۱۔ محض ایک سماجی لحاظ ملاحظہ ہو؛ ان تہواروں کی تعظیم مقصود نہ ہو اور نہ یہ اعتقاد ہو کہ وہ لوگ کسی صحیح عقیدہ پر ہیں۔ خالی مبارکباد دینے والے شخص پر ایسی صورت کے صادق آنے کا امکان زیادہ ہے بہ نسبت ایسے شخص کے جو پہنچ کر اُن کی تقریب میں شریک ہوتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ یہ حرام ہے۔ کیونکہ اس سے اُن کے ایک باطل میں آدمی کی شرکت بہرحال ہو گئی ہے۔ نیز یہ ان کے شعائر کی تعظیم کا ایک ذریعہ بنتا ہے اور ان کے دین کو ایک طرح کی سندِ صحت عطا کرنا۔ سلف کی کثیر تعداد نے آیت
وَالَّذِیْنَ لا یَشْہَدُوْنَ الزُوْرَ (الفرقان: 72) کی تفسیر میں اس سے مراد ’’مشرکین کی عیدوں میں موجودگی دکھانا‘‘
ہی مراد لیا ہے۔ نیز نبی ﷺ کا فرمان:
إنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْداً (حدیث صحیحین) نہایت واضح دلیل ہے کہ عیدوں اور تہواروں کے معاملہ میں ہر قوم کا اختصاص ہے۔
۲۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس شرکت میں کسی ہوس کو دخل ہو، مثلاً یہ کہ وہاں شراب یا رقص یا عورتوں کا ہجوم دیکھنے کو ملے گا، وغیرہ۔ اس کا حکم یہ ہے کہ یہ حرمت میں پہلے والی صورت سے زیادہ سنگین ہے۔
۳۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اس شرکت سے آدمی کا مقصد تقربِ خداوندی ہو، مثلاً یہ کہ عیسیٰ عليہ السلام اللہ کے ایک برگزیدہ رسول تھے لہٰذا میں تو عیسیٰ عليہ السلام کے میلاد میں شرکت کر رہا ہوں؛ جیساکہ بعض لوگ رسول اللہ ﷺ کا میلاد مناتے ہیں۔ اس کا حکم: یہ بدعتِ ضلالت ہوگی۔ یہ اپنی سنگینی میں میلاد منانے سے کہیں بڑھ کر ہے؛ کیونکہ یہ جس تقریب میں شرکت کرتا یا اس کی مبارکباد دیتا ہے اُس کے منانے والے (معاذ اللہ) ’خدا کے بیٹے‘ کی پیدائش کا جشن منا رہے ہیں۔
۴۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ آدمی اُن کے دین کو ہی سرے سے قابل اعتراض نہ جانتا ہو؛ آدمی ان کے شعائر سے ہی راضی ہو اور ان کی عبادت کو ہی درست سمجھتا ہو؛ جیسا کہ ماضی میں یہ نظریہ یوں بیان کیا جاتا تھا کہ ’سب ایک ہی معبود کو پوجتے ہیں بس راستے جدا جدا ہیں‘۔ اور جیسا کہ آج اس نظریہ کو ’وحدتِ ادیان‘ اور ’اخوتِ مذاہب‘ ایسے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جوکہ درحقیقت فری میسن کے دیے ہوئے نعرے ہیں۔۔۔ تو اس کا حکم یہ ہے کہ یہ کفر ہے جوکہ آدمی کو ملت سے خارج کر دیتا ہے۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے:
’’ وَمَن یَبْتَغِ غَیْْرَ الإِسْلاَمِ دِیْناً فَلَن یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ ‘‘ (آل عمران: 85) ’’اِس اسلام کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ ہوگا اور آخرت میں وہ گھاٹا پانے والوں میں سے ہوگا‘‘۔