کا لوگ مشاہدہ کرتے ہیں۔‘‘
(مفاتیح الغیب: ج 2 ص 281)
شیخ الاسلام امام موفق الدین ابو محمد عبداللہ بن احمد ابن قدامہ الدمشقی الحنبلی رحمہ اللہ
(متوفی630ھ) فرماتے ہیں:
سرر الشھر آخرہ لیال یستسر الھلال فلا یظھرہ
’’
اور قمری ماہ کی تاریک راتیں اس کے آخر میں ہوتی ہیں جب چاند چھپا رہتا ہے اور مطلق ظاہر نہیں ہوتا۔‘‘
(المغنی والشرح الکبیر: ج3، ص 15)
شیخ الاسلام امام تقی الدین ابو لعباس احمد بن تیمیہ الحنبلی رحمہ اللہ
( متوفی 728ھ) فرماتے ہیں:
فالمقصود ان المواقیت حددت با مر ظاہر بیّن یشترک فیہ الناس ولا یشترک الھلال فی ذالک شیء، فان اجتماع الشمس والقمر الذی ھو تحاذیھما الکائن قبل الھلال: امر خفی لا یعرف الا بحساب ینفرد بہ بعض الناس
’’
مقصود یہ ہے کہ اوقات ( قمری ) کی حد بندی ایسی ظاہرو واضح شے سے کی گئی ہے جو تمام انسانوں کے لئے یکساں ہے، ہلال کے مقابلے میں کوئی شے ا سکی برابری نہیں کر سکتی ۔، بلا شبہ اجتماعِ شمس وقمر ،جو کہ ظہورِ ہلال سے قبل واقع ہوتا ہے، ایک پوشیدہ امر ہے جسے ایسے حساب کے ذریعے ہی معلوم کیاجاسکتا ہے جو چند لوگوں کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔‘‘
(مجموع فتاوٰی ابن تیمیہ: ج 25، ص136)
امام عبداللہ بن احمد النسفی الحنفی رحمہ اللہ
(متوفی 711ھ) فرماتے ہیں :
و یثبت رمضان برؤیۃ ھلالہ
’’
رمضان کا مہینہ رؤیتِ ہلال سے ثابت ہوتا ہے۔‘‘
(کنز الدقائق: ص 67)
امام ابوالولید محمد بن احمد ابن رشد القرطبی المالکی رحمہ اللہ
(متوفی 595ھ) فرماتے ہیں:
و علٰی ان اعتبار فی تحدید شھر رمضان انما ھو الرؤیۃ
’’
رمضان المبارک کی تحدید کے لئے اصل اعتبار صرف رؤیتِ ہلال کا ہے‘‘
(بدایۃ المجتہد:ج 1، ص 207)
غرض اسلامی قمری مہینے کا آغاز ہلالِ مشہودہ سے ہوتا ہے ناں کہ نیومون جیسے پوشیدہ مظہر سے۔ نیومون دن رات (چوبیس گھنٹوں ) میں سے کسی بھی لمحے واقع ہوسکتا ہے، اس لئے اس کی حد بندی ممکن نہیں کہ فلاں وقت نیومون پیدا ہوجائے تو قمری مہینہ شروع کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے جس کا انکار نیومون سسٹم کے حامی بھی نہیں کرسکتے۔ اس کے برعکس اسلامی قمری مہینے کا آغاز غروبِ آفتاب سے ہوتا ہے، بشرط یہ کہ طلوعِ فجر سے پہلے ہلال دکھائی دے جائے۔ جبکہ نیومون سسٹم میں دن کی ابتدا کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں کیا جاسکتا۔ جو لوگ دن کے بارہ بجے یا رات کے بارہ بجے سے دن کا آغاز مانتے ہیں، وہ شرعِ اسلام سے ناواقف ہیں۔ اگر دن کے بارہ بجے سے نئے دن کی ابتدا تسلیم کی جائے تو آدھا روزہ ایک دن میں ہوگا اور آدھا دوسرے دن میں، اسی طرح رات کے بارہ بجے سے دن کی ابتدا مانی جائے تو نصف لیلۃ القدر ایک دن میں شامل ہوگی اور نصف دوسرے دن میں۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں صورتیں عقلِ صریح اور شرعِ مبین کے منافی ہیں۔ یہی معاملہ ایامِ حج اور دیگر عبادات میں پیش آئے گا جو کہ بداہتاً غلط ہے۔
یہ بدیہی حقیقت ہے کہ قرانِ شمس و قمر کے سبب اسی دن سورج گرہن لگتا ہے، سورج گرہن کبھی جزوی ہوتا ہے کبھی کلّی۔ ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے دوران مدینہ منورہ میں تین مرتبہ سورج گرہن لگا۔ ایک بار جزوی طور پر اور دو بار کلی طور پر۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی سورج گرہن کے دن (نیومون) سے قمری مہینے کا آغاز نہیں کیا۔
رؤیتِ ہلال کے ضمن میں دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ رؤیت ہلال کے لئے اختلافِ مطالع شرعاً معتبر ہے یا نہیں؟ یعنی پہلے دن نظر آنے والا ہلال ساری امت کے لئے کافی ہے یا ہر علاقے کے لوگ اپنے ہاں ہلال نظر آنے کا انتظار کریں گے؟ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ساری امت کے لئے ایک ہی متفقہ قمری تقویم کافی ہے یا ہر علاقے کی جدا گانہ قمری تقویم ہونا چاہیے؟
امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی
(80۔150ھ)،
امام ابو عبداللہ مالک بن انس المدنی
(93۔179ھ)،
امام ابو الحارث اللیث بن سعد المصری،
(94۔175ھ)
امام ابو عبداللہ احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی البغدادی
(164۔241ھ)
رحمہم اللہ کا مسلک مختار یہ ہے کہ اگر دنیا کے کسی ایک علاقے میں ہلال نظر آجائے تو وہ تمام امتِ مسلمہ کے لئے کافی ہے، اس سلسلے میں اختلافِ مطالع معتبر نہیں۔
امام عبد اللہ بن احمد النسفی الحنفی رحمہ اللہ
( متوفی 711ھ) فرماتے ہیں :
و لا عبرۃ لاختلاف المطالع
’’
اختلافِ مطالع کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔‘‘
(کنز الدقائق: ص67)
اس قول کے حاشیہ میں مولوی محمد احسن صدیقی نانوتوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ای اذا رای الہلال اہل بلدۃ یلزم ذٰلک اھل بلدۃ اخریٰ فی ظاہرالروایۃ مطلقاً سواء کان بین البلدتین تفاوت او لا و علیہ الفتوٰی
( ایضاً)
’’
یعنی جب ایک شہر کے باشندگان ہلال دیکھ لیں تو دوسرے شہر کے باشندگان پر اس کی اتباع لازم ہو جاتی ہے۔ خواہ ان شہروں کے مابین فاصلہ ہو یا نہ ہو، یہی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ظاہری روایت ہے اور اسی قول پر فتویٰ ہے۔‘‘
امام ابوالولید محمد بن رشد القرطبی المالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فاما مالک فان ابن القاسم والمصریین رووا عنہ انہ اذا ثبت عند اہل بلد أن اہل بلد اٰخر راوا لہلال أن علیہم قضا ذٰلک الیوم الذی افطروہ و صامہ غیرھم و بہ قال الشافعی و احمد
’’
جہاں تک امام مالک بن انس رحمہ اللہ کا تعلق ہے تو امام ابن القاسم المالکی ؒ اور مصری علماء ان سے روایت کرتے ہیں کہ جب ایک شہر کے باشندگان پر ثابت ہوجائے کہ دوسرے شہر والوں نے ان سے پہلے ہلال دیکھ لیا تھا تو ان پر اس دن کی قضا لازم ہے جس کا روزہ انہوں نے نہیں رکھا، جبکہ دوسرے شہر والوں نے اس دن روزہ رکھا تھا۔ امام محمد بن ادریس الشافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہمااللہ کا بھی یہی مؤقف ہے۔‘‘
(بدایۃ المجتہد: ج1،ص210)
شیخ الاسلام امام موفق الدین ابو محمد عبداللہ بن احمد بن قدامہ الدمشقی الحنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
واذا رأی الہلال اہل بلد لزم جمیع البلاد الصوم
’’
جب ایک شہر کے باشندگان ہلال دیکھ لیں تو تمام شہروں کے باشندگان پر روزہ رکھنا لازم ہوجاتا ہے۔‘‘
( المغنی والشرح الکبیر: ج 3 ص7)
شیخ الاسلام امام ابوالعباس احمد بن تیمیہ الحنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فالضابط أن مدار الامر علی البلوغ لقولہ ’’صوموا لرؤیتہ‘‘ فمن بلغہ أنہ رؤی ثبت فی حقہ من غیر تحدید بمسافۃ اصلا
’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان (
ہلال دیکھ کر روزہ رکھو) کی بنیاد پر ضابطہ یہ ہے کہ اصل مدار، رؤیتِ ہلال کی اطلاع پہنچنے پر ہے، پس جس شخص تک یہ اطلاع پہنچ گئی کہ ہلال نظر آگیا ہے، اس کے حق میں ہلال ثابت ہو گیا۔ اس سلسلے میں مسافت و فاصلہ کی کوئی حد مقرر نہیں ۔‘‘
( مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ: ج 25، ص107)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ مزید فرماتے ہیں:
فاذا شھد شاھد لیلۃ الثلاثین من شعبان انہ رآہ بمکان من امکنۃ قریب او بعید وجب الصوم
’’
جب شعبان کی تیسویں رات گواہی دینے والا گواہی دے کہ اس نے کسی ایک مقام پر ہلال دیکھا ہے، خواہ یہ مقام قریب ہو یا دور، توروزہ فرض ہوگیا‘‘
(ایضاً، ص 105 )
امام منصور بن یونس البہوتی الحنبلی رحمہ اللہ
(متوفی 1051ھ) فرماتے ہیں:
واذا رآی اہل بلد ای متی ثبت رؤیت ببلد لزم الناس کلہم الصوم لقول صلی اللہ علیہ وسلم: صوموا لرؤیتہ، و ھو خطاب للامۃ کافۃ
’’ جب ایک شہر کے باشندگان ہلال دیکھ لیں یعنی ایک شہر میں رؤیتِ ہلال ثابت ہوجائے تو تمام لوگوں پر روزہ واجب ہوجاتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرما ن (
ہلال دیکھ روزہ رکھو) کی وجہ سے ، یہ خطاب ساری امت کے لئے ہے۔‘‘
(الروض المربع: ص188)
فضیلۃ الشیخ ابراہیم بن محمد بن سالم بن ضویان النجدی حنبلی رحمہ اللہ
(متوفی1353ھ) فرماتے ہیں:
یجب صوم رمضان برؤیۃ ہلالہ علی جمیع الناس لقولہ تعالی فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ
’’اللہ تعالیٰ کے فرمان (
تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اسے چاہیے کہ وہ پورے مہینے کے روزے رکھے)
سے ثابت ہوتا ہے کہ رمضان کا ہلال نظر آجائے تو سب لوگوں پر رمضان کے روزے فرض ہوجاتے ہیں‘‘
(منارالسبیل: ج1، ص 217 )
فقہائے امت کے مذکورہ اقوال سے ثابت ہوتا ہے کہ جب دنیا میں ایک مقام پر رؤیتِ ہلال ثابت ہوجائے تو وہ ساری امت کے لئے کافی ہے، ہر علاقے کے مسلمانوں کو اپنے علاقے میں ہلال نظر آنے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ چنانچہ عالمگیر امت کے لئے ایک ہی متفقہ عالمگیر قمری تقویم ضروری ہے۔ ان اقوال میں جن دلائل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، وہ سابقہ سطور میں گزر چکے ہیں لہٰذا ان کی تکرار کی ضرورت نہیں۔ تاہم ایک مزید دلیل اتمامِ حجت کے لئے بیان کیے دیتے ہیں:
سیدنا ربعی بن حراش رحمہ اللہ
(تابعی ) اصحابِ رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے روایت کرتے ہیں کہ ایک بار ایسا ہوا کہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے رمضان المبارک کا تیسواں روزہ رکھا ہوا تھا۔ اسی روز مدینہ کے باہر سے دو اعرابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے گواہی دی کہ انہوں نے پچھلی شام ہلال دیکھا تھا۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ روزہ توڑ دو اور کل صبح عید کے لئے نکلو۔
(مسند احمد: ح 19029، 23457، سنن ابو داؤد: ح 2339)
سیدنا انس بن مالک ص کی روایت میں صراحت ہے کہ
مدینہ میں آنے والے مذکورہ اعرابی مسافر تھے، جو کسی دور دراز علاقے سے سوار ہو کر آئے تھے۔
(نیل الاوطار: ج 4، ص213 بحوالہ مسند احمد و صحیح ابن حبان)
یہ حدیثِ صحیح، اختلافِ مطالع کو رد کرنے کے لئے صریح نص ہے اور ثابت کرتی ہے کہ ہر علاقے کے لئے جداگانہ تقویم کا تصور صریحاً غلط ہے۔ آج امتِ مسلمہ میں رمضان المبارک اور عیدین کے حوالے سے جو اختلاف و انتشار پایا جاتا ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ ہم نے شریعت کی اصل تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے اور علاقائی و گروہی تعصبات کے سبب خالص دینی معاملے کو فانی و حقیر سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ حد یہ ہے کہ پاکستان جیسے محدود قلیل رقبے کے حامل ملک میں تین دن عید پڑھی جاتی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ تین مختلف و متواتر دنوں میں ایک ہی قمری تاریخ ہو؟ عقلاً و شرعاًایسا ہونا محال ہے، پھر علمائے حق ،دین کے ساتھ اس صریح مذاق پر خاموش کیوں ہیں؟
کہا جاتا ہے کہ امام محمد بن ادریس الشافعی المکی رحمہ اللہ
(150۔ 204ھ ) اور ان کے کئی اصحاب، اختلافِ مطالع کے معتبر ہونے کے قائل ہیں ، اس کا جواب یہ ہے کہ اما م شافعی رحمہ اللہ کے اس مسئلہ میں مختلف اقوال ہیں، جن میں سے ایک قول جمہور امت کے موافق ہے،جیسا کہ بدایۃ المجتہد کے حوالہ سے اوپر مذکور ہے، ہاں ان کے بعض اصحاب اختلافِ مطالع کے معتبر ہونے کے ضرور قائل ہیں۔
کما قال ابنِ قدامہ الحنبلیؒ
( المغنی والشرح الکبیر : ج 3 ، ص 7)
امتِ مسلمہ کے اجتماعی مسائل میں ایسی شاذ رائے قابلِ اعتنا نہیں۔ قرآن وسنت کے دلائل اور فقہائے امت کے مذکورہ بالا اقوال سے واضح ہے کہ اقرب الیٰ الحق رائے جمہور امت کی ہے اوراختلافِ مطالع کے اعتبار کا قول خطا پر مبنی ہے، جس کی کوئی صریح عقلی و شرعی دلیل موجود نہیں۔ اگر اختلافِ مطالع کو معتبر تسلیم کرلیا جائے تو وہ کونسی عقلی اور شرعی دلیل ہے جس کے ذریعے مطالعِ قمر کی حد بندی کی جاسکے؟ سابقہ سطور میں وضاحت کردی گئی ہے کہ مطلعِ قمر ہر ماہ تبدیل ہوتا ہے، لہٰذا اسے کسی ایک خطے کے ساتھ مقید نہیں کیا جاسکتا۔ امتِ واحدہ، پچاس سے زائد سیاسی وحدتوں میں تقسیم ہوچکی ہے، مگر ان مسلم ممالک کی موجودہ سیاسی حدود کی کوئی غیر متغیر و مستقل حیثیت نہیں، وقت کے ساتھ ان میں تبدیلی ہوتی رہی ہے اور آئندہ بھی تبدیلی کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا ۔ پھر وہ کونسی شےء ہے جس کی بنیاد پر مطالع کی حد بندی کی جائے؟ اختلافِ مطالع کے اعتبار کے قائل بعض علماء نے مسافتِ قصر اور بعض نے اقالیم
(قدیم صوبے) کی حدود کو مطالع کی حد بندی کے لئے مناسب گردانا، حالانکہ ان دونوں تجاویز کی بنیاد کوئی عقلی و شرعی دلیل نہیں۔ شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہ الحنبلی رحمہ اللہ ان تجاویز کے بارے فرماتے ہیں:
و کلاھما ضعیف فان مسافۃ القصر لا تعلق لھا با لہلال و اما الاقالیم فما حدد ذٰلک؟
’’
یہ دونوں تجاویز بودی ہیں، یقیناً مسافتِ قصر کا ہلال سے کوئی تعلق ہی نہیں، رہے اقالیم تو ان کی حدود کیا ہوں گی؟‘‘
(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ: ج 25، ص 104)
اقالیم اسلامیہ کی حدود مختلف ادوار میں مختلف رہی ہیں اور ان حدود کا مطالعِ قمر سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ مطالع تو ہر ماہ بدلتے رہتے ہیں۔ غرض مطالع کی مستقل حدود کا تعین کسی طرح بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ان حدود کا تعین کیا جائے گا تو وہ صراحتاً غلط ہوگا۔ پس ثابت ہوا کہ اختلافِ مطالع کے اعتبار کی کوئی عقلی و شرعی دلیل نہیں ہے۔
دوسرا اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ امتِ واحدہ کے پچاس سے زائد خود مختار سیاسی وحدتوں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے اختلافِ مطالع کا اعتبار کیے بغیر چارہ نہیں، جب تک خلافت قائم نہیں ہو جاتی، کسی ایک علاقے کی رؤیت کی بنا پر رؤیتِ ہلال کا متفقہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ استدلال نہایت کمزور اور بے وزن ہے۔ اگر امتِ مسلمہ کے جید علما ء ایکا کرلیں کہ وہ اصل حکمِ شرعی کے مطابق ایک متفقہ قمری تقویم اپنائیں گے، تو کونسی قوت ہے جو انہیں اس نیک ارادے سے باز رکھ سکے؟ کیا علاقائی رؤیت کا اعلان کرنے والے انہی علماء میں سے نہیں ہیں؟ کیا وہ احکام جو خلافت سے متعلق ہیں ، قیامِ خلافت تک معلق و معطل رکھے جائیں گے؟ مثلاً نظامِ صلوٰۃ ، نظامِ زکوٰۃ، نظامِ حج، نظامِ جہاد اور نظامِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر وغیرہ قیامِ خلافت تک معطل رہیں گے؟ اگر یہ سب احکامِ شرع معطل نہیں کیے جاسکتے، تو ایک ہی دن عیدیں منانے اور ایک ہی دن رمضان کا آغاز کرنے کے حکم کو ہی کیوں معطل کیا جائے؟ حقیقت یہ ہے کہ آج جدید سیٹلائٹ ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر پروگرامز کی موجودگی میں متفقہ قمری تقویم اپنانا جس قدر سہل ہے، ماضی میں اس حکمِ شرع پر عمل کرنے میں اس قدر سہولت نہ تھی۔ پھر بھی ہمارے اسلاف نے اس حکم پر عمل کرکے دکھایا، آخر آج کیوں نہیں؟
تیسرا اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ کرہ ارض پر کسی بھی مخصوص وقت پر ہمیشہ دو دن ہوتے ہیں، مثلاً نصف کرہ شرقی میں جمعہ اور نصف کرہ غربی میں جمعرات۔ لہٰذا اہلِ اسلام ایک ہی دن عیدیں مناسکتے ہیں نہ ایک ہی دن روزے رکھ سکتے ہیں۔ اس اشکال کا سبب جغرافیہ سے ناواقفیت ہے۔ یہ درست ہے کہ کرہ ارض پر ایک ہی وقت پر دو مختلف دن ہوتے ہیں ،جس کا اصل سبب زمین کی کروی شکل اور اس کی محوری حرکت ہے۔ دراصل مشرق میں دن پہلے طلوع ہوتا ہے اور مغرب میں بعد میں ۔ جب مغرب میں ایک دن کا سورج غروب ہورہا ہوتا ہے ، اسی لمحے مشرق میں اگلا دن طلوع ہورہا ہوتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود دنیا میں کسی بھی مقام پر ایک ہی دن میں دو مختلف شمسی تاریخیں نہیں ہوتیں۔ یہ تو ہوتا ہے کہ مشرق میں جمعہ کو پانچ جنوری ہے تو مغرب میں جمعرات کو چار جنوری۔ یہ نہیں ہوتا کہ دنیا کے کچھ مقامات پر جمعہ کو چار تاریخ ہو اور کچھ مقامات پر جمعہ کو ہی پانچ تاریخ ہو۔ بعینہٖ قمری تقویم میں بھی اصولاً ایسا نہیں ہوسکتا کہ جمعہ کو کچھ مقامات پر یکم شوال ہو، کچھ مقامات پر انتیس رمضان ہو اور کچھ مقامات پر تیس رمضان۔ ایسا ماننا بداہتاً غلط ہے اور دین کا مذاق اڑانے کے لئے جواز فراہم کرنا ہے۔ پس کرّۂ ارض پرمشرق و مغرب میں ایک ہی وقت میں دو مختلف دن اورمختلف تاریخوں کا ہونا اور شئے ہے، جبکہ ایک ہی دن دو یا تین مختلف تاریخوں کا ہونا اس سے با لکل متغائر ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار
رہی یہ بات کہ متفقہ قمری تقویم اپنانے کی عملی صورت کیا ہوسکتی ہے؟ اس ضمن میں عرض یہ ہے کہ مکۃ المکرمہ کرہ ارض کا جغرافیائی مرکز اور امتِ مسلمہ کا قبلہ وروحانی مرکز ہے۔ یہاں دنیا کا سب سے بلند کلاک ٹاور تعمیر کیا گیا ہے، مکہ کلاک ٹاور کی سب سے اوپر والی منزل پر پہلے سے رؤیتِ ہلال کا مرکزی دفتر قائم ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں اہلِ اسلام کی مجالسِ رؤیتِ ہلال بھی پہلے سے کام کرہی ہیں، جہاں ایسی مجلس موجود نہیں وہاں بنائی جاسکتی ہے۔ ان تمام ممالک کی مجالسِ رؤیتِ ہلال کے مکمل کوائف مکہ کی مرکزی مجلسِ رؤیتِ ہلال کے پاس کمپیوٹرمیں فیڈ کیے ہوں، تاکہ منٹوں میں ان کی پڑتال کی جاسکے اور کسی بھی قسم کی دھوکہ دہی سے بچا جاسکے۔ تمام مجالس ، رؤیتِ ہلال کے بارے اپنی رپورٹیں مرکزی مجلس کو انٹرنیٹ پر نیٹ میٹنگ اور ای میل کے ذریعے، نیز فیکس کے ذریعے تصدیق شدہ دستاویزات کی شکل میں ارسال کریں۔ جب دنیا کے کسی علاقے میں ہلال نظر آنے کی مصدقہ شہادتیں مل جائیں تو مرکزی مجلسِ رؤیتِ ہلال مکہ مکرمہ ، ٹی وی اور انٹرنیٹ پر اس کا اعلان کردے۔ یوں امتِ مسلمہ ایک ہی دن روزے رکھنے کا آغاز کرنے اور ایک ہی دن عیدیں منانے کے قابل ہو جائے گی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ امتِ مسلمہ کو اتفاق واتحاد کا اصول اپنانے اور تمام گروہی و علاقائی تعصبات ترک کرکے فی الواقع امتِ واحدہ بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین