السلام علیکم
علمائے کرام سے رہنمائی چاہئیے
کہ کتے اور بلی کی خرید و فروخت جائز ہے یا نہیں؟؟؟؟ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شریعت اسلامیہ میں کتے کی خرید وفرخت سخت منع یعنی حرام ہے ،
کئی صحیح احادیث میں اس کی ممانعت و حرمت وارد ہے ،
الاسلام سؤال و جواب سائیٹ پر کتے کی بیع پر تفصیلی فتوی موجود ہے ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــ
تحريم بيع الكلب
السؤال
ما حكم بيع الكلاب وشرائها ؟
سوال : كتوں كى خريد و فروخت كا حكم كيا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نص الجواب
الحمد لله
وأما بيع الكلاب ، فبيعها حرام ، ولو كان الكلب مما يجوز اقتناؤه .
وقد وردت عن النبي صلى الله عليه وسلم أحاديث كثيرة في النهي عن بيع الكلاب ، وهي بعمومها تشمل جميع الكلاب ، ما يجوز اقتناؤه ، وما لا يجوز . فمن هذه الأحاديث :
جواب :
كتے كى خريد و فروخت حرام ہے، چاہے اس قسم كا كتا ہو جو پالنا اور ركھنا جائز ہے.
كتے كى خريد و فروخت كى ممانعت ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كئى ايك احاديث ثابت ہيں، ذيل ميں ہم چند ايك احاديث پيش كرتے ہيں:
1-
روى البخاري (1944) عن أَبِي جُحَيْفَةَ رضي الله عنه قَالَ : نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ .
1 - امام بخارى رحمہ اللہ نے ابو جحيفہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كتے كى قيمت سے منع فرمايا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1944 )
2-
وروى البخاري (2083) ومسلم (2930) عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَمَهْرِ الْبَغِيِّ وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ .
2 - امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ابو مسعود انصارى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كتے كى قيمت، اور زانيہ عورت كى اجرت اور كاہن اور نجومى كى شرينى سے منع فرمايا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2083 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2930 )
3- و
روى أبو داود (3021) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : ( نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ ، وَإِنْ جَاءَ يَطْلُبُ ثَمَنَ الْكَلْبِ فَامْلأْ كَفَّهُ تُرَابًا ) قال الحافظ : إسناده صحيح . وصححه الألباني في صحيح أبي داود .
3 - امام ابو داود نے عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كتے كى قيمت سے منع فرمايا، اور اگر كوئى تيرے پاس كتے كى قيمت كا مطالبہ لے كر آئے تو اس كى مٹھى مٹى سے بھر دو " (سنن ابو داود حديث نمبر ( 3021 )
حافظ ابن حجر نے اس كى سند كو صحيح كہا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
4-
وروى أبو داود (3023) عن أبي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قال : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( لا يَحِلُّ ثَمَنُ الْكَلْبِ ، وَلا حُلْوَانُ الْكَاهِنِ ، وَلا مَهْرُ الْبَغِيِّ ) قال الحافظ : إسناده حسن . وصححه الألباني في صحيح أبي داود .
4 - امام داود نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كتے كى قيمت حلال نہيں، اور نہ ہى كاہن اور نجومى كى شرينى اور نہ ہى فاحشہ عورت كى اجرت "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 3023 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ اس كى سند حسن ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
صحیح مسلم کے شارح علامہ نوویؒ لکھتے ہیں :
" وأما النهي عن ثمن الكلب وكونه من شر الكسب وكونه خبيثا فيدل على تحريم بيعه وأنه لا يصح بيعه ولا يحل ثمنه ولا قيمة على متلفه سواء كان معلما أم لا وسواء كان مما يجوز اقتناؤه أم لا وبهذا قال جماهير العلماء منهم أبو هريرة والحسن البصري وربيعة والأوزاعى والحكم وحماد والشافعى وأحمد وداود وبن المنذر وغيرهم وقال أبو حنيفة يصح بيع الكلاب التي فيها منفعة وتجب القيمة على متلفها وحكى بن المنذر عن جابر وعطاء والنخعي جواز بيع كلب الصيد دون غيره وعن مالك روايات إحداها لا يجوز بيعه ولكن تجب القيمة على متلفه والثانية يصح بيعه وتجب القيمة والثالثة لا يصح ولا تجب القيمة على متلفه دليل الجمهور هذه الأحاديث " انتهى
مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ لكھتے ہيں:
" كتے كى قيمت سے ممانعت اور اس كى كمائى سب سے برى ہونا، اور كتے كا خبيث ہونا اس كى خريد و فروخت كے حرام ہونے كى دليل ہے اور اس كى دليل ہے كہ اگر فروخت بھى كيا جائے تو اس كى بيع صحيح نہيں ہوگى، اور نہ ہى اس كى قيمت حلال ہے، اور نہ ہى اسے تلف كرنے پر كوئى قيمت ادا كرنا ہوگى، چاہے وہ كتا تعليم شدہ ہو، يا نہ، اور چاہے وہ كتا ہو جس كا ركھنا جائز ہے يا ركھنا جائز نہيں.
جمہور علماء جن ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ، اور امام حسن بصرىؒ اور امام ربيعہؒ، اور امام ؒاوزاعى، حكم، حماد، امام شافعىؒ، امام احمدؒ، امام داودؒ، امام ابن منذرؒ، وغيرہ شامل ہيں.
اور ابوحنیفہ كہتے ہيں كہ جس كتوں ميں منفعت ہو ان كى خريد و فروخت جائز ہے، اور اس كے تلف كرنے پر اس كى قيمت ادا كرنا ہوگى، اور ابن منذر رحمہ اللہ نے جابر، عطاء، نخعى رحمہم اللہ سے شكارى كتے كى خريد و فروخت كا جواز بيان كيا ہے، اس كے علاوہ كسى اور كتے كى نہيں ... اور جمہور علماء كرام كى دليل يہى احاديث ہيں " انتہى.
وقال الحافظ :
" ظَاهِر النَّهْي تَحْرِيم بَيْعه , وَهُوَ عَامّ فِي كُلّ كَلْب مُعَلَّمًا كَانَ أَوْ غَيْره مِمَّا يَجُوز اِقْتِنَاؤُهُ أَوْ لا يَجُوز , وَمِنْ لازِم ذَلِكَ أَنْ لا قِيمَة عَلَى مُتْلِفه , وَبِذَلِكَ قَالَ الْجُمْهُور " انتهى .
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نہى سے ظاہر يہى ہوتا ہے كہ اس كى خريد و فروخت حرام ہے، اور يہ ہر كتے كو عام ہے، چاہے وہ معلم ہو يا كوئى اور كتا جس كا پالنا اور ركھنا جائز ہو يا ركھنا اور پالنا جائز نہ ہو، اور اس سے يہ لازم آتا ہے كہ اس كے تلف كرنے پر كوئى قيمت نہيں، جمہور علماء كا يہى كہنا ہے " انتہى.
وقال ابن قدامة في "المغني" :
" لا يَخْتَلِفُ الْمَذْهَبُ فِي أَنَّ بَيْعَ الْكَلْبِ بَاطِلٌ , أَيَّ كَلْبٍ كَانَ " انتهى .
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ " المغنى " ميں رقمطراز ہيں:
" كتے كى خريد و فروخت باطل ہونے ميں كوئى مذہب مختلف نہيں، يعنى چاہے كوئى بھى كتا ہو " انتہى.
وجاء في "فتاوى اللجنة الدائمة" (13/36) :
" لا يجوز بيع الكلاب ، ولا يحل ثمنها ، سواء كانت كلاب حراسة أو صيد أو غير ذلك ، لما روى أبو مسعود عقبة بن عمرو رضي الله عنه قال : ( نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ثمن الكلب ومهر البغي وحلوان الكاهن ) متفق على صحته " انتهى .
اورفتاوی اور شرعی احکام کیلئے سعودیہ کے جید علماء کی مستقل فتوى كميٹى کا فتویٰ ہے:
" كتوں كى بيع جائز نہيں، اور نہ ہى ان كى قيمت حلال ہے، چاہے كتا شكارى ہو، يا كھيت وغيرہ كى ركھوالى والا يا كوئى اور، كيونكہ سیدناابو مسعود عقبہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كتے كى قيمت، اور فاحشہ عورت كے مہر ( فحاشى كى اجرت ) اور كاہن و نجومى كى شرينى سے منع فرمايا ہے " (متفق عليہ " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 36 ).
اور سابق مفتی اعظم شيخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
"بيع الكلب باطل" انتهى .
" كتے كى بيع باطل ہے " انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 19 / 39 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" لا يجوز بيع الكلب ، حتى لو باعه للصيد ، فإنه لا يجوز " انتهى بتصرف .
" كتے كى بيع جائز نہيں، حتى كہ اگر اسے شكار كے ليے بھى فروخت كيا جائے تو بھى جائز نہيں ہے " انتہى بتصرف.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 8 / 90 ).
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ووم:
کچھ علماء نے شکاری کتے کی بیع کو اس نہی سے مستثنیٰ کیا ہے لیکن ان کا یہ قول درست نہیں ،
جائز قرار دينے والوں نے نسائى شريف كى درج ذيل روايت سے استدلال كيا ہے:
استدل من أجاز بيع كلب الصيد بما رواه النسائي (4589) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ( نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَالسِّنَّوْرِ إِلا كَلْبِ صَيْدٍ )
یعنی سیدناجابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كتے اور بلى كى قيمت سے منع فرمايا، ليكن شكارى كتے كى قيمت سے نہيں "
سنن نسائى حديث نمبر ( 4589 ).
وهذا الاستثناء في الحديث : ( إِلا كَلْبِ صَيْدٍ ) ضعيف .
اس حديث ميں " ليكن شكارى كتے كى قيمت سے نہيں " كا استثناء ضعيف ہے.
َ
قالَ النسائي بعد روايته للحديث : هَذَا مُنْكَرٌ .
وقال السندي في "حاشية النسائي" : ضعيف باتفاق المحدثين
امام نسائى رحمہ اللہ اس حديث كو روايت كرنے كے بعد كہتے ہيں يہ منكر ہے.
اور علامہ سندھى حنفی رحمہ اللہ نے نسائى كے حاشيہ ميں كہا ہے: اس كے ضعيف ہونے ميں مدثين كا اتفاق ہے.
اور علامہ نوویؒ شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں :
"وأما الأحاديث الواردة في النهي عن ثمن الكلب إلا كلب صيد وفي رواية الا كلبا ضاريا وأن عثمان غرم إنسانا ثمن كلب قتله عشرين بعيرا وعن بن عمرو بن العاص التغريم في إتلافه فكلها ضعيفة باتفاق أئمة الحديث " انتهى
"
كتوں كى قيمت كى نہى ميں وارد شدہ سب احاديث میں سے شكارى كتے كے استثناء،
اور يہ روايت كہ: عثمان رضى اللہ تعالى عنہ نے ايك شخص كو كتا قتل كرنے كى بنا پر بيس اونٹ كا جرمانہ كيا تھا، اور يہ كہ عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہ نے كتا مارنے ميں جرمانہ كا كہا ہے، يہ سب روايات ضعيف ہيں، اس پر سب آئمہ حديث كا اتفاق ہے " انتہى.
ثالثاً :
إذا احتاج إلى الكلب للصيد أو الحراسة ولم يجد أحداً يعطيه إياه إلا بالبيع ، جاز له أن يشتريه ، ويكون الإثم على البائع ، لأنه باع ما لا يجوز له بيعه
ہاں اگر شکار یا رکھوالی کیلئے کتے کی ضرورت ہو اور کوئی بغیر قیمت کتا نہ دے رہا ہو ، تو اس صورت میں کتے کی قیمت ادا کرنا جائز ہوگا ،اور گناہ بیچنے والے پر ہوگا ۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ " المحلى " ميں رقمطراز ہيں:
(7/493) :
" وَلا يَحِلُّ بَيْعُ كَلْبٍ أَصْلا , لا كَلْبَ صَيْدٍ وَلا كَلْبَ مَاشِيَةٍ , وَلا غَيْرَهُمَا , فَإِنْ اضْطُرَّ إلَيْهِ وَلَمْ يَجِدْ مَنْ يُعْطِيه إيَّاهُ فَلَهُ ابْتِيَاعُهُ , وَهُوَ حَلالٌ لِلْمُشْتَرِي حَرَامٌ عَلَى الْبَائِعِ ، يَنْتَزِعُ مِنْهُ الثَّمَنَ مَتَى قَدَرَ عَلَيْهِ , كَالرِّشْوَةِ فِي دَفْعِ الظُّلْمِ , وَفِدَاءِ الأَسِيرِ , وَمُصَانَعَةِ الظَّالِمِ وَلا فَرْقَ " انتهى
" كتے كى بيع اصلا جائز نہيں، نہ تو شكارى كتے كى اور نہ ہى جانوروں كى ركھوالى كے ليے، اور نہ ہى كسى اور كتے كى، اور اگر اس كے ليے مجبور اور مضطر ہونا پڑے، اور كوئى بھى ايسا شخص نہ ملے جو اسے كتے دے، تو اس حالت ميں اس كے ليے كتا خريدنا جائز ہوگا، اور يہ خريدار كے ليے تو حلال ہوگا، ليكن فروخت كرنے والے كے ليے حرام، جب بھى استطاعت اور قدرت ہو فروخت كرنے والے سے خريدار كتے كى قيمت چھين لے، ظلم روكنے كےليے رشوت كى طرح، اور قيدى كو چھڑانے كے ليے فديہ كى طرح، اور ان سب ميں كوئى فرق نہيں " انتہى.
ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 7 / 493 ).
المصدر: الإسلام سؤال وجواب
https://islamqa.info/ar/answers/69818/
___________________________