• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کفار سے مکمل ترکِ معاملات

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
654
ری ایکشن اسکور
197
پوائنٹ
77
کفار سے مکمل ترکِ معاملات

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

شریعت الہی نے کفار سے علیحدگی، امتیاز و تفریق کو اور زیادہ نمایاں کرتے ہوئے کفار سے معاملات بھی منقطع کرنے کا حکم دیا۔ پس اگر اسلامی سطوت و شوکت قائم ہو، اس کی حکومت کا علم لہرا رہا ہو، شرعی عدالتیں کھلی ہوئی ہوں ... تو خلافت راشدہ اور حکومت دینیہ کے دستور العمل کے مطابق مسلمان کفار سے استعانت و امداد نہ لیں گے، سیاسیات میں ان کو شریک نہ کریں گے اور اشتراک عمل سے حتی الامکان بچیں گے۔ کیونکہ معاملات کی یہ ظاہری شرکت بھی آخر کار وہی موالات اور انس و محبت پیدا کر دیتی ہے۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی گہری سیاست نے اس اصول پر کافی روشنی ڈالی ہے۔ خلافت کے زیرنگیں علاقوں میں ان کا یہ فرمان شائع کیا گیا تھا:

أن لا تكاتبوا أهل الذمة، فتجري بينكم وبينهم المودة، ولا تكنوهم، وأذلوهم ولا تظلموهم

ذمیوں کے ساتھ مکاتبت کا تعلق مت رکھو ورنہ تم میں اور ان میں محبت پیدا ہو جائے گی۔ ان کو پناہ مت دو اور ان کو ذلیل رکھو، مگر ہاں ان پر ظلم نہ کرو۔


[اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم، ج :١، ص : ٣٦٧]

نیز فاروق اعظم اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کے درج ذیل مکالمے سے اس قطع تعلق میں پنہاں حکمت کا پورا پورا اندازہ ہو سکے گا۔

٣٢٨ - أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِيَاضٍ الأَشْعَرِيِّ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قُلْتُ لِعُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنَّ لِي كَاتِبًا نَصْرَانِيًّا.

حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میرے یہاں ایک نصرانی کاتب ملازم ہے۔

قَالَ: مَا لَكَ؟ قَاتَلَكَ اللَّهُ! أَمَا سَمِعْتَ اللَّهَ، تَبَارَكَ وَتَعَالَى، يَقُولُ: {يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ} [المائدة: ٥١] ؟ أَلا اتَّخَذْتَ حَنِيفًا؟

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تجھے کیا ہوا؟ اللہ تجھے غارت کرے! کیا تو نے اللہ کا یہ حکم نہیں سنا کہ : یہود و نصاری کو اپنا دوست مت بناؤ ، یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ [المائدة: ٥١] تو نے کسی مسلمان کو ملازم کیوں نہ رکھا ؟

قَالَ: قُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، لِي كِتَابَتُهُ وَلَهُ دِينُهُ.

حضرت ابو موسی نے کہا : اے امیر المومنین ! مجھے تو اس کی کتابت سے غرض ہے اور اس کا دین اس کے لئے ہے
( یعنی مجھے اس کے دین سے کیا تعلق ؟ )

قَالَ: لا أُكْرِمُهُمْ إِذْ أَهَانَهُمُ اللَّهُ، وَلا أُعِزُّهُمْ إِذْ أَذَلَّهُمْ، وَلا أُدْنِيهِمْ إِذْ أَقْصَاهُمُ اللَّهُ.

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں ہرگز ان کی تکریم نہیں کروں گا جن کی اللہ نے توہین کی، اور میں ان کو عزت نہ دوں گا جن کو اللہ نے ذلیل کیا، اور میں انہیں مقرب نہ بناؤں گا جن کو اللہ تعالی نے دور کیا۔


[أحكام أهل الملل والردة من الجامع لمسائل الإمام أحمد بن حنبل، ص : ١١٧]

پس جس مخلوق کی اس کے خالق نے تکریم نہ کی اور ان کے لئے عزت کا کوئی شمہ گوارا نہ کیا، اس خالق کے پرستاروں کی غیرت وحمیت کے خلاف ہے کہ وہ اس کے اعداء کی تکریم کریں۔ وہ جسے پھٹکار دے یہ اسے پیار کریں۔ ورنہ یہ تو پھر اسلام کے نام پر شرائع الٰہی کی توہین اور خود افعال باری ہی کی صریح تکذیب کرنے کے مترادف ہوگا، نعوذ باللہ منہ۔
 
Top