کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
چہرے کا پردہ اور احتیاط کا فلسفہ
کالم: ایم اے ظہیر28 اکتوبر 2015
خوشا خیر ہو اسلامی نظریاتی کونسل میں اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے پردے کے بنیادی احکام پر مشتمل مراسلہ زیرِ بحث آیا۔۔۔
اس پر مختلف اراکین کو نسل نے اپنی اپنی فہم کے مطابق متعدد آراء کا اظہار کیا۔ کہنے والوں نے کہا اور سننے والوں نے سنا عورت پر چہرے کا پردہ واجب نہیں مستحب ہے ۔۔۔
البتہ اس کے ساتھ پھر پخ لگی کہ فتنے کا خطرہ ہو تو پردہ واجب۔ فرض، واجب، مستحب، مکروہ اور مباح۔۔۔
اس پر مسلم ماخذ اور مصادر میں بڑی طویل و مجہول اور تھکا و اکتا دینے والی بحثیں ملا کے صدیاں بیت گئیں علماء و فقہاء کے مابین چہرے کے پردے کا مسئلہ آج تک متنازع فیہ چلا آتا ہے، مذکورہ مسئلہ پر شارحین کے اجتہادی، نظیری، نظری اور نجی فتاویٰ ہنوزکوئی حتمی نتیجہ خیزگفتگو چاہتے ہیں، گو یہ مسئلہ مختلف فیہ ٹھہرا مگر عالمگیر فریب دیکھئے کہ امت کا سواد اعظم چہرے کے پردے کی محتاط ترین تعبیر کو دین کی درست تر تعبیرسمجھنے کے مغالطے میں مبتلا ہے ۔ اس کا بنیادی سبب شاید یہ کہ متعدد مفکرین ومفسرین نے نیک نیتی اور صدق دلی سے اس کو متفق علیہ باور کرانے کی سعی کی ہے ۔ چہرے کے پردے کے پیچھے فقہاء کا جو احتیاط کا فلسفہ کار فرما ہے ، اس کے بڑے ہی دور رس اور مضر اثرات مرتسم ہوئے۔ اس کا سب سے زیادہ خسارہ خواتین کو بھگتنا پڑا کہ وہ اس احتیاطی عمل میں پردے کے نام پر گھروں میں مقید و محصور تو ہوئیں ہی ۔۔۔ بے چہرہ اور بے نام بھی ہو کر رہ گئیں۔
احتیاط کا فلسفہ اپنی جگہ، فقہاء تو محض اپنے اندیشے ، وسوسے یا گماں پر ہی ایک مباح عمل کو مکرہ قرار دے دیتے ہیں کہ مبادا یہ چیز فتنے کا دروا نہ کر دے۔ مثلاً خواتین کے مساجد میں داخلہ کے مسئلہ کو لے لیجئے۔ متوارث تاریخ اور متواتر ریت دونوں اس بات پر دلالت کیا کئے کہ مساجد میں عورتوں کی شمولیت و آمدو رفت کا عہد رسالت سے ہی التزام کیا گیا ۔ علماء کی قیل و قال اور فقہاء کی لا ضرر ولا ضرار کے بادجود مسجد نبوی اور حرم مکی میں یہ استمرار ہنوز موجود ہے ۔ فقہاء وعلماء نے محض خیال خام سے عورت کے اس سماجی کردار پر بندش باندھ دی کہ متا مساجد میں ان کی آزادانہ چلت پھرت اور سماج میں چہل پہل مسلم معاشرے کو مزید فتنہ میں مبتلا کر ڈالے۔ اصحاب جبہ و دستار یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ مرد تو نیکو کار ہیں اور یہ تقویٰ کی فضا عام کرتے پھرتے ہیں جبکہ خواتین فحاشی و بے حیائی کے ذریعے سماج کو تاراج کرنے پر تلی بیٹھی ہیں۔ کسی مرد کی عورت پر نگاہ پڑنے سے اگر اس کے اپنے اندر جنسی اشتہاء کی چتائیں سلگنے لگتی ہوں تو پھر ضرورت تو مسلم مرد کی اخلاقی تربیت کی ہے کہ خود اس کی اپنی حالت جو قابل رحم ٹھہری۔ اربابِ فتاویٰ نے مگر فلک کج رفتار کی مانند چال ہی الٹی چلی کہ اس کے برعکس خواتین پر گھروں سے باہر نکلنے کی پابندی لگا دی۔
ذہنی زوال و ادبار کا یہ سفر یہاں ہی تمام تھوڑی ہوا کہ مسلم خواتین سے قرآنی احکام حجاب کے علاوہ مزید اضافی پردے کا مطالبہ کیا گیا اور اونچے سروں میں کیا گیا ۔ چہرے اور ہتھیلیوں کے اکتشاف کی جو روایت صدر اول سے ہمارے ہاں ملتی ہے ۔۔۔ اوراس کی صحت اور ثقاہت پر مختلف مفکروں اور متعدد دانشوروں نے دلائل کے انبار لگائے ہیں۔۔۔ اسے بھی یکایک کالعدم قرار دے دیا گیا ۔ وادریغا!جدید سے جدید مفکرین اور جری سے جری مصلحین بھی دراصل اسی مفروضہ اصول ہی کے اسیر رہے کہ ہاں ہاں اگر تمام جسم ڈھانکنے کے بعد بھی چہرہ کھلا رہ گیا تو سماج میں فتنے کا سدِباب کیسے ممکن ہے ؟
احتیاط کے اسی فلسفہ نے عرصہ ہائے دراز سے مسلمانوں کی نصف قوت منجمد اور مفلوج کر رکھی ہے ۔ اسلامی نظریاتی کونسل سے دردمندانہ صدا کی جانی چاہئے کہ قدیم فقہی ڈھانچے اور روایتی تشریحی شاکلے میں غم وغصہ کا اظہار کرنے کی بجائے اس نازک اور حساس مسئلہ کا ازسر نو خالص وحی الہی کی روشنی میں جائزہ لے ۔۔۔ بلکہ درست تر معنوں میں محاکمہ کرے۔ دکھ تو یہ بھی ہے کہ جو لوگ امت مسلمہ میں نشاۃ ثانیہ کے لئے اٹھے تھے یا جو اجتہادی تحریک کے داعی تھے ۔۔۔ ان کی بھی تمام تر تگ وتاز اور کدو کاوش عورتوں کو قابو میں رکھنے پر ہی صرف ہوا کہ مردوں کی اخلاقی تربیت اور اصلاح کا کام ان کے ہاں بھی محور سے دور پڑا سسکتا رہا۔ مذہب اور تاریخ کا طالب علم خوب واقف کہ عہد نبوی کے مسلم معاشرے میں خواتین کا بازاروں میں آنا جانا، اپنے کاروبار کی دیکھ ریکھ ، ان کے ناموں اور چہروں کا معروف ہونا اور مساجد میں شرکت عام سی بات تھی ۔ خلفائے راشدین کے عہد زریں میں سیاسی معاملات پر ان سے مشاورت کی جاتی ۔۔۔ معروف و مسلمہ صحابیہ کے علاوہ مدینہ میں دوسری صائب الرائے خواتین کی بھی کمی نہ تھی کہ جن سے خلیفہ ثانی نے خلیفہ ثالث کے انتخاب کے لئے کمیٹی تشکیل دیتے وقت مشورہ کرنا ضروری جانا۔
خلافت عباسیہ کے دور میں ہمارے رویے نے عورت کے باب میں ایسی کروٹ بدلی کہ بس توبہ بھلی۔ صنفِ نازک کے ضمن میں رہبانہ مسیحی اور بدھ ثقافت کے ایسے ایسے متعصبانہ خیالات واحساسات اسلامی ادب میں راہ پا گئے کہ آج تک ان سے ہمارا پیچھا نہیں چھوٹا۔ کہا جاتا ہے متبعین مسیح مدت مدید تک اس بارے بحث کیا کیجئے کہ عورت کی روح بھی ہوتی ہے یا نہیں؟ ان کے ہاں آدم کی غلطی کا بنیادی جواز حوا کو قرار دینے کا خیال خام عام ہے ۔ مسیحی اور بدھی علمی دنیا میں آج بھی یہ التباس فکری چلا آتا ہے کہ عورت مرد کی پسلی سے پیدا کی گئی اور اسے علیحدہ حیثیت سے کیسے قبول کیا جا سکتا ہے؟ اس کے برعکس اسلام میں مردو زن کو شخصیت کی یکساں سطح پر مکمل علیحدہ وجود کے طور پر تسلیم کیا گیا ۔ جدت کے جادے پر چلتے ہوئے سماج کہ ہندوستان ہو یا پھر پاکستان ، ان کو توچھوڑیئے۔ سعودیہ عربیہ اور ایران کے روایت پرست اور قدیم معاشرے میں بھی کتاب و سنت کا راست علم رکھنے والی اور دل دردمند اور فکر ارجمند پانے والی عورتیں پوری شدت کے ساتھ سوال اٹھانے چلی ہیں کہ آخراحتیاط کے فلسفے کی آڑ میں ہمیں سماجی سرگرمیوں سے کیسے معزول کیا جا سکتا ہے ؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمیں الگ حیثیت سے قبول کرنے کی بجائے عزیزو اقارب یا محرم مردوں کے فقط حاشیہ بنے رہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے ؟ سچ پوچھئے تو فقہاء و شیوخ کو دیر سویر تشریح و تعبیر ، احکامات کے استنباط و استخراج اور مصالحت و حکمت کے تعین کا ازسر نو جائزہ لینا ہو گا کہ زندہ سماج میں ہر مسلمہ ہر لمحہ قابل جرح ہے۔
ح