کتاب وسنت میں افتاء کا لفظ کسی کی طرف منسوب ہوکر آیا ہے؟:
کتاب مقدس قرآن مجید فرقان حمید میں افتاء کا لفظ اللہ رب العالمین کی طرف منسوب ہوکر آیا ہے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس فرمان میں ہے: ﴿ قُلِ اللَّهُ يفْتِيكُمْ ﴾ [النساء:127] اللہ تبارک وتعالیٰ تمہیں فتوی دیتے ہیں۔
اسی طرح قرآن مجید میں قرآن کی طرف منسوب ہوکر بھی آیا ہے۔ جیسا کہ رب کائنات کے اس فرمان میں ہے: ﴿ وَمَا يُتْلَى عَلَيكُمْ فِي الْكِتَابِ ﴾ [النساء:127] اور جو کچھ تم پر کتاب میں سے پڑھا جاتا ہے۔یعنی وہ تمہیں فتوی دیتا ہے۔
نبی پاک ﷺ کی سنت مطہرہ میں یہ لفظ لوگوں کی طرف منسوب ہوکر آیا ہے ۔ جیسا کہ آپﷺ کے اس فرمان گرامی میں ہے: «والإثم ما حاك في النفس وتردد في الصدر وإن أفتاك الناس وأفتوك» اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور سینے میں تردد پیدا کرے اگرچہ لوگ تجھے اس کے متعلق خود فتوی دے دیں یا کہیں سے لا کر دے دیں۔
ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر