ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 593
- ری ایکشن اسکور
- 188
- پوائنٹ
- 77
کفریہ نظاموں کی حمایت میں مدخلیوں کے فریب کی حقیقت
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مدخلی فرقہ اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والا ایک فتنہ ہے جو مسلمانوں کو کفریہ نظاموں کی اطاعت کا درس دے کر گمراہ کر رہا ہے۔ یہ فرقہ طاغوتی حکمرانوں کا ایجنٹ بن کر امت مسلمہ کو کفریہ نظاموں کی غلامی میں جکڑنے، طاغوتی حکمرانوں کے تابع کرنے، اور مسلمانوں کو کفر بالطاغوت، براء من المشرکین اور جہاد فی سبیل اللہ سے دور کرنے کے لئے طاغوت و کفریہ حکومتوں کی اطاعت کو دینی فریضہ بنا کر پیش کرتا ہے۔
مسلمانوں کو کفریہ نظاموں کی حمایت اور ان کی اطاعت کا درس دیتے ہوئے مدخلی سرغنہ سلیمان رحیلی کہتا ہے :
طبعا يا أخوة الأخوة في أوروبا يلزمهم أن يلزموا الأنظمة التي لا تخالف شرع الله في تلك البلدان، لكن ليست هناك بيعة؛ لأن البيعة من خواص ولي الأمر المسلم، أما من أمكن أن يبايع المسلمين مثل الناس في إندونيسيا عندهم رئيس، فمتى ما تحققت الرئاسة وتم الأمر وجب على المسلم أن يعتقد أن في عنقه بيعة وأن يلزم هذه البيعة.
اب وہاں یورپ میں مسلمانوں کے لئے واجب ہے کہ وہاں کے نظاموں کی پابندی کریں جوکہ شریعت کے مخالف نہیں ہیں لیکن اسے بیعت نہیں کہیں گے، کیونکہ بیعت مسلمان حاکم کے لئے ہوتی ہے لیکن اگر اس طرح کے ملکوں میں امکان والی کوئی بات ہو جیسے انڈونیشیا کا صدر جو حاکم مسلم کی ذمہ داری نبھا رہا ہے تو ایسی صورت میں ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ یہ اعتقاد رکھے کہ اس کی گردن میں بیعت ہے اور اسے لازم پکڑے۔
[دراسات في المنهج، ص: ۹۷]
رحیلی کا یہ بیان کہ "يا أخوة الأخوة في أوروبا يلزمهم أن يلزموا الأنظمة التي لا تخالف شرع الله في تلك البلدان"، شدید گمراہی کا مظہر ہے۔ یہ ایک کھلا مغالطہ ہے جو یورپ کے کفریہ نظام کو اسلامی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ کے نظام اپنی بنیاد اور ساخت میں اسلام سے متصادم ہیں۔ یہ نظام مکمل طور پر سیکولر بنیادوں پر قائم ہیں، جو اللہ کی حاکمیت کو یکسر رد کرتے ہیں۔
شیخ ابو سلمان حسان حسین آدم الصومالی حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
والتشريع الوضعي المعاصر يقوم على أساسين: (١) حماية الحرية الانسانية على مفهوم الفكر الغربي. (٢) فصل الدين عن الحياة، وعن التدخل في شؤون الإنسان الفردية، وشئون المجتمع. وعلى هاتين القاعدتين يقوم النظام الديمقراطي الأوربي الشركي.
معاصر وضعی قانون دو بنیادوں پر قائم ہے: (۱) مغربی فکر کے مطابق انسانوں کو آزادی، (۲) دین کو لوگوں کی زندگی سے اور انفرادی و اجتماعی معاملات میں مداخلت سے مکمل طور پر الگ کرنا۔ انہی دو بنیادوں پر شرک پر مبنی یورپی جمہوری نظام قائم ہے۔
[القناة الرسميّة لفضيلة الشيخ حسان حسين آدم]
شیخ ابو سلمان الصومالی حفظہ اللہ نے یورپ کے کفریہ نظام کی حقیقت واضح کی ہے کہ یورپ کا شرکیہ جمہوری نظام اسلام کے ساتھ شدید ترین مخالفت رکھتا ہے۔ یہ نظام انسانی آزادی کی ایسی مغربی تعریف پر مبنی ہے جو اللہ کی بندگی کو مسترد کرتے ہوئے انسان کو اپنی خواہشات کا غلام بناتا ہے۔ مزید برآں، دین کو زندگی سے جدا کرنا اس نظام کی بنیاد ہے، جو اسلام کے صریح خلاف ہے۔
یورپی جمہوری نظام شرک پر قائم ہے، کیونکہ قانون سازی کا حق اللہ سے چھین کر انسان کو دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے بنیادی عقائد کے ساتھ کھلی جنگ ہے اور رحیلی زندیق اس کفریہ نظام کو قبول کروا کر مسلمانوں کو دین جمہوریت کی غلامی اور اطاعت کا سبق دے رہا ہے۔
پھر رحیلی نے انڈونیشیا کے جمہوری سیاسی لیڈر کی بیعت کو واجب قرار دیا جبکہ اسلام میں بیعت کا مفہوم صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلیفہ کے لیے مخصوص ہے۔
حافظ زبیر علی زئی فرماتے ہیں:
اسلام میں صرف دو ہی بیعتیں ہیں (١) نبی کی بیعت (٢) خلیفہ کی بیعت ان کے علاوہ تیسری کسی بیعت کا دین اسلام میں کوئی نام و نشان نہیں ہے۔
[فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام، ج: ١، ص: ١٧٥]
اس مدخلی سرغنے رحیلی کا طریقہ واردات ملاحظہ فرمائیں کہ پہلے اس نے کہا البيعة من خواص ولي الأمر المسلم اس کے بعد ایک جمہوری نظام کے سیاسی لیڈر کو خلیفۃ وقت کا درجہ دے کر دھوکہ دیا :
أما من أمكن أن يبايع المسلمين مثل الناس في إندونيسيا عندهم رئيس، فمتى ما تحققت الرئاسة وتم الأمر وجب على المسلم أن يعتقد أن في عنقه بيعة وأن يلزم هذه البيعة.
رحیلی نے مدخلیت کے فتنہ پرور عزائم و طاغوتی نظام کی حمایت کی خاطر کس طرح دین کے ساتھ کھلواڑ کیا!
جو شخص اپنی حکمرانی کو سیکولر قوانین اور عوامی مرضی کے تابع رکھتا ہے کفریہ قوانین نافذ کرتا ہے وہ طاغوت ہوتا ہے۔
علامہ محمد بن إبراهيم آل الشيخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ومن حكم بغير ما أنزل الله كمن يحكم بسوالف الآباء ، وقوانين الجاهلية ، بل جميع من يحكم بغير ما أنزل الله - سواء بالقوانين ، أو بشيء مخترع وهو ليس الشرع ، أو بالخوض في الحكم - فهذا الذي يحكم به طاغوت من أكبر الطواغيت
جو شخص اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ کسی اور چیز سے فیصلہ کرتا ہے، وہ اس شخص کی طرح ہے جو باپ دادا کے طریقوں یا جاہلیت کے قوانین سے فیصلہ کرتا ہے۔ بلکہ جو شخص اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ فیصلہ کرے، خواہ وہ قوانین ہوں، یا کوئی اور اختراع ہو جو شریعت نہ ہو، یا فیصلہ کرنے کے عمل میں ملوث ہو، اس کا حکم بڑے طواغیت میں سے ایک طاغوت کا ہے۔
[شرح الثلاثة أصول، ص: ٣٠٧]
اور ایسے طاغوت کو بیعت کا مستحق ولی امر قرار دیکر رحیلی دین اسلام کے بنیادی اصولوں سے بغاوت کر مسلمانوں کو جمہوری مشرک بنانے کی گھناؤنی سازش کر رہا ہے۔
حافظ محمد عبد اللہ بہاولپوری فرماتے ہیں :
جیسے غیر اللہ کی عبادت کرنے والا مشرک ہے ایسے ہی عوام کی حاکمیت یعنی جمہوریت کا قائل بھی مشرک ہے۔ وہ عبادت میں غیر اللہ کو شریک ٹھراتا ہے۔ یہ حاکمیت میں عوام کو شریک مانتا ہے۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ اہل حدیث أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَأْذَنَ بِهِ اللهُ ﴾ [42 الشوری: 21] کو مقلدوں پر فٹ کر کے ان کو مشرک کہتے ہیں کیوں کہ وہ قرآن وحدیث کے ہوتے ہوئے اپنے ائمہ کے بنائے ہوئے مسئلوں کو مانتے ہیں۔ لیکن نہیں دیکھتے کہ جمہوریت کے قائل ہو کر وہ مقلدوں سے بھی بڑے مشرک بنتے ہیں۔ کیوں کہ جمہوریت میں عوام کی نمائندہ اسمبلی دستور بھی خود بناتی ہے اور ملکی قانون بھی خود وضع کرتی ہے اور یہ کھلا ہوا شرک و کفر ہے۔
[رسائل بہاولپوری، صفحہ: ۴۴۳]
مسلمانوں کو مدخلیت کے فتنے سے ہوشیار رہنا ضروری ہے، کفریہ طاغوتی نظاموں اور ان کے ایجنٹ مدخلیوں کے باطل نظریات اور ان کی اسلام دشمنی کو ہر پلیٹ فارم پر بے نقاب کرنا وقت کی ضرورت ہے!