• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کلمہ کی تعریف میں "قول مفرد" کی وضاحت

شمولیت
فروری 21، 2019
پیغامات
53
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
56
کلمہ کی تعریف میں "قول مفرد" کی وضاحت

کلمہ کی تعریف میں سب سے پہلے "قول" کی قید لگائی گئی۔ تو آئیے پہلے سمجھتے ہیں کہ قول سے مراد کیا ہے۔۔۔
ہمیں اچھی طرح معلوم کہ انسان کی زبان سے نکلنے والے ہر لفظ کا معنی ومفہوم نہیں ہوتا بلکہ کچھ بے معنی بھی ہوتے ہیں۔(جسے دوسرے الفاظ میں مہمل کہا جاتا ہے)
تو یہاں "قول" کی قید لگا کر اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ زبان سے نکلنے والا صرف وہی لفظ کلمہ بن سکتا ہے جس کا کوئی ایک معنی ہو یا اس سے کوئی مفہوم سمجھ میں آتا ہو جیسے: رجل، کتاب، جمل وغیرہ۔
لہذا اس قید سے وہ الفاظ جو بے معنی (مہمل) ہوتے ہیں وہ خارج ہوگیے جیسے: زید کا الٹا "دیز" یہ لفظ تو ہے کیوں کہ زبان سے نکلا ہے لیکن کلمہ نہیں ہے کیوں کہ مہمل ہے۔
اسی طرح اس(قول) کی قید سے اشارات، تحریرات، عقود وغیرہ خارج ہوجاتے ہیں۔
مثال کے طور پر کسی چیز کا نام آپ کو نہ معلوم ہو تو اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے وہ چیز چاہیے تو ایسی صورت میں وہ چیز کلمہ نہیں ہوگا کیوں کہ اگرچہ وہ کسی معنی پر دلالت کرتی ہے لیکن چونکہ آپ نے اس کا نام زبان سے نہیں نکالا اس لیے وہ لفظ کے حکم سے خارج ہوگیا۔
لہذا معلوم ہوا کہ کسی بھی لفظ کا کلمہ بننے کے لیے بیک وقت دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے۔ (١) زبان سے نکلا ہو۔
(٢)کسی معنی پر دلالت بھی کرتا ہو۔

اب آتے ہیں "مفرد" کی طرف۔
تعریف سے قبل یہ بتا دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ مفرد کا اطلاق ہمیشہ صرف "واحد" پر ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ اگر بات مرکب کی آجائے تو مفرد کا اطلاق تثنیہ وجمع پر بھی ہوتا ہے۔
مفرد کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ: ما لا يدل جزؤه على جزء معناه نحو: رجل وفرس
یعنی مفرد وہ لفظ ہے کہ جس کا جزء اس کے معنی کے جزء پر دلالت نہ کرے جیسے: رجل‌‌۔
تو اس لفظ "رجل" میں تین حروف ہیں (ر، ج اور ل) گویا یہ تین اجزاء ہوگیے اور یہ تینوں اجزاء مل کر ایک مکمل لفظ "رجل" بنا جس سے ایک خاص مفہوم سمجھ میں آرہا ہے اور وہ ہے آدمی، اب یہاں صرف "آدمی" پر ہی اکتفا نہیں کرنا ہے ورنہ مطلب واضح نہیں ہوگا بلکہ لفظ "آدمی" سننے سے آدمی کا جو مکمل ڈھانچہ یا مفہوم ذہن میں آتا ہے اس پر غور کرنا ہے اور وہ ہیں اجزاء جن سے مل کر ایک مکمل آدمی بنا ہے (اور اس پر لفظ "رجل" دلالت کررہا ہے) جیسے: "ماتھا، زبان، آنکھ، ناک، کان، ہاتھ، پیر، دل،پھیپھڑا وغیرہ وغیرہ۔۔یہ سارے اجزاء مل کر رجل بنا ہے جسے اردو میں ہم آدمی کہتے ہیں
اب اگر کوئی "رجل" سے( جو کہ تین اجزاء سے بنا ہے اور ایک مفہوم پر دلالت کررہا ہے) ایک جزء "ر" کو الگ کردے اور کہے کہ یہ "ر" رجل کے معنی کے ایک جزء "ماتھا" یا کسی اور جزء پر دلالت کررہا ہے یا یوں کہہ لیں کہ "راء" لفظ آدمی کے "آ" پر دلالت کررہا ہے تو کیا یہ درست ہوگا؟ بالکل نہیں۔ اسی لیے کہا گیا کہ مفرد ایسا لفظ ہے جس کا کوئی جزء اس کے معنی کے کسی جزء پر دلالت نہ کرے۔
پھر اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں برخلاف "غلامُ زیدِِ" کے
ظاہر سی بات ہے یہ ایک جملہ ہے اور اس کے اجزاء کا اعتبار کلمے سے ہوگا ناکہ حروف سے (اور کلمہ تو ایک معنی دیتا ہی ہے۔)
تو معلوم ہوا جملہ "غلامُ زیدِِ" (جو ایک خاص معنی یا مفہوم پر دلالت کررہا ہے اور وہ ہے "زید کا غلام") یہ دو اجزاء سے مل کر بنا ہے اور وہ ہیں "غلام اور زید"
اس میں کا ہر ایک پورے جملے کے معنی(زید کا غلام) کے جزء پر دلالت کررہا ہے۔
چنانچہ اگر لفظ "غلام" کو نکال لیا جائے تو غلام ہونے کے معنی پر دلالت کرے گا جو کہ اس پورے جملے کے معنی کا ایک جزء ہے، اور اگر "زید" کو نکال لیا جائے تو یہ بھی اپنے ایک معنی پر دلالت کرے گا اور یہ بھی پورے معنی کا ایک جزء ہے۔ اور ایسا اس وقت ممکن ہوگا جب ہم "غلام زید" کو اپنی اصل حالت (مرکب اضافی) پر مانیں گے۔ ورنہ پھر مفرد کے حکم میں چلا جائے گا۔۔۔!

از قلم
ہدایت اللہ فارس
 
Top