سرفراز فیضی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 22، 2011
- پیغامات
- 1,091
- ری ایکشن اسکور
- 3,807
- پوائنٹ
- 376
کراؤڈ کلچر
بقلم : ابوالمیزان
ہوا کے رخ سے بغاوت کرنے والوں کو معاصرین پاگل کہتے ہیں۔ البتہ بعد میں آنے والی نسل انھیں مجدد ، کسی یونیورسٹی کا بانی، کسی زبان کا احیا کرنے والا، کسی ملک کو آزادی دلانے والا، کسی تحریک کو اپنی جان دے کر جاودانی بخشنے والا اور کسی ظالم کے ظلم سے دنیا کو آزاد کرانے والا وغیرہ وغیرہ القاب سے نوازتی ہے۔لیکن جو ہوا کے رخ کی قدر کرتے ہیں اور کراؤڈ کلچر کا حصہ بن جاتے ہیں انھیں لوگ ’’بڑا آدمی‘‘ کہتے ہیں۔ اور ایسے بڑے آدمی کسی بھی زمانے میں کم نہیں ہوتے۔ہمارے یہاں کراؤڈ کے کچھ سیزن ایسے ہیں جو بہت ہی مشہور ومعروف ہیں۔ جیسے رمضان کے مہینے میں شہروں میں بڑا کراؤڈ ہوتا ہے اور خاص طور سے ممبئی میں۔ اس کراؤڈ کی کئی شکلیں ہیں جو موقع اور مناسبت کے لحاظ سے مختلف جگہوں پر نظر آتی ہیں۔
مثال کے طور پر ایک کراؤڈ وہ ہوتا ہے جو عبادت کے لیے مسجدوں کا رخ کرتا ہے اور عام دنوں کے مقابلے میں تلاوت قرآن اور نوافل کی ادائیگی بڑی کثرت سے کرتا ہے۔ اس کراؤڈ میں زیادہ تعداد بوڑھوں، بچوں اور چہرے سے مایوس اور ناکام دکھائی دینے والے کچھ ادھیڑ عمر لوگوں کی ہوتی ہے۔ البتہ تھوڑی سی تعداد ان جوانوں اور نوجوانوں کی بھی ہوتی ہے جنھیں دیکھ کر تھوڑی دیر کے لیے دینداری کا احساس جاگ اٹھتا ہے۔
دوسرا کراؤڈ وہ ہوتا ہے جو رمضان کے سیزن کی مناسبت سے شاپنگ کے لیے نکلتا ہے اور سڑکوں اور دوکانوں میں انسانوں کی ٹرافک ایک بہت بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔ اس کراؤڈ میں لوگ کم، برقعے زیادہ چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ان میں کچھ تعداد ان نوجوانوں کی بھی ہوتی ہے جو برقعوں کے کراؤڈ میں سیر کرنے کے لیے سال بھر رمضان کے سیزن اور رمضان میں دن بھر خاص طور سے تراویح کے آس پاس والے وقت کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔
تیسرا کراؤڈ وہ ہوتا ہے جو چوبیس گھنٹوں میں کہیں بھی کبھی بھی نظر آسکتا ہے۔ ایسے لوگوں کی کوئی متعین عمر نہیں ہوتی البتہ یہ سارے مرد حضرات ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ہمیشہ ایک بیگ، پلاسٹک کی تھیلی یا اس سے ملتی جلتی کوئی چیز ضرور ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں سے چونکہ دوسرے لوگ بھاگتے زیادہ ہیں اس لیے یہ حضرات دوڑ دوڑ کر مسجدوں میں بھاگنے والوں کو پکڑنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ کہیں کہیں انھیں لائنوں میں بھی کھڑا پایا جاتا ہے۔ان کی محنت کی داد دینی چاہیے کہ رمضان جیسا مبارک مہینہ اپنی قوم کے بچوں کی تعلیم پر نچھاور کردیتے ہیں۔
چوتھا کراؤڈ قدر کی طاق راتوں میں علماء کا بیان سننے کے لیے امڈتا ہے۔ یہ اس کراؤڈ سے بہت کم ہوتا ہے جو بڑے بڑے میدانوں میں منعقد کیے جانے والے جلسوں میں شریک ہوتا ہے۔شہر ہو یا گاؤں، عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جلسے کی خبر ملتے ہی جو سب سے پہلا سوال کیا جاتا ہے وہ بالکل یہ نہیں ہوتا کہ کن موضوعات پر تقریریں ہوں گی؟ دین کی کون کون سی باتیں بتائی جائیں گی؟ بلکہ سب سے پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ کون کون خطیب آرہا ہے؟ فلاں مقرر آرہے ہیں کہ نہیں؟
افسوس کی بات یہ ہے کہ علماء حضرات نے اس ذہنیت کو پروان چڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اور آج حال یہ ہے کہ زیادہ تر سامعین جو جلسوں میں آتے ہیں وہ بڑی پابندی کے ساتھ غیر اسلامی مجلسوں میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مئی کے مہینے میں گاؤں جانے کا اتفاق ہوا ۔چونکہ اس مہینے میں وہاں کے کسان بڑی فرصت میں ہوتے ہیں اس لیے بڑی دھوم دھام سے جلسے کرائے جاتے ہیں۔ یہ جان کر بڑا ہی تعجب ہوا کہ جلسوں میں شریک ہوکر اور اسٹیج کے بالکل سامنے ہی بیٹھ کر تقریریں سننے والے ناچ اور آرکیسٹرا بھی اتنے ہی جوش وخروش سے دیکھتے ہیں۔
اگر ہمارا کراؤڈ ایسا ہے جس کے لیے ہم نے کامیاب مقررین کے نام پر دوچار بندر پال رکھے ہیں اور مسلسل ان کو بڑھاوا بھی دے رہے ہیں تو تبلیغ دین کے لیے منعقد ہونے والے جلسوں کا حاصل کیا ہے؟ ۔۔۔اگر ایسے کراؤڈ میں سے کوئی نکل کے آتا ہے اور آپ سے پوچھتا ہے کہ میں ناپاک ہوں، مٹی دے سکتا ہوں کہ نہیں؟۔۔۔تو آپ کیا جواب دیں گے؟۔۔۔ کیا ان جلسوں سے ابھی اتنی بھی تربیت نہیں ہوپائی ہے کہ لوگوں کو سوال کرنے کا سلیقہ ہی آتا۔ گاؤں یا علاقے میں کسی کی میت ہوجائے تو اس کراؤڈ کا ایک مسلمان اتنا بھی نہیں کرسکتا کہ غسل کرے، نماز جنازہ ادا کرے اور پھر مٹی دے؟؟؟
مکے سے امام حرم کو بلاکر کراؤڈ اکٹھا کرتے ہواور دل ہی دل میں خوش ہولیتے ہو، ٹھیک ہے مگر ان کی غیر موجودگی میں اپنے سامنے پڑی خالی کرسیوں سے کچھ تو سبق سیکھوبھائی
۔۔۔!!!Welcome to Freelancer.co.in Mumbai
--- *** ---