کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
ڈرو اس وقت سے جو ہے آنے والا!!...
کالم: انور غازیہفتہ 24 اکتوبر 2015م
جوہری سائنسدانوں نے انتہائی خوفناک اور شدت کے ساتھ زلزلے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ یہ اس قدر خطرناک ہو گا کہ براعظموں کو جدا کر دیگا اور اس سے کروڑوں لوگ ہلاک ہوجائیں گے۔ شمالی اور جنوبی امریکہ کے براعظم ٹوٹ کے الگ ہوجائیں گے۔ میگا سونامی کے ٹکرانے سے امریکہ اور ایشیا میں تقریبا 4 کروڑ افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ زلزلہ آنے کے قریب ہے۔ یونیورسٹی آف لندن میں جوہری انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے ایک ڈاکٹر نے ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ سونامی اور زلزلہ اس قدر شدید ہو گا کہ صرف امریکہ کے مغربی ساحل پر 2 کروڑ افراد ہلاک ہو جائیں گے۔
کئی لوگوں نے حفاظتی تدابیر کرنا شروع کر دی ہیں۔ انہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سائنس دانوں نے Svalbard نامی جزیرے میں تمام جینز کو محفوظ کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ قارئین! پس منظر کے طور پر یاد رکھیں کہ ’’سوالبارڈ‘‘ نارتھ پول اور ناروے کے بیچ میں واقع ایک ٹھنڈا جزیرہ ہے۔ یہ دنیا کا سب سے سرد علاقہ ہے۔ اس کا درجۂ حرارت ہمیشہ منفی ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ اس میں ’’حفاظتی تہہ خانہ‘‘ بنایا گیا ہے۔ یہ سمندر کی سطح سے 130 میٹر بلند ہے۔ جو کسی بھی سمندری آفت یا سطح سمندر کے بڑھنے کے خطرات سے محفوظ رہے گا۔ اس میں تین والٹس بنائے گئے ہیں جن میں 15 لاکھ بیجوں کے سیمپلز فی والٹ رکھے جا سکتے ہیں۔ مجموعی طورپر 45 لاکھ نمونے رکھے جا سکتے ہیں۔ یہاں کا درجۂ حرارت منفی 18 ڈگری رکھا جائے گا جو کہ ان بیجوں اور جینز کی عرصہ دراز تک حفاظت کیلئے ضروری ہے۔
19 جون 2006ء کو اس گلوبل سیڈ والٹ کا سنگِ بنیاد ناروے، سویڈن، فن لینڈ، ڈنمارک اور آئی لینڈ کے وزرائے اعظم نے رکھا تھا اور 26 فروری 2008ء کو اسے مکمل کر لیا گیا تھا۔ متعلقہ اداروں کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں 60 لاکھ مختلف اقسام کے بیج مختلف ملکوں کے جینز بینکوں میں محفوظ ہیں لیکن یہ تمام بینک قدرتی آفات اور نیوکلیئر جیسے خطرات سے بچے ہوئے نہیں جس کے باعث ان کی بقا یقینی نہیں۔ ان خطرات کے پیش نظر سائنس دانوں کی ایک کمیٹی اس بات پر متفق ہوئی ہے کہ ہمیں اس بنیادی ضرورت کی حفاظت اور بقا کیلئے ’’کرۂ ارض پر بدترین صورتِ حال‘‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے… جس میں کوئی بہت بڑی قدرتی آفت کی وجہ سے یا نیوکلیئر وار کی وجہ سے کسی ملک یا خطے کی زمینی پیداواری صلاحیت کا یکسر ختم ہوجانا… کوئی خاص بیج کی نسل کا دنیا سے یکسر ختم ہو جانا جیسے خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی انتہائی جدید اور محفوظ انتظام کرنا ہو گا۔
اس سلسلے میں انہوں نے ’’گلوبل سیڈ والٹ‘‘ پر کام شروع کیا تھا۔ اس صدی میں ایٹمی دوڑ کی وجہ سے فطرتی نظام بری طرح مجروح ہوا ہے۔ فضا میں اس قدر آلودگی ہے کہ سائنسدانوں اور ماہرین فلکیات و ارضیات کے مطابق آئندہ سالوں میں شدید گرمی، حبس اور سردی ہو گی۔ دنیا تیزی سے اپنے منطقی انجام کی طرف جا رہی ہے۔ اس بات پر سبھی متفق ہیں اگر اب تیسری عالمی جنگ… جو کہ ایٹمی جنگ ہو گی… چھڑ گئی تو اتنی تباہی آئے گی کہ شاید حضرت نوحؑ کے دور کی طرح پوری دنیا ختم ہو کر رہ جائے۔ ماہرین کی مختلف رپورٹوں کے مطابق آئندہ سالوں میں خوفناک زلزلے، سیلاب، آندھی طوفان اور تباہی آنے کا شدید امکان ہے۔ ویسے گزشتہ چند سالوں سے امریکہ، یورپ، ایشیا پوری دنیا میں ہولناک طوفان اور زلزلے آبھی چکے ہیں۔ سونامی کی تباہی کے آثار اب تک ہیں۔
8 اکتوبر 2005ء میں پاکستانی علاقوں سرحد اور کشمیر میں آنے والے شدید ترین زلزلے کی صورت میں ایک ایسا کرب ناک انسانی حادثہ پیش آیا تھا جس کے نتیجے میں آناً فاناً سوا لاکھ سے زائد انسان مر گئے تھے۔ ہزاروں معذور اور لاکھوں زخمی ہوئے تھے۔ زندگی کا دھارا اس طرح بکھرا تھا کہ آج کئی سال گزرنے کے بعد بھی حالات معمول پر نہیں آ سکے ہیں۔
میانمار میں اس قدر شدید زلزلہ آیا تھا کہ گائوں کے گائوں، شہر کے شہر صفحۂ ہستی سے مٹ گئے تھے۔ 2 لاکھ سے زائد افراد مارے گئے تھے۔
12 مئی 2008ء کو چین میں بھی شدید زلزلہ اور طوفان آیا تھا۔ اس کے اثرات اور آثار اب تک موجود ہیں۔ زلزلے، حوادث اور طوفانوں سے متعلق سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیوں آتے ہیں؟ اس کے مختلف مادی اور روحانی اسباب ہیں۔
قرآن میں اللہ فرماتے ہیں:
’’زمین اور آسمان میں جو فساد ظاہر ہوتا ہے اس کا سبب انسانوں کے اپنے اعمال ہی ہیں۔‘‘
انسان جیسے اعمال کرتا ہے ویسے ہی اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ ایسے حوادث کے ذریعے اللہ تنبیہ کرتے ہیں کہ توبہ اور رجوع کریں۔ یہ علاماتِ قیامت میں سے ہیں۔ آپؐ کے زمانے میں زمین ہلنے لگی تو آپؐ نے زمین پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:
’’ٹھہر جا! ابھی قیامت کا وقت نہیں آیا۔‘‘
اور پھر آپؐ نے لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا:
’’اپنے گناہوں سے توبہ کرو اور معافی مانگو۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زلزلوں اور حوادث کا ایک بڑا سبب گناہ، ناانصافی اور ظلم وستم بھی ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں زلزلہ آیا تو آپ نے فرمایا:
’’اس زلزلے کا سبب لوگوں کے گناہ ہیں۔‘‘
عمر بن عبدالعزیزؒ کے زمانے میں زلزلہ آیا تو آپ نے فرمایا:
’’اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ تنبیہ فرما کر توبہ واستغفار کروانا چاہتے ہیں۔‘‘
ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اللہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنہری اور ابدی تعلیمات کی روشنی میں سوچنا اور غوروفکر کرنا چاہئے۔ ہمیں غیرمسلم اور لادینوں کی طرح سوچنے کی چنداں ضرورت نہیں۔
اہم بات یہ ہے ہر چیز کے دو اسباب ہوتے ہیں: ایک روحانی دوسرا مادی۔ زلزلے، طوفان اور سیلاب کے دونوں پہلوئوں کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ اسلام نے مادی اسباب سے قطعاً منع نہیں کیا بلکہ زمینی حقائق کو تسلیم کیا ہے۔ یہ تاثر بھی غلط ہے کہ مسلمان صرف روحانی سبب کو ہی لیتے ہیں اور مادی کو بھول جاتے ہیں۔ بے شک زمین کے اندر ایسے بخارات ہیں جو محتبس ہوجاتے ہیں اور نکلنا چاہتے ہیں۔ اگر زمین کے مسام تنگ ہوجاتے ہیں تو ان کی حرکت سے زمین حرکت کرنے لگتی ہے۔ بعض ان بخارات کی علت اجزائے ناریہ کو بتلاتے ہیں جو کوہِ آتش فشاں کے گردوپیش مجتمع ہوجاتے ہیں۔ بعض آثارِ طبیعہ سے اسی کی علت کا ہونا صحیح ثابت ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر یہ زلزلے، طوفان اور عذاب انسانوں کے گناہوں کے سبب ہیں تو پھر یہ آفات غیرمسلم ممالک اور خصوصاً اللہ کے نہ ماننے والوں پر آنی چا ہئیں۔
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر کیوں؟ اس کا جواب یوں سمجھئے! جس طرح اگر کسی شخص کا دورانِ خون ہی خراب ہو جائے تو پھوڑے پھنسیاں کہیں بھی نکل سکتی ہیں۔ اسی طرح مجموعی طورپر جب انسانوں کے اعمال… خواہ مسلم ہوں یا غیرمسلم… خراب ہوجائیں۔ ہرطرف ظلم وستم، ناانصافی اور گناہوں کا راج ہو تو اس کے اثرات کہیں بھی ظاہر ہو سکتے ہیں۔ غور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ عذاب، زلزلے اور طوفان ہمیشہ مسلمانوں ہی کے علاقوں میں نہیں آتے بلکہ امریکہ، یورپ، جاپان، چین اور دیگر ممالک میں بھی آتے رہے ہیں۔ اب بھی سائنسدان اور ماہرین اس بات کا ببانگِ دہل اعلان کر رہے ہیں کہ آئندہ سالوں میں تاریخ کا بدترین قحط پڑے گا۔ طوفان، زلزلے اور آفات آنے والی ہیں جس سے ملک اور نسلیں ختم ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔ اے دنیا کے لوگو! ڈرو اس وقت سے جو ہے آنے والا اور پناہ مانگو! ربّ کائنات سے جو توبہ قبول کرنے والا ہے۔
ح