محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
کراچی ۔ ۔ ۔ شہر کی تقدیر سے مجھے خوف آتا ہے
کراچی کے ایک پوش ایریا میں رہتا ہوں۔ میرے مکان سے مین روڈ کا فاصلہ ایک کیلو میٹر سے بھی کم ہے۔ لیکن اس راستے میں ہمارے مہربان اہل محلہ مسلمان بھائیوں نے خطرناک قسم کے سات اسپیڈ بریکرز(ھمپ) بنا رکھے ہیں جن پر سے ہر آنے جانے والے کو چودہ جھٹکے لگتے ہیں جو اُن کے چودہ طبق روشن کر دیتے ہیں اور مجھ جیسے شخص کے بھی ریڑھ کی ہڈیاں چیخنے لگتی ہیں تو بوڑھوں کا کیا حال ہوتا ہوگا۔
یہاں کے شہریوں کو کھلی آزادی ہے کہ جہاں مرضی وہاں سڑکوں پر کھڈے کریں یا خطرناک قسم کے اسپیڈ بریکر (ھمپ) بنائیں کیونکہ ہم آزاد قوم ہیں اور ہمارے نزدیک آزادی اسی کا نام ہے۔ کیونکہ ہم سب مسلمان ہیں۔ آج مسلمانوں کا کام مسلمانوں کو تکلیف دینا ہے جو کہ ان کے نزدیک شاید یہی سب سے بڑا صدقہ ہے۔
آج ہم سب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کرنے کو ہی اپنی سعادت سمجھ لیا ہے۔ اس لئے اب سب مل کر اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’ تمارا راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا بھی صدقہ ہے ‘‘۔
لیکن آج کے مسلمان راستے میں تکلیف دہ چیز مستقلاً (permanently) نصب کردیتے ہیں، تاکہ مدتوں لوگوں کو تکلیف پہنچتا رہے۔
اس شہر میں سڑکوں پر کھڈے کرنے یا خطرناک قسم کے اسپیڈ بریکر (ھمپ) بنانے والوں کو کوئی نہیں روکتا، جو شریف لوگ ہیں وہ اپنی عزت بچا کر چل دیتے ہیں اور اگر کوئی روڈ انسپیکٹر آتا ہے تو وہ بھی رشوت لینے کیلئے ہی آتا ہے۔
اس شہر میں پچھلے قریب 30 سال تک خوف کا بادل چھایا رہا لیکن پھر بھی یہاں کے مکیں نہیں سدھرے ، اب کچھ امن و امان ہے جو کہ اللہ کا خاص کرم ہے۔
آج وہ کونسی برائی ہے جو اس شہر میں نہ ہو رہی ہو۔ کہنے کو یہاں سب ہی مسلمان ہیں لیکن اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کرنے میں کسی عذاب زدہ قوم سے کسی بھی طرح پیچھے نہیں ہیں۔
کرپشن یہاں عروج پر ہے، یہاں ایک فقیر سے لے کر حاکم تک سب ہی کرپٹ ہیں۔
لیکن اس کے باوجود اس شہر میں بڑی خوشحالی ہے ۔
یہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا۔
یہ شہر دینی علوم کا گہورہ ہے۔
اور علم و ہنر کا سرچشمہ بھی ہے۔
یہاں مخیر حضرات کی بھی کمی نہیں ہے۔
یہاں بے شمار فلاحی اور سماجی ادارے بھی ہیں۔
لیکن پھر بھی اس شہر کی تقدیر سے مجھے خوف آتا ہے۔
کیونکہ
اس شہر میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانیاں بھی عروج پر ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے دعا کی ہے: ” اے اللہ! میری امت کے لئے دن کے ابتدائی حصے میں برکت ڈال دے“ (مسلم)
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ عشاء سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد گفتگو کرنے کو ناپسند فرماتے‘‘ (بخاری) ۔
لیکن یہاں نبی ﷺ کو ماننے والے دن کے ابتدائی حصے میں سوتے رہتے ہیں۔ فجر کے وقت اعلان کیا جاتا ہے کہ نماز نیند سے بہتر ہے لیکن یہاں مسلمانوں کی اکثریت غفلت کی نیند سو رہی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ دن میں پانچ وقت بلاتا ہے کہ ’’آؤ کامیابی کی طرف‘‘ لیکن یہاں مسلمان دنیا کے پیچھے بھاگ رہا ہوتا ہے۔ ہم کیسے مسلمان ہیں جنہیں انسانوں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے لیکن اللہ سے باتیں کرنے کا ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہوتا؟ اپنی دنیاوی مقاصد کیلئے ہم بن سنور کر انسانوں کے گھروں تک جاتے ہیں لیکن اللہ سے ملاقات کرنے کیلئے مسجد تک نہیں جا سکتے؟
ہم مسلمانوں کے نبی ﷺ رات کو نمازِ عشاء کے بعد گفتگوں کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے لیکن ہم مسلمان تو دنیاوی مشاغل، خرید و فروخت کرتے اور لہو ولعب میں لگے رہتے ہیں۔
اس شہر میں بازار دوپہر کے بعد کھلتے ہیں اور رات دیر تک کھلے رہتے ہیں۔ یہاں کے تاجر بہت زیادہ منافع خور ہیں، جھوٹ فریب دھوکا ان کی تجارت کا خاص حصہ ہے۔ یہ خریداروں سے اُن کی جیب دیکھ کر باتیں کرتے ہیں اور ان کی جیب سے رقم نکوانے کا ہنر رکھتے ہیں۔ خریدار اللہ کی رحمت بن کر آتا ہے لیکن یہاں کے تاجر خریداروں سے بد سلوکی اور بد تمیزی کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے کیونکہ ان کے پیٹ بھرے رہتے ہیں۔
اب ایسے لوگ جو اپنے نبی ﷺ کی تعلیمات پر عمل ہی نہ کرتے ہوں، جو لوگ دن کے ابتدائی حصے کی برکتوں سے محروم ہوں، پانچ نمازوں کی برکتوں سے محروم ہوں اور رات کی برکتوں سے محروم ہوں انہیں برکتوں کا کیا پتہ، انہیں اللہ کی رحمت سے کیا واسطہ، ایسے لوگوں سے کیا خیر کی توقع کی جاسکتی ہے، وہ کیوں کرپشن نہیں کریں گے، وہ کیونکر اپنی تجارت میں ناجائز منافع خوری، ملاوٹ اور کرپشن نہیں کریں گے۔
یہی حال یہاں کی ملازمت پیشہ اکثریت کی ہے۔ اس شہر میں جو لوگ ایسی جگہوں ملازمت کرتے ہیں جہاں کرپشن کرنے کی گنجائش ہے، انہیں اپنی تنخواہ سے زیادہ اوپر کی کمائی یعنی رشوت کی فکر لگی رہتی ہے اور جو ایسی جگہوں پر ہیں جہاں کرپشن کرنے کی گنجائش ہی نہیں، وہ بھی بس موقع نہ ملنے کی وجہ کر نیک بنے ہوئے ہیں۔
اب مسلمانوں کی اکثریت کے نزدیک اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی باتیں بے معنی ہوکر رہ گئی ہیں، اب اللہ کی نہیں بلکہ مال کی پرستش کی جارہی ہے، اب مال ہی الٰہ بن گیا ہے‘‘ ۔ ۔ ۔ اور جب مال ہی خدا ہے تو اس سے بڑھ کر شرک اور کیا ہے؟
لوگ مال کیلئے ہر کچھ کرنے کو تیار ہیں۔
مال جمع کرنے کا آسان طریقہ کرپشن ہے۔
اس لئے کرپسن روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
اور کرپٹ لوگ خوشحال ہوتے جا رہے ہیں۔
لیکن ان کی خوشحالی سے مجھے خوف آتا ہے۔
۔ ۔ ۔ کراچی شہر کی تقدیر سے مجھے خوف آتا ہے ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ بلکہ پورے پاکستان کی تقدیر سے مجھے خوف آتا ہے ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ پورے پاکستان کے ہر شہر اور بستی سے مجھے خوف آتا ہے ۔ ۔ ۔
کیونکہ
ہمارے رب کا فرمان ہے:
وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا ﴿١٦﴾ سورة الإسراء
’’ جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں اور اس شہر اور پورے ملک کے خوشحال لوگوں کو عقل و شعور عطا فرمائیں تاکہ ہم سب اس نوشتۂ تقدیر کو پڑھ لیں اور اس دنیا کی اور ہمیشہ کی ہلاکت سے بچینے کی کوشش کریں۔
اے اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرما اور ہمیں اُس ہلاکت اور بربادی سے بچالے جسے ہم خود ہی دعوت دے رہے ہیں، بے شک تو پاک ہے۔ آمین۔
تحریر: محمد اجمل خان
کراچی کے ایک پوش ایریا میں رہتا ہوں۔ میرے مکان سے مین روڈ کا فاصلہ ایک کیلو میٹر سے بھی کم ہے۔ لیکن اس راستے میں ہمارے مہربان اہل محلہ مسلمان بھائیوں نے خطرناک قسم کے سات اسپیڈ بریکرز(ھمپ) بنا رکھے ہیں جن پر سے ہر آنے جانے والے کو چودہ جھٹکے لگتے ہیں جو اُن کے چودہ طبق روشن کر دیتے ہیں اور مجھ جیسے شخص کے بھی ریڑھ کی ہڈیاں چیخنے لگتی ہیں تو بوڑھوں کا کیا حال ہوتا ہوگا۔
یہاں کے شہریوں کو کھلی آزادی ہے کہ جہاں مرضی وہاں سڑکوں پر کھڈے کریں یا خطرناک قسم کے اسپیڈ بریکر (ھمپ) بنائیں کیونکہ ہم آزاد قوم ہیں اور ہمارے نزدیک آزادی اسی کا نام ہے۔ کیونکہ ہم سب مسلمان ہیں۔ آج مسلمانوں کا کام مسلمانوں کو تکلیف دینا ہے جو کہ ان کے نزدیک شاید یہی سب سے بڑا صدقہ ہے۔
آج ہم سب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کرنے کو ہی اپنی سعادت سمجھ لیا ہے۔ اس لئے اب سب مل کر اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’ تمارا راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا بھی صدقہ ہے ‘‘۔
لیکن آج کے مسلمان راستے میں تکلیف دہ چیز مستقلاً (permanently) نصب کردیتے ہیں، تاکہ مدتوں لوگوں کو تکلیف پہنچتا رہے۔
اس شہر میں سڑکوں پر کھڈے کرنے یا خطرناک قسم کے اسپیڈ بریکر (ھمپ) بنانے والوں کو کوئی نہیں روکتا، جو شریف لوگ ہیں وہ اپنی عزت بچا کر چل دیتے ہیں اور اگر کوئی روڈ انسپیکٹر آتا ہے تو وہ بھی رشوت لینے کیلئے ہی آتا ہے۔
اس شہر میں پچھلے قریب 30 سال تک خوف کا بادل چھایا رہا لیکن پھر بھی یہاں کے مکیں نہیں سدھرے ، اب کچھ امن و امان ہے جو کہ اللہ کا خاص کرم ہے۔
آج وہ کونسی برائی ہے جو اس شہر میں نہ ہو رہی ہو۔ کہنے کو یہاں سب ہی مسلمان ہیں لیکن اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کرنے میں کسی عذاب زدہ قوم سے کسی بھی طرح پیچھے نہیں ہیں۔
کرپشن یہاں عروج پر ہے، یہاں ایک فقیر سے لے کر حاکم تک سب ہی کرپٹ ہیں۔
لیکن اس کے باوجود اس شہر میں بڑی خوشحالی ہے ۔
یہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا۔
یہ شہر دینی علوم کا گہورہ ہے۔
اور علم و ہنر کا سرچشمہ بھی ہے۔
یہاں مخیر حضرات کی بھی کمی نہیں ہے۔
یہاں بے شمار فلاحی اور سماجی ادارے بھی ہیں۔
لیکن پھر بھی اس شہر کی تقدیر سے مجھے خوف آتا ہے۔
کیونکہ
اس شہر میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانیاں بھی عروج پر ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے دعا کی ہے: ” اے اللہ! میری امت کے لئے دن کے ابتدائی حصے میں برکت ڈال دے“ (مسلم)
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ عشاء سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد گفتگو کرنے کو ناپسند فرماتے‘‘ (بخاری) ۔
لیکن یہاں نبی ﷺ کو ماننے والے دن کے ابتدائی حصے میں سوتے رہتے ہیں۔ فجر کے وقت اعلان کیا جاتا ہے کہ نماز نیند سے بہتر ہے لیکن یہاں مسلمانوں کی اکثریت غفلت کی نیند سو رہی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ دن میں پانچ وقت بلاتا ہے کہ ’’آؤ کامیابی کی طرف‘‘ لیکن یہاں مسلمان دنیا کے پیچھے بھاگ رہا ہوتا ہے۔ ہم کیسے مسلمان ہیں جنہیں انسانوں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے لیکن اللہ سے باتیں کرنے کا ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہوتا؟ اپنی دنیاوی مقاصد کیلئے ہم بن سنور کر انسانوں کے گھروں تک جاتے ہیں لیکن اللہ سے ملاقات کرنے کیلئے مسجد تک نہیں جا سکتے؟
ہم مسلمانوں کے نبی ﷺ رات کو نمازِ عشاء کے بعد گفتگوں کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے لیکن ہم مسلمان تو دنیاوی مشاغل، خرید و فروخت کرتے اور لہو ولعب میں لگے رہتے ہیں۔
اس شہر میں بازار دوپہر کے بعد کھلتے ہیں اور رات دیر تک کھلے رہتے ہیں۔ یہاں کے تاجر بہت زیادہ منافع خور ہیں، جھوٹ فریب دھوکا ان کی تجارت کا خاص حصہ ہے۔ یہ خریداروں سے اُن کی جیب دیکھ کر باتیں کرتے ہیں اور ان کی جیب سے رقم نکوانے کا ہنر رکھتے ہیں۔ خریدار اللہ کی رحمت بن کر آتا ہے لیکن یہاں کے تاجر خریداروں سے بد سلوکی اور بد تمیزی کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے کیونکہ ان کے پیٹ بھرے رہتے ہیں۔
اب ایسے لوگ جو اپنے نبی ﷺ کی تعلیمات پر عمل ہی نہ کرتے ہوں، جو لوگ دن کے ابتدائی حصے کی برکتوں سے محروم ہوں، پانچ نمازوں کی برکتوں سے محروم ہوں اور رات کی برکتوں سے محروم ہوں انہیں برکتوں کا کیا پتہ، انہیں اللہ کی رحمت سے کیا واسطہ، ایسے لوگوں سے کیا خیر کی توقع کی جاسکتی ہے، وہ کیوں کرپشن نہیں کریں گے، وہ کیونکر اپنی تجارت میں ناجائز منافع خوری، ملاوٹ اور کرپشن نہیں کریں گے۔
یہی حال یہاں کی ملازمت پیشہ اکثریت کی ہے۔ اس شہر میں جو لوگ ایسی جگہوں ملازمت کرتے ہیں جہاں کرپشن کرنے کی گنجائش ہے، انہیں اپنی تنخواہ سے زیادہ اوپر کی کمائی یعنی رشوت کی فکر لگی رہتی ہے اور جو ایسی جگہوں پر ہیں جہاں کرپشن کرنے کی گنجائش ہی نہیں، وہ بھی بس موقع نہ ملنے کی وجہ کر نیک بنے ہوئے ہیں۔
اب مسلمانوں کی اکثریت کے نزدیک اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی باتیں بے معنی ہوکر رہ گئی ہیں، اب اللہ کی نہیں بلکہ مال کی پرستش کی جارہی ہے، اب مال ہی الٰہ بن گیا ہے‘‘ ۔ ۔ ۔ اور جب مال ہی خدا ہے تو اس سے بڑھ کر شرک اور کیا ہے؟
لوگ مال کیلئے ہر کچھ کرنے کو تیار ہیں۔
مال جمع کرنے کا آسان طریقہ کرپشن ہے۔
اس لئے کرپسن روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
اور کرپٹ لوگ خوشحال ہوتے جا رہے ہیں۔
لیکن ان کی خوشحالی سے مجھے خوف آتا ہے۔
۔ ۔ ۔ کراچی شہر کی تقدیر سے مجھے خوف آتا ہے ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ بلکہ پورے پاکستان کی تقدیر سے مجھے خوف آتا ہے ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ پورے پاکستان کے ہر شہر اور بستی سے مجھے خوف آتا ہے ۔ ۔ ۔
کیونکہ
ہمارے رب کا فرمان ہے:
وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا ﴿١٦﴾ سورة الإسراء
’’ جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں اور اس شہر اور پورے ملک کے خوشحال لوگوں کو عقل و شعور عطا فرمائیں تاکہ ہم سب اس نوشتۂ تقدیر کو پڑھ لیں اور اس دنیا کی اور ہمیشہ کی ہلاکت سے بچینے کی کوشش کریں۔
اے اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرما اور ہمیں اُس ہلاکت اور بربادی سے بچالے جسے ہم خود ہی دعوت دے رہے ہیں، بے شک تو پاک ہے۔ آمین۔
تحریر: محمد اجمل خان
Last edited: