محمد عثمان
رکن
- شمولیت
- فروری 29، 2012
- پیغامات
- 231
- ری ایکشن اسکور
- 596
- پوائنٹ
- 86
السلام علیکم!
ایک کتاب سے چند اقتباسات پیش کر رھا ہوں جو کہ ایک منکر حدیث type عالم نے اپنی کتاب میں تحریر کئے ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف حدیث کا انکار اور "قرآن کو کافی" سمجھنا ھے۔
مولانا صاحب فرماتے ھیں:
( "بلا شبہ ہم نے لوگوں کے لئے جو جاننے والے ہیں نشانیاں کھول کھول کر بیان کر دی ھیں"٩٧:٦۔۔۔۔۔ یہ اور اس طرح کی ایات جب پیش کی جاتی ہیں تو وہ جزبز ہو جاتے ھیں اور نا آع دیکھتے ھیں نا تاو اور شروع ھو جاتے ہیں کہ:
" ہر بات میں قرآن قرآن کرتے ہو، اگر یہ ہر معاملے میں مفصل کتاب ہے تو بتاو یہ جانور حلال ھیں یا حرام مثلاَ کتا، بلی گیدڑ بندر۔۔۔۔۔ مینا فاختہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ یاد رہے کہ ثبوت قرآن سے پیش کریں یا یہ رٹ چھوڑ دیں کہ قرآن میں سب کچھ تفصیل سے بیان ھوا ھے"
قاریئں کریم اگر یہ الفاظ کوئی دو رکعت کا امام کہتا تو اور بات تھی، جب یہ بات فضیلۃ الشیخ مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ جیسے معتبر علما کی طرف سے کی جائے تو انا للہ و انا الیہ راجعون ہی پڑھا جا سکتا ھے۔۔۔۔۔ (ص ٥٦-٥٧))
آگے فرماتے ہیں:
((جانوروں کی اقسام میں) تیسرے نمبر پر چار پاوں والے جانداروں کا ذکر ملتا ھے جو اوپر قرآن کریم کی ایات میں پایا جاتا ھے، ان کے متعلق الہی نام صرف چار پائے ھے، ہاں ان کی چار پایوں کے حساب سے ایک اندر کی تقسیم بھی ھوتی ھے کہ کچھ کو الجوارح کا نام دیا جاتا ھے اور کچھ کو الانعام کا، گویا پاوں کے لحاظ سے وہ چار پاوں رکھتے ھیں لیکن انکو قرآن کریم نے دو حصوں میں تقسیم کر دیا ھے:
١۔ الجوارح ٢- الانعام
چنانچہ قرآن کریم میں ھے: " جتنی اچھی چیریں ہیں سب تم پر حلال کر دی گئی ہیں اور شکاری جانور جو تم نے شکار کے لئے سدھار رکھے ھیں اور وہ طریقہ جیسا کہ اللہ نے تمھیں سکھا دیا ھے انکو سکھا دو، جو کچھ وہ شکار کر کہ تمھارے لئے بچا رکھیں تم اسے بھی بے کھٹکے کھا سکتے ھو مگر چاہئے کہ اللہ کا نام لے لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رھو، یاد رکھو کہ اللہ حساب لینے میں بھت تیز ھے (٤:٥)"
اسی طرح الجوارح زخموں کو بھی کھا جاتا ھے کہ "والجروح قصاص" (٤٥:٥) "زخموں کا بدلہ ھے"۔۔۔ اس نسبت سے بھی الجوارح ان جانوروں پر بولا جاتا ھے جن کا کام زخم دینا اور زخمی کرنا، چیرنا پھاڑنا اور کھا جانا ھے۔۔۔۔۔ مختصر یہ کہ قرآن کریم نے صرف یہ ایک لفظ بول کر اور استعمال کر کے اس میں تمام جانداروں کی نشاندہی کر دی جو ایسا فعل کر سکتے ہیں خواہ وہ اپنی مرضی سے اپنی خوراک کہ لئے کریں یا سدھانے والے مالک کے لئے۔ بحث صرف شکار پر ھوگی شکاری پر نھیں کیونکہ وہ الجوارح میں شمار ھوتا ھے اس لئے وہ حرام ھے۔۔۔ان جوارح کو قرآن کریم کی زبان میں السبع کے لفظ سے بھی بیان کیا گیا ھے اور سبعۃ در اصل شیر کو کہتے ھیں جو ایک خونخوار جانور ھے۔۔۔
"وما اکل السبع الا ما ذکیتم" (٣:٥) " اور وہ جسے درندہ پھاڑ جائے مگر ھاں! وہ جسے تم ذبح کر لو" چنانچہ قرآن نے حرمت علیکم کہ کر جن جانوروں کو حرام قرار دیا ھے ان مین درندہ کے پھاڑنے کا ذکر کر کہ بات واضح کردی کہ السبع کہیں یا الجوارح، یہ وہی جانور ہیں جو اللہ رب العزت نے حرام قرار دیے ھیں۔۔۔۔۔ ) اثری دلائل ختم
کتاب کا نام: حلال کیا ھے اور حرام کیا؟
موئلف: مولانا عبد الکریم اثری
ان عنوان کے معد اور بھی کافی بحث ھے مگر ساری بحث انہی دلائل کو سامنے رکھ کر کی گیئ ھے، علما کی تضحیک کی گئی ھے اور حلال و حرام جانوروں کی بحث میں ایک بھی حدیث ذکر نھی کی گئی۔۔۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔۔۔ خود کو یہ مولانا اہل حدیث کہلواتے ہیں۔۔۔ منافقت کی حد پار۔۔۔
ایک کتاب سے چند اقتباسات پیش کر رھا ہوں جو کہ ایک منکر حدیث type عالم نے اپنی کتاب میں تحریر کئے ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف حدیث کا انکار اور "قرآن کو کافی" سمجھنا ھے۔
مولانا صاحب فرماتے ھیں:
( "بلا شبہ ہم نے لوگوں کے لئے جو جاننے والے ہیں نشانیاں کھول کھول کر بیان کر دی ھیں"٩٧:٦۔۔۔۔۔ یہ اور اس طرح کی ایات جب پیش کی جاتی ہیں تو وہ جزبز ہو جاتے ھیں اور نا آع دیکھتے ھیں نا تاو اور شروع ھو جاتے ہیں کہ:
" ہر بات میں قرآن قرآن کرتے ہو، اگر یہ ہر معاملے میں مفصل کتاب ہے تو بتاو یہ جانور حلال ھیں یا حرام مثلاَ کتا، بلی گیدڑ بندر۔۔۔۔۔ مینا فاختہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ یاد رہے کہ ثبوت قرآن سے پیش کریں یا یہ رٹ چھوڑ دیں کہ قرآن میں سب کچھ تفصیل سے بیان ھوا ھے"
قاریئں کریم اگر یہ الفاظ کوئی دو رکعت کا امام کہتا تو اور بات تھی، جب یہ بات فضیلۃ الشیخ مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ جیسے معتبر علما کی طرف سے کی جائے تو انا للہ و انا الیہ راجعون ہی پڑھا جا سکتا ھے۔۔۔۔۔ (ص ٥٦-٥٧))
آگے فرماتے ہیں:
((جانوروں کی اقسام میں) تیسرے نمبر پر چار پاوں والے جانداروں کا ذکر ملتا ھے جو اوپر قرآن کریم کی ایات میں پایا جاتا ھے، ان کے متعلق الہی نام صرف چار پائے ھے، ہاں ان کی چار پایوں کے حساب سے ایک اندر کی تقسیم بھی ھوتی ھے کہ کچھ کو الجوارح کا نام دیا جاتا ھے اور کچھ کو الانعام کا، گویا پاوں کے لحاظ سے وہ چار پاوں رکھتے ھیں لیکن انکو قرآن کریم نے دو حصوں میں تقسیم کر دیا ھے:
١۔ الجوارح ٢- الانعام
چنانچہ قرآن کریم میں ھے: " جتنی اچھی چیریں ہیں سب تم پر حلال کر دی گئی ہیں اور شکاری جانور جو تم نے شکار کے لئے سدھار رکھے ھیں اور وہ طریقہ جیسا کہ اللہ نے تمھیں سکھا دیا ھے انکو سکھا دو، جو کچھ وہ شکار کر کہ تمھارے لئے بچا رکھیں تم اسے بھی بے کھٹکے کھا سکتے ھو مگر چاہئے کہ اللہ کا نام لے لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رھو، یاد رکھو کہ اللہ حساب لینے میں بھت تیز ھے (٤:٥)"
اسی طرح الجوارح زخموں کو بھی کھا جاتا ھے کہ "والجروح قصاص" (٤٥:٥) "زخموں کا بدلہ ھے"۔۔۔ اس نسبت سے بھی الجوارح ان جانوروں پر بولا جاتا ھے جن کا کام زخم دینا اور زخمی کرنا، چیرنا پھاڑنا اور کھا جانا ھے۔۔۔۔۔ مختصر یہ کہ قرآن کریم نے صرف یہ ایک لفظ بول کر اور استعمال کر کے اس میں تمام جانداروں کی نشاندہی کر دی جو ایسا فعل کر سکتے ہیں خواہ وہ اپنی مرضی سے اپنی خوراک کہ لئے کریں یا سدھانے والے مالک کے لئے۔ بحث صرف شکار پر ھوگی شکاری پر نھیں کیونکہ وہ الجوارح میں شمار ھوتا ھے اس لئے وہ حرام ھے۔۔۔ان جوارح کو قرآن کریم کی زبان میں السبع کے لفظ سے بھی بیان کیا گیا ھے اور سبعۃ در اصل شیر کو کہتے ھیں جو ایک خونخوار جانور ھے۔۔۔
"وما اکل السبع الا ما ذکیتم" (٣:٥) " اور وہ جسے درندہ پھاڑ جائے مگر ھاں! وہ جسے تم ذبح کر لو" چنانچہ قرآن نے حرمت علیکم کہ کر جن جانوروں کو حرام قرار دیا ھے ان مین درندہ کے پھاڑنے کا ذکر کر کہ بات واضح کردی کہ السبع کہیں یا الجوارح، یہ وہی جانور ہیں جو اللہ رب العزت نے حرام قرار دیے ھیں۔۔۔۔۔ ) اثری دلائل ختم
کتاب کا نام: حلال کیا ھے اور حرام کیا؟
موئلف: مولانا عبد الکریم اثری
ان عنوان کے معد اور بھی کافی بحث ھے مگر ساری بحث انہی دلائل کو سامنے رکھ کر کی گیئ ھے، علما کی تضحیک کی گئی ھے اور حلال و حرام جانوروں کی بحث میں ایک بھی حدیث ذکر نھی کی گئی۔۔۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔۔۔ خود کو یہ مولانا اہل حدیث کہلواتے ہیں۔۔۔ منافقت کی حد پار۔۔۔