ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر حملہ
گزشتہ رات طالبان نے پاکستان میں ڈیرہ اسماعیل خان کی سینٹرل جیل پر حملہ کیا اور تقریباً 243 قیدیوں کو چھڑا کر لے گئے۔طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے حملے میں دو سو کے قریب ساتھیوں کو رہا کرا لیا ہے۔گزشتہ سال اپریل میں خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کی سینٹرل جیل پر طالبان نے حملہ کر کے تین سو چوراسی قیدیوں کو رہا کروا لیا تھا، فرار ہونے والے قیدیوں میں زیادہ تر طالبان شدت پسند تھے۔
گزشتہ پندرہ ماہ میں ہونے والے اس دوسرے بڑے حملے میں بھی تمام سکیورٹی ادارے ناکام نظر آئے۔ آپ کے خیال میں ذمہ داری کس کی ہے، مرکزی انٹیلیجینس یا صوبائی حکومت کی؟ آپ کے خیال میں کیا شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کو ان جماعتوں کی حکومتیں روک پائیں گی جو ان سے مذاکرات پر یقین رکھتی ہیں؟
شائع شدہ: 7/30/13 11:01 AM GMT
بی بی سی
تبصرے بھی
بی بی سی
تبصرے بھی
وقت ارسال : 7/30/13 3:30 PM GMT
مذاکرات کی بجائے جوتے مار مار کر سيدھا کرنا چاہيے ان شدت پسندوں کو۔
اسماء، پيرس
حکام نے 243 قیدیوں میں سے 14 کو دوبارہ گرفتار کر لیا ہے۔ امید ہے باقی 229 کو بھی گرفتار کر لیں گے۔ جب ہماری سکیورٹی فورسز اتنی فعالیت کا مظاہرہ کر رہی ہیں تو پھر مذاکرات کر کے امریکہ اور مذاکرات مخالفیں کا دل توڑنے کی کیا ضرورت ہے۔
ضياء سيد
یہ دہشت گرد اتنے منظم ہیں کہ جیل خانے کی حفاظتی تعداد اور اسلحہ ان کے لیے ناکافی ہے۔ اس تعداد کو بڑھانے کی ضرورت ہے لیکن سب سے ضروری یہ ہے کہ ان کو راہ راست پر لانے کی ترکیب دریافت کر کے اس پر پوری تندہی سے عمل کیا جائے۔ ان سے لڑنے کے لیے تو پوری مسلح افواج بھی ناکافی ہیں۔ دانشوروں اور اثر و رسوخ رکھنے والے علمائے دین کو آگے آنا چاہیے اور جاسوسی کے اداروں کو ان کا صحیح کھوج لگانا چاہیے۔ اسلحہ گولہ بارود کون کون سے راستوں سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے اس کو روکنے کا بندوبست ہونا چاہیے۔
عقیل احمد صدیقی، دوبئی
واقفان حال کا کہنا ہے گذشتہ رات ڈی آئی خان جیل حملہ کے دوران مسلح حملہ آوروں نے نہ صرف باآسانی اپنی کارروائی مکمل کی بلکہ جاتے ہوئے شیعہ مسلک کے قیدیوں کے گلے کاٹ گئے۔ان مسلح افراد نے بندوق سے گولی کیوں نہیں چلائی وہ ان کو بہتر طور پر معلوم ہے۔اس کو کہتے ہیں ایک تیر سے دو شکار لیکن یہ بڑا گھناونا عمل ہے جس کی بھرپور مذمت کی جانی چاہیے۔کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ کسی کو مسلکی اختلاف کی وجہ سے جینے کے حق سے محروم کردے
Dr Alfred Charles، Karachi
آداب عرض! پاکستانی موجودہ حاکموں کے پاس وہ ذرائع يعني اتفاق راۓ موجود ہی نہيں کہ وہ دہشت گردوں يا مجرم طبع لوگوں کے خلاف قانونی کاروائی کر سکيں. سياسی پارٹيوں ميں گويا عوام کی اکثريت کے دلوں ميں دہشت گردوں کيلۓ ہمدردی ہے۔ لہٰذا حکومت ميں حکومت کا موجود ہونا گويا جائز سمجھا جا رہا ہے. بلکہ دہشت گردوں کو پاکستانی لوگ مجاہدين تصور کرتے ہيں. جيل، فوج، اور اسٹيبلشمنٹ ميں ہر جگہ دہشت گردوں کے ہمدرد موجود ہيں. قبائيلی ذہن کے معاشرہ ميں عام بندے کی حفاظت آسمان سےـ ـ ـ شکريہ
وکٹر بھانا، Toronto، کینیڈا
ڈی آئی خان میں ہونے والا یہ حملہ اسامہ آپریشن کی مثال ہے کہ کاکول اکیڈمی کی ناک کے نیچے امریکی اتنا بڑا کام کر گئے اور ڈی آئی خان سینٹرل جیل پر ہونے والا یہ حملہ بھی پاکستان کے سب سے بڑے ڈی ایس جی سینٹر سے چند قدم کے فاصلے پر ہوا۔
اعتزاز حسن، ڈیرہ اسماعیل خان
کہاں ہيں ہمارے سيکورٹی کے ادارے بيس گاڑيوں پر آئے طالبان آرام سے فرار بھی ہو گئے ان سب کو ميزائل مار کر اڑا دينا چايئے تھا
shah، islamabad
آداب عرض! ہم اور آپ اپنے معاشرہ کی ساخت و شناخت کو بہت اچھی طرح سے جانتے ہيں. مسلم ليگ اور پاکستان تحريک انصاف دونوں پارٹياں طالبان اور دہشت گردوں کو عزت کی نظر سے ديکھتے ہيں اور تاثر يہ بن رہا ہے کہ يہ لوگ طالبان سے خائف بھی ہيں. لہٰذا يہ سب لوگ امن کے خواہاں ہونے کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں سے اختلاف کرنے پر گريز کر رہے ہیں۔ دہشت گردی سے متاثر تو عام طور پر عالم سرکاری ملازم يا شہری ہو رہا ہے اور بڑے لوگوں کے کاروبار اور سب کچھ تو بہرحال محفوظ تھے اور ہيں پھر کيا ؟ ـ ـ ـ شکريہ
وکٹر بھانا، Toronto، کینیڈا
پاکستان میں حقیقت میں حکومت فوج کی ہے۔ سیاسی پارٹیاں چاہے جو بھی ہوں صرف اقتدار میں شراکت کرتی ہیں۔ اس کے پاس اختیار بھی نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو صرف اتنا کہ کھاو پیو مزے اڑاو اور پوچھنے کی جرات مت کرو۔ سب لوگ اپنی ذہنی استعداد کے مطابق رائے دیں گے۔ میری ناقص رائے میں یہ پاک فوج کی طرف سے طالبان کے نرم گوشہ ہے۔ جو کہ 2014 کے بعد طالبان کی رائے اپنے حق میں کرنا ہے۔ اور یہ واقعہ پاک فوج کی طرف سے پلان لگتا ہے۔ اور سیاسی حکومت چاہے صوبائی ہو یا مرکزی طالبان کے خلاف کچھ بھی نہیں کرسکتی۔
qaisar، peshawar
ڈی آئی خان جیل پر حملہ انتظامیہ کی مکمل ناکامی بلکہ نااہلی کا کھلا ثبوت ہیں۔ حملہ آوروں نے پہلے سے اچھی ریکی اور تیاری کی ہوئی تھی۔انہوں نے بظاہر اطمینان سے اپنے ہداف حاصل کئے۔اب روایتی طور پر بطور طفل تسلی کہا جا رہا ہے کہ انٹیلیجنس والوں نے پہلے ہی بتا دیا تھا۔ بتا دیا تھا تو حفاظتی اقدامات سخت کیوں نہ کئے گئے؟ رات کے اندھیرے میں انتظامیہ کو تو کچھ نظر نہ آیا مگر حملہ آور اپنے 245 کے قریب بندوں کو چھڑواکے لے گئے۔کیا یہ حیران کن بات نہیں؟ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کو اندر سے مدد حاصل تھی
Dr Alfred Charles، Karachi