• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کس کی نماز ادا ہوئی اور کس کی نہیں ؟

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562

میں تمام مقتدیوں کو نہیں جانتا لیکن کیپشن کے مطابق ان کا تعلق مختلف مسالک سے ہے۔ میرا طالب علمانہ سوال ہے
  1. اگر امام کے پیچھے امام کے مخالف مسلک کے مقتدی ہوں اور امام کو بھی معلوم ہو اور امام ان کی شرکت پر بھی راضی ہو ۔۔۔ تو کیا امام کی اپنی نماز ادا ہوجائے گی ؟
  2. اگر امام کے مسلک کو یکسر غلط کہنے اور سمجھنے والے لوگ ایسے امام کے پیچھے نماز ادا کرلیں تو اُن کی نماز ادا ہوجائے گی ؟
  3. اگر نماز کی ہماری صف میں ایسے لوگ موجود ہوں، جنہیں ہم یکسر غلط سمجھتے ہیں، اور ہمیں ان کی شرکت کا علم بھی ہو تو کیا ہماری نماز ادا ہوجائے گی؟
یہ ایک سنجیدہ پوسٹ ہے۔ کوئی تنقیدی یا طنزیہ پوسٹ نہیں۔ اس لئے اہل علم سے دوٹوک اور علمی جواب کا طالب ہوں۔ بالخصوص آخری سوال والی صورتحال سے تو اس احقر کو اکثر واسطہ پڑتا رہتا ہے۔

@انس
@سرفراز فیضی
@خضر حیات
 

اٹیچمنٹس

Last edited by a moderator:

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
یہ سیاسی لوگ ہیں ، کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔
وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ (القلم: ٩)
”یہ تو چاہتے ہیں کچھ مداہنت تم کرو تو یہ بھی مداہنت کریں“۔
عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ قولہ: ”وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ “ یقول: لَو تُرَخِّصُ لھم فَیرَخِّصونَ (دیکھئے تفسیر ابن کثیر بسلسلہ سورہ القلم آیت ٩)
”عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا: ”یہ تو چاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کرو تو یہ بھی مداہنت کریں“ اس سے مراد ہے: تم ان کیلئے معاملہ کچھ ڈھیلا کردو تو پھر یہ بھی تمہارے لئے ڈھیل پیدا کر لیں“۔ (تفسیر ابن کثیر)

عن ابن عباس w قال قال رسول اللہ e: اجْعَلُوا أَئِمَّتَكُمْ خِيَارَكُمْ، فَإِنَّهُمْ وَفْدُكُمْ فِيمَا بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رَبِّكُمْ’’([1]) (اپنے بہترین لوگوں کو آئمہ بنایا کرو کیونکہ یہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان وفد ہیں
کسی کافر ومشرک کے پیچھے نماز پڑھنا بالاتفاق محدثین صحیح نہیں ہے ۔کیونکہ اس کی اپنی نماز نہیں ہوتی ۔لئن أشركت ليحبطن عملك۔۔۔۔۔
البتہ کسی فاسق فاجر کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے جیسے کہ مروان بن مالک کے پیچھے زبیر رضی اللہ عنہ نماز پڑھتے تھے ۔
رہی بات بدعتی کی اگر بدعت مکفرہ کا مرتکب ہے تو صحیح نہیں ہے اور اگر صرف اس قسم کے بدعت کا مرتکب ہو جیسے کہ دعا بعد سنت اجتماعی صورت میں ہاتھ اٹھانے کو سنت رسول کہتا ہو تو ایسے امام کے پیچھے پڑھنی جائز ہے بشرطیکہ اس سے بہتر نہ ملتا ہو ، کیونکہ جماعت میں فوائد زیادہ ہے ۔اور اس پر امر اور ترغیب دی گئ ہے ۔
واللہ اعلم ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
11992 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
میں تمام مقتدیوں کو نہیں جانتا لیکن کیپشن کے مطابق ان کا تعلق مختلف مسالک سے ہے۔ میرا طالب علمانہ سوال ہے
  1. اگر امام کے پیچھے امام کے مخالف مسلک کے مقتدی ہوں اور امام کو بھی معلوم ہو اور امام ان کی شرکت پر بھی راضی ہو ۔۔۔ تو کیا امام کی اپنی نماز ادا ہوجائے گی ؟
  2. اگر امام کے مسلک کو یکسر غلط کہنے اور سمجھنے والے لوگ ایسے امام کے پیچھے نماز ادا کرلیں تو اُن کی نماز ادا ہوجائے گی ؟
  3. اگر نماز کی ہماری صف میں ایسے لوگ موجود ہوں، جنہیں ہم یکسر غلط سمجھتے ہیں، اور ہمیں ان کی شرکت کا علم بھی ہو تو کیا ہماری نماز ادا ہوجائے گی؟
یہ ایک سنجیدہ پوسٹ ہے۔ کوئی تنقیدی یا طنزیہ پوسٹ نہیں۔ اس لئے اہل علم سے دوٹوک اور علمی جواب کا طالب ہوں۔ بالخصوص آخری سوال والی صورتحال سے تو اس احقر کو اکثر واسطہ پڑتا رہتا ہے۔
محترم بھائی آپ کا پہلا اور آخری سوال کا جواب تو بہت واضح ہے اور اس میں آپ سمیت کسی فرقے والے کے کسی مسلمان کو اس جواب سے اختلاف نہیں ہو گا کہ خالی اس طرح نماز پڑھنے سے کچھ نہیں ہوتا کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایسے لوگ ہوتے تھے جن کے اعتقادی نفاق کی مثال قرآن نے بھی دی اور مستقبل میں انکا جنازہ پڑھنے سے بھی منع کیا اور اس پر کسی صحابی کی نماز میں بھی خلل نہیں آیا ہاں یہ اسوقت ہے جب کوئی خود آ کر آپکے پیچھے نماز پڑھ لے آپ اسکو منع نہیں کر سکتے البتہ کسی کے واضح کفریہ عقیدے اور اعمال کا پتا چل جانے کے بعد اسکو ساتھ نماز پڑھنے کی دعوت دینا اور شو کروانے پر اختلاف پایا جائے گا

جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے کہ پھر لوگ ایسے امام کے پیچھے کیوں نماز پڑھتے ہیں جنکو وہ یکسر غلط سمجھتے ہیں تو محترم بھائی اس میں مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں
1۔کچھ تو اس وجہ سے پڑھ لیتے ہیں کہ امام میں غلطی انکو فقہی غلطی لگتی ہے اور اسکو وہ اجتہادی غلطی سمجھ کر اسکے پیچھے پڑھ لیتے ہیں
2۔کچھ اس لئے پڑھ لیتے ہیں کہ انکے نزدیک دین کی اہمیت ہی نہیں ہوتی چاہے وہ اہل حدیث ہوں یا دیوبندی یا شیعہ یا کوئی اور
3۔کچھ کسی اور مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے دکھانے کے لئے پڑھتے ہیں جسکو آپ تقیہ کہ سکتے ہیں اس تقیہ میں اہل سنت بھی پیچھے نہیں ہیں

یہ تو تھا کہ اوپر کام کیوں کیا جاتا ہے البتہ اگر آپ کا سوال یہ ہے کہ شرعی طور پر کرنا کیا چاہئے تو میرے خیال میں تو فقہی اختلافات میں تو پڑھ لینا چاہئے چاہے بدعتی بھی ہو لیکن یہ سب کچھ مجبوری میں کرنا چاہئے
اسی طرح عقیدے میں کوئی خفی معاملہ ہو تو پھر بھی ضرورت میں گنجائش نکلتی ہے البتہ واضح شریکہ عقیدہ ہو تو میرے خیال میں پھر الگ پڑھنا ہی لازمی ہے
باقی جن بھائیوں کو آپ نے ٹیگ کیا ہے وہ صاحب علم ہونے کی وجہ سے زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں
 

سجاد

رکن
شمولیت
جولائی 04، 2014
پیغامات
160
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
76
اہل حدیث کی نماز غیر اہل حدیث کے پیچھے
ا۔ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ
ب۔ و علیکم السلام ور حمۃ اﷲ و برکاتہ‘ بڑے عرصے کے بعد تشریف لائے‘ کہیے ! آج کیسے آنا ہوا؟
ا۔ ایک مسئلہ پوچھنا تھا۔
ب۔ وہ کیا ؟
ا۔ ایک اہل حدیث کی نماز کسی غیر اہل حدیث کے پیچھے ہو جاتی ہے ؟
ب۔ اہل حدیث کی نماز کسی غیر اہل حدیث کے پیچھے کیسے ہو سکتی ہے؟ اہل حدیث حق ‘ غیر اہل حدیث باطل۔ باطل حق کا امام کیسے ہو سکتا ہے اور پھر حق
باطل کواپنا امام کیسے بنا سکتا ہے ؟ کسی کو امام بنانا تو گویا اس کے تابع ہونا ہے۔ اگر حق باطل کے تابع ہو جائے‘ تو دین کا سارا سلسلہ ہی خراب ہو جائے۔ قرآن مجید میں ہے: ( وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَھْوَائھُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ )[23:المومنون:71]اگر حق باطل کے تابع ہو جائے تو دین کا معاملہ تو ایک طرف رہا ‘ کائنات کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے۔ اگر اہل حدیث غیر اہل حدیثوں کے پیچھے نمازیں پڑھنے لگ جائیں تو حق کہاں رہا؟ حق کی فوقیت تو ختم ہو گئی ‘ حق ہے ہی اپنی فوقیت کے ساتھ۔ اَلْحَقُّ یَعْلُوْا وَ لاَ یُعْلٰی جو فوقیت نہ رہی تو حق نہ رہا۔ حق کی بقا حق کی فوقیت میں ہے اور حق کی فوقیت امام اور مقتدا بننے میں ہے‘ نہ کہ مقتدی بننے میں۔ جب حق باطل کا مقتدی بن گیا تو معاملہ بالکل الٹ گیا۔ اب اہلحدیث یا تو اپنے آپ کو حق نہ کہیں اور اگر وہ اپنے آپ کو حق کہتے ہیں اور حق سمجھتے ہیں تو باطل کو اپنا امام نہ بنائیں۔ وہ حق ہی کیا ہوا جو باطل کو اپنا امام مان لے اور اس کے پیچھے نمازیں پڑھنے لگ جائے۔ حق کی شان یہ نہیں کہ وہ مقتدی بنے ‘ حق کی شان یہ ہے کہ وہ امام ہو۔ حق امام ہے ‘ اس کو امام ہی رہنا چاہیے۔ رسول اﷲ ﷺ کا اسی لیے کوئی امام نہیں بن سکتا تھا حتی کہ آپ کے جنازہ میں بھی کوئی آپ کا امام نہیں بنا۔ اسی اصول پر تو عورت مردوں کی امام نہیں بن سکتی۔ اگرچہ وہ علم وتقویٰ میں مردوں سے بھی زیادہ ہو۔ عورت درجے میں مرد سے کم ہے۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے عورت کو مرد کے تابع رکھا ہے۔ وہ مرد کی امام نہیں بن سکتی۔ اگر عورت مردوں کی امام بنے تو اس میں مرد کی توہین ہے۔ جب عورت مرد کی امام نہیں بن سکتی کیوں کہ اس میں مرد کی توہین ہے تو باطل حق کا امام کیسے بن سکتا ہے ؟ کیا باطل کے امام بننے میں حق کی توہین نہیں۔ حق باطل کو مٹانے آیا ہے۔ (جَاءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا)[17:الاسراء:81]نہ کہ اس کو اپنا امام بنا کر اس کو عزت بخشے۔ اہل حدیث اگر کسی غیراہل حدیث کے پیچھے نماز پڑھے تو اس میں اہل حدیث کی بڑی توہین ہے۔ غیراہل حدیث اگر اہلحدیث کا امام بن جائے تو اس سے غیر اہل حدیث کی اہل حدیث کے برابری بلکہ برتری لازم آتی ہے اور باطل کی حق سے برتری بلکہ برابری شرعاً کبھی جائز نہیں ہو سکتی۔ وہ فعل کیسے جائز ہو سکتا ہے جس میں حق کی توہین ہو۔ اس لیے اہل حدیث کی نماز کسی غیر اہل ہدیث کے پیچھے کبھی جائز نہیں ہو سکتی۔حق کی عزت بلکہ عافیت باطل سے دور رہنے میں ہے۔ باطل سے میل جول کرنے میں حق کی خیر نہیں۔ باطل سے میل ملاپ کرنے سے حق گر جاتا ہے اور باطل چڑھ جاتا ہے ۔ ملاوٹ میں ہمیشہ اعلیٰ کی قیمت گرتی ہے اور ادنیٰ کی چڑھتی ہے۔ خوشبو اور بدبو کو اکٹھا کر دیا جائے تو بدبو ہی غالب آ تی ہے۔ باطل سے اختلاط کرنے سے باطل کی نفرت کم ہو جاتی ہے جس سے باطل اپنی ظاہری ٹیپ ٹاپ اور ملمع سازی کی وجہ سے عوام کی گمراہی کا سبب بنتا ہے‘ جو بڑا نقصان ہے۔ اسی وجہ سے رسول اﷲ ﷺ نے اہل بدعت سے دور رہنے کاحکم دیا ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا: وَ لاَ تُجَالِسُوااَھْلَ الْقَدْرِ ۔۔۔ ۱ یعنی ان سے بالکل میل جول نہ کرو۔ قرآن مجید میں ہے ( فَلاَ تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ)[6:الانعام:68]یعنی اہل باطل کے پاس بھی نہ بیٹھو۔ اگر بھول جاؤ تو یاد آنے کے بعد فوراً اٹھ جاؤ۔ یہ میل جول کا ہی نتیجہ ہے جو گمراہی آج کل زوروں پر ہے۔ اہل حدیث دیوبندی بنتے جا رہے ہیں اور دیوبندی بریلوی بنتے جا رہے ہیں اور بریلوی شیعہ‘ باطل کو امام بنانے میں حق کی تذلیل اور باطل کی تکریم ہے۔ اس لیے اہل حدیث کو چوں کہ وہ حق ہے کسی غیر اہل حدیث کے پیچھے کبھی نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ رسول اﷲ ﷺ تو باطل سے دور رہنے کا حکم دیں اور اہل حدیث باطل کو اپنا امام بنانے کے لیے تیار ہو جائیں۔
ا۔ کیاغیر اہل حدیث سب ہی باطل ہیں ؟
ب۔ جب اہل حدیث ہی حق ہے ‘ تو کوئی غیر اہل حدیث حق نہیں ہو سکتا۔ غیر تو غیر ہی ہوتا ہے وہ غیر ہی کیا ہوا جو مغائر نہ ہو؟ اور حق کا مغائر باطل ہے۔
جیسے حق اور غیر حق دونوں حق نہیں ہو سکتے اسی طرح اہل حدیث اور غیر اہل حدیث دونوں حق نہیں ہو سکتے۔ حق ایک ہی ہوگا۔ اہل حدیث یا غیر اہل حدیث۔ جب اہل حدیث ہی حق ہے تو غیراہل حدیث ضرورغیر حق ہوگا اور جو غیر حق ہو گا وہ ضرور باطل ہوگا۔ اس لیے غیراہل حدیث سب باطل ہیں۔
ا۔ اس کا کیا ثبوت کہ اہل حدیث ہی حق ہے اور کوئی حق نہیں؟
ب۔ کسی فرقے کے حق ہونے کی تین شرطیں لازمی ہیں:.
1–وہ فرقہ حضور ﷺ کے زمانے سے ہو‘ بلکہ آپ ؐ نے خود اس کی جڑ بنیاد رکھی ہو۔ اگر کوئی فرقہ حضور ﷺ کے بعد پیدا ہو تو وہ نومولود ہے جس کو بدعتی کہا جا سکتا ہے اور بدعتی فرقہ کبھی حق نہیں ہو سکتا۔
2–وہ فرقہ ہمیشہ اور ہر زمانے میں موجود ہو‘ کوئی زمانہ اس سے خالی نہ ہو۔ مختلف احادیث میں مختلف الفاظ آتے ہیں:
لاَ تَزَالُ طَائفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ ظَاہِرِیْنَ عَلَی الْحَقِّ ‘ مَنْصُوْرِیْنَ لاَ یَضُرُّھُمْ مَنْ خَذَلَھُمْ وَ لاَ مَنْ خَالَفَھُمْ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَۃَ اَوْ کَمَاقَالَ۔ ۔۲
یعنی رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا‘ میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا اور غالب رہے گا۔ باطل فرقے ‘ خواہ اس سے برسرپیکار ہی رہیں‘ وہ قیامت تک نہیں مٹے گا۔ اﷲ اس کا ناصر و مددگار رہے گا۔ جو فرقہ کسی زمانے میں ہو اور کسی میں نہ ہو‘ وہ
کبھی حق نہیں ہو سکتا۔
ا۔ ہر زمانہ میں ہونا کیوں ضروری ہے؟
ب۔ تاکہ ہر زمانہ میں دنیا کو ہدایت ملتی رہے اور نئے نبی کی ضرورت نہ پڑے۔جب اﷲ نے یہ اعلان کر دیا ‘ کہ محمدﷺ آخری نبیؐ ہیں‘ ان کے بعد کوئی نبی
نہیں آئے گا۔ اہل حق کا ہر زمانہ میں موجود رہنا ضروری ہے‘ کیوں کہ وہ نبی ﷺ کے خلفا اور قائم مقام ہیں۔
3– وہ فرقہ ((مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیَ ))کے طریقہ پر ہو ‘ وہ سیدھا سادہ قرآن و حدیث پر عمل کرنے والا ہو اس کا انداز اس کے عقائد و مسائل وہی ہوں جو صحابہؓ کے تھے اس میں کوئی نیا مذہبی رنگ نہ آیا ہو۔ بدعات کو جذب کرنے کی اس میں بالکل صلاحیت نہ ہو‘ ان تینوں معیاروں پر صرف اہل حدیث ہی پورے اترتے ہیں اور کوئی فرقہ اس معیار پر پورا نہیں اترتا ۔ اہل حدیث کے سوا جتنے بھی فرقے ہیں سب نومولود ہیں‘ ان میں سے کوئی بھی حضور ﷺ کے زمانے میں موجود نہ تھا‘ خاص طو رپر مقلدین حنفی ہوں یا شافعی‘ دیوبند ہوں یا بریلوی سب رسول اﷲ ﷺ کے بعد کی پیداوار ہیں۔ جب مقلدین کے ائمہ حضور ﷺ کے زمانہ میں پیدا نہیں ہوئے تھے تو مقلدین کہاں سے پیدا ہوئے ہوں گے۔ اس لیے صحابہ میں کوئی حنفی شافعی‘ دیوبندی‘ بریلوی‘ چشتی‘ سہروردی نہ تھا‘ برعکس اس کے اہل حدیث اس وقت سے ہیں جب سے قرآن و حدیث ہیں۔حدیث اﷲ اور اس کے رسول کی باتوں کو کہتے ہیں‘ لہٰذا پہلے اہل حدیث صحابہؓ تھے۔ جو اﷲ اور رسولؐ کی بات قرآن و حدیث پر عمل کرتے تھے۔ آج بھی جو اہل حدیث ہیں وہ صحابہؓ کی طرح قرآ ن و حدیث پر ہی عمل کرتے ہیں۔ کسی کی تقلید نہیں کرتے۔ اہل حدیث آج بھی (( مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ )) کے صحیح طریق پر ہیں۔اہل حدیث ہی وہ جماعت ہے جو رسول اﷲ ﷺ سے لے کر آج تک چلی آ رہی ہے ‘ وہ ہمیشہ رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ یہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی تھی اور آخر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی کے زمانے میں بھی ہوگی۔
بلکہ عیسیٰ علیہ السلام امام مہدی ‘ قرآن و حدیث پر عمل کرنے والے اہل حدیث ہوں گے۔ وہ مقلدوں کی طرح حنفی‘ شافعی ‘ دیوبندی ‘ بریلوی نہ ہوں گے ۔ وہ خود ساختہ امتی اماموں کے مقلد نہ ہوں گے بلکہ قرآن و حدیث پر چلنے والے ہوں گے۔ آپ خود ہی سوچیں کیا عیسیٰ علیہ السلام حنفی ‘ شافعی بریلوی‘ دیوبندی ہو سکتے ہیں؟ کیا ایک نبی کسی امتی کا مقلد ہو سکتا ہے ؟
۱۔ یہ بات تو صحیح ہے کہ نبی کسی امتی کا مقلد نہیں ہو سکتا ۔
ب۔ جب نبی کسی امتی کا مقلد نہیں ہو سکتا‘ تو عیسیٰ علیہ السلام حنفی یقیناًنہیں ہوں گے‘ کیوں کہ حنفی بننے میں عیسیٰ علیہ السلام کی بڑی توہین ہے۔جب عیسیٰ علیہ
السلام حنفی نہیں ہوں گے ‘ بلکہ حنفیت ان کے لیے ذلت و توہین کا موجب ہے تو عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے مسلمان بھی حنفی نہ ہوں گے۔ ان کا مذہب بھی وہی ہوگا جو عیسیٰ علیہ السلام کا ہوگا۔ عیسیٰ علیہ السلام کا مذہب قرآن وحدیث ہوگا۔ وہ حضور ﷺ کے متبع ہوں گے اور یہی مذہب اہل حدیث کا ہے اور یہی اصل اسلام ہے اور یہ نبی ہو یا امتی سب کے لیے قابل عزت او ر قابل قبول ہے۔ اس لیے عیسیٰ علیہ السلام بھی اہل حدیث ہوں گے اور تمام مسلمان بھی۔ اس زمانہ کا کوئی مسلمان حنفی شافعی‘ دیوبندی ‘ بریلوی نہ ہوگا ‘ بلکہ سب اہل حدیث ہوں گے۔ ثابت ہوا کہ اہل حدیث ہی حضور ﷺ کے زمانہ میں تھے اور اہل حدیث ہی آخری زمانہ میں ہوں گے۔
اہل حدیث جماعت ہی وہ جماعت ہے جس میں بدعات کی کوئی گنجائش نہیں باقی تمام فرقے چوں کہ نومولود ہیں اور تقلیدی عمل سے پیدا ہوئے ہیں اس لیے سب بنیادی طورپر بدعتی ہیں اور بدعات کو جذب کرنے کی بہت صلاحیت رکھتے ہیں۔ہر تقلیدی فرقہ بدعتی ہے ‘ کیوں کہ تقلید خود بدعت ہے۔ اہل حدیث قرآن وحدیث کے پابند ہیں۔ نہ ان میں تقلید ہے ‘ کہ وہ کسی کواپنا امام بنائیں ‘ نہ ان میں تصوف کے سلسلے ہیں کہ وہ چشتی یا قادری بن کر ضربیں لگائیں ۔ اہل حدیث کا اﷲ کے رسول ﷺ کے بعد کوئی دینی امام یا مذہبی پیشوا نہیں۔ وہ صرف حدیث رسول ؐ سے ثابت شدہ سنت رسول ؐ پر ہی عمل کرتے ہیں۔ا س لیے بدعات کی تمام خرافات سے بچے ہو ئے ہیں۔ اس لیے اہل حدیث ہی خالص اسلام ہے اور کوئی فرقہ ایسا نہیں جس کو حق کہ سکیں کیوں کہ سب میں کھوٹ اور بھرتی ہے۔ یہ تو تھی کسی فرقے کے حق ہونے کی شرائط اور علامات ۔ اب دیکھیں ‘ حق کسے کہتے ہیں اور اہل حق کون لوگ ہیں؟ حق وہ ہے جو اﷲ کہے اور جو اﷲ کی طرف سے آیا ہو ۔ قرآن مجید میں ہے:
(وَاﷲُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَ ھُوَ یَھْدِی السَّبِیْلَ )[33:الاحزاب:4]
(اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ )[3:آل عمران:60]
( قُلْ اِنَّ ھُدَی اﷲِ ھُوَ الْھدٰے )[2:البقرہ:120]
(وَ اٰمِنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّھُوَ الْحَقُّ مِن رَبِّھَم )[47:محمد:2]
قرآن مجید میں اس قسم کی بہت آیات ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اﷲ نے جو اپنے نبی ؐ پر نازل کیا ہے وہ حق ہے۔ چونکہ اﷲ نے اپنے نبی ﷺ پر قرآن وحدیث نازل کیا ہے ۔(وَ اَنْزَلَ اﷲُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ )[4:النساء:113] اس لیے حق صرف قرآن وحدیث ہے اور جو قرآن وحدیث کو کماحقہ مانے وہی اہل حق ہے ۔ قرآ ن و حدیث ہی اصل اسلام ہے۔اس کی عملی تعبیر کرتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام ہر زمانے میں اپنے نبی کی پیروی کرنے کا نام ہے۔نوح علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں اسلام ان کی پیروی کا نام تھا۔ موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کے زمانہ میں اسلام ان کی پیروی کا نام تھا۔ آج اسلام صرف محمد ﷺ کی پیروی کا نام ہے۔ آج اہل حق وہی ہو سکتے ہیں جو محمد ﷺ کی پیروی کریں۔ کسی پیر ‘ فقیر ‘ امام اور ولی کی پیروی کرنے والے اہل حق نہیں ہو سکتے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ اماموں کے مقلد حنفی ہوں‘ شافعی ‘ دیوبندی ہوں یا بریلوی کبھی اہل حق نہیں ہو سکتے۔اہل حق صرف اہل حدیث ہی ہو سکتے ہیں‘ جو صرف محمد ﷺ کی پیروی کرتے ہیں۔ کسی پیر ‘ فقیر ‘ امام اور ولی کی تقلید نہیں کرتے۔ محمد ﷺ کی پیروی کرنے والے اس لیے بھی اہل حق ہیں کیوں کہ محمد ﷺ خود حق پر تھے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے حق پر ہونے کی گارنٹی دی ہے۔ کسی پیر‘ فقیر یا امام اور ولی کے حق پر ہونے کی گارنٹی نہیں دی۔ قرآن کہتا ہے:
(وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الُھَوَیOاِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی )[53:النجم:3-4]
( اِنَّکَ عَلَی الْحَقِّ الْمُبِیْنَ )[27:النمل:79]
( فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِیْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ )[43:الزخرف:43]
( مَنْ یُّطْعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اﷲَ )[4:النساء:80]
اس لیے اﷲ تعالیٰ نے صرف اپنے نبیؐ کے اتباع کا حکم دیا ہے اور کسی کے اتباع کا حکم نہیں دیا ہے ‘ بلکہ اوروں کے اتباع سے منع فرمایا ہے۔
( اِتَّبِعُوْا مَا اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لاَ تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَاءَ )[7:الاعراف:3]
اور نبی ﷺ کے اتباع پر ہی اپنی محبت اور مغفرت کا وعدہ فرمایا ہے اور نبی ﷺ کی اطاعت سے اعراض کو کفر بتایا ہے۔ چنانچہ فرمایا
( قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اﷲُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاﷲُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ O قُلْ اَطِیْعُوا اﷲَ وَالرَّسُوْلَ ج فَاِنْ تَوَلَّوْ فَاِنَّ اﷲَ لاَ یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ )[3:آل عمران:31-32]
اے نبی ؐ ! آ پ لوگوں سے کہہ دیں کہ اگر تمھیں اﷲ سے محبت ہے تو میرا اتباع کرو۔پھر اﷲ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہ بخشے گا آپ لوگوں سے یہ بھی کہ دیں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو۔ اگر تم نے ان کی اطاعت سے اعراض کیا تو کافر ہو جاؤ گے اور کافروں سے اﷲ محبت نہیں کرتا ۔
جب یہ طے ہے کہ آج اسلام محمد ﷺ کی پیروی کا نام ہے ‘ تو آج اہل حق صرف وہی ہیں جو صرف محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی ان کی سنّت پر چلنے سے ہی ہو سکتی ہے۔ اس لیے آج اہل حق صرف اصلی اہلسنت ہی ھیں
 

سجاد

رکن
شمولیت
جولائی 04، 2014
پیغامات
160
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
76
Top