• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کرپشن مافیا اور انتہا پسندی

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
کرپشن مافیا اور انتہا پسندی
پاکستان میں رائج سیاسی نظام اس کھٹارہ اور ناکارہ گاڑی کی طرح ہے جس کے بریک فیل ہو چکے ہوں اور اس کے ڈرائیور کی آنکھوں پر بدعنوانی کی پٹی بندھی ہو لٰہذا اس قسم کی گاڑی قوم کو منزل مقصود تک نہیں لے جا سکتی۔ جس 'کام' کی بدولت دنیا بھر میں صدر زرداری کے نام کا ڈنکہ بجا انہیں اس کے سوا کچھ نہیں کرنا آتا۔صدر زرداری اپنے مخصوص ایجنڈے کی تکمیل میں کامیاب رہے مگر حالیہ انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو نے جس پیپلز پارٹی کو اپنے خون سے سینچا تھا وہ بری طرح ہار گئی۔

کرپشن پاکستان میں حکمرانوں اوران کے حواریوں کی گھٹی میں شامل ہے لٰہذا ان کی فطرت کبھی نہیں بدلے گی۔ کرپشن اعداد وشمار سے بہت آگے چلے گئی ہے۔کئی برسوں تک پیپلز پارٹی میں کام کرنیوالے لوگ ارباب اقتدار کی نااہلی اور لوٹ کھسوٹ کا بھانڈا پھوڑ رہے ہیں۔ عوام کی دعاؤں اور بددعاؤں نے کام کر دیا، گھر کے بھیدی کرپشن کی لنکا ڈھانے کے درپے ہو گئے ہیں۔ صدر زرداری کا وجود ریاست، جمہوریت اور معیشت کیلئے بھاری ہے مگر انہیں ہٹانے کی بجائے ماضی کی فرینڈلی اپوزیشن نے انہیں ہر نازک موڑ پر سہارا دیا۔ بدترین کرپشن نے زرداری حکومت کی ڈائریکشن کو ڈی ٹریک کر دیا تھا۔

پیپلز پارٹی کی شکست اور اس میں اندرونی ٹوٹ پھوٹ مکافات عمل ہے تاہم یہ اس وقت ہوتا ہے جب کسی سیاسی جماعت کی باگ ڈور نااہل ہاتھوں میں آ جائے اور وہ کسی ڈر سے دوسروں کا وجود برداشت نہ کرے۔ اتحادی حکومت کا نام نہاد ایجنڈا جمہوریت اور معیشت کے گلے کا پھندا بن گیا۔ پیپلز پارٹی کی مفاہمت صرف ایک ڈھونگ تھی جس کو ووٹرز نے مسترد کر دیا تاہم نومنتخب حکومت کی ترجیحات زرداری حکومت سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرض کی وصولی کیلئے عوام کو مہنگائی کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔ بابائے قوم کی وفات کے بعد سے ملک میں جمہوریت اور سیاسی رواداری کی بجائے کرپشن کو فروغ دیا گیا۔ صدر زرداری اور ان کے عہد کے بیشتر سیاستدان شروع دن سے "ونڈ کھاؤ تے کھنڈ کھاؤ" کے حامی ہیں، حکمرانوں کی طرح ان کے پیروکاروں کو بھی کرپشن کی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کھلی چھوٹ ہے تاہم پاکستان میں جمہوریت نہیں سیاسی قیادت ناکام ہوئی، سیاسی قیادت کی بدنامی سے جمہوریت کی ناکامی کا تاثر ابھرا جو درست نہیں۔

اگر ارباب اقتدار نیک نیتی کے ساتھ کام کرتے تو جمہوریت ضرور ڈیلیور کرتی اور عوام کا معیار زندگی بلند ہوتا۔ غیروں کے سامنے پھیلے ہوئے ہاتھ ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ آئی ایم ایف کے وفادار حکمران عوام کا درد اور کرب نہیں سمجھ سکتے۔ پاکستان کو کسی ڈیلر نہیں ایک سچے اور مخلص لیڈر کی ضرورت ہے۔ ٹریڈرز نے پاکستان بنایا اور نہ یہ پاکستان بچا سکتے ہیں۔صنعت کار اور سرمایہ دار وزیراعظم میاں نوازشریف بھی اپنے ابتدائی بجٹ میں عوام کی امیدوں پر پورا نہیں اترے۔ بیچارے عوام کے چہروں میں مایوسی اور محرومی صاف دیکھی جا سکتی ہے۔

میٹروبس سروس سے عوام کی محرومیوں کا مداوا نہیں ہو گا، انہیں مہنگائی کے سیلاب سے بچانے کی تدبیر کون کرے گا یہ بات ابھی تک ایک سوالیہ نشان ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک کئی وزراء اعظم آئے اور چلے گئے مگر ملک وقوم کو جس نجات دہندہ کی ضرورت ہے وہ ابھی تک نہیں آیا، جس دن وہ نجات دہندہ آ گیا اس روز منتشر عوام بھی ایک قوم کی صورت میں خودبخود متحد اور منظم ہو جائیں گے اور ہمارا ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جائے گا۔ این آراو برانڈ حکمران سیاستدان نہیں بلکہ سوداگر اور شعبدہ باز ہیں جو ڈھیل کے بدلے ڈیل کرتے رہے۔صدر زرداری ڈیل کرنے اور ڈھیل دینے میں بالکل دیر نہیں لگاتے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کا سیاسی ورثہ ان کے پاس ہے جو اس کے مستحق یا حقدار نہیں ہیں۔

جمہوریت کو فوج نہیں چور سیاستدانوں سے خطرہ ہے جو ایک کے بعد دوسرے قومی ادارے میں نقب لگا رہے ہیں، صرف مضبوط اور فعال جمہوریت عوامی مینڈیٹ کو ہائی جیک ہونے سے بچاسکتی ہے۔حکمران اتحاد کا عدلیہ سمیت قومی اداروں کے ساتھ تصادم سیاسی ہلاکت کو سیاسی شہادت میں تبدیل کرنے میں ناکام رہا۔ سابقہ حکمرانوں کے اشتعال انگیزبیانات اور اقدامات کے باوجود عدلیہ اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز کا صبرو تحمل قابل قدر تھا۔ کوئی ملک اپنے اداروں کے درمیان تناؤ یا تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ارباب اقتدار کو عدلیہ کے فیصلوں کی پاسداری کرنا چاہئے تھی،اب وہ رونے والی صورت کے ساتھ عوام کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے۔

پاکستان بدترین داخلی انتشار، انارکی اور خلفشار کے باوجود اگر دشمن ملک کی مہم جوئی سے محفوظ ہے تو اس کا تمام ترکریڈٹ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے ساتھ ساتھ منظم اور پیشہ ور فوج کو جاتا ہے تاہم اگر ان سطور میں بعض سیاستدانوں کے مثبت قومی کردار کا اعتراف نہ کیا جائے تو یہ زیادتی ہو گی۔ جب مختلف سیاستدانوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد مایوس اور مضطرب نگاہیں جنرل اشفاق پرویز کیانی کی طرف اٹھتی ہیں تو دل کو تسلی اور گہرا اطمینان ہوتا ہے۔

فوج کو سیاست میں گھسیٹنا "آ بیل مجھے مار" والی بات ہے۔ پاکستان کو درپیش اندرونی وبیرونی خطرات کا جس قدر ادراک اور احساس پاک فوج کو ہے اتنااورکسی ادارے کونہیں اور ہمارے فوجی جوان بیک وقت کئی محاذوں پر سربکف ہیں، ہمیں بلاشبہ پاک فوج پر ناز ہے۔ دہشتگردی کیخلاف ہمارے فوجی جوانوں کی کمٹمنٹ اور قربانی قابل قدر ہے۔پاکستان کو بیرونی ڈکٹیشن کی بجائے زمینی حقائق کی روشنی میں فیصلے کرنا ہوں گے ورنہ ہمارا ملک پرائی دشمنی کی آگ میں جلتا رہے گا۔ شارٹ بریک کے بعد ڈرون حملے پھر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ کیا ایٹمی پاکستان اتنا گیا گزرا ملک ہے جو ان ڈرون طیاروں کو گرا بھی نہیں سکتا۔

پاکستان کی بنیاد بھی اسلام ہے اور بقاء بھی اسلام ہے۔ دین سے دوری نے ہمیں دربدر کر دیا ہے اور ہمیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ مساجد میں گھس کر نماز جمعہ کے دوران اور بس میں سوار طالبات پر خود کش حملے کسی مذہب کی رو سے جائز اور درست نہیں ہیں۔ مٹھی بھر شدت پسند اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کو یرغمال یا اپنا ہم خیال نہیں بنا سکتے۔ پاکستان کے لوگ انتہاپسندی سے بیزار اور خودکش حملوں کے ماسٹر مائنڈ عناصر سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ یہ گمراہ اور بھٹکے ہوئے چند عاقبت نااندیش کسی قیمت پر اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ انتہا پسندی اسلام کی ضد اور اسلام سے بغاوت ہے۔ مذہبی طبقات معاشرے میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اعتدال پسندی کے فروغ کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

نام نہاد روشن خیالی نے ملک وقوم کو انگاروں اور اندھیروں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ دینی قوتوں کے درمیان دوریاں اور تلخیاں اسلام اور پاکستان کے مفادمیں نہیں، اسلام اور پاکستان کیخلاف منفی پروپیگنڈے کو ناکام بنانے کیلئے انہیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا ہو گا۔پاکستان کو ایک گرینڈ اتحاد اور قومی ایجنڈے کی اشد ضرورت ہے۔ ملک سے کرپشن کیخلاف آپریشن کلین اپ کا آغاز اوپر سے نیچے کی طرف کیا جائے، وزیراعظم میاں نوازشریف اپنے اثاثے ڈکلیئر اور بیرون ملک اپنے صاحبزادوں کا کاروبار اور سرمایہ پاکستان میں منتقل کریں ورنہ بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں آنے اور سرمایہ کاری کی دعوت دینا چھوڑ دیں۔ اگر ارباب اقتدار واختیار کرپشن چھوڑ دیں تو کوئی عام آدمی کرپشن کا تصور بھی نہیں کرے گا۔ اس وقت پاکستان کو درپیش مسائل میں سے سب زیادہ ہاٹ ایشو کرپشن ہے۔

دی نیوز ٹرایب: Saima Shahzadi Jul 11th, 2013
 
Top