ابو جماز
رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 50
- ری ایکشن اسکور
- 95
- پوائنٹ
- 64
میرے نانا ڈاکٹرحافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ کا علمی مقام کیا ہے، یہ ایک الگ موضوع ہے. انکی کئ خصلتیں ایسی ہیں جن سے میں بہت متاثر ہوں. انکی ایک خصلت کا تذکرہ میں ہمیشہ کرتا ہوں اور وہ یہ کہ ہم جب بھی ان کے پاس ملنے جائیں تو وہ سب کو ماتھے پر بوسہ دیتے ہیں. بچوں کو ملے یا نہ ملے بچیوں کو ضرور پیار دیتے ہیں اور پھر وہاں یہ فرق نہیں کرتے کو کون زیادہ قریبی ہے اور کون دور کا. اس بات کا اندازہ مجھے تب ہوا جب وہ ہمارے گھر میں آئے اور ہر ایک کو بوسہ دیا. جب گھر میں کام کرنے والی چھوٹی لڑکی نے بھی آگے بڑھ کر سلام کیا تو نانا جان خود آگے بڑھے حلانکہ کمزوری سے ٹانگیں لرز رہیں تھیں اسکے باوجود آگے بڑھے اور اسے بھی بالکل اسی طرح سر پر بوسہ دیا جس طرح میری والدہ اور بہنوں کو دیا.
اسی طرح جب بھی ہمارے ہاں کوئ قرآن حفظ کرے تو وہ خود اس کی ایک بڑی دعوت کرتے ہیں جس میں وہ تمام گھر والوں کو بلاتے ہیں اور حافظ کا وزن کیا جاتا ہے اور وزن کے برابر مٹھائ تقسیم کی جاتی ہے اور یہ نانا جان ہی کرتے ہیں. ایک دن ہمیں نانا جان کے گھر خصوصی دعوت پر بلایا گیا. وہاں پہنچ کر پتا چلا کہ ملازمہ نے ہماری خاندانی حفظِ قرآن کی روایت سے متاثر ہوکر قرآن پڑھنا شروع کیا. غالبا اس نے ناظرہ قرآن ختم کیا یا پہلا سپارہ حفظ کیے اور تمنا کی کہ اس وقت جتنے بھی گھر میں افراد موجود تھے انکو اپںی خوشی میں شریک کرتے ہوئے کچھ کھلائے. جب نانا جان کو پتا چلا تو انہوں نے خود ایک بڑی دعوت کا انتظام کیا اور سب کی موجودگی میں کہا، ’’کہ یہ بھی میری بیٹی ہے اور میں فرق نہیں کرتا، جو میرے گھر میں ہو چاہے وہ میری بیٹی ہو چاہے بہو ہو یا ملازمہ میرے لیے سب برابر ہیں.‘‘
اور واقعی کسی کو بتائے بغیر یہ پتا نہیں چلتا تھا کہ وہ ملازمہ ہے یا انکی کوئ نواسی وغیرہ. اور یہی بات انکی اولاد نے بھی اپنائ الحمد للہ! آج بھی ہمارے گھر میں چاہے کھانے کی کوئ چیز ہو، یا کوئ رہنے کی جگہ ہو تو پردے کے اہتمام کے علاوہ اور کوئ فرق نہیں کیا جاتا. اور ظاہر ہے یہ رویّے انسان اپنے بڑوں سے ہی سیکھتا ہے.
اللہ انکی لغزشوں کو معاف فرمائے اور انکی عمر، ایمان اور علم میں برکت فرمائے. آمین!
اسی طرح جب بھی ہمارے ہاں کوئ قرآن حفظ کرے تو وہ خود اس کی ایک بڑی دعوت کرتے ہیں جس میں وہ تمام گھر والوں کو بلاتے ہیں اور حافظ کا وزن کیا جاتا ہے اور وزن کے برابر مٹھائ تقسیم کی جاتی ہے اور یہ نانا جان ہی کرتے ہیں. ایک دن ہمیں نانا جان کے گھر خصوصی دعوت پر بلایا گیا. وہاں پہنچ کر پتا چلا کہ ملازمہ نے ہماری خاندانی حفظِ قرآن کی روایت سے متاثر ہوکر قرآن پڑھنا شروع کیا. غالبا اس نے ناظرہ قرآن ختم کیا یا پہلا سپارہ حفظ کیے اور تمنا کی کہ اس وقت جتنے بھی گھر میں افراد موجود تھے انکو اپںی خوشی میں شریک کرتے ہوئے کچھ کھلائے. جب نانا جان کو پتا چلا تو انہوں نے خود ایک بڑی دعوت کا انتظام کیا اور سب کی موجودگی میں کہا، ’’کہ یہ بھی میری بیٹی ہے اور میں فرق نہیں کرتا، جو میرے گھر میں ہو چاہے وہ میری بیٹی ہو چاہے بہو ہو یا ملازمہ میرے لیے سب برابر ہیں.‘‘
اور واقعی کسی کو بتائے بغیر یہ پتا نہیں چلتا تھا کہ وہ ملازمہ ہے یا انکی کوئ نواسی وغیرہ. اور یہی بات انکی اولاد نے بھی اپنائ الحمد للہ! آج بھی ہمارے گھر میں چاہے کھانے کی کوئ چیز ہو، یا کوئ رہنے کی جگہ ہو تو پردے کے اہتمام کے علاوہ اور کوئ فرق نہیں کیا جاتا. اور ظاہر ہے یہ رویّے انسان اپنے بڑوں سے ہی سیکھتا ہے.
اللہ انکی لغزشوں کو معاف فرمائے اور انکی عمر، ایمان اور علم میں برکت فرمائے. آمین!