• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کم دنوں کا اعتکاف

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب

ایک دوست کو سفر کی مجبوری پیش آ گئی ہے وہ بیس رمضان المبارک کی شام اعتکاف کے لیے تیار تھے، لیکن اب تئیس رمضان المبارک سے پہلے سفر سے واپس نہیں آسکتے۔
سوال یہ ہے کہ آیا کسی مجبوری کی وجہ سے پورے عشرے کی بجائے کم دنوں کا اعتکاف کیا جاسکتا ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب

ایک دوست کو سفر کی مجبوری پیش آ گئی ہے وہ بیس رمضان المبارک کی شام اعتکاف کے لیے تیار تھے، لیکن اب تئیس رمضان المبارک سے پہلے سفر سے واپس نہیں آسکتے۔
سوال یہ ہے کہ آیا کسی مجبوری کی وجہ سے پورے عشرے کی بجائے کم دنوں کا اعتکاف کیا جاسکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اعتکاف کے مسائل
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اعتکاف کے مسائل
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اعتکاف عکوف سے مشتق ہے جس کا لغوی معنی کسی جگہ بیٹھ جا نا ہے۔ لیکن اصطلاحِ شرع میں کسی شخص کا ایک خاص مدت کے لئے مخصوص صفت کے ساتھ مسجد کے ایک گوشہ میں اقامت گزین ہونا اور خلوت و تنہائی میں اللہ کی عبادت یعنی نوافل، تلاوتِ قرآن و حدیث، ذکر و اذکار کے لئے وقف ہو جانا ہے۔ ملاحظہ کیجئے طرح التثریب ۴/۱۶۶ مفر دات القرآن ص ۳۴۳، شرح مسلم للنووی۷/۶۶۔یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سنت مؤکدہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدنی زندگی میں ہر سال اعتکاف کرتے تھے۔ ایک سال کسی سفر کی بنا پر اعتکاف چھوٹ گیا تو دوسرے سال بیس دن اعتکاف کر لیا۔ حدیث میں آتا ہے:
(( عن عبد اللہ بن عمر قال کان النبی صلى الله عليه وسلم يعتكف العشر الأواخر من رمضان .))

''سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان کے آخری دس دن اعتکاف میں بیٹھتے تھے۔'' (بخاری۱۲۷۱)
(( عن أبى بن كعب أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يعتكف الأواخر من رمضان فسافر عاما فلم يعكتف فلما كان العام المقبل اعتكف عشرين .))

''سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے، ایک سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کیا ، اعتکاف نہ کیا تو آئندہ سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔'' (نسائی، ابو دائود، ابن حبان، فتح الباری۱/۳۳۲)
مسنون اعتکاف یہ ہے کہ رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف کیا جائے البتہ اس سے کم وقت یعنی ایک دن یا رات وغیرہ کے لئے اعتکاف ہو سکتا ہے جیسا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروہی ہے:
(( أن عمر سأل النبى صلى الله عليه وسلم قال كنت نذرت فى الجاهلية أن أعتكف ليلة فى المسجد الحرام فقال فأوف بنذرك.))

''سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنی نذر پوری کر۔ ''(بخاری۱/۲۷۲)
یہی حدیث امام ابنِ ماجہ رحمة اللہ علیہ اپنی سنن میں باب فی اعتکاف یوم اولیلة (یعنی ایک دن یا رات کا اعتکاف کرنا ) میں لائے ہیں۔ (۱/۵۲۳۳)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص دن رات یا کچھ حصے کی نذر مان لیتا ہے کہ میں اتنا وقت اعتکاف کروں گا تو اسے نذر پوری کرنی چاہیے۔
علاوہ ازیں رمضان کے مہینے کے علاوہ بھی دیگر مہینوں میں اعتکاف ہو سکتا ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال میں اعتکاف کیا۔ (بخاری۴/۲۲۶، مسلم۱۱۳۷)
شرائط: اعتکاف مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ مشروع و جائز نہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے :
﴿وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ... ١٨٧﴾... البقرۃ

''اور تم ان سے مباشرت نہ کرو، اس حال میں کہ تم مساجد میں اعتکاف میں بیٹھے ہوئے ہو۔''
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں یہی بات شامل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اعتکاف میں بیٹھا کرتے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ:
(( السنة لا اعتكاف إلا بصوم ولا اعتكاف إلا فى مسجد جامع ))

''سنت یہ ہے کہ اعتکاف روزہ کی ساتھ ہی ہوتا ہے اور جامع مسجد میں ہوتا ہے''۔ (ابو دائود ۱/۳۳۵)
عورت اگر اعتکاف میں بیٹھنا چاہے تو وہ بھی مسجد میں ہی اعتکاف کر سکتی ہے۔ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا بھی مسجد میں اعتکاف میں بیٹھا کرتی تھیں۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دے دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے اعتکاف کیا۔ دوسری روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضٰ اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ فضربت فیہ قبۃانہوں نے مسجد میں خیمہ لگایا۔ (بخاری۱/۷۲۳)
سیدہ عائشہ رضٰ اللہ عنھا کا فرمان اوپر گزر چکا ہے کہ اعتکاف صرف جامع مسجد میں ہوتا ہے اس لئے اگر عورت اعتکاف کرنا چاہے تو مسجد میں ہی اس کا انتظام کرنا پڑے گا البتہ علامہ ناصر الدین البانی حفظہ اللہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی اس حدیث:
''کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا نے اعتکاف کیا '' پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
" و فيه دليل جواز اعتكاف النساء ولا شك ان ذلك مقيد بإذن أليائهن لذلك و امن الفتنة و الخلوة مع الرجال للأدلة الكثيرة فى ذلك والقاعدة الفقهية درء المفاسد مقدم على جلب المصالح صفة صوم النبى صلى الله عليه وسلم ."
''اس حدیث میں عورتوں کے اعتکاف پر جواز کی دلیل ہے اور بلا شبہ یہ بات عورتوں کے ولیوں کی اجازت، فتنہ اور مردوں کے ساتھ خلوت سے بچائو کے ساتھ مقید (مشروط) ہے۔''یعنی فسادات اور فتنہ کا اگر خدشہ ہو تو پھر ان سے اجتناب کرنا اوربچنا یہ مصلحتوں کے حاصل کرنے سے زیادہ ضروری اور مقدم ہے۔
اعتکاف کا طریقہ

اعتکاف کے متعلق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث تو اوپر گزر چکی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے۔ دوسری حدیث یہ ہے:
(( عن عائشة قالت كان صلى الله عليه وسلم قالت كان صلى الله علیه وسلم إذا أراد أن يعتكف صلى الفجر ثم دخل معتكفه.))''سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف بیٹھنے کا ارادہ کرتے تو فجر کی نماز پڑھ کر جاتے اعتکاف میں داخل ہو جاتے ۔'' (صحیح مسلم، ابو دائود۳۳۴)

ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے عام اہل علم یہ بات لکھتے ہیں کہ آخری عشرہ کا آغاز بیس رمضان کا سورج غروب ہوتے ہی ہو جاتا ہے۔ لہٰذا معتکف کو چاہیے کہ اکیسویں رات شروع ہوتے ہی مسجد میں آجائے۔ رات بھر تلاوت قرآن ، ذکر الٰہی ، تسبیح و تہلیل اور نوافل میں مصروف رہے اور صبح نماز فجر ادا کر کے اپنے اعتکاف کی جگہ میں داخل ہو جائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

ج 1

محدث فتویٰ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سعودی عرب کے مشہور عالم شیخ ابن جبرین حفظہ اللہ
ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں :
’’ السنة والأفضل اعتكاف العشر الأواخر من رمضان لقول عائشة رضى الله عنها: « كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يعتكف العشر الأواخر من رمضان حتى توفاه الله تعالى » وذلك لأنها مظنة ليلة القدر ففي التفرغ والحرص على قيامها والصلاة والقراءة فيها كلها يرجى قيامه لليلة القدر التي من قامها إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه، ولأن العشر هي أفضل ليالي الشهر وأيامه فالتفرغ فيها أحرى لمضاعفة الأجر، ومع ذلك يجوز أن يعتكف بعضها فمن اعتكف السبع الأواخر فله أجرها، ومن اعتكف الخمس الأواخر أو الثلاث الأواخر حصل على أجر ذلك،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ
یعنی سنت اور افضل تو مکمل آخری عشرہ کا اعتکاف ہے ، کیونکہ ام المومنین سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ پیارے نبی ﷺ وفات تک رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے رہے ،
اور آخری عشرہ کے اعتکاف کی ایک غرض لیلۃ القدر کا حصول بھی ہے ، ( کیونکہ یہ رات اسی عشرہ کی کوئی ایک طاق رات ہوسکتی ہے )
تاہم آخری عشرہ کے کچھ دنوں کا اعتکاف بھی درست اور باعث اجر و ثواب ہے ، مثلاً جو آخری سات دنوں کا ۔۔ آخری پانچ ایام کا اعتکاف کرے تو اسے اعتکاف کا اجر (ان شاء اللہ ) ملے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top