مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 461
- پوائنٹ
- 209
کالے یرقان کا جنگلی کبوتر سے علاج کی شرعی حیثیت
تحقیق: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف (مسرہ)
یرقان جسے انگریزی میں (Hepatitis) کہتے ہیں ، یہ ایک قسم کا مرض ہے جو جگر سے متعلق ہے جو دراصل وائرس ہے اور دوسروں میں منتقل بھی ہوتا ہے۔اس کی پانچ اقسام ہیں ۔ ہیپاٹائٹس اے، ہیپاٹائٹس بی، ہیپاٹائٹس سی، ہیپاٹائٹس ڈی اور ہیپاٹائٹس ای۔ ہیپاٹائٹس اے کو پیلا یرقان اور بی و سی کو کالا یرقان کہا جاتا ہے ۔
آج کل یہ مرض دنیا میں عام ہے، ہرملک میں وافر مقدار میں اس کے مریض پائے جاتے ہیں ،اس وجہ سے علاج کے مختلف طریقے لوگوں میں پائے جاتے ہیں بلکہ آئے دن اس مرض کے خاتمہ کے لئے نئے نئے علاج تلاش کئے جارہے ہیں ۔ علم طب وسائنس کے یہاں ہیپاٹائٹس کی جملہ اقسام کا علاج موجود ہے بلکہ اکثر ممالک کے بڑے بڑے شہروں میں ان کا مفت علاج ہوتا ہے ۔ گھریلو طور پر عوام نے بھی مختلف قسم کے علاج ومعالجے ایجاد کر رکھی ہے۔ کالے یرقان سے متعلق عوامی علاج کا ایک نیا طریقہ آج کل کافی مشہور ہوتا جارہاہےاور لوگ اس کی شرعی حیثیت جاننا چاہتے ہیں تاکہ اگر علاج درست ہو تو اسے عمل میں لایا جائے ورنہ اس طریقہ علاج سے پرہیز کیا جائے ۔
کالے یرقان یعنی ہیپاٹائٹس سی کا علاج آج کل جنگلی کبوتر سے کیا جاتا ہے ، اس کا طریقہ یہ ہے کہ جو اس مرض کا شکار ہو اس کی ناف پہ جنگلی کبوتر(نر) کے پیخانہ کی جگہ سٹاکر رکھی جائے ،اس سے مریض کا وائرس ناف کے راستے کبوتر میں منتقل ہوکر کبوتر خود بخود مرجائے گا ، کبوتر والا یہ عمل اس وقت تک جاری رکھنا ہے جب تک کبوتر ناف سے لگ کر مرتا رہے اور اگر مرنا بند ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب مریض کو افاقہ ہوگیا ہے ، اس مریض کا ٹیسٹ کرایا جائے تومعلوم ہوجائے گا کہ کالے یرقان کی بیماری ختم ہوچکی ہے۔یہ عوامی خیال ہے۔
جواب اس بنیاد پر دیا جارہا ہے کہ اگر یہ عوامی خیال درست ہوتو اس علاج کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ اس کے لئے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ اسلام نے ہمیں جانوروں کے ساتھ کیسا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اور کیا علاج کی غرض سے جاندار کا قتل جائز ہوسکتا ہے ؟
ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ تمام کائنات کا خالق اکیلا اللہ ہے ، وہی انسانوں کا بھی اور حیوانوں کا بھی خالق ہے ۔ وہ اپنی تمام مخلوقات پر شفیق ومہربان ہے ، فرمان الہی ہے : إِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ (النحل:7)
ترجمہ: یقینا تمہارا رب بڑا ہی شفیق اور نہایت مہربان ہے۔
جس طرح اللہ اپنی مخلوق پر مہربان ہے اسی طرح اپنے نبی محمد ﷺ کے ذریعہ بندوں کو بھی زمین پر رہنے والی تمام مخلوق کے ساتھ مہربانی کرنے کا حکم دیا ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے : الراحمون يرحمهم الرحمن، ارحموا اهل الارض يرحمكم من في السماء(صحیح ابی داؤد:4941)
ترجمہ: رحم کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو، تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔
یہ حدیث ہمیں تعلیم دیتی ہے کہ زمین پر رہنے والی تمام مخلوق کے ساتھ پیارومحبت اور حسن سلو ک سے پیش آنا چاہئے اورکسی مخلوق کوبغیر کسی وجہ کے تکلیف دینے سے پرہیز کرنا چاہئے حتی کہ چیونٹی کا بھی قتل ممنوع ہے ۔
کہاجاتا ہے کہ جنگلی کبوتر سے کالے یرقان کا علاج کرنے میں کبوترخود بخود مرجاتا ہے،اس کا گلا نہیں دبایا جاتاہے۔یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ایک آدمی کے علاج میں اسی اسی اور چالیس چالیس کبوتر مرتے ہیں ۔
اگر یہ بات صحیح مان لی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ کبوتر کی موت تکلیف دہ صورت میں تڑپ تڑپ کر ہوتی ہوگی کیونکہ جب اسے تیزآلہ سے ذبح نہیں کیا گیا تو کبوتر کی جان نکلنے کی صورت یہی تکلیف دہ بنتی ہے ۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ذرا اس حدیث پہ غور کریں جس میں حلال جانور کو ذبح کرنے میں تکلیف سے بچتے ہوئے آرام پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے ۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں:
إن الله كتب الإحسان على كل شيء، فإذا قتلتم فاحسنوا القتلة، وإذا ذبحتم فاحسنوا الذبح وليحد احدكم شفرته، فليرح ذبيحته(صحيح مسلم:1955)
ترجمہ:اللہ تعالی نے ہر چیز کے بارے میں احسان کا حکم دیا ہے ، لہذا جب تم قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو اور جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو ، نیز تم میں سے ہر شخص کو چاہئے کہ اپنی چھری تیز کرلے اور ذبح ہونے والے جانور کو آرام پہنچائے ۔
اس حدیث میں سب سے پہلے احسان کا حکم دینے کا مطلب یہ ہے کہ تم جانور کو ذبح کرو تو وہاں بھی احسان کو مدنظر رکھو یعنی چھری تیز کرکے اس طرح جانور ذبح کرو کہ اسے تکلیف نہ ہو۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ اسی اسی کبوتر کو ایک آدمی کے علاج کے لئے تڑپاتڑپاکر مارنا کسی بھی صورت جائز ہوسکتا ہے جبکہ اس بیماری کےلئے متعدد قسم کے علاج موجود ہیں؟۔
اسے ضرورت کے تحت قتل نہیں کہیں گے بلکہ یہ سراسر جانور کا ناحق قتل ہے۔ یہ قتل حدیث میں موجود اس جانورکے قتل کے مشابہ ہے جسے باندھ کر قتل کرنا کہاگیا ہے، یا نشانہ لگانے کے لئے قتل کہاگیا ہے، یا ٹارگٹ کرکے قتل کرنا کہا گیا ہے ۔ آئیے ان احادیث کو ایک نظر دیکھتے ہیں ۔
عن سعيد بن جبير ، قال: مر ابن عمر بنفر قد نصبوا دجاجة يترامونها، فلما راوا ابن عمر تفرقوا عنها، فقال ابن عمر : من فعل هذا؟ إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لعن من فعل هذا.(صحيح مسلم:1958)
ترجمہ: سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما گزرے چند لوگوں پر جنہوں نے ایک مرغی کو نشانہ بنایا تھا اس پر تیر چلا رہے تھے، جب ان لوگوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو وہاں سے الگ ہو گئے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ کام کس نے کیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو لعنت کی ہے اس پر جو ایسا کام کرے۔
اسی طرح سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يقتل شيء من الدواب صبرا(صحيح مسلم:1959)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جانور کو باندھ کر مارنے سے منع کیا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عذبت امراة في هرة، سجنتها حتى ماتت فدخلت فيها النار، لا هي اطعمتها وسقتها إذ حبستها، ولا هي تركتها تاكل من خشاش الارض(صحیح مسلم:2242)
ترجمہ:ایک عورت کو بلی کے مارنے کی وجہ سے عذاب ہوا، اس نے بلی کو پکڑ کر رکھا یہاں تک کہ وہ مر گئی پھر اسی بلی کی وجہ سے وہ جہنم میں گئی، اس نے بلی کو نہ کھانا دیا نہ پانی جب اس کو قید میں رکھا نہ اس کو چھوڑا کہ وہ زمین کے جانور کھاتی۔
یہ فرمان مزید واضح ہے کہ جس میں بھی جان ہے اسے ٹارگٹ اور ہدف بنانا جائز نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
لا تَتَّخِذُوا شَيْئًا فِيهِ الرُّوحُ غَرَضًا(صحیح مسلم:1957)
ترجمہ: جس چيز ميں بھى روح ہو اسے ٹارگٹ مت بناؤ۔
ان ساری احادیث سے معلوم ہوا کہ کالے یرقان کے علاج کے لئے کبوتر کی جان لینا صریح قتل ہے بلکہ اس عمل کے بارے میں قیامت کے دن پوچھ ہوسکتی ہے اور اس عورت کا حال بھی جان لئے جو بلی کے قتل کے سبب جہنم رسید ہوئی ۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ما من إنسانٍ يَقْتُلُ عُصْفُورًا فما فَوْقَها بغيرِ حَقِّها ، إلَّا سَأَلهُ اللهُ عَنْها يومَ القيامةِ قيل : يا رسولَ اللهِ ! وما حَقُّها ؟ قال : حَقُّها أنْ يذبحَها فَيأكلَها ، ولا يَقْطَعَ رَأْسَها فَيَرْمِيَ بِه(صحيح الترغيب:2266)
ترجمہ:جو شخص چڑیا یا اس سے بھی چھوٹے جانور کو ناحق قتل کرے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے اس کے بارے میں پوچھے گا۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! اس کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:اسے ذبح کر کے کھائے۔ اس کا سر کاٹ کر نہ پھینک دے۔
اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے:لتؤدن الحقوق إلى اهلها يوم القيامة حتى يقاد للشاة الجلحاء من الشاة القرناء(صحیح مسلم:2582)
ترجمہ: روز قيامت تم حقداروں كے حقوق ضرور ادا كرو گے حتى كہ بغير سينگ والى بكرى سينگ والى بكرى سے قصاص لے گى۔
ان ساری احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کریں کہ جب ایک بیماری کے لئے متعدد علاج موجود ہیں بلکہ سستی اور فری علاج بھی دستیاب ہیں توایسی صورت میں ایک آدمی کے لئےکیا درجنوں کبوتر کی تکلیف دہ صورت میں جان لینا درست ہے ؟ ویسے بھی یہ سائنسی طریقہ علاج نہیں ہے ، اسے عوام نے ایجاد ومشہورکررکھا ہے ۔ ایک ہوشمند آدمی کو علاج کے لئے خصوصا خطرناک بیماری کے واسطے مستند ڈاکٹر اور مستند اسپتال سے رجوع کرنا چاہئے نہ کہ ایرے غیرے کا نسخہ اپنانا چاہئے۔ ساتھ ہی جن لوگوں نے بھی بے قصور پرندوں کا علاج کرنے کے واسطے جان لیا ہے اسے توبہ کرنا چاہئے اور آئندہ اس عمل سے بچنا چاہئے ۔ اس سلسلے میں ایک آخری بات یہ ہے کہ اگر علم طب وسائنس کا ماہر اس طریقہ کو مفید قرار دے اور کوئی کالے یرقان کا ایسا مریض ہو جس کی جان کا خطرہ ہو اور اس مرض کا کبوتری علاج کے ماسوا کوئی دوسرا علاج نہ ہو تب جان بچانے کی غرض سے اس طریقہ کو اپنانے میں حرج نہیں ہے جبکہ ہمیں معلوم ہے ہیپاٹائٹس سی کا بےضررعلاج موجود ہےتوپھر کبوتر کا علاج کے واسطے جان لینا گناہ کا باعث ہے۔