• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کلمہ اللهم کی وضاحت

شمولیت
فروری 21، 2019
پیغامات
53
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
56
کلمہ اللهم کی وضاحت

قارئین کرام!
اللهم کی اصل يا الله ہے یہی راجح قول ہے، اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ اس کا استعمال طلب ودعا اور تضرع کے مواقع پر ہوتا ہے۔ جیسے ہم "اللهم غفور رحيم" نہیں کہتے، بلکہ "اللهم اغفرلي وارحمني" کہتے ہیں۔
قرآن مجید میں بھی اللھم کا استعمال ان دونوں معانی میں ہوا ہے۔
تضرع کی مثال: قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ (آل عمران/ ٢٦)
دعا کی مثال: قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ (المائدة/ ١١٤)
ابن عثیمین رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں کہ اللھم کی اصل یا اللہ ہے، اس سے حرف نداء کو حذف کرکے اس کے عوض میں میم کو اضافہ کردیا گیا ہے، (کیوں کہ یہ جمع پر دلالت کرتا ہے) یہی وجہ ہے کہ اللھم کے ساتھ حرف نداء یا اکٹھے جمع نہیں ہوتا، اور جہاں ہوا ہے اس کا شمار شذوذ ونوادر میں ہوتا ہے۔
(تفسیر القرآن الکریم لابن عثیمین سورۃ آل عمران/٢٦ وسورۃ الزمر/ ٤٦)
یہ تھا اللھم کا معنی جس پر اکثر اہل علم کا اتفاق ہے۔
اب آئیے کلمہ "اللهم" کے آخر میں لگے لفظ "میم" سے متعلق علما کے چند آراء ملاحظہ کرلیتے ہیں!


تمام بصریین بشمول امام سیبویہ کا کہنا ہے کہ جب یا اللہ سے حرف نداء کو حذف کیا گیا تو اس کے عوض لفظ الجلالہ اللہ کے آخر میں دو میم کا اضافہ کرکے یا اللہ کو اللھم کردیا گیا، اور اسی لیے ان کے نزدیک حرف نداء کے ساتھ میم کو جمع کرکے "یا اللھم" کہنا درست نہیں ہے، بجز شاذ کے، جیسا کہ ایک شاعر نے اس کا استعمال کیا ہے:
إني إذا ما حدث ألمّا … أقول: يا اللهمّ يا اللهمّا
ایسے ہی ایک شاعر نے اللھم کے بعد ایک اور میم کا اضافہ کیا ہے:
وما عليك أن تقولي كلما * صليت أو سبحت يا اللهم ما
{شرح ابن عقیل ٢/ ٢٦٥ }
اس قسم کے حرف کو جب وہ غیر محل محذوف میں ہو عوض کہتے ہیں، اور جب محل میں ہو تب بدل جیسے "قام اور باع" کا الف، یہ واؤ اور یا کا بدل ہے۔
سیبویہ کے نزدیک اس اسم کو موصوف کرنا جائز نہیں لہذا "اللهم الرحيم ارحمني" کہنا درست نہیں ہے، اور نہ ہی اس کا بدل جائز ہے۔
آگے فرماتے ہیں کہ اللھم کے "ہ" پر جو ضمہ ہے اسم منادی مفرد کی علامت ہے، اور "میم" پر فتح اس لیے دیا گیا کیوں کہ اس سے پہلے ایک "میم" ساکن تھا (میم مشدد کو دو میم شمار کیا گیا ہے)
اور یہ اسم الجلالہ کے خصائص میں سے ہے، جیسا کہ قسم کے لیے حرف " تا" کے ساتھ اس کا مخصوص ہونا، اسی طرح الف لام تعریف کے ساتھ حرف نداء کا داخل ہونا، اور نداء میں ہمزه وصل کا ہمزہ قطع ہوجانا، وغیرہ یہ ساری اسم الجلالہ کی خصوصیات ہیں۔
یہ خلاصہ ہے مذہب خلیل اور سیبویہ کا۔
(الکتاب لسیبويه : ٢/ ١٩٦ )

بعض کہتے ہیں کہ اللھم میں "میم" ایک جملہ محذوفہ کے عوض میں آیا ہوا ہے، اس کی تقدیر "يا الله أمَّنا بخير" ہے، پھر جار مجرور اور مفعول کو حذف کردیا تو "یا الله أمّ" رہ گیا، پھر چونکہ دعا میں بکثرت اس کا استعمال ہوتا ہے اس لیے ہمزہ کو حذف کرکے "یا اللھم" کردیا گیا۔
اس قول کے قائلین اللھم پر حرف ندا "یاء" کا دخول جائز سمجھتے ہیں، انہوں نے شاعر کا قول یا اللھم سے حجت پکڑی ہیں، فراء بھی اسی طرف گئے ہیں۔
( معانی القرآن للفراء ١/ ٢٠٣ )
لیکن بصریوں نے چند وجوہات کی بنا پر اس سے انکار کیا ہے۔
ان میں سے چار پانچ کو یہاں بیان کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
1۔ اس جملہ کے مقدر ہونے پر کوئی دلیل نہیں اور قیاس بھی اس کا تقاضا نہیں کرتا، پھر بغیر دلیل کے کسی مجرد رائے کو کیوں کر تسلیم کی جاسکتی!
2۔ اس کا اصل ہی عدم حذف ہے سو ان محذوفات کثیرہ کا مقدر ماننا خلاف اصل ہے۔
3۔ دعا مانگنے والا کبھی اپنے لیے اور کبھی دوسروں کے لیے دعائے بد بھی "اللھم" کے ساتھ کیا کرتا ہے، لہذا اس وقت "أمنا بخیر" کا مقدر ہونا کسی ناحیہ سے درست معلوم نہیں ہوتا۔
4۔ محاورہ جو فصیح وشائع ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ عرب "یا اور اللھم" کو جمع نہیں کرتے، اگر فراء کا قول درست ہوتا تو جمع کرنا ممتنع نہ ہوتا بلکہ استعمال فصیح وشائع ہوتا، جب کہ ایسا نہیں ہے۔
5۔ اگر یہ مقدر صحیح ہے تو "اللھم" کو جملہ تامہ کہنا چاہیے جس پر سکوت درست ہو، کیوں کہ یہ اسم منادی اور فعل طلب دونوں پر مشتمل ہے، لیکن ظاہر ہے کہ ایسا کرنا باطل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
(تفصیل کے لیے دیکھیں : معانی القرآن وإعرابه للزجاج ١/ ٣٩٣ - ٣٩٤ ، وتفسير القرطبي ٤/ ٥٤)
بعض کا کہنا ہے کہ "میم" تعظیم وتفخیم کے لیے زیادہ کردیا گیا ہے جیسے ازرق سے زرقم جب نیلاہٹ گہری ہوجائے، اسی طرح سے "ابنم" جو ابن سے ہے، یہ قول صحیح ہے لیکن ایک تتمہ کا محتاج ہے، جس میں قائل کے صحیح معنی اور پورے مدعا کو بیان کردیا جائے۔
واضح ہو کہ "میم" جمع پر دلالت اور تقاضا کرتا ہے اور اس کا مخرج بھی اس کا مقتضی ہے، یہ قول اس بنیاد پر ہے کہ لفظ اور معنیٰ کے اندر باہمی مناسبت ہوتی ہے، جیسا کہ عربیت کے اعلی ارکان وفضلا کا مذہب ہے۔
(جلاء الأفھام فی فضل الصلاۃ والسلام علیٰ خیر الانام ص : ١٤٦)
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ : "اللھم" یہ تمام دعا کا جامع ہے، اسی طرح سے نضر بن شمیل رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ: جس نے اللھم کہہ دیا اس نے اللہ تعالیٰ کو تمام اسماء کے ساتھ پکار لیا۔ ( تفسیر القرطبی ٤/ ٥٤، والبحر المحیط ٢/ ٤٣٦ )

ایک گروہ نے اس قول میں یہ توجیہ نکالی ہے کہ اللھم کا میم بمنزلہ واؤ کے ہے جو جمع پر دلالت کرتا ہے، کیوں کہ واؤ جمع کے مخرج سے ہے، گویا اللھم کے ساتھ دعا کرنے والا یہ کہا کرتا ہے کہ یا اللہ! تیرے لیے اسماء حسنی اور صفات علیا مجتمع ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ علامتِ جمع "واؤ نون جیسے مسلمون وغیرہ میں ہے" کا عوض ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: کہ جس طریقے سے ہم نے ذکر کیا کہ "میم" خود ہی جمع پر دلالت کرتا ہے تو پھر اس توجیہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
۔(جلاء الأفھام فی فضل الصلاۃ والسلام علیٰ خیر الانام ص: ١٥٧ )
اللہ اعلم باالصواب

ہدایت اللہ فارس
جامعہ نجران سعودیہ عربیہ
 
Top