کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
کب، کون ہوا جلاوطن اور کیوں؟
کہیں بیماری عذر بنی، کبھی سیاسی مصلحت آڑے آئی اور کسی نے اپنی جان بچائی
کہیں بیماری عذر بنی، کبھی سیاسی مصلحت آڑے آئی اور کسی نے اپنی جان بچائی
٭ 66 سالہ تاریخ کے پہلا جلا وطن پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا تھے۔
٭ سقوط ڈھاکا کے بعد بھٹو موافق سیاسی حالات کی یقین دہانی حاصل کرنے کے بعد ہی وطن واپس آئے۔
٭ بھٹو حکومت کا تختہ اُلٹنے سے قبل جنرل ضیا نے اپنی اہلیہ اور بیٹی کو علاج کے بہانے بیرون ملک بھیج دیا۔
٭ غلام مصطفی کھر جھانسہ دے کر ملک سے فرار ہوئے اور جلا وطنی سے جنرل ضیا کے خلاف بغاوت کی منصوبہ بندی کی۔
٭ عبدالستار ایدھی نے لندن پہنچ کر اپنی جان کو درپیش خطرے کا انکشاف کیا اور کہا کہ ان کو قتل کر کے الزام ایم کیو ایم پر لگا دیا جائے گا۔
٭ سینیٹر سیف الرحمن کی انتقامی کارروائیوں نے بے نظیر بھٹوکو جلا وطنی پر مجبور کر دیا۔
٭ الطاف حسین کی جلا وطنی پاکستان کی تاریخ کی منفرد جلا وطنی ہے۔
٭ نواز شریف اور ان کے خاندان کو سعودی شاہی خاندان کی مداخلت پر دس برس کے لیے جلا وطن کیا گیا۔
پاکستان میں سیاسی اور معتوب رہ نماؤں کی جلاوطنی، اور بیماری میں مبتلا ہو کر بیرون ملک روانگی کوئی نئی بات نہیں ، تاریخ ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہے۔ کئی رہ نما واقعتاً بیمار ہوئے اور علاج کے لیے کسی ترقی یافتہ ملک کے اسپتال کا انتخاب کیا۔ یہ فہرست صرف سیاسی جماعتوں کے قائدین تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس فہرست میں ریٹائرڈ فوجی جنرلز، ریٹائرڈ ججز، بیوروکریٹس اور سیاست دان اور ان کے اہل خانہ بھی شامل ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ سیاست دان جب اپنی جلاوطنی ختم کر کے وطن واپس آئے عوام نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔
پاکستان کی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو، وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے جلاوطنی اختیار کرنے کے بجائے پھانسی کے پھندے کو قبول کیا اور ان کی یہی ادا عوام پاکستان کو اتنی پسند آئی کہ موت کے 34 برسوں بعد بھی پاکستان کی سیاست میں ان کا نام باقی ہے ۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی مثال سامنے ہے، وہ ایک مہلک مرض کا شکار تھے، جس کا علاج اُس وقت پاکستان میں موجود نہ تھا مگر انہوں نے بیرون ملک علاج کروانے کے مقابلے میں پاکستان میں رہ کر علاج کروانے کو ترجیح دی اور پاکستانی معالجوں نے ان کا علاج کیا، اس فیصلے کی واحد وجہ بانی پاکستان کی اصول پسندی تھی، جو شاید آج ہمارے رہ نماؤں میں ناپید ہے۔
پاکستان میں جبری جلاوطنی کا پہلا واقعہ 1958 میں پیش آیا جب ملک کے آخری گورنر جنرل اور پہلے صدر اسکندر مرزا نے ملک میں مارشل لاء لگایا، اور اختیارات کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خان کے سپرد کر دیے۔ گو کہ اختیارات کی منتقلی اس وعدے کے تحت کی گئی تھی کہ اسکندر مرزا منصب صدارت پر فائز رہیں گے مگر ایوب خان اختیارات کا مر کز تھے اور اسکندر مرزا ان کے راہ کی رکاوٹ، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایوب خان نے 3 فوجی جرنیلوں کے ذریعے بزور طاقت اسکندر مرزا سے استعفیٰ لیا، اسکندر مرزا کو پہلے کوئٹہ منتقل کیا گیا، مگر شاید ایوب خان کو یہ احساس تھا کہ جوڑ توڑ اور اقتدار کی غلام گردشوں میں ہونے والی سازشوں کے ماہر اسکندر مرزا کی ملک میں موجودگی ان کے اقتدار کے لیے خطرہ بن سکتی ہے، اور بغیر کسی الزام کے اسکندر مرزا کو قید کرنا ممکن نہیں ہو گا ۔ ادھر اسکندر مرزا کو یہ خوف تھا کہ اگر انہوں نے ایوب خان کی طرف سے دی جانے والی جلاوطنی کی پیش کش قبول نہ کی تو انہیں موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اقتدار سے معزولی کے 5 روز بعد ہی انہیں "بیماری" کے باعث لندن بھیج دیا گیا ، جہاں اسکندر مرزا اپنی موت تک ایک ریسٹورنٹ میں منیجر کے طور پر کام کرتے رہے ، اسکندر مرزا کو زندگی میں تو پاکستان واپس آنے کا کبھی موقع نہ ملا ، انتقال کے بعد ان کے اہل خانہ انہیں تدفین کے لیے پاکستان لانا چاہتے تھے مگر جنرل یحییٰ خان نے ان کی پاکستان میں تدفین کی اجازت نہ دی جس کے بعد انہیں ایران میں دفن کیا گیا۔ پاکستان کے آخری گورنر جنرل اور پہلے صدر کو اپنے ملک میں دو گز زمین بھی نصیب نہ ہو سکی ۔
ایوب خان کے دور حکومت میں ایبڈو قانون کے تحت کئی سیاست دانوں کو نا اہل قرار دیا گیا ، کئی سیاست دانوں نے کنارہ کشی اختیار کرنے میں عافیت جانی ، تو کئی سینہ ٹھوک کر ان قوانین کے خلاف کھڑے ہو گئے ۔ ان ہی میں سے ایک سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی بھی تھے، سہروردی نے ایوب حکومت کے وضع کردہ قانون کے خلاف عوام میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کی ، انہیں ساتھی سیاست دانوں کی طرف سے خاطر خواہ حمایت نہ مل سکی ، تنہا پوری تحریک چلانے ، ملک بھر کے مختلف شہروں کے دوروں نے سہروردی کی صحت پر اثر ڈالا ، انہیں دل کا دورہ پڑا جس کے علاج کے لیے انہیں بیرون ملک جانا پڑا ، وطن واپسی کے دوران انہوں نے بیروت میں چند روز قیام کیا جہاں ہوٹل میں انہیں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا ۔
1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت ذوالفقار علی بھٹو اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے، جنگ بندی اور سقوط ڈھاکا کے بعد بھٹو فوری طور پر وطن واپس آنے کے بجائے نیو یارک میں ہی رُک گئے ، گو کہ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی رہی ہے کہ بھٹو بیماری کے باعث امریکا میں رُکے تھے مگر ملک کے سیاسی حالات کا جائزہ لینے اور سیاسی فضا پر اُڑتی گرد کے بیٹھ جانے کے بعد جب بھٹو کو فوج کے سینئر افسران نے فون کر کے وطن واپسی کا کہا تو بھٹو نے اپنے قابل اعتماد ساتھی غلام مصطفی کھر کو ٹیلی فون کیا اور مصطفی کھر کی طرف سے موافق سیاسی حالات کی یقین دہانی کے بعد بھٹو وطن واپس آئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں جب انہوں نے آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل گل حسن اور ائیر چیف ائیر مارشل رحیم خان سے استعفیٰ لیا تو ممکنہ ردعمل سے بچنے کے لیے ان دونوں حضرات کو آسٹریا اور اسپین میں پاکستان کا سفیر بنا کر بھیج دیا گیا ،
مگر 1977 میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے دوران ان دونوں حضرات نے سفارت سے ستعفیٰ دے کر بھٹو مخالف تحریک کی حمایت کر دی، گو کہ یہ دونوں حضرات بیماری کی وجہ سے بیرون ملک نہیں گئے تھے ، مگر سیاسی طور پر ناموافق حالات سے بچنے کے لیے یہ تقرریاں کی گئیں ، اس کے بعد یہ بھی اپنے حامیوں کو نوازنے اور مخالفین کی مخالفت سے بچنے کا ایک طریقہ بن گیا جسے سیاسی رشوت کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہو گا ۔ بھٹو حکومت کا تختہ اُلٹے جانے سے قبل جنرل ضیا الحق نے اپنی اہلیہ بیگم شفیقہ ضیا الحق اور صاحب زادی کو بھٹو حکومت کی اجازت سے بغرض علاج لندن روانہ کر دیا تھا ،یہ آنے واقعات کی پیش بندی تھی یا حقیقت میں بیماری اس کی وجہ تھی ، قرائن یہی بتاتے ہیں کہ فوجی بغاوت کی ممکنہ ناکامی کی صورت میں ہونے والے رد عمل سے بچانے کے لیے جنرل ضیا نے یہ انتظام کیا تھا ۔ جنرل ضیا کے مارشل لا دور میں جہاں سیاسی کارکنوں اور رہ نماؤں کو قید ، کوڑے اور پھانسیاں دی گئیں وہیں انہیں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنا پڑی یا جبری جلاوطن کر دیے گئے۔ بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کے خلاف ساری دنیا نے ہی جنرل ضیا سے اپیل کی کہ بھٹو کی جان بخشی کر دی جائے اور انہیں جلاوطن کر دیا جائے مگر بھٹو نے جلاوطنی اور سیاست سے کنارہ کشی کی پیش کش مسترد کر دی، ترکی نے بھٹو کو شہریت تک دینے کی پیش کش کی مگر انہوں نے معاملہ طے کرنے کے بجائے پھانسی قبول کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے والے ایف ایس ایف کے سربراہ مسعود محمود ملک نے از خود جلا وطنی اختیار کر لی ، زندگی کے باقی ایّام انہوں نے دبئی میں بسر کیے اور وہیں ان کا انتقال ہوا ۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھنے والے سپریم کورٹ کے جج جسٹس غلام صفدر شاہ کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور جلا وطنی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ۔
بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد ذوالفقار علی بھٹونے اپنے دونوں صاحبزادوں ، میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہ نواز بھٹو، کو بیرون ملک جانے کا کہا جس کے بعد دونوں بھائی برطانیہ چلے گئے، جب کہ ان کی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو ، صاحب زاردیاں بے نظیر اور صنم بھٹو پاکستان میں تھیں ۔ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے اندرون ملک جب کہ مرتضی بھٹو اور شاہ نواز بھٹو بیرون ملک ، بھٹو کی رہائی کے لیے متحرک رہے ۔
بھٹو کی پھانسی کے بعد مرتضیٰ اور شاہ نواز نے ضیا الحق کے خلاف مسلح جد و جہد کا آغاز کیا ، یہ جد و جہد برطانیہ میں بیٹھ کر ممکن نہ تھی ، اسی لیے دونوں بھائی افغانستان منتقل ہو گئے ۔ کابل میں کمیونسٹ حکومت نے انہیں بھرپور حمایت فراہم کی ۔ مرتضیٰ اور شاہ نواز نے ایک تنظیم قائم کی جس کا نام ابتدائی طور پر پیپلز لبریشن آرمی رکھا گیا ، جسے بعد ازاں الذوالفقارکا نام دے دیا گیا ۔ پی آئی اے طیارے کی ہائی جیکنگ کی ذمے داری قبول کرنے کے بعد آنے والے بین الاقوامی دباؤ اور افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر ببرک کارمل نے مرتضیٰ اور شاہ نواز کو افغانستان سے چلے جانے کو کہا، جس کے بعد دونوں دمشق منتقل ہو گئے ، جہاں ان دونوں بھائیوں نے اپنی سرگرمیاں محدود کر دیں ۔
بھٹو خاندان 1984 میں فرانس میں جمع ہوا۔ وہیں ایک روز شاہ نواز بھٹو اپنے فلیٹ میں مردہ پائے گئے ، بھٹو خاندان نے الزام لگایا کہ انہیں ان کی بیوی نے زہر دیا ، جبکہ ان کی بیوی کا یہ کہنا تھا کہ شاہ نواز نے خودکشی کی ہے۔ شاہ نواز بھٹو کی میت تدفین کے لیے پاکستان لائی گئی اور انہیں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کیا گیا ۔
شاہ نواز کی موت کے بعد مرتضیٰ بھٹو نے اپنی اہلیہ فوزیہ کو طلاق دے دی، فوزیہ ، شاہنواز کی بیوی ریحانہ کی بہن تھی۔ مرتضیٰ بھٹو دمشق واپس چلے گئے ۔
1988 میں جنرل ضیا کی موت کے بعد انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت بر سر اقتدار آئی تو مرتضیٰ بھٹو نے پاکستان آنے کی کوشش کی ، مگر بے نظیر بھٹو نے انہیں یہ کہہ کر روک دیا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت ابھی اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہوئی اور ان کی واپسی حکومت کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت 20 ماہ بعد ختم کر دی گئی،
1993 میں ہونے والے انتخابات ہوئے جس میں مرتضیٰ بھٹو نے بھی حصہ لیا مگر وہ جلا وطنی میں تھے اور اپنی بہن کے مقابلے میں کم مقبول تھے، وہ سندھ اسمبلی کی صرف ایک نشست سے کام یاب ہوئے ۔ مرکز اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو مرتضیٰ بھٹو نے ایک بار پھر واپس آنے کا فیصلہ کیا ، بے نظیر نے انہیں آنے سے ایک بار پھر منع کیا مگر اس بار مرتضیٰ نے بہن کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور وطن واپس آ گئے۔ سیاست میں سر گرم ہوئے اپنی بہن کی حکومت کے سخت ناقد بن گئے،
1996 میں اپنی بہن کے دور حکومت میں مرتضیٰ بھٹو اپنے ہی گھر کے سامنے پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن گئے ۔ بیگم نصرت بھٹو ، بھٹو کی پھانسی کے بعد سیاست میں سر گرم ہوئیں ، انہیں ملک میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں ،
1982 میں ان طبیعت خراب ہوئی اورانکشاف ہوا کہ انہیں کینسر کا عارضہ لا حق ہے، ڈاکٹرز سے مشورے کے بعد انہوں نے ضیا حکومت سے درخواست کی کہ انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے ، ضیا حکومت نے بیگم نصرت بھٹو کو میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا، ہر طرح سے تسلی کر لینے کے بعد بیگم نصرت بھٹو کو علاج کے لیے بیرون ملک روانہ کردیا گیا۔ نصرت بھٹو80 کی دہائی کے اواخر میں پاکستان آئیں اور انتخابات میں کام یابی حاصل کر کے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں ۔
1996 میں مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد نصرت بھٹو ، کنارہ کش ہوئیں اور پھر بے نظیر بھٹو کے ساتھ دبئی منتقل ہو گئیں۔ جہاں طویل عرصہ علیل رہنے کے بعد انتقال کر گئیں ۔
بے نظیر بھٹو ، اپنے والد کی حکومت کی برطرفی اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیٍ بعد سیاسی طورمتحرک ہوئیں ، انہیں جنرل ضیا نے نظر بند کر دیا ۔ ان کی رہائی کے لیے جنرل ضیا پر بین الاقوامی دبا ؤ بڑھتا رہا، مختصر وقفوں کے لیے انہیں رہا کیا جاتا مگر پھر نظر بند کر دیا جاتا۔
1984 میں بے نظیر بھٹو کو علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی اجازت ملی، وہ 1981 سے مسلسل نظر بند تھیں ۔
1985میں بے نظیر اپنے بھائی شاہ نواز کی میت کے ساتھ پاکستان آئیں تو انہیں ایک بار پھر نظر بند کر دیا گیا ، اور کچھ ہی عرصے بعد انہیں دوبارہ جلاوطن کر دیا گیا۔
مارشل لا کے خاتمے کے بعد 1986 میں بے نظیر بھٹو وطن واپس آئیں ، ان کا تاریخی استقبال ہوا ۔ بے نظیر بھٹو دو با ر ملک کی وزیر اعظم رہیں،
1999 میں نواز شریف کے دور حکومت میں اپنے خلاف بڑھتی ہوئی انتقامی کارروائیوں سے بچنے کے لیے بے نظیر بھٹو بیرون ملک چلی گئیں اور وہاں سے اپنی سیاسی جد وجہد جاری رکھی۔
2007 میں بے نظیر بھٹو وطن واپس آئیں ، ان کے استقبالی جلوس پر خود کش حملہ ہوا جس میں سیکڑوں افارد جاں بحق ہوئے ۔ اپنی زندگی کو لاحق خطرات کے با وجود بینظیر بھٹو نے انتخابی مہم جاری رکھی اسی دوران راول پنڈی کے جلسے میں خطاب کے بعد واپسی پر ان پر ایک اور قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ شہید ہو گئیں ۔
سابق صدر آصف علی زرداری طویل عرصے قید و بند کی تکلیفیں برداشت کرتے رہے، 1990 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا ،
ان کی رہائی 1993 میں نواز حکومت کے خاتمے پر عمل میں آئی ،
1996 میں پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت کے خاتمے کے بعد انہیں ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا ۔
2004میں رہائی کے بعد آصف زرداری نے سیاسی طور پر متحرک ہونے کی کوشش کی ،
2005 میں دل کی تکلیف کے باعث آصف زرداری بیرون ملک چلے گئے اور
2007 میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد وطن واپس آئے اور پاکستان کے صدر منتخب ہوئے ۔
سابق وزیر اعلیٰ سندھ ممتاز بھٹو بھی بھٹو حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد گرفتار ہوئے ، کافی عرصے تک قید اور رہا ہوتے رہے، جیل سے ہی انہوں نے کنفیڈریشن کا نعرہ بلند کیا ، انہیں دل کا عارضہ لاحق ہوا تو علاج کے لیے لندن جانے کی اجازت ملی۔ کنفیڈریشن کا نعرہ لگانے پر ان کے بے نظیر بھٹو سے اختلافات ہوئے اور بے نظیر بھٹو نے ممتاز بھٹو کو پیپلز پارٹی سے نکال دیا۔ جلا وطنی میں انہوں نے سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے قوم پرستوں کے ساتھ مل کر جماعت بنائی جس کا نام سندھ بلوچ پشتون فرنٹ رکھا،
1986 میں پاکستان واپس آئے تو انہیں ضیا حکومت نے گرفتار کیا ۔
1989میں سندھ نیشنل فرنٹ بنائی ، مگر عوامی سطح پر ان کے کنفیڈریشن کے نعرے کو کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔
1977 میں جب قومی اتحاد کی تحریک جاری تھی تو ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھی غلام مصطفی کھر نے ، جو بھٹو سے ناراض ہو کر پیپلز پارٹی چھوڑ چکے تھے ، دوبارہ بھٹو سے ہاتھ ملا لیا اور زور و شور کے ساتھ پی این اے کے رہ نماؤں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ مارشل کے نفاذ کے بعد غلام مصطفی کھر نے مارشل لا حکام کو یہ تاثر دیا کہ وہ مارشل لا حکومت کے ساتھ ہیں اور ان کے پاس بھٹو کے خلاف ثبوت موجود ہیں ۔ جنرل فیض علی چشتی بھٹو کے خلاف ثبوت جمع کر رہے تھے ، انہوں نے غلام مصطفی کھر سے ثبوت مانگے تو کھر نے انہیں کہا کہ بھٹو کے خلاف تمام ثبوت لندن میں بحفاظت موجود ہیں جن کے حصول کے لیے انہیں لندن جانا ہو گا ۔ غلام مصطفی جتوئی کی ضمانت پر مارشل لا حکام نے کھرکے لندن جانے کے انتظامات کیے ، لندن پہنچ کر غلام مصطفی کھر ضیا الحق کے خلاف جاری تحریک میں شامل ہو گئے ، انہوں نے جلاوطنی میں رہتے ہوئے جنرل ضیا الحق کے خلاف فوجی بغاوت کی منصوبہ بندی کی۔ آپریشن گلیکسی کے نام سے مشہور بغاوت کے منصوبے میں غلام مصطفی کھر نے فوج کے اندر موجود ضیا مخالف عناصر کو ساتھ ملایا ۔ جنرل ضیا کو عین وقت پر اس منصوبے کا علم ہو گیا جس کی وجہ سے منصوبہ ناکام ہو گیا ۔ غلام مصطفی کھر سے منسوب ایک بیان بھی تاریخ میں ملتا ہے جس میں انہوں نے جنرل ضیا کو دھمکی دی تھی کہ وہ بھارتی ٹینکوں پر سوار ہو کر پاکستان آئیں گے۔
1986 میں غلام مصطفی کھر جلا وطنی ختم کر کے پاکستان آ گئے ، انہیں گرفتار کر لیا گیا ، جنرل ضیا کی موت کے بعد انہیں رہائی نصیب ہوئی ۔
جام صادق علی پاکستان خصوصاً سندھ کی سیاست کا بڑا نام رہا ہے، جنرل ضیا کے مارشل لا کے نفاذ کے بعد وہ چوری چھپے ملک سے فرار ہونے میں کام یاب ہو گئے ۔ مارشل لا حکام کے کے پاس ان کی بد عنوانیوں کے ثبوت تو تھے ہی مگر ساتھ ہی ان پر حروں کے قتل کا الزام بھی تھا ۔ جام صادق فرار ہو کر برطانیہ پہنچنے میں کام یاب ہو گئے ۔ جنرل ضیا کے دور اقتدار میں انہوں نے ملک آنے کی نہ تو کوئی کوشش کی اور نہ ہی اس حوالے سے ملنے والی پیش کشوں کو قبول کیا کیوں کہ انہیں سب سے زیادہ پریشانی حروں کے قتل کے مقدمے سے تھی اور حروں کے روحانی پیشوا پیر صاحب پگارا ، جنرل ضیا کے بہت قریب تھے۔ جام صادق نے پیر پگارا کے ساتھ مفاہمت کی بہت کوششیں کیں مگر انہیں کام یابی نہیں ہوئی ۔ جنرل ضیا کی موت کے بعد انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو جام صادق کی واپسی کے راست کھلے، ان کا وطن واپسی پر شان دار استقبال ہوا۔ جام صادق کا خیال تھا کہ ان کی جماعت انہیں کسی اہم عہدے پر فائز کرے گی، مگر ان کی امید پوری نہ ہوئی تو وہ بد دل ہو گئے اور 1990 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں بننے والی نگراں حکومت میں انہیں سندھ کی وزارت اعلیٰ ملی جس پر وہ انتخابات میں کام یابی کے بعد مستقل طور پر فائز ہو گئے، اور پیپلز پارٹی کے بد ترین مخالف ہو گئے۔ جام صادق علی 1992 میں انتقال کر گئے۔
1994 میں معروف سماجی رہ نما عبدالستار ایدھی اچانک لندن چلے گئے اور وہاں پہنچ کر انہوں نے بیان دیا کہ وہ جان کو لاحق خطرات کے باعث لندن آئے ہیں اور پاکستان واپس نہیں جائیں گے ۔ انہوں نے بتایا کہ خفیہ اداروں کے اہل کار ، سماجی کارکن اور ریٹائرڈ فوجی افسر کے ایک گروپ نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے لیے انہیں ساتھ ملانے کی کوشش کی اور ساتھ نہ دینے پر جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے۔ انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ ان لوگوں میں عمران خان اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل شامل ہیں ۔ عبدالستار ایدھی نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ان کے قتل کا منصوبہ تیار ہے اور انہیں قتل کر کے اس کا الزام ایم کیو ایم پر لگا دیا جائے گا ۔ ایدھی صاحب کے اس بیان اور جلاوطنی اختیار کرنے کے انتہائی اقدام پر ملک بھر میں تشویش پھیل گئی۔ صدر فاروق لغاری اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے عبدالستار ایدھی سے رابطے کیے اور ان کو تحفظ کی یقین دہانی کروائی ،ایک ماہ بیرون ملک رہنے کے بعد ایدھی صاحب وطن واپس آگئے ۔
جون 1992 میں کراچی میں فوجی آپریشن شروع ہوا تو اس سے قبل جنوری 1992 میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین میں عمرے کی غرض سے سعودی عرب روانہ ہوئے اور وہاں سے لندن منتقل ہو گئے ، کہا جاتا ہے کہ اُس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ جام صادق علی نے الطاف حسین کو ممکنہ فوجی آپریشن سے آگاہ کر دیا تھا ، اور یہ جام صادق کا ہی مشورہ تھا جس پر عمل کرتے ہوئے الطاف حسین جلاوطن ہوئے ۔ کراچی میں ہونے والے آپریشن کے دوران الطاف حسین اور ایم کیو ایم پر کئی نشیب و فراز آئے ، ان کے مخالفین اکثر الطاف حسین کی جلاوطنی پر شدید تنقید بھی کرتے ہیں۔
1992 میں الطاف حسین جب لندن پہنچے تو وہاں انہوں نے سیاسی پناہ کی درخواست دے دی۔
2001 میں الطاف حسین کو برطانوی شہریت مل گئی ۔ طویل عرصہ گزارنے کے بعد گزشتہ چند برسوں سے الطاف حسین کو لندن میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کی اپنی ہی پارٹی کے ایک رہ نما عمران فاروق کے قتل کے بعد برطانوی پولیس نے تفتیش شروع کی تو اس کا دائرہ پھیلتے پھیلتے منی لانڈرنگ کے معاملات تک پہنچ گیا۔ سیاسی مخالفین نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ان کے خلاف سخت بیانات جاری کیے ۔ اب تک تمام باتیں صرف سنی سنائی ہیں کیوں کہ برطانوی پولیس کا اپنا ایک طریقہ کار ہے اور وہ کسی بھی معاملے کی تہہ تک پہنچنے سے قبل معاملات کو خفیہ رکھتی ہے۔ الطاف حسین کی جلاوطنی کئی حوالوں سے منفرد ہے ، پاکستان کی تاریخ میں الطاف حسین وہ واحد سیاست دان ہیں جو نہ صرف گزشتہ 24 برس سے برطانیہ میں مقیم ہیں بلکہ برطانوی شہریت بھی رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کی اپنی جماعت پر گرفت مضبوط ہے ۔ وہ جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اپنی ہمدردوں ، کار کنوں اور رہنماؤں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں، بڑے بڑے جلسوں سے ٹیلی فون کے ذریعے طویل خطاب کرتے ہیں ۔
ایم کیو ایم کے ایک اور رہنما ڈاکٹر عمران فاروق ، کراچی میں جاری آپریشن کے دوران زیر زمین چلے گئے ، اس دوران ان کے سر کی قیمت بھی مقرر کی گئی ، طویل عرصے تک منظر سے غائب رہنے کے بعد ڈاکٹر عمران فاروق 1999 میں اچانک لندن پہنچ گئے ۔ وہ لندن کس ذریعے سے پہنچے یہ بات آج تک معمہ بنی ہوئی ہے ، کیوں کہ ان کی پاکستان سے روانگی کا کوئی ثبوت پاکستان کے کسی ائرپورٹ پر موجود نہیں ہے۔ عمران فاروق نے لندن میں سیاسی پناہ کی درخواست دی اور انہیں سیاسی پناہ مل گئی ۔ عمران فاروق جلاوطنی میں ایم کیو ایم کے مختلف عہدوں پر کام کرتے رہے اس دوران کم از کم دو بار تنظیمی نظم و ضبط کی خلاف ورزی پران کی رکنیت بھی معطل کی گئی ۔ ستمبر 2010 میں ڈاکٹر عمران فاروق کو لندن میں قتل کر دیا گیا ، برطانوی پولیس عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات میں مصروف ہے ، اس حوالے سے کچھ گرفتاریاں بھی ہوئیں مگر برطانوی پولیس اب تک قاتلوں کو پکڑنے میں ناکام ہے ۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد انہیں طیارہ ہائی کو جیکنگ کیس میں سزا ہوئی ، بین الاقوامی طاقتوں نے ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف پر دباؤ ڈالا کہ میاں نواز شریف کو رہا کیا جائے ۔
دسمبر 2000 میں اس حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا جس کے مطابق شریف خاندان نے سزا سے معافی کے بدلے حکومت کو 30 کروڑ رپے نقد ادا کیے ، اس کے علاوہ ماڈل ٹاؤن کی رہائشگاہ اور کاروباری اثاثے حکومت وقت کے حوالے کیے ، معاہدے کے تحت میاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کو 10 برس کے لیے جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیج دیا گیا، نواز شریف اور شہباز شریف پر یہ پابندی عائد ہوئی کہ اس تمام عرصے کے دوران وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے اور جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف ان کے خاندان کا کوئی فرد بیان بازی نہیں کرے گا ۔ 10 دسمبر 2000 کو نواز شریف، شہباز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد سعودی عرب جلا وطن کر دیا گیا ۔ شہباز شریف کے صاحب زادے حمزہ شہباز کاروبار کی دیکھ بھال کے لیے پاکستان میں رکنے کی اجازت مل گئی ، مگر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی انہیں بھی اجازت نہ تھی۔ نواز شریف ، شہباز شریف اور ان کے دیگر خاندان کے افراد سعودی عرب میں خاموش زندگی گزار رہے تھے، اسی دوران ان کے والد میاں محمد شریف کا انتقال ہو گیا ، میاں محمد شریف کی میت پاکستان لائی گئی مگر نواز شریف اور شہباز شریف کو میت کے ساتھ وطن واپسی کی اجازت نہیں دی گئی ۔ کچھ ہی عرصے بعد شہباز شریف علیل ہوئے تو انہیں علاج کے لیے سعودی عرب سے جانے کی اجازت ملی۔
2006 میں نواز شریف نے اپنے لندن میں مقیم صاحب زادے کے علاج کے لیے لندن جانے کی اجازت طلب کی ، حکومت پاکستان کی منظوری سے سعودی حکومت نے انہیں لندن جانے کی اجازت دے دی ۔ لندن پہنچ کر نواز شریف نے آہستہ آہستہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ شہباز شریف نے لندن سے پاکستان آنے کی کوشش کی مگر اسے حکومت وقت نے ناکام بنا دیا اور دوبارہ جلاوطن کر دیا گیا ۔
2007 میں میاں نواز شریف نے وطن واپسی کا اعلان کیا تو پرویز مشرف حکومت نے جلاوطنی کے معاہدے میں ثالثی کرنے والے ممالک سے مدد طلب کی ، سعودی عرب کے انٹیلی جنس چیف شہزادہ مقرن اور لبنان کے سعد حریری نے پاکستان آ کر میڈیا کو معاہدے کی کاپی دکھائی جس میں واضح طور پر یہ درج تھا کہ جلا وطنی کا معاہدہ 10 برس کا ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف نے ، جو اب تک ایسے کسی بھی معاہدے کے وجود سے انکاری تھے ، لندن میں پریس کانفرنس کی جس میں معاہدے کی موجودگی کا اقرار کرتے ہوئے کہا کہ معاہدہ 10 نہیں 5 برسوں کے لیے ہوا تھا۔ ستمبر میں نواز شریف وطن واپس آئے تو انہیں بزور طاقت دوبارہ جلاوطن کرکے سعودی عرب بھیج دیا گیا ۔
اکتوبر میں بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کے بعد سعودی حکومت نے پرویز مشرف پر دباؤ ڈالا کہ اب میاں نواز شریف اور خاندان کے دیگر افراد کو وطن واپسی کی اجازت دی جائے۔ جس کے بعد نواز شریف اور شہباز شریف دیگر اہل خانہ کے ساتھ وطن واپس آ گئے ۔ پاکستان میں سیاسی مصلحت یا جبری طور پر جلا وطن کیے جانے والے افراد کی فہرست بہت طویل ہے ، ان میں شعراء، سیاسی کارکن، سماجی کارکن، جج، صحافی غرض یہ کہ تقریباً ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات شامل ہیں، یہ صرف چند معروف افراد کا ذکر ہے۔
ح