- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
’’ تارڑ صاحب نے اپنے کالم میں پیار ے رسول ﷺکے مقدس فرمان کاتمسخر اڑایاہے ۔‘‘آوازدکھی اورلہجہ زخمی تھا۔ ضبط کی کوشش لگتی تھی، شاید اندرکہیں آنسوؤں کے آبشار گرتے تھے۔دل دہل گیا۔گوجرانوالہ سے یہ ایک عالمِ دین تھے جو ’’جرم سخن‘ ‘پڑھتے اوررائے سے بھی نوازاکرتے ہیں۔خلافِ معمول آج ان کی آواز زندگی سے عاری اورآنسوؤں کی آمیزش سے بھاری تھی۔ وجہ بھی سامنے آگئی۔میں نے مذکورہ کالم پڑھ کے اپنی بات کرنے کا وعدہ کیاتھااور اب حیرت زدہ ہوں،لیکن پہلے آپ کچھ حصے دیکھ لیجیے ،تاکہ عشقِ رسول ﷺمیں ڈوبے اس امتی کے زیر وزبر جذبات کی وجہ جانی جاسکے۔بھلاایک امتی ؟نہیں ،سوائے کالم پڑھنے کی اذیت سے محفوظ رہنے والوں کے ،سبھی ذی ہوش ماہئ بے آب بنے تڑپتے ہوں گے۔’ ’کتے تیتھوں اتے ‘‘کے زیرِعنوان آپ لکھتے ہیں’’ہمارے ہاں ایک مفروضہ رائج ہوچکا کہ جس گھر میں کتاہووہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے ۔۔رحمت کے فرشتے کیسے ایک ایسے گھرمیں قدم رنجہ نہ فرمائیں گے جہاں ایک کتا ہو؟ ویسے بھی امریکہ اوریورپ کے تقریباًہرگھرمیں ایک کتاہوتاہے اورہم دیکھتے ہیں کہ پچھلے سینکڑوں برسوں سے ان اغیار پرہی ہرنوعیت کی رحمتوں کانزول ہوتاچلاجاتاہے ،یہ فرشتے اِدھر(مسلمانوں)کانہیں اُدھر(غیرمسلموں)کاہی رخ کرتے ہیں۔‘‘مشمولات دیکھئے تو اگرچہ ساراکالم ہی ’کتا‘کالم لگتاہے مثلاًفاضل کالم نگار میزبان کے ہاتھوں خود کو کتا قرار دیتے ہیں۔ یہ خود ان کا اپنا قلم اور اپنی ذات پر اپنی بات ہے ،کسی کوکیاجرأت کہ محترم کو ایسا کہنے سے روک سکے؟پھرایک میم کی گودمیں ڈیڑھ فٹاکتا دیکھ کر آپ کواپنے مقابلے میں کتے کی افضلیت محسوس ہوتی ہے۔ برفانی کتے کے حسن پہ آپ یوں مرمٹتے ہیں۔’’ برفانی کتے دنیاکی حسین ترین مخلوق ایسی ہیں کہ انھیں چومنے کوجی چاہتاہے،ان کے سامنے کوئی ایشوریہ رائے یاکرینہ کپورنہیں ٹھہرتی۔مجھے اگراختیاردیاجائے تومیں ایشوریہ رائے یاکرینہ کپور کے پاس بھی نہ پھٹکوں (بلکہ) ان برفانی کتوں سے ہم آغوش ہوجاؤں۔‘‘کوئی کیاکہے ؟یہ آپ کا ذوق ہے ،شاید عمر کا تقاضابھی۔یہاں تک تو آپ اپنے سواکسی کاکچھ نہیں بگاڑرہے ،لیکن پھرآپ انسانوں کو کتوں سے کمتر قراردینے لگتے ہیں۔ اللہ کی تخلیق ’احسن تقویم ‘سے یہ زیادتی ہے۔ صوفیانے جو کہا،وہ مجازی اورملامتی ہے ۔ کوئی نہیں کہتا کہ کتامجھ سے بہتر ،میرے باپ سے بہتر،ماں سے،داداسے ،چچاسے ،خالہ ، پھپھی اوربیوی سے بہترہے ۔ صوفیاکی تمثیل کااصل جوہردیکھاہی نہ گیا
آپ بھی جسارت کر گئے ۔انؐ کی بات کو مفروضہ کہہ گئے کہ جنہیں جوامع الکلم عطاہوئے۔ جنہیں سلیقۂ اظہار اورجن کی بات کو وقار عطاہوا۔زمین وزماں کی طنابیں جن کے لئے سمیٹ دی گئیں اور تب جنہوں نے ہم آئندہ زمانوں کے سیاہ بختوں کو بشارتیں بخشیں۔انؐ کی ذات کوتواُ س عصرسے اس عہد تک ایک بھی منصف مزاج نہ جھٹلا سکا ہے اوران ؐکی بات کی تہوں میں چھپی حکمت کی پرتیںآج کی سائنس بھی کھولتی اور انسانیت کی رگوں میں حیرت گھولتی ہے۔ انہوںؐنے آنے والے دور کے ناکردہ کار امتی کاتذکرہ ،اُس عہد کے بوبکرؓ،بوذرؓ وحیدرؓ وعثمانؓ وعمرؓکے روبروکیااورآہ میں بے وفانے انؐ کی پاکیزہ محبت کایہ صلہ دیا؟عجب فلاسفی ہے کہ ہم پرنہیں ! رحمت یورپ و امریکہ پر ہے ،آپ اسی کو رحمت سمجھتے ہیں؟ عریانی کو،وقتی چکاچوند اورعارضی دھونس دھاندلی کو؟رسول ؐگھاٹی میں معاشی و معاشرتی مقاطعہ سہہ رہے تھے توکیا رحمت ابو جہل اینڈکمپنی پرتھی ؟فرعون بنی اسرائیل اورسیدنا عیسیٰ ؑ پرستم کے پہاڑتوڑتاتھا تو اس منطق کے تحت رحمت فرعون پرہوئی تھی ؟اصحابِ کہف گھربار چھوڑکے غارمیں جاچھپے تھے توکیارحمت قاتلوں پر تھی ؟نواسۂ رسو ل سیدنا حسینؓ کو کربلا میں مظلومانہ شہید کر دیا گیا تو کیا رحمت قاتلوں پرہوئی؟انسانیت کہاں ہے جناب؟ اورانصاف کدھر ہے؟ عرض یوں ہے جناب کہ آپ کی ساری لیجنڈری قبول، نثرِتارڑکا بھی یہ خاکسار قتیل ،آنجناب کی بزرگی کا بھی احترام مگر
دنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ!
میں سب کو مانتا ہوں مگر مصطفےٰؐ کے بعد!
(نوٹ: تارڑ گو اردو کے ایک بہترین اور بیسٹ سیلر ادیب ہیں۔ لیکن وہ احمدی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور اکثر و بیشتر اپنی تحریروں میں اسلام، مسلمان اور اسلامی شائر کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ حافظ یوسف سراج صاحب نے تارڑ کی بہت کوب گرفت کی ہے)
خصم اپنے دا در نہ چھڈ دے
بھانویں وجن جتے ، تیتھوں اتے
’کتے اپنے آقاکادر نہیں چھوڑتے چاہے انھیں جوتے مارے جائیں ‘ افسوس کہ آقاؐ سے یہی وفاداری کالم میں بھلا دی گئی اوراس کے در کی بجائے درِ یورپ اپنا لیا گیا۔ یہی وفاداری ہے کہ کسی گوری کی گودمیں ڈیڑھ فٹاکتایاپھربرفانی کتا دیکھ لیاتواپنے نبیؐ کے فرمان کاتمسخر اڑادیا؟ کتایہی کرتاہے وہ اپنی نہیں غیرقوم سے وفاداری نبھاتاہے۔فرمانِ نبویؐ ہے، نگہبانی یاشکار کے علاوہ کتانہیں رکھا جاسکتا،وگرنہ روزانہ ایک قیراط (2125گرام)ثواب کاٹ لیاجائے گا۔ (مسلم:1575) کتے کی موجودگی میں رحمت کے فرشتے نہ آنے کی کی بات مفروضہ نہیں حدیث ہے جوبخاری:3225، مسلم: 2104، ابوداؤد: 4153، ترمذی: 2804، نسائی: 4276، ابنِ ماجہ: 3652، مسنداحمد: 815 میں موجود ہے۔ دنیا کے دوسرے بڑے مذہب کے کم وبیش 1.8بلین مسلمانوں کی متفقہ ومسلمہ کتابوں میں موجودہے۔کڑے سائنٹفک تحقیقی معیارات کو عبورکرتی کتب میں موجود ہے۔ جدید تحقیق کامعیار کیاہے ؟کسی کتاب یاشخصیت تک بات پہنچادی گئی تو پی ایچ ڈی معیار کی تحقیق ہوگئی !سرتاجِ تحقیق یہی محدثین ہیں کہ جن کے سائنسی اصول آغاز ہی وہاں سے کرتے ہیں جہاںآج کی تحقیق بے دم ہوکے گرپڑتی ہے یہ توکہنے والے کاکامل کردار،حافظہ و اعتبار اورامکانِ ملاقات بھی پرکھتی ہے۔ ڈاکٹر اسپرنگر نے جسے یوں داد دی کہ ایک پیغمبرکی زندگی کومحفوظ کرتے کرتے مسلمانوں نے پانچ لاکھ زندگیاں بھی محفوظ کر دیں، جی ہاں پانچ لاکھ راویانِ حدیث ا س نظامِ تحقیق کے طفیل محافظ بن کے موجودرہتے ہیں تاکہ کسی ایک زبان میں مقبول ہونے والا کتوں کا کوئی محب ،اربوں لوگوں کی کل کائنات کے فرمان کو’مفروضہ ‘کہنے کی جسارت نہ کرسکے۔جناب!آپ مہان ہوں گے پر ہمیں یہ زخم نہ دیجئے کہ ہم سیاہ کاروں کے پاس نجات کا کوئی اور آسراہی نہیں !یہی ایک متاع ہے کہ جس پہ ہر متاع لٹائی جاسکتی ہے،بعد از خدابزرگ اس ذاتؐ پہ ہرذات مٹائی جاسکتی ہے۔انھی کی بالاتربات پہ ہربات ٹھکرائی جاسکتی ہے۔ ساری زندگی حضرت عمرؓکے بیٹے عبداللہؓ نے اپنے سگے بیٹے سے کلام نہ کیاکہ ا نہوں نے مدینے والے کی بات پربات کرنے کی جسارت کی تھی۔بھانویں وجن جتے ، تیتھوں اتے
آپ بھی جسارت کر گئے ۔انؐ کی بات کو مفروضہ کہہ گئے کہ جنہیں جوامع الکلم عطاہوئے۔ جنہیں سلیقۂ اظہار اورجن کی بات کو وقار عطاہوا۔زمین وزماں کی طنابیں جن کے لئے سمیٹ دی گئیں اور تب جنہوں نے ہم آئندہ زمانوں کے سیاہ بختوں کو بشارتیں بخشیں۔انؐ کی ذات کوتواُ س عصرسے اس عہد تک ایک بھی منصف مزاج نہ جھٹلا سکا ہے اوران ؐکی بات کی تہوں میں چھپی حکمت کی پرتیںآج کی سائنس بھی کھولتی اور انسانیت کی رگوں میں حیرت گھولتی ہے۔ انہوںؐنے آنے والے دور کے ناکردہ کار امتی کاتذکرہ ،اُس عہد کے بوبکرؓ،بوذرؓ وحیدرؓ وعثمانؓ وعمرؓکے روبروکیااورآہ میں بے وفانے انؐ کی پاکیزہ محبت کایہ صلہ دیا؟عجب فلاسفی ہے کہ ہم پرنہیں ! رحمت یورپ و امریکہ پر ہے ،آپ اسی کو رحمت سمجھتے ہیں؟ عریانی کو،وقتی چکاچوند اورعارضی دھونس دھاندلی کو؟رسول ؐگھاٹی میں معاشی و معاشرتی مقاطعہ سہہ رہے تھے توکیا رحمت ابو جہل اینڈکمپنی پرتھی ؟فرعون بنی اسرائیل اورسیدنا عیسیٰ ؑ پرستم کے پہاڑتوڑتاتھا تو اس منطق کے تحت رحمت فرعون پرہوئی تھی ؟اصحابِ کہف گھربار چھوڑکے غارمیں جاچھپے تھے توکیارحمت قاتلوں پر تھی ؟نواسۂ رسو ل سیدنا حسینؓ کو کربلا میں مظلومانہ شہید کر دیا گیا تو کیا رحمت قاتلوں پرہوئی؟انسانیت کہاں ہے جناب؟ اورانصاف کدھر ہے؟ عرض یوں ہے جناب کہ آپ کی ساری لیجنڈری قبول، نثرِتارڑکا بھی یہ خاکسار قتیل ،آنجناب کی بزرگی کا بھی احترام مگر
دنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ!
میں سب کو مانتا ہوں مگر مصطفےٰؐ کے بعد!
(نوٹ: تارڑ گو اردو کے ایک بہترین اور بیسٹ سیلر ادیب ہیں۔ لیکن وہ احمدی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور اکثر و بیشتر اپنی تحریروں میں اسلام، مسلمان اور اسلامی شائر کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ حافظ یوسف سراج صاحب نے تارڑ کی بہت کوب گرفت کی ہے)