حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
ایک رات مامون کا ایک مصاحب اُسے قصے کہانیاں اور اشعار سنا رہا تھا۔ اس سلسلے میں اس نے یہ حکایت بھی سنائی کہ میرے پڑوس میں ایک بہت دین دار، نیک اور کفایت شعار آدمی رہتا تھا۔ اس کا اکلوتا بیٹا ابھی نو عمر اور ناتجربے کار تھا۔
مرتے وقت اس نے بیٹے کو وصیت کی کہ خدا نے مجھے بہت روپیہ پیسہ دیا ہے، اتنا کہ سنبھال کر رکھو اور سنبھل کر خرچ کرو تو کئی پشتوں تک کے لیے بہت ہوگا۔ ابھی تمہیں معلوم نہیں کہ پیسہ پیدا کرنے میں کیسی محنت مشقت کرنی پڑتی ہے۔ اسے کچھ میرا ہی دل جانتا ہے۔ میں نے خون پسینہ ایک کرکے یہ دولت جمع کی ہے اور تمہیں مفت ہاتھ لگے گی۔ اس کے باوجود میری محنت و مصیبت کا خیال رکھنا اور اس کی قدر کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ یار دوستوں کے ساتھ مل کر چند ہی روز میں اڑا دو۔ خدا نخواستہ ایسا ہو تو میری دو باتیں یاد رکھنا۔ وہ یہ کہ اگر مکان کا سامان تک فروخت کرنے کی نوبت آجائے تو ہرج نہیں۔
لیکن مکان ہرگز فروخت نہ کرنا کیوں کہ بے گھر آدمی کا دنیا بھر میں کہیں ٹھکانا نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ خواہ کیسی ہی بپتا کیوں نہ پڑے، زمانہ ادھر سے اُدھر ہی کیوں نہ ہو جائے، کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا۔ اس مکان کے فلاں حصے میں، میں نے ایک رسی لٹکا دی ہے، اس کے نیچے ایک کرسی بچھی ہے۔ اس کرسی پر چڑھ کر رسی کا پھندا گلے میں ڈال لینا اور کرسی کو ٹھوکر مار کر نیچے سے ہٹا دینا کیوں کہ مفلسی، فقیری اور بے شرمی کی زندگی سے موت اچھی ہوتی ہے۔''
یہ وصیت کرکے باپ تو اللہ کے گھر سدھارا اور بیٹے نے اس کا کفن میلا ہونے سے پہلے ہی گلچھرے اڑانے شروع کردیئے۔ زمانے بھر کے بے فکرے اور اچکے دوست بن گئے اور دونوں ہاتھوں سے اسے لوٹنے لگے۔ راگ رنگ کی محفلیں جمنے لگیں اور عیش و عشرت کے جلسے ہونے لگے:
ہر روز روز عید تھا، ہر شب شب برات!
اسراف اور فضول خرچی تو وہ بدبلا ہے کہ ایک گھڑی میں بادشاہی خزانے خالی ہوجائیں۔ اس شخص کے مال و دولت کی بساط ہی کیا تھی۔ دیکھتے دیکھتے ہوا ہوگئی اور تھوڑے ہی دنوں میں گھر کے اثاثے کے کوڑے ہونے لگے۔
ایک دن اس ناعاقبت اندیش نوجوان کی آنکھ کھلی تو جیب میں پائی تک نہ تھی:
جس وقت کا دھڑکا تھا وہ وقت آگیا آخر!
دو چار دن فاقے کیے۔ بھوک کے مارے برا حال ہوا، مگر کوئی دوست پاس نہ آیا:
سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے
کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتا ہے انساں سے
جب فاقوں کے مارے بدن میں جان نہ رہی تو وہ خودکشی کے ارادے سے باپ کے بتائے ہوئے کمرے میں پہنچا۔ کرسی پر چھڑ کر چھت سے بندھی ہوئی رسی کا پھندا گلے میں ڈالا اور کرسی کو ٹھوکر مار کر دور پھینک دیا۔
جیسے ہی کرسی ہٹی اور رسی کی گرفت اس کے گلے پر مضبوط ہوئی، وہ نیچے گرا اور اس کے ساتھ ہی چھت کی ایک لکڑی کی کڑی سے ہزاروں اشرفیاں آگریں۔
یہ دیکھ کر نوجوان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا اور وہ سمجھا کہ خودکشی کی نصیحت سے اس کے عقل مند باپ کا کیا مقصد تھا۔ فوراً وضو کیا اور دو رکت نماز شکرانے کی پڑھی۔
عین مصیبت کے وقت دس ہزار اشرفیوں کا ملنا ایسی بات نہ تھی کہ اس نوجوان پر اثر نہ ہوتا۔ اس نے برے دوستوں کی صحبت اور فضول خرچی سے توبہ کی اور کفایت شعاری سے بہت آرام کی زندگی بسر کرنے لگا۔
مرتے وقت اس نے بیٹے کو وصیت کی کہ خدا نے مجھے بہت روپیہ پیسہ دیا ہے، اتنا کہ سنبھال کر رکھو اور سنبھل کر خرچ کرو تو کئی پشتوں تک کے لیے بہت ہوگا۔ ابھی تمہیں معلوم نہیں کہ پیسہ پیدا کرنے میں کیسی محنت مشقت کرنی پڑتی ہے۔ اسے کچھ میرا ہی دل جانتا ہے۔ میں نے خون پسینہ ایک کرکے یہ دولت جمع کی ہے اور تمہیں مفت ہاتھ لگے گی۔ اس کے باوجود میری محنت و مصیبت کا خیال رکھنا اور اس کی قدر کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ یار دوستوں کے ساتھ مل کر چند ہی روز میں اڑا دو۔ خدا نخواستہ ایسا ہو تو میری دو باتیں یاد رکھنا۔ وہ یہ کہ اگر مکان کا سامان تک فروخت کرنے کی نوبت آجائے تو ہرج نہیں۔
لیکن مکان ہرگز فروخت نہ کرنا کیوں کہ بے گھر آدمی کا دنیا بھر میں کہیں ٹھکانا نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ خواہ کیسی ہی بپتا کیوں نہ پڑے، زمانہ ادھر سے اُدھر ہی کیوں نہ ہو جائے، کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا۔ اس مکان کے فلاں حصے میں، میں نے ایک رسی لٹکا دی ہے، اس کے نیچے ایک کرسی بچھی ہے۔ اس کرسی پر چڑھ کر رسی کا پھندا گلے میں ڈال لینا اور کرسی کو ٹھوکر مار کر نیچے سے ہٹا دینا کیوں کہ مفلسی، فقیری اور بے شرمی کی زندگی سے موت اچھی ہوتی ہے۔''
یہ وصیت کرکے باپ تو اللہ کے گھر سدھارا اور بیٹے نے اس کا کفن میلا ہونے سے پہلے ہی گلچھرے اڑانے شروع کردیئے۔ زمانے بھر کے بے فکرے اور اچکے دوست بن گئے اور دونوں ہاتھوں سے اسے لوٹنے لگے۔ راگ رنگ کی محفلیں جمنے لگیں اور عیش و عشرت کے جلسے ہونے لگے:
ہر روز روز عید تھا، ہر شب شب برات!
اسراف اور فضول خرچی تو وہ بدبلا ہے کہ ایک گھڑی میں بادشاہی خزانے خالی ہوجائیں۔ اس شخص کے مال و دولت کی بساط ہی کیا تھی۔ دیکھتے دیکھتے ہوا ہوگئی اور تھوڑے ہی دنوں میں گھر کے اثاثے کے کوڑے ہونے لگے۔
ایک دن اس ناعاقبت اندیش نوجوان کی آنکھ کھلی تو جیب میں پائی تک نہ تھی:
جس وقت کا دھڑکا تھا وہ وقت آگیا آخر!
دو چار دن فاقے کیے۔ بھوک کے مارے برا حال ہوا، مگر کوئی دوست پاس نہ آیا:
سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے
کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتا ہے انساں سے
جب فاقوں کے مارے بدن میں جان نہ رہی تو وہ خودکشی کے ارادے سے باپ کے بتائے ہوئے کمرے میں پہنچا۔ کرسی پر چھڑ کر چھت سے بندھی ہوئی رسی کا پھندا گلے میں ڈالا اور کرسی کو ٹھوکر مار کر دور پھینک دیا۔
جیسے ہی کرسی ہٹی اور رسی کی گرفت اس کے گلے پر مضبوط ہوئی، وہ نیچے گرا اور اس کے ساتھ ہی چھت کی ایک لکڑی کی کڑی سے ہزاروں اشرفیاں آگریں۔
یہ دیکھ کر نوجوان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا اور وہ سمجھا کہ خودکشی کی نصیحت سے اس کے عقل مند باپ کا کیا مقصد تھا۔ فوراً وضو کیا اور دو رکت نماز شکرانے کی پڑھی۔
عین مصیبت کے وقت دس ہزار اشرفیوں کا ملنا ایسی بات نہ تھی کہ اس نوجوان پر اثر نہ ہوتا۔ اس نے برے دوستوں کی صحبت اور فضول خرچی سے توبہ کی اور کفایت شعاری سے بہت آرام کی زندگی بسر کرنے لگا۔