ماریہ انعام
مشہور رکن
- شمولیت
- نومبر 12، 2013
- پیغامات
- 498
- ری ایکشن اسکور
- 377
- پوائنٹ
- 164
shabbirarman@yahoo.com
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ سندھ اسمبلی نے 5 مئی کو کم عمری کی شادی پر پابندی کا بل اتفاق رائے سے منظور کرلیا ہے۔ یہ ''سندھ چائلڈ میرجز ریسٹرینٹ بل 2014'' کہلائے گا۔ جس کے تحت شادی کے لیے مرد اور عورت کی کم ازکم عمر 18 سال ہوگی، 18 سال سے کم عمر لڑکی کے ساتھ شادی کرنے والے دلہا، ایسی شادی کے لیے سہولتیں مہیا کرنے اور انتظامات کرنے والوں، ایسی شادی کرانے والے والدین یا سرپرستوں کو 3 سال تک قید بامشقت کی سزا دی جائے گی لیکن یہ سزا 2 سال سے کم نہیں ہوگی۔
اس قانون کی خلاف ورزی ناقابل ضمانت جرم ہوگی، 18 سال سے کم عمر کی شادی کے خلاف کوئی بھی شخص فرسٹ کلاس جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں شکایت دائر کرسکے گا، عدالت اس شکایت پر کارروائی کرے گی۔قبل ازیں کم عمری کی شادی کی روک تھام کا بل 25 مارچ 2014 کو قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا تھا۔ کم عمری کی شادی کی روک تھام کے لیے این جی اوز نے مہم چلائی اور اس میں وہ کامیاب ہوئیں اس سلسلے میں ''ہینڈز'' نامی این جی اوز نے عبدالرحیم موسوی کی سرکردگی میں ایک پرائیویٹ بل پیش کیا جو منظور کرلیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اس موضوع پر راقم کا مضمون بعنوان ''مسئلہ ہے شادی کی عمر کا'' روزنامہ ایکسپریس میں 17 جنوری میں شایع ہوا تھا۔ جسے خواتین میں سراہا گیا تھا۔ حال ہی میں ''ہینڈز'' نامی این جی اوز کے تحت اس مضمون کو ''میڈیا ایوارڈ'' سے نوازا گیا ہے جو میرے لیے باعث اعزاز ہے اور میں ''ہینڈز'' کا مشکور ہوں کہ انھوں نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا اور اسے قانونی شکل دینے میں کامیابی حاصل کی۔اس بل کی منظوری سے ''چائلڈ میرجز ایکٹ 1929کا سندھ اسمبلی میں اطلاق منسوخ ہوگیا ہے۔
اس قانون کے تحت لڑکے کی عمر 18 سال اور لڑکی کی عمر 16 سال تھی۔ 1929 کا قانون ایک مذاق بن کر رہ گیا تھا یعنی ''ایسا شخص جس کی عمر 18 سال سے زیادہ ہو اگر 16 سال سے کم عمر لڑکی کے ساتھ شادی کرے، ہر وہ فرد جو کم عمر بچوں کی شادی کے لیے کسی قسم کا کوئی کام سر انجام دے، والدین یا ولی کی طرف سے کم عمری کی شادی سے متعلق غفلت برتنے کی صورت میں، انھیں ایک ایک ماہ قید یا ایک ایک ہزار روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی تھیں۔ یہی وجہ ہے اس قانون کی اہمیت تقریباً ختم ہوچکی تھی کیوں کہ اس قانون میں ڈر و خوف نہیں تھا البتہ اپنے زمانے میں یہ سخت قانون تھا جو مدتوں گزر جانے کے بعد اپنی افادیت کھو چکا تھا۔
1929 کے قانون کے تحت اگر کوئی نابالغ خود شادی منعقد کرتا یا اس کے والدین، ولی یا کوئی بھی فرد جو شادی کے سلسلے میں بات آگے بڑھانے میں کوئی کردار ادا کرتا یا اس کو منعقد کرنے کی اجازت دیتا یا اپنی غفلت کی وجہ سے ان کو منع کرنے میں ناکام رہتا، اس وقت تک اس جرم میں شریک سمجھا جاتا جب تک کہ اپنی بے گناہی ثابت نہ کرتا۔ جب کہ کم عمری کی شادی کرانے میں ملوث عورت کو قید کی سزا نہیں دی جاسکتی تھی البتہ اسے جرمانہ کی سزا دی جاسکتی تھی۔ پرانے قانون کے تحت ایسے جرم کی شکایت شادی ہونے کے بعد ایک سال کے اندر متعلقہ یونین کونسل یا صوبائی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ اتھارٹی مجسٹریٹ درجہ اول کی عدالت میں دائر کرسکتی تھی جب کہ عدالت کی طرف سے جاری کیے گئے حکم کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کو 3 ماہ تک قید یا ایک ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی تھیں۔
اب جب کہ سندھ اسمبلی نے ایک انتہائی اہم بل منظور کیا ہے جس کے لیے تمام پارلیمانی پارٹیوں، سول سوسائٹی اور خواتین کی تنظیمیں مبارکباد کے مستحقین ہیں جنھوں نے یہ قانون بنانے میں معاونت فراہم کی۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قانون پر سختی کے ساتھ عمل درآمد ہونا چاہیے۔ کم عمری کی شادی کے بارے میں روزانہ اخبارات میں خبریں شایع ہوتی ہیں، کم عمری کی 80 فیصد شادیاں ایسی ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوتیں کئی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں 12 سے 15 سال کی تمام بچیاں شادی شدہ ہیں، اس بل کی میڈیا میں تشہیر اس لیے ضروری ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ اگر انھوں نے اس قانون کی خلاف ورزی کی تو سزا ہوسکتی ہے۔
وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن کا یہ اعلان برمحل ہے کہ آیندہ 3 ماہ تک حکومت سندھ کے تمام اشتہارات میں اس قانون کے حوالے سے باتیں شامل کی جائیں گی۔ اس قانون کے نفاذ سے کسی کو یہ جرأت نہیں ہوگی کہ وہ کم عمر بچیوں سے پوچھے بغیر ان کی شادی کردیں۔یاد رہے کہ بچوں کی شادی اس وقت کی جائے جب وہ عاقل و بالغ ہوں، ذہنی بلوغت ہمیشہ جسمانی بلوغت کے بعد ہوتی ہے،کم سنی کی شادیوں میں لڑکی کی ذہنی اور جسمانی نشوونما پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں، کم سنی میں شادیاں کرنے والے والدین کے بچے بہت کمزور پیدا ہوتے ہیں اور ماؤں میں اموات کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ توقع ہے کہ نئے قانون کے نفاذ کے بعد یہ معاشرتی مسئلہ کسی حد تک حل ہوجائے گا۔
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ سندھ اسمبلی نے 5 مئی کو کم عمری کی شادی پر پابندی کا بل اتفاق رائے سے منظور کرلیا ہے۔ یہ ''سندھ چائلڈ میرجز ریسٹرینٹ بل 2014'' کہلائے گا۔ جس کے تحت شادی کے لیے مرد اور عورت کی کم ازکم عمر 18 سال ہوگی، 18 سال سے کم عمر لڑکی کے ساتھ شادی کرنے والے دلہا، ایسی شادی کے لیے سہولتیں مہیا کرنے اور انتظامات کرنے والوں، ایسی شادی کرانے والے والدین یا سرپرستوں کو 3 سال تک قید بامشقت کی سزا دی جائے گی لیکن یہ سزا 2 سال سے کم نہیں ہوگی۔
اس قانون کی خلاف ورزی ناقابل ضمانت جرم ہوگی، 18 سال سے کم عمر کی شادی کے خلاف کوئی بھی شخص فرسٹ کلاس جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں شکایت دائر کرسکے گا، عدالت اس شکایت پر کارروائی کرے گی۔قبل ازیں کم عمری کی شادی کی روک تھام کا بل 25 مارچ 2014 کو قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا تھا۔ کم عمری کی شادی کی روک تھام کے لیے این جی اوز نے مہم چلائی اور اس میں وہ کامیاب ہوئیں اس سلسلے میں ''ہینڈز'' نامی این جی اوز نے عبدالرحیم موسوی کی سرکردگی میں ایک پرائیویٹ بل پیش کیا جو منظور کرلیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اس موضوع پر راقم کا مضمون بعنوان ''مسئلہ ہے شادی کی عمر کا'' روزنامہ ایکسپریس میں 17 جنوری میں شایع ہوا تھا۔ جسے خواتین میں سراہا گیا تھا۔ حال ہی میں ''ہینڈز'' نامی این جی اوز کے تحت اس مضمون کو ''میڈیا ایوارڈ'' سے نوازا گیا ہے جو میرے لیے باعث اعزاز ہے اور میں ''ہینڈز'' کا مشکور ہوں کہ انھوں نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا اور اسے قانونی شکل دینے میں کامیابی حاصل کی۔اس بل کی منظوری سے ''چائلڈ میرجز ایکٹ 1929کا سندھ اسمبلی میں اطلاق منسوخ ہوگیا ہے۔
اس قانون کے تحت لڑکے کی عمر 18 سال اور لڑکی کی عمر 16 سال تھی۔ 1929 کا قانون ایک مذاق بن کر رہ گیا تھا یعنی ''ایسا شخص جس کی عمر 18 سال سے زیادہ ہو اگر 16 سال سے کم عمر لڑکی کے ساتھ شادی کرے، ہر وہ فرد جو کم عمر بچوں کی شادی کے لیے کسی قسم کا کوئی کام سر انجام دے، والدین یا ولی کی طرف سے کم عمری کی شادی سے متعلق غفلت برتنے کی صورت میں، انھیں ایک ایک ماہ قید یا ایک ایک ہزار روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی تھیں۔ یہی وجہ ہے اس قانون کی اہمیت تقریباً ختم ہوچکی تھی کیوں کہ اس قانون میں ڈر و خوف نہیں تھا البتہ اپنے زمانے میں یہ سخت قانون تھا جو مدتوں گزر جانے کے بعد اپنی افادیت کھو چکا تھا۔
1929 کے قانون کے تحت اگر کوئی نابالغ خود شادی منعقد کرتا یا اس کے والدین، ولی یا کوئی بھی فرد جو شادی کے سلسلے میں بات آگے بڑھانے میں کوئی کردار ادا کرتا یا اس کو منعقد کرنے کی اجازت دیتا یا اپنی غفلت کی وجہ سے ان کو منع کرنے میں ناکام رہتا، اس وقت تک اس جرم میں شریک سمجھا جاتا جب تک کہ اپنی بے گناہی ثابت نہ کرتا۔ جب کہ کم عمری کی شادی کرانے میں ملوث عورت کو قید کی سزا نہیں دی جاسکتی تھی البتہ اسے جرمانہ کی سزا دی جاسکتی تھی۔ پرانے قانون کے تحت ایسے جرم کی شکایت شادی ہونے کے بعد ایک سال کے اندر متعلقہ یونین کونسل یا صوبائی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ اتھارٹی مجسٹریٹ درجہ اول کی عدالت میں دائر کرسکتی تھی جب کہ عدالت کی طرف سے جاری کیے گئے حکم کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کو 3 ماہ تک قید یا ایک ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی تھیں۔
اب جب کہ سندھ اسمبلی نے ایک انتہائی اہم بل منظور کیا ہے جس کے لیے تمام پارلیمانی پارٹیوں، سول سوسائٹی اور خواتین کی تنظیمیں مبارکباد کے مستحقین ہیں جنھوں نے یہ قانون بنانے میں معاونت فراہم کی۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قانون پر سختی کے ساتھ عمل درآمد ہونا چاہیے۔ کم عمری کی شادی کے بارے میں روزانہ اخبارات میں خبریں شایع ہوتی ہیں، کم عمری کی 80 فیصد شادیاں ایسی ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوتیں کئی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں 12 سے 15 سال کی تمام بچیاں شادی شدہ ہیں، اس بل کی میڈیا میں تشہیر اس لیے ضروری ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ اگر انھوں نے اس قانون کی خلاف ورزی کی تو سزا ہوسکتی ہے۔
وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن کا یہ اعلان برمحل ہے کہ آیندہ 3 ماہ تک حکومت سندھ کے تمام اشتہارات میں اس قانون کے حوالے سے باتیں شامل کی جائیں گی۔ اس قانون کے نفاذ سے کسی کو یہ جرأت نہیں ہوگی کہ وہ کم عمر بچیوں سے پوچھے بغیر ان کی شادی کردیں۔یاد رہے کہ بچوں کی شادی اس وقت کی جائے جب وہ عاقل و بالغ ہوں، ذہنی بلوغت ہمیشہ جسمانی بلوغت کے بعد ہوتی ہے،کم سنی کی شادیوں میں لڑکی کی ذہنی اور جسمانی نشوونما پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں، کم سنی میں شادیاں کرنے والے والدین کے بچے بہت کمزور پیدا ہوتے ہیں اور ماؤں میں اموات کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ توقع ہے کہ نئے قانون کے نفاذ کے بعد یہ معاشرتی مسئلہ کسی حد تک حل ہوجائے گا۔