کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
کاش کہ یہ بادشاہ اپنے باپ کا ہوتا
بیان کیا جاتا ہے کہ جب نزار بن معد کی وفات کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے متروکہ مال کو چاروں بیٹوں پر تقسیم کر دیا اور ساتھ یہ وصیت کر دی اگر اس معاملہ میں کوئی نزاع وغیرہ پیدا ہو جائے تو میرے دوست افعی سے جو نجران کا بادشاہ ہے فیصلہ کروا لینا چنانچہ ان چاروں بھایئوں کا اپنے والد کی وفات کے بعد جائداد کی تقسیم میں جھگڑا پیدا ہو گیا اور یہ چاروں بادشاہ مزکور سے فیصلہ کروانے کے لیے چل پڑے۔
یہ چاروں اتنے ذہین تھے کہ دوران سفر ایک بھائی کی نظر ایک قطعہ زمین پر پڑی جہاں سے کسی جانور نے گھاس چری تھی تو
* ایک نے کہا کہ جس اونٹ نے یہاں گھاس چری ہے وہ کانا ہے۔
* دوسرا بھائی کہنے لگا وہ اونٹ لنگڑا بھی ہے۔
* تیسرا بولا وہ بدکا ہوا ہے۔
* چوتھے نے کہا کہ اس کی دم بھی کٹی ہوئی ہے۔
ابھی انہوں نے تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ انہیں ایک شخص ملا جو اپنی سواری کا اونٹ کھو چکا تھا اور انتہائی پریشانی کے عالم میں اپنے اونٹ کو تلاش کر رہا تھا اس شخص نے ان چاروں سے اپنے اونٹ کے بارے میں پوچھا کہ کہیں تم نے میرا اونٹ دیکھا ہے
* ایک بھائی بولا کیا تیرا اونٹ ایک آنکھ سے کانا ہے اس نے کہا بالکل کانا ہے۔
* دوسرا بولا کیا وہ لنگڑا بھی ہے اس نے اسکا بھی اقرار کیا۔
* تیسرا کہنے لگا کیا وہ دم کٹا ہے اس نے اثبات میں جواب دیا۔
* چوتھے نے کیاکیا وہ بدکا ہوا ہے اس نے اسکی بھی تصدیق کر دی۔
اور کہنے لگا واللہ یہ سب صفات میرے اونٹ کی ہیں مجھے بتاؤ وہ کہاں ہے انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے تو تیرے اونٹ کو دیکھا بھی نہیں ہے اسے انکی بات پر یقین نہ آیا اور انہیں چمٹ گیا کہ میرا اونٹ تمہارے پاس ہی ہے مجھے دے دو انہوں نے قسم اٹھا دی کہ ہم نے اسے دیکھا بھی نہیں ہے وہ کہنے لگا کہ میں تمہاری قسم پر کیسے اعتماد کروں جبکہ تم نے میرے اونٹ کی ساری علامات بیان کر دی ہیں میں تو اب بادشاہ سے تمہاری شکایت کروں گا کہ ان لوگوں نے میرا اونٹ کہیں چھپا رکھا ہے چنانچہ جب یہ افعیٰ جرہمی بادشاہ کے ہاں پہچنچے تو اس بڈھے نے پکار کر بادشاہ سے کہا کہ آپکے ان مہمانوں نے میرا اونٹ چرایا ہے اسکی دلیل یہ ہے کہ اونٹ کی ساری علامتیں انہوں نے میرے سامنے بیان کر دیں ہیں اور پھر تعجب اس بات پر ہے کہ انکار بھی کرتے ہیں کہ ہم نے اس اونٹ کو دیکھا بھی نہیں ہے
افعی نے ان چاروں بھائیوں سے سوال کیا کہ جب تم نے اسکو دیکھا بھی نہیں تو اسکی تمام علامات کیسے بیان کیں
* ایک بھائی کہنے لگا کہ میں نے دیکھا کہ ایک سمت سے گھاس چری گئی ہے اور دوسری طرف کی گھاس کو نہیں چھیڑا گیا تو میں سمجھ گیا کہ وہ اونٹ یقیناً کانا ہے۔
* دوسرا بھائی بولا کہ میں نے اسکے قدموں کے نشانات کو دیکھا تو ایک قدم کا نشان مکمل نہیں تھا میں نے سمجھ لیا کہ اس پاؤں سے وہ لنگڑا ہے۔
* تیسرا بولا کہ میں نے دیکھا کہ اسکی مینگنیاں ایک ہی جگہ اکٹھی پڑی ہیں میں نے سوچا کہ اگر اس اونٹ کی دم موجود ہوتی تو اس کے دم ہلانے سے مینگنیاں بکھر جاتیں ثابت ہوا کہ اسکی دم کٹی ہوئی ہے۔
* چوتھے نے کہا میں نے دیکھا کہ زمین کا ایک ایسا حصہ جہاں گھاس خوب گنجان ہے وہاں سے کچھ گھاس کھائی گئی اور پھر دوسری ایسی جگہ کی گھاس کھائی گئی جو اس سے خراب اور بدتر جگہ ہے اور وہاں گھاس بھی کم ہے تو میں نے سمجھ لیا کہ وہ بدکا ہوا ہے ورنہ وہ ایک ہی جگہ سے گھاس کھاتا رہتا۔
افعی نے جب ان کا یہ بیان سنا تو انکی ذہانت سے بڑا متاثر ہوا اور اس بڈھے کو کہا کہ ان کا تیرے اونٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے جا اور کہیں اور جا کر تلاش کر
پھر ان سے پوچھا کہ تم کون ہو اور کیسے آئے ہو وہ بولا کہ ہمارے والد صاحب تمہارے والد صاحب کے دوست تھے انہوں نے مرنے وقت وصیت کی تھی چنانچہ ہم آپکو اپنا حکم مان کر فیصلہ کروانے آئے ہیں آپ کے والد صاحب بہت اچھے آدمی تھے بچپن میں ایک دفعہ ہم اہنے والد کے ہمراہ ان سے ملنے بھی آئے تھے وہ کہنے لگا کہ تم خود اتنے ذکی اور ذہین ہو میں تمہارا فیصلہ کس طرح کر سکتا ہوں بہر حال اس نے انکی رہائش اور کھانے کا انتظام کیا اور ایک غلام انکی خدمت پر لگا دیا جب وہ طعام وشراب سے فارغ ہوئے تو
* ایک بھائی کہنے لگا کہ آج تک میں نے ایسی عمدہ شراب نہیں دیکھی کاش کہ یہ قبر پر لگے ہوئے انگور سے نہ بنائی جاتی۔
* دوسرا بولا کہ گوشت بڑا اعلی پکا ہوا تھا کاش کہ اس کی بکری کو کتیا کا دودھ نہ پلایا جاتا جس کا یہ گوشت ہے۔
* تیسرا کہنے لگا کہ روٹی تو انتہائی اچھی پکی ہوئی تھی مگر کاش کہ آٹا ایک حائضہ سے نہ گندھوایا جاتا۔
* چوتھا بولا کہ بادشاہ نے خدمت تو بڑی کی ہے کاش کہ یہ اپنے باپ کا بیٹا ہوتا حرام کا نہ ہوتا۔
انکی یہ ساری گفتگو بادشاہ کے غلام نے بغور سنی اور بڑا حیران ہوا اور بادشاہ کو جا کر بتایا کہ انہوں نے ایسی گفتگو کی ہے۔
* بادشاہ نے فوراً ناظم شراب خانہ کو بلا کر پوچھا کہ آج جو شراب تم نے مہیا کی تھی وہ کس طرح حاصل کی گئی ہے۔ وہ بولا یہ اس انگور سے بنائی گئی ہے جو آپکے والد صاحب کی قبر پر لگا ہوا ہے ہمارے پاس اس وقت اس سے زیادہ نفیس شراب موجود نہ تھی پھر
* بادشاہ نے بکری کے بارے میں چرواہے سے تحقیق کی اس نے اقرار کیا کہ اس بکری کے پیدا ہوتے ہی اسکی ماں مر گئی تھی میں نے مجبوراً اسکو چند دن کے لیے کتیا کا دودھ پلایا تھا اور اس وقت پورے ریوڑ میں یہی ایک بکری صحت مند اور فربہ تھی جسکو ان مہمانوں کے لیے ذبح کیا گیا ہے پھر
* بادشاہ نے محل میں جا کر اس کنیز کی تحقیق کی جس نے آٹا گوندھا تھا تو پتہ چلا کہ وہ واقعی ان دنوں میں وہ حائضہ ہے
* پھر تلوار لیکر بادشاہ اپنی ماں کے پاس پہنچ گیا اور اس سے پوچھا کہ سچ سچ بتا میرا باپ کون ہے تو اسے مجبوراً بتلانا پڑا اور کہنے لگی کہ تیرے باپ سے کوئی اولاد ہونے کی توقع نہ تھی مجھے اس بات سے بڑی گرانی تھی کہ اسکے بعد حکومت کا سلسلہ منقتع ہو جائے گا اس لیے میں نے مجبوراً ایک ایسے شخص کو اہنے اوپر قدرت دے دی جو ہمارے یہاں مہمان ہوا تھا اور اس سے اس سلطنت کا وارث پیدا ہوا۔
اس ساری تحیقیق کے بعد بادشاہ انکی ذہانت پر بڑا حیران ہوا اور ان سے آکر سوال کیا کہ خدارا مجھے بتاؤ کہ یہ کیا راز ہے تم نے یہ باتیں کس طرح معلوم کر لی ہیں۔
* ایک بھائی بولا کہ آپکو معلوم ہے کہ شراب جب پی جاتی ہے تو یہ سرور لاتی ہے اور غم زیئل ہو جاتا ہے اس شراب کا اثر میں نے اسکے برخلاف پایا تو میں نے اندازہ لگا لیا کہ یقیناً یہ قبرستان کے درخت سے بنائی گئی ہے۔
* دوسرے نے کہا کہ بھیڑ بکری اور دیگر حیوانات کے گوشت کی یہ خاصیت ہے کہ گوشت نیچے اور چربی اوپر ہوتی ہے سوائے کتے کے گوشت کے جسکی چربی نیچے اور گوشت اوپر ہوتا ہے اس سالن میں کچھ چربی نیچے موجود تھی میں نے اندازہ لگا لیا کہ گوشت میں تو کوئی شک نہیں کہ یہ بکری کا ہے البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس بکری نے کتیا کا دودھ پیا ہو۔
* تیسرے نے کہا کہ روٹی کی خاصیت ہے کہ انگلیوں کے توڑے سے اسکے باریک ریزے ہو جاتے ہیں ماسوائے حائضہ کے گوندھے ہوئے آٹے کے یہ روٹی ذرا چمڑیلی تھی تو میں نے اندازہ کر لیا کہ آٹا کسی حائضہ عورت نے گوندھا ہے۔
اب بادشاہ نے چوتھے سے سوال کیا کہ تجھے کس طرح پتہ چلا کہ بادشاہ حرامزادہ ہے
* تو اس نے کہا کہ بچپن میں میں ایک دفعہ اپنے والد کے ہمراہ آپکے والد صاحب کا مہمان بنا تھا انہوں نے کھانا ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھایا تھا
جبکہ آپ نے کھانا غلام کے ہاتھ بھیج دیا اور خود ہمارے ساتھ بیٹھ کر نہیں کھایا
میں نے اندازہ کر لیا کہ اسکی عادتیں باپ سے مختلف ہیں لہذا یہ اسکا بیٹا نہیں ہو سکتا
افعی انکی یہ باتیں سن کر شدید حیران ہوا اور فوراً ہاتھ جوڑ کر عرض کرنے لگا کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ آپ کا فیصلہ کر سکوں آپ فیصلہ خود کریں یا کسی اور سے کروایئں اور پھر انکو وہاں سے باعزت رخصت کر دیا
.......نتائج.......
(1) اہل عرب کی ذہانت و فطانت
(2) ہر چیز کا مشاہدہ دقیق نظر سے کرنا چاہیئے
(3) کھانا مہمان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا چاہیئے
جواہر التاریخ السلامی
سارہ خان