سرفراز فیضی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 22، 2011
- پیغامات
- 1,091
- ری ایکشن اسکور
- 3,807
- پوائنٹ
- 376
کاش اب کوئی بجھادے مری آنکھوں کے دیے
تحریر : شعبان بیدار
-----------------------
عبد الحمید رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پرملال کا جب پتہ چلا تو میرے لیے یہ خبر نہ تو بجلی بن کر گری اور نہ آنکھوں میں آنسووں کی قطار آئی۔میری حالت بلکہ ہر بابصیرت کی حالت اس مریض کی طرح تھی جو اپنی حیات کی گھڑیاں گن رہا ہو، پے در پے اس کا ایک عضو سوکھ رہا ہو، اس کے پاس اب نہ تو آنسو بچے ہوں اور نہ تو آہ وبکا کی قوت ، وہ مہربلب یاس انگیز نگاہوں سے اپنے بکھرنے کا تماشا دیکھ رہا ہو۔
ہم مولانا رحمانی کے تعلق سے قلم چلانے کا کوئی حق نہیں رکھتے سوائے اس کے کہ آپ کی شخصیت کے جو نقوش مختلف ذرائع سے ہمارے ذہنوں میں تازہ ہیں ان کے حوالے سے کوئی تاثراتی تحریر قلمبند کریں۔
ایڈیٹر محترم سے بات کرتے ہوئے مولانا کی وفات پر جو پہلا جملہ میری زبان سے ''انا للہ'' کے بعد نکلا وہ یہی کہ ''میدان خالی ہوتا جارہا ہے''... اگر کسی نفس کو اپنی کیفیات اور اپنے جذبات کی پرکھ حاصل ہے ، اگر کسی نفس کو اپنی ذات پر کچھ اطلاع ہے تو بلاشبہ یہ جملہ میرے درد کا آخری درجے کا اظہار تھا۔ مولانا رحمانی سے نہ تو کوئی نسبی تعلق ہے اور نہ تو علمی یعنی استاذی وشاگردی کا بلکہ یہ میری بدقسمتی کہیے کہ میں نے مولانا کو جانا تو ہے مگر دیکھا نہیں ہے۔ آپ اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکے تھے، ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ مقام فکر یہ ہے کہ مولانا کی وفات احتساب کا پوائنٹ بن چکی ہے ۔ جماعت میں رجال کتنے ہیں، جو رجال ہیں ان کا حشر کیا ہے، ان کے اعزاز، ان کے ادب واحترام کا ہمارے یہاں پیمانہ کیا ہے اور آئندہ کے لیے امید کتنی ہے یہ قومی لیول کا المیہ ہے ۔ مولانا رحمانی کو ایک دن جانا تھا وہ چلے گئے ۔ اب آگے کیا مولانا کی حیات وخدمات پر تحریروں کا ایک بے ربط انبار ہی آئے گا یا علمی وراثت کے احتفاظ پر عمل درآمد بھی ہوگا؟
http://thefreelancer.co.in/show_article.php?article=932