رانا ابوبکر
تکنیکی ناظم
- شمولیت
- مارچ 24، 2011
- پیغامات
- 2,075
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 432
کتوں کے دانت تاریخ لکھ رہے ہیں
(اقبال نوید)
(اقبال نوید)
سوال یہ ہے
کہ ہم ابھی تک مہیب جنگل کی قید میں ہیں
گئے زمانے کی ایک فرسودہ داستا ں ہیں
کہاکہ اب زندگی کا دھارا بدل گیا ہے۔لباس کہنہ اتار کر خوشگوار موسم کے ذائقے کا حصول ہوگا
تو ہم نے آتی صدا کو اپنا نصیب سمجھا
اگر کہا یہ تمام دنیا تمہارے ہونے سے مختلف ہے
تمہیں بھی اوروں کی طرح اپنے بدن کے زخموں کو چاٹنا ہے
تو ہم نے دن رات ایک کردی
نئی رتوں کے پیامبر کو سلام بھیجا
کہ ہم تو مدت سے آنے والے کے راستے میں بچھے ہوئے ہیں
کہا کہ ہم کو یقیں ہے
اس میں نجا ت ہوگی
ہمارے مکتب کے سارے الفاظ اپنی حرمت کو ڈونڈھتے ہیں
ہماری آنکھیں ابھی حقیقت سے بے خبر ہیں
کہا کہ ہم کو یقیں ہے ، رستہ طویل ہوگا
مگر زمانے کی مشکلوں سے پرے ہمیں اختیار ہوگا
کہ جو بھی اس کا حصول ہو بے شمار ہوگا
اگر کسی نے کہا
کہ ہاتھوں میں جو ہنر ہے وہ بے ثمر ہے
تو ہم نے ہاتھوں کو کاٹ ڈالا
اگر کہا اپنے بھائیوں میں گھرے ہوئے ہو
تو ہم نے اپنے لہو کو سازش میں پھینک ڈالا
کہا تمنا کا وصل اوروں کی راحتیں ہیں
اسی سے روشن خیال لوگوں کی زندگی ہے
یہ زندگی ہے۔۔۔۔۔۔
تمام دنیا کی انگلیوں کے حصار میں اک شکار جیسی
جہاں کہیں بھی زمین لاوا ابل رہی ہے
ہمارے ہونے کا اور نہ ہونے کا ذکر جاری
ہمارے عریاں بدن پہ کتوں کے دانت تاریخ لکھ رہے ہیں
ہمارے اجداد کی وراثت ہے آ ج اڑتے غبار جیسی
اگر زمانے کے آئینے میں ہماری شکلیں بگڑ رہی ہیں
تو موجہءا ضطراب کیسا
یہی بہت ہے کہ ہم اطاعت گزار دنیا میں معتبر ہیں
عجیب دکھ ہے کہ سب حقیقت سے بے خبر۔۔۔۔
اب گھروں سے باہر نکل کے سڑکو ں پہ آ رہے ہیں
انہیں کٹے ہوئے بازوئوں سے پتلے جلا رہے ہیں