ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 594
- ری ایکشن اسکور
- 188
- پوائنٹ
- 77
کرسمس کی مبارکباد اور نصاریٰ کو مسیحی کہنے کا شرعی حکم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ہمارے محترم شیخ ایمن بن سعود العنقری حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
الإخوة الكرام / في هذه الأيام يحتفل أعداء الله النصارى بأعيادهم الوثنية من الكريسميس ورأس السنة الميلادية
معزز بھائیو، ان دنوں میں اللہ کے دشمن نصاریٰ اپنے مشرکانہ تہواروں جیسے کرسمس اور نئے عیسوی سال کی خوشیاں منا رہے ہیں۔
ويتساهل بعض المسلمين في تهنئتهم من باب المجاملة خاصة ممن يعمل معهم في الشركات التي يكون فيها نصارى
کچھ مسلمان ان کے ساتھ کام کرنے یا تعلقات کی بنا پر محض رواداری اور خوش اخلاقی کے نام پر انہیں مبارکباد دیتے ہیں۔
وهذا خطير على دينه ، فحذروا أهلكم وأبناءكم ومن تعرفون من هذا الكفر الصريح ..
یہ عمل دین کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ اپنے اہل خانہ، بچوں اور جاننے والوں کو اس کھلے کفر سے دور رہنے کی نصیحت کریں اور انہیں خبردار کریں۔
نیز فرمایا :
تهنئة النصارى بالكريسميس حرام بالاتفاق؛ لأن فيه إقرارا لماهم عليه من الكفر، ويحرم على المسلم تبادل الهدايا معهم،ومن فعل ذلك فهو آثم سواء فعله مجاملة ، أو توددا ، أو حياء، ومن الغلط تسمية النصارى بالمسيحيين؛ لأن عيسى عليه السلام برئ منهم من قولهم :الله ثالث ثلاثة ، بل يسمون نصارى ٠
نصاریٰ کو کرسمس کی مبارکباد دینا بالاتفاق حرام ہے، کیونکہ اس میں ان کے کفر پر رضامندی کا اظہار ہوتا ہے۔ مسلمان کے لیے ان کے ساتھ تحائف کا تبادلہ بھی حرام ہے، اور جو شخص یہ عمل کرے، چاہے وہ خوش اخلاقی، محبت، یا شرمندگی کے باعث کرے، وہ گناہگار ہوگا۔ علاوہ ازیں، نصاریٰ کو "مسیحی" کہنا بھی غلط ہے، کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام ان سے بری ہیں، جو کہتے ہیں کہ اللہ تین میں سے ایک ہے۔ بلکہ ان کو "نصارى" کہا جانا چاہیے۔
علامہ ابن العثیمین فرماتے ہیں :
تهنئة الكفار بعيد الكريسمس أو غيره من أعيادهم الدينية حرام بالاتفاق
کافروں کو کرسمس یا ان کے دیگر مذہبی تہواروں پر مبارکباد دینا بالاتفاق حرام ہے۔
نیز فرمایا :
لأن فيها إقرارًا لما هم عليه من شعائر الكفر، ورضى به لهم
کیونکہ اس میں ان کے کفر پر مبنی شعائر کو تسلیم کرنا اور ان کے لیے اس پر راضی ہونا شامل ہے۔
مزید فرمایا :
وإجابة المسلم دعوتهم بهذه المناسبة حرام، لأن هذا أعظم من تهنئتهم بها لما في ذلك من مشاركتهم فيها
ایسے مواقع پر مسلمانوں کا ان کی دعوت قبول کرنا حرام ہے، کیونکہ یہ انہیں مبارکباد دینے سے بھی بڑا گناہ ہے، کیونکہ اس میں ان کے ساتھ شرکت کا عنصر شامل ہو جاتا ہے۔
مزید فرمایا :
وكذلك يحرم على المسلمين التشبه بالكفار بإقامة الحفلات بهذه المناسبة، أو تبادل الهدايا أو توزيع الحلوى
اسی طرح مسلمانوں پر یہ بھی حرام ہے کہ وہ کافروں کی مشابہت کرتے ہوئے ان مواقع پر تقریبات کا انعقاد کریں، تحائف کا تبادلہ کریں، یا مٹھائیاں تقسیم کریں۔
مزید فرمایا :
ومن فعل شيئًا من ذلك فهو آثم سواء فعله مجاملة، أو توددا، أو حياة أو لغير ذلك من الأسباب، لأنه من المداهنة في دين الله ، ومن أسباب تقوية نفوس الكفار وفخرهم بدينهم .
اور جو کوئی ان میں سے کوئی عمل کرے، وہ گناہ گار ہوگا، خواہ اس نے یہ کام رسمی طور پر کیا ہو، محبت کے اظہار کے لیے، شرم و حیا کی وجہ سے، یا کسی اور سبب کے تحت، اسلئے کہ یہ دینِ الٰہی میں مداہنت ہے اور کافروں کے دلوں کو تقویت دینے اور ان کے دین پر فخر کرنے کا سبب ہے۔
اسی طرح علامہ ابن العثیمین نے نصارى کو "مسیحی" کہہ کر پکارنے کا حکم بیان کرتے ہوئے فرمایا :
الَّذِي نرى أن نُسَمِّيَ النَّصارى بالنَّصَارَى، كَمَا سَمَّاهُمُ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ وكما هُوَ مَعْرُوفٌ فِي كُتب العلماء السابقين، كانُوا يُسمونهم: اليَهُودَ وَالنَّصَارَى
ہماری رائے یہ ہے کہ نصاریٰ کو نصاریٰ ہی کہا جائے، جیسا کہ اللہ عزوجل نے ان کا یہی نام رکھا ہے اور جیسا کہ پہلے علماء کی کتب میں یہ معروف ہے، جہاں انہیں یہود اور نصاریٰ نام دیا جاتا تھا۔
نیز فرمایا :
فأنا أعلمُ عِلْمَ اليَقِينِ أَنَّ الْمَسِيحَ عِيسَى بْنَ مريمَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بريء منهم، وسيقول يَوْمَ القِيَامَةِ إِذَا سَأَلَهُ الله: {أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ} [المائدة:١١٦]
اور میں یقین کے ساتھ جانتا ہوں کہ اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بری ہیں، اور وہ کہیں گے جب قیامت کے دن اللہ ان سے سوال کرے گا: کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا دو معبود بنا لو؟
سيقول: {سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ إِنْ كُنْتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ * مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ.} [المائدة:١١٦-١١٧] إلى آخر الآية.
وہ کہیں گے : تو پاک ہے، مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کو کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں، اگر میں نے کہا ہوگا تو تجھ کو اس کا علم ہوگا، تو تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا تمام غیبوں کے جاننے والا تو ہی ہے۔ [المائدة: ١١٦]
مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
میں نے انھیں اس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی عبادت کرو، جو میرا رب اور تمھارا رب ہے اور میں ان پر گواہ تھا جب تک ان میں رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان پر نگران تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے۔ [المائدة: ١١٧]