ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 580
- ری ایکشن اسکور
- 187
- پوائنٹ
- 77
کفار کے خلاف جہاد کی تیاری (اعداد) کی شرعی اہمیت
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
"اعداد" یعنی ”جہاد کی تیاری کرنا" مسلمانوں کے لئے شریعت مطہرہ کا ایک مستقل حکم ہے۔ جس طرح جہاد کو قیامت تک جاری رہنا ہے، کسی عادل کا عدل اور کسی ظالم کا ظلم اسے ساقط نہ کر سکے گا، اسی طرح فرضیت اعداد کی آیات بھی امت مسلمہ کو تاقیامت مخاطب کرتی رہیں گی ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی پاک کتاب میں ارشاد فرماتا ہے:
وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ
تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت تیار کرو اور گھوڑے تیار رکھو تاکہ تم اس سے اللہ کے دشمنوں کو دہشت زدہ رکھ سکو اور ان کے سوا ان دوسروں کو بھی جنھیں تم نہیں جانتے، اللہ انھیں خوب جانتا ہے۔
[سورة الأنفال، آیت: ٦٠]
شریعت کا یہ حکم مسلمانوں کے کسی خاص طبقے یا محض مجاہدین ہی کو مخاطب نہیں کرتا بلکہ علامہ أبو الفضل شهاب الدين السيد محمود الألوسي رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَأَعِدُّوا لَهُمْ خطاب لكافة المؤمنين لما أن المأمور به من وظائف الكل
وأعدوا لهم (یعنی "ان کفار کے مقابلے کے لئے تیاری کرو“ کی آیت ) تمام مسلمانوں سے مخاطب ہے کیونکہ جس کام کا (یہاں) حکم دیا جا رہا ہے وہ ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔
[روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، ج: ٥، ص: ٢٢٠]
اللہ رب العزت کو اپنے مومن بندوں کے لئے یہی امر محبوب ہے کہ وہ عسکری تیاری اور اسلحے سے لمحہ بھر بھی غافل نہ ہوں، حالت امن ہو یا حالت خوف ہر دم کفار کا سر کچلنے کے لئے تیار رہیں اور اللہ کے باغیوں کو اپنی قوت سے مسلسل دہشت زدہ کرتے رہیں تاکہ وہ اللہ کی زمین پر چھوٹے اور ذلیل بن کر رہیں اور دین حق کے پیروکاروں کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھنے کا سوچ بھی نہ سکیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَدَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُم مَّيْلَةً وَاحِدَةً ۚ
کافر چاہتے ہیں کہ کسی طرح تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان سے غافل ہو جاؤ تو وہ تم پر یکبارگی دھاوا بول دیں۔
[سورة النساء آیت :١٠٢]
عام حالات میں اعداد کا یہ حکم فرض کفایہ ہوتا ہے۔ لیکن جب جہاد فرض عین، یعنی فردا فردا ہر مسلمان پر فرض ہو جائے تو مشہور فقہی قاعدے مَا لَا يَتِمُّ الْوَاجِبُ إِلا بِهِ فَهُوَ وَاجِبٌ (یعنی جس فعل کی ادائیگی پر ایک واجب کے پورے ہونے کا دارو مدار ہو تو وہ فعل خود بھی واجب ہو جاتا ہے۔) کے مطابق فریضہ اعداد بھی فرض عین کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔
جیسا کہ ابن النحاس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
واعلم أن تعلم الفروسية وتعليمها واستعمال الأسلحة فرض كفاية . قال القرطبي في تفسيره : وقد يتعين -يعني يصير فرض عين -وذلك عند شدة احتياج المسلمين إلى ذلك
[مشارع الأشواق إلى مصارع العشاق ومثير الغرام إلى دار السلام، تحت الحديث رقم: ۸۴۰]
آج کفار دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں پر حملہ آور اور ان کی زمینوں پر قابض ہیں، مسلمانوں کا دین، جان، مال اور عزت کچھ بھی ان کی دسترس سے محفوظ نہیں، کتنے ہی مسلمان مرد و خواتین کفار کی قید میں ہیں اور ہر وہ خطہ زمین جہاں کبھی شریعت کی بالا دستی تھی آج نظام کفر وہاں غالب ہے۔ لہذا فقہاء کی تصریحات کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ دفاعی جہاد آج فرض عین ہو چکا ہے۔
شیخ بن باز فرماتے ہیں :
وقد يتعين إذا استنفر الإمام من يصلح للجهاد فيتعين عليه؛ لقوله ﷺ: وإذا استنفرتم فانفروا. ويتعين أيضا إذا هجم العدو على البلاد الإسلامية، يتعين على المسلمين أن يصدوه وأن يقاتلوه حتى ينقذوا البلاد منه كما قد وقع في أفغانستان الآن.
اسی طرح شیخ بن باز فرماتے ہیں:
نعم. فرض عين مع القدرة، وكما سمعت مع القدرة، كل واحد عليه أن يجاهد حسب طاقته، يجاهد نفسه في سبيل الله، ويجاهد مع إخوانه في الله بنفسه أو بماله أو بهما كما ذكرت بقدر المستطاع.
السائل: هل الذهاب الآن إلى سوريا أو أفغانستان فرض عين؟ الشيخ: فرض عين مع الاستطاعة؛ لأنه مهجوم عليهم وهم ليس فيهم كفاية، فيحتاجون إلى المدد من إخوانهم المسلمين بالمال والنفس والدعوة إلى الله والكلمة الطيبة.
[دروس للشيخ عبد العزيز بن باز]
اسی لیے جہاد کی تیاری کرنا بھی آج ہر مسلمان ، عاقل ، بالغ اور شرعاً غیر معذور شخص پر فرض عین ہے۔ پس جو شخص نہ جہاد کرے نہ اس کی تیاری کرے وہ دوہرا گناہ کماتا ہے۔
ایک ترک جہاد کا گناہ اور دوسرا ترک اعداد کا گناہ ۔ لہذا جو لوگ صدق دل سے جہاد کرنے کا عزم رکھتے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ بلا تاخیر جہاد کے پہلے مرحلے، یعنی اعداد میں داخل ہوں اور حسب استطاعت جہاد کی تیاری شروع کریں۔
اللہ تعالیٰ کے یہاں دین سے محبت کا محض زبانی دعوئی اور جہاد کرنے کے عزم کا محض زبانی اظہار مقبول نہیں۔ سورہ توبہ میں اللہ تعالی منافقین کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:
وَلَوْ أَرادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقاعِدِينَ
اور اگر وہ نکلنا چاہتے تو ضرور اس کے لیے کچھ سامان تیار کرتے لیکن اللہ نے ہی ان کا نکلنا پسند نہ کیا سو انہیں روک دیا اور ان سے کہہ دیا گیا کہ بیٹھے رہو بیٹھے رہنے والوں کے ساتھ۔
[سورة التوبة، آیت : ٤٦]
علامہ قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں:
فَتَرْكُهُمُ الِاسْتِعْدَادَ دَلِيلٌ عَلَى إِرَادَتِهِمُ التَّخَلُّفَ.
پس ان (منافقین) کا تیاری نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا ارادہ ہی دراصل یہ تھا کہ یہ (جہاد سے) پیچھے رہیں۔
[الجامع لأحكام القرآن، ج: ٨، ص: ١٥٦]
افسوس کہ وہ اسلحہ اور جنگی ساز و سامان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب تھا ، ہمارے لیے آج اجنبی بن گیا۔ وہ ہتھیار جو صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کے جسموں سے لمحہ بھر جدا نہ ہوتے تھے، ہمیں پوری پوری زندگی ان کا استعمال نصیب نہ ہوا۔
مسند احمد کی حدیث ہے :
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بُعِثْتُ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ بِالسَّيْفِ حَتَّى يُعْبَدَ اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَجُعِلَ رِزْقِي تَحْتَ ظِلِّ رُمْحِي
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے قیامت سے پہلے تلوار دے کر مبعوث کیا گیا ہے یہاں تک کہ اللہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کی جائے اور میرا رزق میرے نیزے کے سائے کے نیچے رکھا گیا ہے۔
[مسند الإمام أحمد بن حنبل، حديث: ٥١١٥]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو بھیجا ہی تلوار کے ساتھ گیا ہو لیکن آپ کے امتیوں کا حال یہ ہو کہ زندگی بھر کبھی اسلحہ ہاتھ میں نہ تھاما ہو، کبھی ایک گولی نہ چلائی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رزق تو نیزوں کے سائے میں رکھا گیا ہو اور آپ کے امتی رزق کی تلاش میں دیوانوں کی طرح دنیا کے پیچھے بھاگ رہے ہوں !
عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ جو جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا (ام المؤمنین) کے بھائی ہیں بیان کرتے ہیں کہ :
مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ مَوْتِهِ دِرْهَمًا، وَلَا دِينَارًا، وَلَا عَبْدًا، وَلَا أَمَةً، وَلَا شَيْئًا إِلَّا بَغْلَتَهُ الْبَيْضَاءَ، وَسِلَاحَهُ، وَأَرْضًا جَعَلَهَا صَدَقَةً
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے انتقال کے وقت نہ درہم پیچھے چھوڑے نہ دینار، نہ غلام نہ باندی ، نہ ہی کوئی اور چیز سوائے اپنے سفید خچر، ہتھیاروں اور ایک زمین کے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( پہلے ہی) وقف فرما چکے تھے۔
[صحيح البخاري، حديث: ٢٧٣٩]
یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کل ترکہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں وفات کے وقت سامانِ دنیا میں سے کچھ بھی موجود نہ تھا۔ کچھ تھا تو بس وہ اسلحہ جس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا گیا اور جو وفات تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا اور جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لئے بطور ترکہ چھوڑ گئے لیکن افسوس کہ ہم اس میراث نبوت کی قدر نہ کر سکے۔ یہ تو وہ میراث ہے جو ہر باپ کو اپنے بیٹے تک منتقل کرنا تھی۔
سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ :
مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَفَرٍ مِنْ أَسْلَمَ يَنْتَضِلُونَ، فَقَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ارْمُوا بَنِي إِسْمَاعِيلَ فَإِنَّ أَبَاكُمْ كَانَ رَامِيًا ارْمُوا، وَأَنَا مَعَ بَنِي فُلَانٍ، قَالَ: فَأَمْسَكَ أَحَدُ الْفَرِيقَيْنِ بِأَيْدِيهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَكُمْ لَا تَرْمُونَ، قَالُوا: كَيْفَ نَرْمِي وَأَنْتَ مَعَهُمْ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ارْمُوا فَأَنَا مَعَكُمْ كُلِّكُمْ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قبیلہ بنو اسلم کے چند لوگوں پر گزر ہوا جو تیر اندازی کی مشق کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسماعیل علیہ السلام کے بیٹو! تیر اندازی کرو کہ تمہارے بزرگ دادا اسماعیل علیہ السلام بھی تیرانداز تھے۔ ہاں! تیر اندازی کرو، میں بنی فلاں (ابن الاورع رضی اللہ عنہ) کی طرف ہوں۔ بیان کیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک فریق کے ساتھ ہو گئے تو (مقابلے میں حصہ لینے والے) دوسرے ایک فریق نے ہاتھ روک لیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات پیش آئی، تم لوگوں نے تیر اندازی بند کیوں کر دی؟ دوسرے فریق نے عرض کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک فریق کے ساتھ ہو گئے تو بھلا ہم کس طرح مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا تیر اندازی جاری رکھو میں تم سب کے ساتھ ہوں۔
[صحيح البخاري، حديث : ٢٨٩٩]
مولانا داود راز فرماتے ہیں:
آج کل بندوق، توپ، ہوائی جہاز اور جتنے بھی آلات حرب وجود میں آچکے ہیں وہ سب اسی ذیل ہیں۔ ان سب میں مہارت پیدا کرنا سب کو اپنانا یہ خدا پرستی کے خلاف نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان پر ان کا سیکھنا فرض ہے۔
[صحيح البخاري شرح از مولانا داود راز، حدیث نمبر: ٢٨٩٩]
الغرض ضرورت آج اس امر کی ہے کہ ہم اسلحے سے اسی طرح محبت کریں جیسے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے محبوب رکھا، اسلحے کا استعمال سیکھیں، دیگر جنگی فنون میں مہارت حاصل کریں، فریضہ اعداد کی ادائیگی میں اپنی صلاحیتیں، اوقات اور اموال، سب کھپائیں، اپنے بچوں کو کفار کے مقابلے کے لئے تیار کریں، اسلحے، جہاد فی سبیل اللہ اور شہادت کی محبت عام کریں۔ کیونکہ دنیا میں عزت سے جینے کی راہ بھی یہی ہے، یہی کلمۃ اللہ کی سر بلندی کا ذریعہ ہے اور اللہ کی رضا بھی اس میں پوشیدہ ہے۔
Last edited: