ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
کسی مسلمان کا مذاق اڑانا کیسا ہے ؟
آج کل ذرائع ابلاغ تک سب کی رسائی اور سوشل میڈیا فیس بک ، ٹویٹر اور واٹس وغیرہ تک ہر شخص کی پہنچ سے ایک برائی اور گناہ کا کام عام ہوتا جارہا ہے اور اس کام کے ارتکاب اور اسے صدقہ جاریہ سمجھ کر آگے پھیلانے میں کوئی قباحت نہیں سمجھی جاتی اور وہ کام ہے کسی کا مذاق اڑانا ،
مذاق اڑانا دین کی وجہ سے ہو ، یا کسی کے پیدائشی نقص کی وجہ سے یا کسی پر آنے والی مصیبت کے حوالے سے یہ سب ناجائز امور میں سے ہے
مثال کے طور پر کسی کی بڑی داڑھی کا مذاق اڑانا ، باپردہ عورت کا مذاق اڑانا یا کسی معذور شخص کا مذاق اڑانا یہ عمل صحیح نہیں
اس حوالے سے قرآن و سنت کی تعلیمات کیا ہیں آئیے اُن کا جائزہ لیتے ہیں :
1 ۔ مذاق اڑانے والےگنہگار اور ظالم لوگ ہیں اگر توبہ نہ کریں
مذاق اڑانا دین کی وجہ سے ہو ، یا کسی کے پیدائشی نقص کی وجہ سے یا کسی پر آنے والی مصیبت کے حوالے سے یہ سب ناجائز امور میں سے ہے
مثال کے طور پر کسی کی بڑی داڑھی کا مذاق اڑانا ، باپردہ عورت کا مذاق اڑانا یا کسی معذور شخص کا مذاق اڑانا یہ عمل صحیح نہیں
اس حوالے سے قرآن و سنت کی تعلیمات کیا ہیں آئیے اُن کا جائزہ لیتے ہیں :
1 ۔ مذاق اڑانے والےگنہگار اور ظالم لوگ ہیں اگر توبہ نہ کریں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿الحجرات: ١١﴾
اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہو اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے یہ ان سے بہتر ہوں، اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو۔ ایمان کے بعد فسق برا نام ہے، اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں (11)
تفسیر سعدی :
یہ بھی مومنون کے باہمی حقوق میں شمار ہوتا ہے کہ (
تفسیر سعدی :
یہ بھی مومنون کے باہمی حقوق میں شمار ہوتا ہے کہ (
لا یسخر قوم من قوم
) ” کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے۔“ یعنی کسی قسم کی گفتگو اور قول و فعل کے ذریعے سے تمسخر نہ اڑائے جو مسلمان بھائی کی تحقیر پر دلالت کرتے ہوں۔ بے شک یہ تمسخر حرام ہے اور کسی طرح جائز نہیں، نیز یہ چیز تمسخر اڑانے والے کی خود پسندی پر دلیل ہے۔ ہوسکتا ہے جس کا تمسخر اڑایا جارہا ہے وہ تمسخر اڑانے والے سے بہتر ہو اور غالب طور پر یہی ہوتا ہے کیونکہ تمسخر صرف اسی شخص سے صادر ہوتا ہے جس کا قلب اخلاق بد سے لبریز ہو، جو ہر قسم کے اخلاق مذمومہ سے آراستہ اور اخلاق کریمہ سے بالکل خالی ہو۔
بنا بریں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” کسی شخص کے لئے اتنی ہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو حقیر جانے۔ “
2 ۔ مذاق اڑانا کفار اور مشرکین کا شیوہ ہے
بنا بریں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” کسی شخص کے لئے اتنی ہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو حقیر جانے۔ “
2 ۔ مذاق اڑانا کفار اور مشرکین کا شیوہ ہے
الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللَّـهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿التوبة: ٧٩﴾
جولوگ ان مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں اور ان لوگوں پر جنہیں سوائے اپنی محنت مزدوری کے اور کچھ میسر ہی نہیں، پس یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں، اللہ بھی ان سے تمسخر کرتا ہے انہی کے لئے دردناک عذاب ہے (79)
تفسیر سعدی :
یہ بھی منافقین کی رسوائی کا باعث بننے والی باتوں میں سے ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے۔۔۔۔۔۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کے امور میں کوئی ایسی چیز دیکھتے جس پر زبان طعن دراز کرسکتے ہوں تو وہ ظلم و تعددی سے کام لیتے ہوئے طعن و تشنیع کرنے سے باز نہ آتے۔ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل ایمان کو صدقات کی ترغیب دی، تو مسلمانوں نے نہایت تیزی سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تکمیل کی اور ان میں سے ہر امیر و غریب نے اپنے حسب حال اللہ کے راستے میں اپنا مال خرچ کیا۔ پس منافقین دولت مند مسلمانوں پر نکتہ چینی کرتے تھے کہ وہ صرف ریاء اور شہرت کی خاطر اپنا مال خرچ کرتے ہیں اور کم حیثیت مسلمانوں سے کہتے ” اللہ تعالیٰ اس صدقہ سے بے نیاز ہے۔۔۔“ تو اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ نازل فرمائی (
تفسیر سعدی :
یہ بھی منافقین کی رسوائی کا باعث بننے والی باتوں میں سے ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے۔۔۔۔۔۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کے امور میں کوئی ایسی چیز دیکھتے جس پر زبان طعن دراز کرسکتے ہوں تو وہ ظلم و تعددی سے کام لیتے ہوئے طعن و تشنیع کرنے سے باز نہ آتے۔ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل ایمان کو صدقات کی ترغیب دی، تو مسلمانوں نے نہایت تیزی سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تکمیل کی اور ان میں سے ہر امیر و غریب نے اپنے حسب حال اللہ کے راستے میں اپنا مال خرچ کیا۔ پس منافقین دولت مند مسلمانوں پر نکتہ چینی کرتے تھے کہ وہ صرف ریاء اور شہرت کی خاطر اپنا مال خرچ کرتے ہیں اور کم حیثیت مسلمانوں سے کہتے ” اللہ تعالیٰ اس صدقہ سے بے نیاز ہے۔۔۔“ تو اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ نازل فرمائی (
الذین یلمزون
) ” جو عیب جوئی اور طعن کرتے ہیں“ (
المطوعین من المومنین فی الصدقت
) ” ان مومنوں پر جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں (ان کے) صدقات میں“ پس کہتے ہیں کہ یہ ریا کار ہیں۔ صدقہ کرنے سے ان کا مقصد صرف ریا کاری اور فخر کا اظہار ہے۔
(و) ” اور“ وہ ان لوگوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں (
(و) ” اور“ وہ ان لوگوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں (
الذین لایجدون الا جھدھم
) ” جو اپنی محنت کے سوا کچھ نہیں پاتے“ پس وہ اپنی استطاعت کے مطابق اللہ کے راستے میں (تھوڑا سا) مال نکالتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ منافقین کہتے ” اللہ تعالیٰ ان کے صدقات سے بے نیاز ہے‘ (
فیسخرون منھم
) ” اس طرح وہ ان کا تمسخر اڑاتے ہیں۔“ ان کے تمسخر کے مقابلے میں ان کے ساتھ تمسخر کیا گیا (
سخر اللہ منھم ولھم عذاب الیم
) ” اللہ نے ان سے تمسخر کیا ہے اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے“ کیونکہ انہوں نے اپنے اس کلام میں متعدد ایسے امور اکٹھے کردیئے جن سے بچنا ضروری تھا۔
(١) وہ مسلمانوں کے احوال کی تلاش میں رہتے تھے انہیں یہ خواہش رہتی تھی کہ وہ مسلمانوں کی کوئی ایسی بات پائیں جس پر یہ اعتراض اور نکتہ چینی کرسکیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ “
(٢) وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر اور اسلام کے ساتھ بغض کی وجہ سے اہل ایمان پر ان کے ایمان کی وجہ سے زبان طعن دراز کرتے رہتے تھے۔
(٣) طعنہ زنی اور چغل خوری کرنا حرام ہے، بلکہ دنیاوی امور میں یہ کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتا ہے اور نیکی کے کام میں طعنہ زنی تو سب سے بڑا گناہ ہے۔
(٤) جو کوئی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہوئے کوئی نیکی کا کام کرتا ہے تو اس کے بارے میں مناسب یہ ہے کہ نیکی کے اس کام میں اس کی اعانت اور اس کی حوصلہ افزائی کی جائے، مگر ان منافقین کا مقصد تو صرف اسے نیکی کے کاموں سے باز رکھنا اور اس کی عیب جوئی کرنا تھا۔
(٥) اللہ کے راستے میں مال کثیر خرچ کرنے والے کے بارے میں ان کا یہ فیصلہ کہ وہ ریاکار ہے سخت غلطی، غیب دانی کا دعویٰ اور اٹکل پچو ہے اور اس سے بڑی اور کون سی برائی ہوسکتی ہے؟
(٦) قلیل مقدار میں صدقہ کرنے والے کی بابت ان کا یہ کہنا ” اللہ تعالیٰ اس صدقہ سے بے نیاز ہے۔“ ایک ایسا کلام ہے جس کا مقصود باطل ہے، کیونکہ صدقہ خواہ قلیل ہو یا کثیر، اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والے کے صدقہ سے مستغنی ہے، بلکہ وہ زمین اور آسمان کے تمام رہنے والوں سے بے نیاز ہے ، لہٰذا ان کی جزایہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ تمسخر کرے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا۔
3 ۔ جو کسی کا مذاق اڑائے ، اس کا مذاق اڑایا جائے گا
(١) وہ مسلمانوں کے احوال کی تلاش میں رہتے تھے انہیں یہ خواہش رہتی تھی کہ وہ مسلمانوں کی کوئی ایسی بات پائیں جس پر یہ اعتراض اور نکتہ چینی کرسکیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ “
(٢) وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر اور اسلام کے ساتھ بغض کی وجہ سے اہل ایمان پر ان کے ایمان کی وجہ سے زبان طعن دراز کرتے رہتے تھے۔
(٣) طعنہ زنی اور چغل خوری کرنا حرام ہے، بلکہ دنیاوی امور میں یہ کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتا ہے اور نیکی کے کام میں طعنہ زنی تو سب سے بڑا گناہ ہے۔
(٤) جو کوئی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہوئے کوئی نیکی کا کام کرتا ہے تو اس کے بارے میں مناسب یہ ہے کہ نیکی کے اس کام میں اس کی اعانت اور اس کی حوصلہ افزائی کی جائے، مگر ان منافقین کا مقصد تو صرف اسے نیکی کے کاموں سے باز رکھنا اور اس کی عیب جوئی کرنا تھا۔
(٥) اللہ کے راستے میں مال کثیر خرچ کرنے والے کے بارے میں ان کا یہ فیصلہ کہ وہ ریاکار ہے سخت غلطی، غیب دانی کا دعویٰ اور اٹکل پچو ہے اور اس سے بڑی اور کون سی برائی ہوسکتی ہے؟
(٦) قلیل مقدار میں صدقہ کرنے والے کی بابت ان کا یہ کہنا ” اللہ تعالیٰ اس صدقہ سے بے نیاز ہے۔“ ایک ایسا کلام ہے جس کا مقصود باطل ہے، کیونکہ صدقہ خواہ قلیل ہو یا کثیر، اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والے کے صدقہ سے مستغنی ہے، بلکہ وہ زمین اور آسمان کے تمام رہنے والوں سے بے نیاز ہے ، لہٰذا ان کی جزایہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ تمسخر کرے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا۔
3 ۔ جو کسی کا مذاق اڑائے ، اس کا مذاق اڑایا جائے گا
وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلَأٌ مِّن قَوْمِهِ سَخِرُوا مِنْهُ قَالَ إِن تَسْخَرُوا مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ ﴿هود: ٣٨﴾
وه (نوح علیہ السلام ) کشتی بنانے لگے ان کی قوم کے جو سردار ان کے پاس سے گزرتے وه ان کا مذاق اڑاتے، وه کہتے اگر تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو تو ہم بھی تم پر ایک دن ہنسیں گے جیسے تم ہم پر ہنستے ہو (38)
تفسیر سعدی :
نوح علیہ السلام نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی اور کشتی بنانا شروع کردی (وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلَأٌ مِّن قَوْمِهِ ) ” جب کبھی سردار ان قوم ان کے پاس سے گزرتے“ اور ان کو کشتی بناتے ہوئے دیکھتے ” تو مذاق کرتے ان سے، نوح نے کہا: (قَالَ إِن تَسْخَرُوا مِنَّا ) اگر مذاق کرتے ہو ہم سے“ یعنی اب اگر تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو (فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ ﴿٣٨﴾ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُّقِيمٌ) ” تو ہم بھی مذاق کریں گے تم سے ، جیسے تم مذاق کرتے ہو۔
تفسیر سعدی :
نوح علیہ السلام نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی اور کشتی بنانا شروع کردی (وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلَأٌ مِّن قَوْمِهِ ) ” جب کبھی سردار ان قوم ان کے پاس سے گزرتے“ اور ان کو کشتی بناتے ہوئے دیکھتے ” تو مذاق کرتے ان سے، نوح نے کہا: (قَالَ إِن تَسْخَرُوا مِنَّا ) اگر مذاق کرتے ہو ہم سے“ یعنی اب اگر تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو (فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ ﴿٣٨﴾ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُّقِيمٌ) ” تو ہم بھی مذاق کریں گے تم سے ، جیسے تم مذاق کرتے ہو۔
4 ۔ اگر کوئی کسی کا مذاق اڑائے تو اسے منع کرنا چاہئیے
(ا)
صحيح مسلم: كِتَابُ الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ (بَابُ ثَوَابِ الْمُؤْمِنِ فِيمَا يُصِيبُهُ مِنْ مَرَضٍ، أَوْ حُزْنٍ، أَوْ نَحْوِ ذَلِكَ حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا)
صحیح مسلم: کتاب: حسن سلوک‘صلہ رحمی اور ادب (باب: مومن کو جو بیماری یا غم وغیرہ لاحق ہوتا ہے حتی کہ جو کانٹا چبھتا ہے اس پر (بھی) ثواب ملتا ہے)
6561 .
6561 .
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ جَمِيعًا عَنْ جَرِيرٍ قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ قَالَ دَخَلَ شَبَابٌ مِنْ قُرَيْشٍ عَلَى عَائِشَةَ وَهِيَ بِمِنًى وَهُمْ يَضْحَكُونَ فَقَالَتْ مَا يُضْحِكُكُمْ قَالُوا فُلَانٌ خَرَّ عَلَى طُنُبِ فُسْطَاطٍ فَكَادَتْ عُنُقُهُ أَوْ عَيْنُهُ أَنْ تَذْهَبَ فَقَالَتْ لَا تَضْحَكُوا فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُشَاكُ شَوْكَةً فَمَا فَوْقَهَا إِلَّا كُتِبَتْ لَهُ بِهَا دَرَجَةٌ وَمُحِيَتْ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةٌ
حکم : صحیح
حکم : صحیح
6561 . کچھ قریشی نوجوان سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ وہ منیٰ میں تھیں۔ وہ نوجوان ہنس رہے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: تم کس وجہ سے ہنس رہے ہو؟ انہوں نے کہا: فلاں شخص خیمے کی رسیوں پر گر پڑا، قریب تھا کہ اس کی گردن یا آنکھ جاتی رہتی۔ اس پرسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہنسو مت، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا: "کوئی مسلمان نہیں جسے کانٹا چبھ جائے یا اس سے بڑھ کر (تکلیف) ہو مگر اس کے لیے ایک درجہ لکھ دیا جاتا ہے اور اس کا ایک گناہ معاف کر دیا جاتا ہے۔"
(ب) ''سیدنا علی رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں،ایک بار رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدنا عبداﷲ بن مسعود کو پیلو کے درخت پر چڑھ کراس کی مسواک اتارنے کو کہا۔ تیزہوا سے ان کی ٹانگوں سے کپڑا ہٹ گیا، لوگ ان کی پتلی پنڈلیاں دیکھ کر ہنسنے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، تمھیں کس بات کی ہنسی آرہی ہے؟ جواب دیا، پتلی اور کم زور ٹانگیں دیکھ کر۔ فرمایا: میزان اعمال میں یہ احد پہاڑ سے زیادہ وزن کی حامل ہوں گی۔''
(ب) ''سیدنا علی رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں،ایک بار رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدنا عبداﷲ بن مسعود کو پیلو کے درخت پر چڑھ کراس کی مسواک اتارنے کو کہا۔ تیزہوا سے ان کی ٹانگوں سے کپڑا ہٹ گیا، لوگ ان کی پتلی پنڈلیاں دیکھ کر ہنسنے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، تمھیں کس بات کی ہنسی آرہی ہے؟ جواب دیا، پتلی اور کم زور ٹانگیں دیکھ کر۔ فرمایا: میزان اعمال میں یہ احد پہاڑ سے زیادہ وزن کی حامل ہوں گی۔''
حسن إسناده الألباني في شرح الطحاوية برقم 571 ص 418 .
(ہوسکتا ہے جس کا تمسخر اڑایا جارہا ہے وہ تمسخر اڑانے والے سے بہتر ہو)