• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کفالہ نظام ختم ہونا چاہیے

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
کفالہ نظام ختم ہونا چاہیے
کالم: خالد المینا
پیر 5 اکتوبر 2015م

گذشتہ چند برسوں کے دوران خلیجی عرب ریاستوں میں غیرملکی کارکنوں کے ساتھ روا رکھا جانے والے سلوک کی وجہ سے تنقید میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے الزامات عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) اور انسانی حقوق کے علمبردار کارکنان کی جانب سے عاید کیے جاتے تھے مگر برسوں سے انھیں نظرانداز کیا جا رہا تھا۔

تاہم گذشتہ چند برسوں سے خلیجی ریاستیں ورکروں کی ناگفتہ بہ حالات کار کی بہتری کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔ اس ضمن میں بعض اقدامات کیے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود مسئلہ جوں کا توں موجود ہے کیونکہ غیرملکی ورکر ، خواہ وہ مزدور ہوں یا سفید پوش دفتری کارکنان، مکمل طور پراسپانسروں (کفیلوں) کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔

میں نے گذشتہ برسوں کے دوران اس موضوع پر متعدد مضامین لکھے ہیں اور ان میں اس تمام صورت حال کو واضح کیا ہے۔ حتیٰ کہ میں نے متعلقہ حکام کو بھی لکھا ہے اور ان کی توجہ اس مسئلے کی جانب مبذول کرائی ہے لیکن اس کا کچھ مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔

نئے سعودی وزیرمحنت نے صرف میرے آخری خط کا فوری جواب دیا تھا اور اس پر کارروائی کی تھی۔ اس پر میں ان کا اور ان کے عملے کا ممنوں ہوں۔انھوں نے انسانی بنیاد پر ایک ڈاکٹر کے کیس کا جائزہ لیا ہے۔ یہ ڈاکٹر افسرشاہی کی غلطی کی وجہ سے گذشتہ انیس ماہ سے سفر نہیں کر سکا تھا۔

مسئلہ قوانین میں نہیں ہے بلکہ ان کے نفاذ میں ہے۔ ورکروں (ان میں کی اکثریت غیرعرب ہے) کے مسائل کو ہمدردری سے سنا ہی نہیں جاتا ہے اور بہت سے کیسوں میں تو انھیں باقاعدہ قانون کی مدد سے نشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ ان کے کفیل انھیں بھگوڑے ظاہر کر کے ان کے خلاف ''حروب'' کے کیس درج کرا دیتے ہیں۔

سعودی عرب میں مزدوروں سے متعلق قوانین میں اصلاحات کی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ قطر اور متحدہ عرب امارات میں بھی کفالت کے قوانین میں اصلاحات کا عمل شروع کیا گیا ہے۔ یو اے ای میں نئی مزدوراصلاحات متعارف کرائی جا رہی ہیں۔ ان کا مقصد لاکھوں تارکین وطن ورکروں کے ساتھ ملازمت کے سمجھوتے کو نظرانداز کرنے والوں پر کڑی نظر رکھنا ہے۔ ان اصلاحات پر یکم جنوری 2016ء سے عمل درآمد کا آغاز ہو گا۔

نئی اصلاحات میں ملازمت کی شرائط اور ملازمت کے معاہدوں میں شفافیت لانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ ان میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ملازمت کا معاہدہ کیسے ختم ہو سکتا ہے اور ورکروں کے لیے ایک جگہ سے چھوڑ کر دوسری جگہ پر ملازمت کے لیے جانے کا عمل آسان بنایا گیا ہے۔

متحدہ عرب امارات کے وزیرمحنت صقرغباش نے خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے رکن ممالک میں اصلاحات کا عمل شروع کرنے میں پہل کی ہے۔ ان کی اصلاحات کے نتیجے میں غیرملکی ورکروں کا بہترانداز میں تحفظ ہو سکے گا۔ اب غیرملکی ورکر اپنے آجروں کو تبدیل کر سکتے ہیں اور وہ متبادل معاہدے سے بھی بچ سکتے ہیں۔ پہلے اس متبادل معاہدے کے تحت امارات میں آمد پر انھیں ایک اور دستاویزات پر دستخط کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے۔

وزیرمحنت صقر غباش نے ان اصلاحات پر عمل درآمد کی تاریخ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ''یہ قواعد وضوابط لیبر مارکیٹ کو سمجھوتے کے تمام فریقوں کے درمیان مضبوط اور متوازن تعلقات کی بنیاد پر ایک نئے مرحلے میں لے جائیں گے۔ معاہدے کی شفافیت کی وجہ سے تمام فریقوں کے حقوق کی ضمانت میسر آ سکے گی۔

قطر میں بھی کابینہ نے کفالہ کے نظام میں تبدیلیوں کی منظوری دے دی ہے۔ اس سے ان اصلاحات کو قانون میں سمونے کا عمل بھی پایہ تکمیل کو پہنچ سکے گا۔ تاہم ان نئے قواعد وضوابط کی امیر قطر نے ابھی منظوری دینا ہے۔ اس لیے 2016ء کے اختتام سے قبل ان پر عمل درآمد کا امکان نظر نہیں آتا ہے۔

خلیجی عرب ریاستوں اور خاص طور پر سعودی عرب میں میں غیرملکی کارکنوں کی بڑی تعداد میں آمد سے ایک بڑی ''ویزا مارکیٹ'' بھی معرض وجود میں آ گئی ہے اور بہت سے شہری اور ریکروٹمنٹ ایجنسیاں بیرون ملک لاکھوں ، کروڑوں ریال کما رہی ہیں۔

آج بھی سعودی عرب میں وزارت محنت نے ''ویزے کے سنگ دل بیوپاریوں'' کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے اور اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھایا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک میڈیا مہم چلائی جائے اور ورکروں اور ان کے آجروں دونوں کو ان کے حقوق اور فرائض سے آگاہ کیا جانا چاہیے۔ ملازمت کے معاہدے آجروں کے بجائے وزارت محنت کے ساتھ کیے جانے چاہئیں اور کفیلوں کے نظام کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔
-----------------------------------

(کالم نگار سعودی گزٹ کے ایڈیٹرایٹ لارج ہیں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ اردو کا ان کے نقطہ نظر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)
ح
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
مسئلہ قوانین میں نہیں ہے بلکہ ان کے نفاذ میں ہے۔ ورکروں (ان میں کی اکثریت غیرعرب ہے) کے مسائل کو ہمدردری سے سنا ہی نہیں جاتا ہے اور بہت سے کیسوں میں تو انھیں باقاعدہ قانون کی مدد سے نشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ ان کے کفیل انھیں بھگوڑے ظاہر کر کے ان کے خلاف ''حروب'' کے کیس درج کرا دیتے ہیں۔
نمایاں کیا جانےوالا لفظ ’ حروب ‘ نہیں بلکہ ’ ہروب ‘ ہے جس کا معنی ہے ’ فرار ہو جانا ‘ ۔
کالم نگار کی اس بات سے مجھے سو فیصد اتفاق ہے ، سعودیہ میں موجود قوانین اور علماء کے اس سلسلے میں موجود فتاوی بالکل مبنی بر عدل و انصاف ہیں ، چند دن پہلے ایک عالم دین کا فتوی پڑھنے کو ملا جس میں انہوں نے کہا کہ کفیل اپنے تحت کام کرنے والے سے صرف ’ کفالت ‘ یعنی ’’ ویزہ دینے ‘‘ کا ایک روپیہ بھی اگر وصول کرے تو حرام ہے ۔
خیر اس سلسلے میں کمی و کوتاہی جو بعض دفعہ ظلم و جبر کی حد تک پہنچ جاتی ہے ، اس کے دو بنیادی سبب ہیں :
1۔ قوانین کی تنفیذ میں رکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں ، معاملات کو حکومتی اداروں میں حقیقت سے ہٹ کر چالاکی سے حل کر لیا جاتا ہے ۔
2۔ غیر ملکی مزدور ان قوانین سے واقف نہیں ہوتے ، اگر واقف بھی ہوں تو اپنا مافی الضمیر کا اظہار کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے ۔
کفیلوں اور مزدوروں کے آپس میں بہت سے معاملات صرف اس لیے بگڑ جاتے ہیں کہ وہ کفیل کے سامنے اپنے بات کی وضاحت ہی نہیں کر پاتے ۔
چند دن پہلے کا واقعہ ہے ، ریاض کے ایک علاقے میں کوئی پاکستانی مقیم تھا ، محنتی تھا ، ایمانداری سے کام کرنے والا تھا ، لیکن اس کے باوجود کفیل کی طرف سے بے اعتنائی برتی جارہی تھی ، اس نے یہ صورت حال جامعہ میں ہمارے ایک ساتھی کو بتائی ، تو انہوں نے انہیں کہا کہ میں آپ کو ایک میسیج لکھ کر دیتا ہوں آپ وہ اپنی طرف سے اپنے کفیل کو ارسال کردیں ، وہی ہوا کہ کفیل نے وہ پیغام پڑھ کر اس کی تنخواہ وغیرہ کی ادائیگی کردی ، پھر چند ہفتوں بعد اسے پھر ایک ضرورت پڑی تو اس آدمی نے اسی طالب علم سے پیغام لکھوا کر کفیل کو ارسال کیا ، تو کفیل نے فورا اس کی بات مان لی ۔
اب یہاں مسئلہ کیا تھا ، وہ آدمی براہ راست کفیل سے بات نہیں کر پارہا تھا ، اگر کرتا بھی تو زبان سے عدم واقفیت کی وجہ سے وہ مناسب انداز میں معاملے کی وضاحت نہیں کر پاتا تھا ، لیکن اس کی بات جب اچھے طریقے سے اس کا تک پہنچا دی گئی تو اس کا مسئلہ بھی حل ہوگیا ۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

اس پر شائد کچھ نہیں ہو سکے گا یہ ایسا ہی چلتا رہے گا۔

الامارات اور سعودی عرب پر ویزہ سسٹم مختلف ھے جیسے الامارات کی 7 ریاستیں ہیں اور کسی بھی ریاست سے ویزہ حاصل کر لیں، ایک مرتبہ پاسپورٹ پر 3 سال کا ویزہ لگ گیا، تو یہ آپ پر ھے کہ کسی بھی ریاست میں جا سکتے ہیں اور مزید آگے بڑھیں تو کبھی بھی کسی بھی ملک ہر روز آ جا سکتے ہیں اس پر کسی کفیل کے اجازت نامہ کی ضرورت نہیں، مگر سعودی عرب میں باہر نکلنے پر جیسے پاکستان جانے پر یا کسی اور ملک جانے پر خروج دخول حاصل کرنا پڑتا ھے، یہ مسئلہ بہت عجیب سا ھے۔

الامارات میں کاروباری شراکت پر 100 فیصد رقم آپ خرچ کر رہے ہیں مگر کنٹریکٹ میں آپ 49 فیصد اور کفیل 51 فی صد کا شریک ہو گا اور ایک سال کی کفیل کی فیس الگ اور کفیل 51 فیصد ہونے کی وجہ سے وہ کبھی بھی آپکو فارغ کر سکتا ھے کیونکہ اس کا شیئر زیادہ ھے، ہاں ایک بات ھے کہ لائسنس پر آپ اپنی تصویر بھی لگوا سکتے ہیں۔ مگر سعودی عرب میں سنا ھے کہ پیسہ آپکا اور کفیل 100 فیصد مالک ہوتا ھے اور لائسنس بھی اسی کے نام پر ہوتا ھے۔

باقی ویزہ پر لیبر کی جو شکایات ہیں اس پر ان کی اپنی کمزوریاں ہیں۔ کیونکہ جب ویزہ خریدا جاتا ھے تو آپکا جو بھی بھائی، دوست، انکل، رشتہ دار جسے کسی نے ویزہ خریدنے کی ڈیوٹی لگائی ہوتی ھے اسے ویزہ دینے والا ساری باتیں اسی وقت بتا دیتا ھے کہ ویزہ سٹیمپ ہونے پر خرچہ آپکا ھے، جب ویزہ دوبارہ رینیو کروانا ہو گا تب کتنی فیس ہو گی، یہ ویزہ پر نقل کفالہ ہو گا یا نہیں اگر ہو گا تو اس پر کتنی فیس ہو گی، کام میرے پاس کرنا ھے یا کہیں اور، اگر کہیں اور کرتے پکڑے گئے تو ڈپورٹ ہونے پر ہماری ذمہ داری نہیں۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ یہ ساری فیسیں کفیل کی اپنی ہیں سرکاری خزانہ والی الگ ہونگی۔ اب اس پر جو بھی عزیز آپکو ویزہ دے رہا ھے وہ آپ تک یہ باتیں پہنچا دیتا ھے مگر اس وقت ہمارے کچھ لوگوں کے ذہن پاکستانی دیکھے ہوئے دور کے مطابق اگنور کر دیتے ہیں کیونکہ ان کے ذہن میں یہ ہوتا ھے کہ ایک مرتبہ وہاں چلے جائیں پھر سب کچھ ہم اپنی مرضی سے کر سکیں گے۔ جب وہ وہاں پہنچتے ہیں تو کچھ ہی دن بعد وہ اپنے اسی عزیز کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں جس نے ویزہ دیا ہوتا ھے اور اس سے بڑھ کر یوں سمجھ لیں پورے خاندان میں داغ لگوا دیتے ہیں۔ اس پر لوگوں کے بہت سے واقعات ہیں وقت ملا تو میں اپنا ہی ایک واقعہ پیش کروں گا۔

والسلام
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

ابھی رہنے دیتے ہیں موضوع کے مطابق چلتا رہے گا۔

والسلام
 
Top