الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں
۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی مبتلاء مصیبت کو دیکھے اور دیکھ کر یہ دعا پڑھے-
(الحمدللہ الذی عافانی مماابتلاک بہ وفضلنی علی کثیر ممن خلق تفضیلا)
(یعنی تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھ کو اس چیز سے بچایا جس میں تجھے مبتلا کیا اور فضیلت بخشی اپنی بہت سی مخلوقات پر تو وہ اس مصیبت میں مبتلا نہیں ہو گا وہ جو مصیبت ہو۔
(ترمذی)
تشریح اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص مبتلاء بلاء اور مصیبت زدہ کو دیکھ کر یہ دعا پڑھتا ہے دعا (الحمد للہ الذی عافانی مماابتلاک بہ وفضلنی علی کثیر ممن خلق تفضیلا) تو وہ اس بلا و مصیبت میں گرفتار نہیں ہوتا چاہے وہ بلاء و مصیبت بدنی ہو، جیسے برص، جذام ، بینائی سے محرومی وغیرہ چاہے وہ بلاء دنیوی ہو، جیسے مال و جاہ کی محبت اور دنیا کی ہوس وغیرہ اور خواہ وہ بلاء دینی ہو، جیسے فسق ظلم اور شرک و کفر وغیرہ غرض کہ ہر طرح کے مبتلا کو دیکھ کر یہ دعا پڑھنی چاہئے لیکن علماء نے یہ بھی وضاحت کر دی ہے کہ اگر کوئی بیماری کی مصیبت میں مبتلا ہو تو اسے دیکھ کر یہ دعا آہستہ سے پڑھنی چاہئے تاکہ وہ بیمار آزردہ خاطر نہ ہو اور اگر کسی ایسے شخص کو دیکھے جو گناہ یا دنیا کی محبت میں مبتلا ہو تو اسے اس صورت میں یہ دعا بلند آواز سے پڑھنی چاہئے تاکہ اسے اپنے احوال پر ندامت ہو اور وہ اس سے باز آ جائے اور اگر یہ دعا بآواز بلند پڑھنے سے کسی فتنہ و فساد کا خوف ہو تو پھر اس صورت میں بھی یہ دعا آہستہ آواز میں پڑھی جائے۔
عامر بھائی اس روایت کی صحت کے بارے اختلاف ہے کیوں کہ اس کی سند میں عمر بن اسماعیل الھمدانی راوی متروک ہے ، اسی طرح اس حدیث کی سند میں ایک راوی ہے جس کا نام حفص بن غیاث ہےاس کا حافظہ کمزور ہوگیا تھا اورمکحول تابعی بھی مرسل رویا ت بیان کرتا ہے،اس لیے البانی صاحب نے اس حدیث کو سلسلہ ضعیفہ میں نقل کیا ہے لیکن بعض علما نے اس رویت کی سند کو مستند بھی قرار دیا ہے ۔واللہ اعلم بالصواب