ظفر اقبال
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 22، 2015
- پیغامات
- 282
- ری ایکشن اسکور
- 22
- پوائنٹ
- 104
عورت کا گھر کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کا انجام!
آج جب کہ اسلامی تعلیمات سے انحراف اورعدم واقفیت لوگوں کا عام رویہ بن چکا ہےاورمغربی کلچرسے متاثر خواتین خود کو مظلوم اور مجبور ودقیانوس خیال کرتی اور حقوق نسواں و آزادی نسواں کا نعرہ لگاتی نظر آتی ہیں ۔مگر حقیقت میں یہ اس کو دکھائے گئےسہانے خواب اور دھوکہ کے علاوہ کچھ نہیں ۔ کیونکہ اسلام نے عورت کو گھرکی چاردیواری میں گھر کی ذمہ دار بنایا ہے اور جب ذمہ داری پوری کرنے کی بجائے ادھر ادھر کے غیر ذمہ داری کے کاموں میں دلچسپی لینا شروع کردے تو وہ ناکامی ‘ مایوسی ‘بے سکونی ‘گھریلوں ناچاکی‘ ظلم وبربریت‘ خاوند کے لیے شک وشبہ ‘ طلاق ‘ خاوند کا غیر عورتوں کی طرف متوجہ ہونا ‘ بچوں کی بری تربیت ‘والدین سے بد مزجگی ‘اس عورت اور گھر کا مقدر ٹھہرتی ہے ۔اولاد باغی والدین کی نافرمان مردوعورت میں سے ہر کسی کی دوسرے پر بد اعتمادی ‘نفرت‘اس گھر کےلیے سم قتل بن جاتی ہیں ۔جس سے صرف اس گھر کی نہیں بلکہ نسلیں اس کے برے اثرات سےمتاثر ہوتی ہیں اور صرف گھر یا خاندان نہیں بلکہ قومیں اور معاشر ے اس تباہی اور بربادی کے دہانے پر چلے جاتے ہیں۔
عورت کےگھر کی ذمہ داریوں سے سبکدوشی کے نقصانات!
1۔ گھر کے کام کاج لین دین اور بچوں کی تربیت پر برے اثرات۔
2۔ڈبل بوجھ گھر کے کام ‘ بچوں کی پیدائش کے مراحل ‘بچوں کی تربیت‘ حق زوجیت کی تکمیل ‘خاوند کی خوشنودی حاصل کرنے کےلیے خود کو تیار رکھنااور معاشی بوجھ ڈال کر گھر سے باہر ملازمت کے لیے نکال دینا۔
3۔گھر سے باہر ملازمت کی غرض سے نکلنے والی عورت کا جنسی استحصال ۔
4۔ ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکلنے والی عورت پر جنسی حملوں کل معمول بن جانا ۔
5۔ اجتمائی ذیاتی اور غیرت کے نام پر قتل کے بڑھتے واقعات ۔
6۔ خاوند اور بیوی کا ایک دوسرے پر شک اور بدگمانی ۔
7۔ خاوند اور بیوی کا ایک دوسرے کے حقوق اور فرائض سے بغاوت۔
8۔والدین اور اولاد میں نفرت اور عدم محبت۔
9۔ شرح طلاق میں بے حد اضافہ ۔
10۔گھریلوں ناچاکی اور لڑائے جھگڑے روز کا معمول۔
11۔ خود کشی ‘ قتل غیرت ‘ عورت پر تیزاب پھینکے جانے ‘زنا کاری کا بڑھتا رجہان۔
12۔ خاوند کا عورت پر تشدد۔
13۔ایک دوسرے پر بد اعتمادی ۔
14۔ گھر کی بربادی اور تباہی کے بڑھتے واقعات۔
15۔طلاق یا دونوں میں لڑائی جھگڑوں سے دونوں خاندانوں میں دشمنی اور قتل و غارت گری کے عام واقعات۔
16۔جبری طلاق ‘خلع لوگوں کاعام مزاج بن جاتا ہے۔
آج جب کہ اسلامی تعلیمات سے انحراف اورعدم واقفیت لوگوں کا عام رویہ بن چکا ہےاورمغربی کلچرسے متاثر خواتین خود کو مظلوم اور مجبور ودقیانوس خیال کرتی اور حقوق نسواں و آزادی نسواں کا نعرہ لگاتی نظر آتی ہیں ۔مگر حقیقت میں یہ اس کو دکھائے گئےسہانے خواب اور دھوکہ کے علاوہ کچھ نہیں ۔ کیونکہ اسلام نے عورت کو گھرکی چاردیواری میں گھر کی ذمہ دار بنایا ہے اور جب ذمہ داری پوری کرنے کی بجائے ادھر ادھر کے غیر ذمہ داری کے کاموں میں دلچسپی لینا شروع کردے تو وہ ناکامی ‘ مایوسی ‘بے سکونی ‘گھریلوں ناچاکی‘ ظلم وبربریت‘ خاوند کے لیے شک وشبہ ‘ طلاق ‘ خاوند کا غیر عورتوں کی طرف متوجہ ہونا ‘ بچوں کی بری تربیت ‘والدین سے بد مزجگی ‘اس عورت اور گھر کا مقدر ٹھہرتی ہے ۔اولاد باغی والدین کی نافرمان مردوعورت میں سے ہر کسی کی دوسرے پر بد اعتمادی ‘نفرت‘اس گھر کےلیے سم قتل بن جاتی ہیں ۔جس سے صرف اس گھر کی نہیں بلکہ نسلیں اس کے برے اثرات سےمتاثر ہوتی ہیں اور صرف گھر یا خاندان نہیں بلکہ قومیں اور معاشر ے اس تباہی اور بربادی کے دہانے پر چلے جاتے ہیں۔
عورت کےگھر کی ذمہ داریوں سے سبکدوشی کے نقصانات!
1۔ گھر کے کام کاج لین دین اور بچوں کی تربیت پر برے اثرات۔
2۔ڈبل بوجھ گھر کے کام ‘ بچوں کی پیدائش کے مراحل ‘بچوں کی تربیت‘ حق زوجیت کی تکمیل ‘خاوند کی خوشنودی حاصل کرنے کےلیے خود کو تیار رکھنااور معاشی بوجھ ڈال کر گھر سے باہر ملازمت کے لیے نکال دینا۔
3۔گھر سے باہر ملازمت کی غرض سے نکلنے والی عورت کا جنسی استحصال ۔
4۔ ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکلنے والی عورت پر جنسی حملوں کل معمول بن جانا ۔
5۔ اجتمائی ذیاتی اور غیرت کے نام پر قتل کے بڑھتے واقعات ۔
6۔ خاوند اور بیوی کا ایک دوسرے پر شک اور بدگمانی ۔
7۔ خاوند اور بیوی کا ایک دوسرے کے حقوق اور فرائض سے بغاوت۔
8۔والدین اور اولاد میں نفرت اور عدم محبت۔
9۔ شرح طلاق میں بے حد اضافہ ۔
10۔گھریلوں ناچاکی اور لڑائے جھگڑے روز کا معمول۔
11۔ خود کشی ‘ قتل غیرت ‘ عورت پر تیزاب پھینکے جانے ‘زنا کاری کا بڑھتا رجہان۔
12۔ خاوند کا عورت پر تشدد۔
13۔ایک دوسرے پر بد اعتمادی ۔
14۔ گھر کی بربادی اور تباہی کے بڑھتے واقعات۔
15۔طلاق یا دونوں میں لڑائی جھگڑوں سے دونوں خاندانوں میں دشمنی اور قتل و غارت گری کے عام واقعات۔
16۔جبری طلاق ‘خلع لوگوں کاعام مزاج بن جاتا ہے۔
Last edited: