• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کاش! میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا

شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
کاش! میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا

دوستی کوئی عام بات نہیں ہے۔ یہ مسلمان کے عقیدے کے اصول میں سے ایک اصل ہے۔ بچپن ہو یا جونی ہو یا بڑھاپا ہو، دوست عمر کے ہر حصے میں انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ لہذا ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ ایک مسلمان جسے چاہے اسے دوست بنالے اور اس سے اس کے ایمان، اس کے عقیدے، اس کے دین، اس کی زندگی اور اس کی دنیا و آخرت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ہر ملنے والا یا ساتھ بیٹھنے والا دوست نہیں ہوتا۔ دوست خود بخود نہیں بنتا۔ دوست کا انتخاب انسان خود کرتا ہے۔

شادی اور دوستی یہ دونوں ایسے رشتے ہیں جن میں انسان اپنے پارٹنر کا انتخاب خود کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن امور میں انسان کو اختیار دیا ہے ان میں رہنمائی بھی فرمائی ہے۔ اس لئے دوست بنانے کے معاملے میں شریعت میں واضح احکام موجود ہیں۔ لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت یہ جانتی ہی نہیں کہ اپنے دوستوں کا انتخاب کرتے وقت ان پر شریعت کے احکام لاگو ہوتے ہیں۔

مگر شرعی احکام کو جاننے سے پہلے ہم یہ جان لیں کہ دوست کسے کہتے ہیں؟ تو دوست وہ ہوتا ہے جسے ہم پسند کرتے ہیں، جس کے ساتھ ہماری دلی محبت ہوتی ہے، جس کے ساتھ ہم اپنی دل کی باتیں، اپنے خیالات و جذبات، اپنا دکھ و درد شیئر کرتے ہیں۔ لیکن کسی کو دوست بنانے کے لئے ہماری پسند، ہماری محبت اور ہمارا دلی لگاؤ کا ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس معاملے میں بھی ایک مسلمان کو شریعت کا پابندی ہونا ضروری ہے۔ شرعاً کس بنیاد پر ہم کسی کو دوست بنا سکتے ہیں یہ جاننا بہت اہم ہے تاکہ ہم دیکھ لیں کہ اب تک ہم جسے دوست بنائے ہوئے ہیں وہ شرعی طور پر ہمارے دوست بننے کے لائق ہیں یا نہیں اور ان کے ساتھ ہم جنت میں جائیں گے یا وہ ہمیں جہنم کی طرف لے جانے والے ہیں۔

"اور ہمیں کیا ہوا ہے کہ ہم اللہ پر اور اس حق بات پر جو ہمارے پاس آئی ہے ایمان نہ لائیں جبکہ ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں اپنے نیک بندوں کے ساتھ (جنت میں) داخل کرے گا" ۔ ۔۔ وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَن يُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِينَ ‎﴿٨٤﴾‏ سورة المائدة

بے شک ہم میں ہر بندۂ مومن یہ امید رکھتا ہے کہ ہمارا رب ہمیں اپنے نیک بندوں کے ساتھ جنت میں داخل کرے گا تو اس کے لئے اللہ کے نیک بندوں کو دوست بنانا ضروری ہے۔ اسی لئے ہمارے رب نے ہمیں نیک لوگوں پیچھے چلنے اور ان کے ساتھی بننے کی دعا کی تعلیم دی ہے، فرمایا:

اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ‎﴿٦﴾‏ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ‎﴿٧﴾‏ سورة الفاتحة
ہمیں سیدھے راستے پر چلا (6) ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام فرمایا، ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کا (7) سورة الفاتحة

لیکن افسوس کہ لوگ ہر نماز میں یہ دعا مانگتے ہیں، لیکن دوست بنانے کے سلسلے میں اپنی ہی مانگی ہوئی دعا کے مطابق عمل نہیں کرتے بلکہ فاسق و فاجر اور بعض مشرک و کافر کو دوست بنا لیتے ہیں۔ جبکہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں مومن متقی پرہیزگار بندے کو دوست بنانے کی تلقین فرمائی ہے۔

ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”مومن کے سوا کسی کی صحبت اختیار نہ کرو، اور تمہارا کھانا صرف متقی ہی کھائے“۔ (سنن ترمذي: 2395)

یعنی مومن کو دوست بنانا ہے، تب ہی ہمارا ایمان، عقیدہ اور دین سلامت رہے گا اور اگر کھانا کھلانا ہے تو متقی و پرہیزگاروں کو کھلایا جائے ، کیونکہ دعوت سے آپسی الفت و محبت میں اضافہ ہوتا ہے، اس لیے کوشش یہ ہو کہ الف و محبت کسی متقی اور پرہیزگار شخص سے ہو کیونکہ جس کے ساتھ محبت ہوگی کل قیامت کے دن اسی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک دیہاتی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ﷺ! قیامت کب قائم ہوگی؟ نبی ﷺ نے فرمایا: تم نے قیامت کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے کہا کہ میں نے کوئی بہت زیادہ اعمال تو مہیا نہیں کر رکھے، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ "میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں" ، نبی ﷺ نے فرمایا: "انسان قیامت کے دن اس شخص کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ وہ محبت کرتا ہے (إِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ)"۔ (مسند احمد ۔ جلد پنجم ۔ حدیث 1672)

اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”انسان اس کے ساتھ ہے جس سے وہ محبت رکھتا ہے“۔ (صحيح البخاري: 6168)

اور رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ: ”آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیئے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے“۔ (سنن ابي داود: 4833، سنن ترمذي: 2378)

حقیقتاً ہم کسی کی شخصیت دیکھ کر یا اس کی شکل و صورت کی وجہ سے اسے دوست نہیں بناتے بلکہ اس شخصیت کے اندر جو دل ہے اس کے اندر جو افکار و نظریات ہیں، جو اس کا عقیدہ و دین ہے، ہم اس سے دوستی کرتے ہیں۔

ذرا غور کیجئے آج ہم جن کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں جو ہمارے دوست ہیں، جو ہماری پہچان بن چکے ہیں، جو ان کا دین ہے وہی ہمارا دین ہے۔ اگر وہ لوگ گمراہ ہیں، اللہ و رسول اللہ ﷺ کے نافرمان ہیں، شرک و بدعت اور دیگر معصیت میں پڑے ہوئے ہیں تو کل قیامت کے دن جو ان کا انجام ہوگا وہی ہمارا بھی ہوگا کیونکہ قیامت کے دن آدمی اسی کے ساتھ اٹھایا جائے گا جسے وہ دوست رکھتا ہے کیونکہ دوست کی محبت دل میں بسی ہوتی ہے۔

اس لئے اللہ تعالٰی نے مومنوں کو تاکیدی حکم دیا ہے:

لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۔ ۔ ۔ (٢٢) سورة المجادلة
“اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے گو وه ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبہ (قبیلے) کے (عزیز) ہی کیوں نہ ہوں”۔ ۔ ۔ (22) سورة المجادلة

اس آیت میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دشمنوں سے دوستی نہ کرنے کا تاکیدی حکم اور بڑی سخت ممانعت ہے۔

اسی لئے عقلمند آدمی برے ساتھیوں کی صحبت سے اسی طرح بھاگتا ہے جیسے شیر سے بھاگا جاتا ہو کیوں کہ ان کے اندر کوئی خیر و بہتری نہیں ہوتی اور ایسے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے والا انہی کی طرح بگڑ جاتا ہے۔ ارشاد ہے:

وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا ‎﴿٢٧﴾‏ يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا ‎﴿٢٨﴾‏ لَّقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي ۗ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا ‎﴿٢٩﴾ سورة الفرقان

اور اُس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول (ﷺ) کی راه اختیار کی ہوتی (27) ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا (28) اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراه کردیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو (وقت پر) دغا دینے والا ہے (29) سورة الفرقان

آج وقت ہے اپنے دوستوں کو پرکھ لیں، کہیں ان میں کوئی ایسا تو نہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا دشمن ہو، جو ہمارے دین پر اس حد تک اثر انداز ہو کہ ہمیں شرک و کفر تک لے جانے والا ہو یا جس کی وجہ سے ہمارے ایمان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو ہمیں آج ہی اُس سے چھٹکارا حاصل کرلینا چاہئے۔ یاد رکھئے کہ کفر میں جو ظالم اپنے دوست کی اطاعت کرے گا حتی کہ اسی حالت میں مرجائے تو کل قیامت کے دن اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا "ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا" (28) سورة الفرقان

اور یہ بھی یاد رکھئے: " (آج کے) دوست اُس (قیامت کے) دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے، سوائے پرہیزگاروں کے" ۔ ۔ ۔ الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ ‎﴿٦٧﴾‏ سورة الزخرف

بُرے دوستوں کی دوستی کل قیامت کے دن حسرت و ندامت کا باعث ہوگی جبکہ متقی اور پرہیزگار بندوں کی دوستی ہی وہاں کام آئے گی۔ موت کے وقت اگر برے دوست قریب ہوں تو بندہ کلمہ پڑھنے کی سعادت سے بھی محروم ہوسکتا ہے۔

جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم میں موجود ہے کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے۔ دیکھا تو ان کے پاس اس وقت عمرو بن ہشام (ابوجہل) اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ موجود تھے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ چچا! آپ ایک کلمہ «لا إله إلا الله» کہہ دیجئیے تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کلمہ کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا: ابوطالب! کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ رسول اللہ ﷺ برابر کلمہ اسلام ان پر پیش کرتے رہے۔ ابوجہل اور ابن ابی امیہ بھی اپنی بات دہراتے رہے۔ آخر ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔ انہوں نے «لا إله إلا الله» کہنے سے انکار کر دیا۔ (صحيح البخاري: 3884، صحيح مسلم: 132)

لہذا آج ہم میں جو لوگ بڑھاپے میں قدم رکھ چکے ہیں جن کی موت اب بہت قریب ہے انہیں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں پر خاص غور کرنا چاہئے اور برے دوستوں سے فوراً ہی چھٹکارا حاصل کرلینا چاہئے یا کم از کم اپنے بچوں کو وصیت کردینی چاہئے کہ بد عمل، غلط کار و بے دین قسم کے دوست اور رشتہ دار موت کے وقت ان کے قریب بھی نہ آنے پائیں بلکہ متقی و پرہیزگار لوگوں کو بلایا جائے جو موت کی سختی کے وقت انہیں کلمہ طیبہ کی تلقین کریں تاکہ انہیں اس آخری وقت میں کلمہ پڑھنے کی سعادت نصیب ہوجائے اور ان کا آخرت سنور جائے۔

اللہ تعالٰی! مجھے اور آپ سب کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تحریر: محمد اجمل خان
۔
 
Top