محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
کنیئرڈ کالج، جہاں حجاب پر پابندی ہے –
ام الہدیٰ
09/02/2017
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ترکی کے ایک ڈرامہ سیریل ’’الف‘‘ کو دیکھتے ہوئے دل سے دعا نکلا کرتی تھی کہ’’یا رب! پاکستان کو کبھی ایسا مت بنانا، ہم کچے پکے ایمان والوں پر وہ آزمائش نہ ڈالنا، ہم ہار بیٹھیں گے!‘‘ اور پھر دل ہی دل میں شکر کیا کرتے تھے، اور ساتھ ہی اپنی ترکی کی ایک سہیلی کو فخر سے بتایا کرتےتھے کہ الحمدللہ، پاکستان جتنا بھی ماڈرن ہوگیا ہے، لیکن پردے والی لڑکی کی طرف آج بھی سب عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں!
گزشتہ روز TEDx Kinnaird کے سلسلے میں اپنی مادرِ علمی کنیئرڈ کالج برائے خواتین جانے کا اتفاق ہوا۔ گریجوشن کے دو سال بعد واپس محبت کے اس محل کی طرف جاتے ہوئے ایک سرشاری کی سی کیفیت طاری تھی۔ اپنی ایک سہیلی کو بھی ساتھ لیا اور Light, Courage, Love کے سلوگن کو بیان کرتے ہوئے کالج کی تعریفیں کرتے رہے۔
تھکے ہوئے ذہن کو تازہ دم کر دینے والی کچھ تقاریر کے بعد ڈیڑھ گھنٹے کے وقفے کا اعلان ہوگیا۔ کھانے پینے کی اشیا اور سپانسرز کے اعلانات کے بعد ازراہِ تکلف یہ اعلان بھی کر دیا گیا کہ جو افراد نماز پڑھنا چاہتے ہیں، وہ مینیجمنٹ سے رابطہ کر کے نماز کے لیے مخصوص حصے کی طرف جا سکتے ہیں۔ اور ہم اپنی معصومیت میں اس ازراہِ تکلف کیے گئے اعلان کو سنجیدہ سمجھ کر مینیجمنٹ کے پاس پہنچے کہ جی نماز کی جگہ بتا دیجیے۔ انہوں نے سر تا پا ہمیں اور ہماری سہیلی کو ایسے دیکھا جیسے ہم نے کوئی بہت عجیب سوال کر دیا ہو۔ پھر بالوں کو پیچھے جھٹک کر بولیں کہ تھوڑا انتظار کریں، ابھی ہم مصروف ہیں۔ تب ہمیں اندازہ ہوا کہ مینیجمنٹ ٹیم کو کسی سے نماز کی ادائیگی کی توقع تھی ہی نہیں، جس کی وجہ سے نماز کی جگہ کا کوئی انتظام کرنے کا تکلف ہی نہیں کیا گیا۔ نماز کا وقت نکلتا جا رہا تھا تو پھر سے ان کے سر پر پہنچ کر جائے نماز کا تقاضا کیا کہ بھئی آپ نے با قاعدہ اعلان کیا تھا، اب بتا دیں کہ کہاں نماز ادا کی جائے۔ سکن ٹائٹ جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس اس طالبہ نے بہت برہمی سے اپنی ہی طرح کے لباس میں ملبوس ایک ساتھی کو کہا کہ جائے نماز لا دو۔ جس نے دو جائے نماز لا کر بہت نخوت سے ہماری طرف بڑھا دیے۔
نماز ادا کرنے کے بعد سوچا کہ ہال میں ہی بیٹھے رہتے ہیں، باہر جا کر کیا کریں گے۔ ہال میں اور بھی کچھ لوگ موجود تھے جو سیلفیاں لینے میں مصروف تھے۔ ہم نے سوچا کہ ہم بھی Logo کے ساتھ ایک آدھ تصویر یادگار کے طور پر بنوا لیں۔ سو سٹیج پر چڑھ کر 2 تصاویر بنوا کر نیچے آ گئے اور ایک کونے میں بیٹھ کر کافی پینے لگے۔ دو چار منٹ گزرے ہوں گے کہ دو سکیورٹی گارڈ اپنی طرف بڑھتے ہوئےنظر آئے۔ جلدی سے نقاب کو ٹھیک کیا تو تب تک وہ عین سامنے پہنچ چکے تھے۔ آتے ہی بولے، آپ دونوں ذرا باہر آ جائیں۔ پہلا گمان یہی گزرا کہ شاید ان کا مقصد یہ ہوگا کہ اندر کافی پینے کی اجازت نہیں ہے، تو ہم اٹھ کر ان کے پیچھے اپنی چیزیں سمیٹے چل پڑے۔ بارہا سوال کیا کہ وجہ تو بتائیں، آخر ہوا کیا؟ ’’ابھی پتا چل جاتا ہے‘‘ ایک گارڈ نے کرختگی سے جواب دیا۔ باہر نکل کر دنگ رہ گئے، جب مینیجمنٹ ٹیم کی دو ممبران، دو خاتون سکیورٹی گارڈز اور ایک ٹیچر کو اپنا گھیراؤ کرتے ہوئے پایا۔ اور پھر سوالوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی۔۔
کون ہیں آپ لوگ؟
کہاں سے آئے ہیں؟
کس یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس ہیں؟
کون سا سبجیکٹ پڑھتے ہیں؟
کہاں گھر ہے؟
والد صاحب کیا کرتے ہیں؟
کس ڈیپارٹمنٹ میں؟
ابھی جواب سہی سے دے بھی نہ پائے تھے کہ انتہائی غصےسے اس ٹیچر نے خاتون سکیورٹی گارڈ سے کہا ، ’’بیک چیک کریں ان دونوں کے‘‘، اس گارڈ نے نہایت تابعداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارا بیگ ہم سے چھینا اور تلاشی لینا شروع کر دی۔ جب کچھ نہ ملا، اور اس سکن ٹائٹ جینز کے یونیفارم والی مینجمنٹ ٹیم کا دل اتنی بےعزتی کر کے بھی نہ بھرا تو مرد سکیورٹی گارڈز اور دیگر مردوں کے درمیان ہم سے ہمارا نقاب اتارنے کا تقاضا کیا گیا تاکہ ہماری شکل کا موازنہ شناختی کارڈ پر دی گئی تصویر سے کیا جا سکے۔ دل میں بےاختیار اپنے حجاب کی خاطر جنگ لڑتی الف کا چہرہ نظر آیا۔ اور پھر نقاب اتارنے کے بجائے ہم نے سوال کیا کہ آپ کو ہم پر اس لیے شک ہے کہ 300 افراد میں سے صرف ہم نے نماز ادا کرنے کا جرم کیا اور سارا وقت پردے میں رہنے کا قصد کیا؟ آگے سے جواب ملا کہ نہیں، دیکھیں حالات آپ کو پتہ ہیں، آج ہماری سکیورٹی بہت سخت ہے۔ اور آپ لوگ سٹیج پر Logo کے ساتھ تصویر لے رہے تھے، وہاں تصویر لینے کی اجازت نہیں ہے، بس صرف اس لیے۔ ہمیں آپ کے مسلمان ہونے یا آپ کے مذہبی ہونے اور آپ کے طرزِ لباس پر کوئی اعتراض نہیں ہے، اور ہم صرف دل میں مسکرا کر رہ گئے کہ ہاں سٹیج پر تصویر لینا تو واقعی ایک سنگین جرم ہے، اور وہ بھی پردے کے ساتھ، اسی لیے تو منع کرنے کے بجائے 4 عدد سکیورٹی گارڈز کا سہارا لیا گیا، دو لڑکیوں کی تلاشی کے لیے! اچھی طرح تلاشی لینے کے بعد ایک خاتون گارڈ کو مسلسل ہمارے تعاقب میں رہنے کا کہہ دیا گیا۔ وہ خاتون واش روم، لان، ہر جگہ ہمارے سائے کی طرح پیچھے چلنے لگی۔ یہ بےعزتی ناقابلِ برداشت تھی، کہ 4 سال جس محل سے مجھے عشق رہا، جن گلیوں اور کمروں کو میں اپنا دوسرا گھر سمجھ کر پھرا کرتی تھی، آج وہاں میں اتنی اجنبی تھی کہ مجھ پر ایک گارڈ کو نظر رکھنے کا کہہ دیا گیا تھا۔ بےاختیار آسمان والےکی طرف دیکھنے کو دل چاہا اور دل میں ترانے کا بول مسکرایا، ’’اے خدا تیرے لیے، بس اے خدا تیرے لیے!‘‘
واپس لان میں آ کر بیٹھے تو احساس ہوا کہ ہمارے چاروں طرف گارڈز دور سے اب بھی ہم پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ ابھی بیٹھے یہ سوچ ہی رہے تھے کہ آگے کیا کریں اب، کہ وہ مینیجمنٹ کی خواتین پھر آن پہنچیں۔ اس بار انہوں نے ہم سے ہمارے موبائل فون کا تقاضا کیا، اور کہا کہ جو تصویریں آپ نے لی ہیں، وہ ڈیلیٹ کر دیں۔ تب یاد آیا کہ بھئی TEDx Kinnaird کی عزت کا مسئلہ تھا، اب کسی پردے والی لڑکی کی Logo کے ساتھ تصویر کا منظرِ عام پر آجانا کوئی معمولی بات تھی؟ اس حرکت نے اگلا قدم خود بخود سجھا دیا Light, courage, Love کا کالج سلوگن، 5 منٹ میں ہی darkness, doubt, hatred میں تبدیل ہو چکا تھا۔ مینیجمنٹ ٹیم نے ہم سے سوال کیا کہ اب آپ کا ہال میں واپسی کا ارادہ ہے کیا؟ جواب میں ہم نے کانفرنس کی فائلیں ان کی طرف بڑھا دیں اور صرف ’’نہیں‘‘ کا جواب دے کر گیٹ کی طرف رخ کیا!
بوجھل دل کے ساتھ گھر آئی تو تب تک صرف اپنی بےعزتی کا احساس تھا۔ رات تک سوشل میڈیا پر پروگرام سے متعلق پوسٹس سے معلوم ہوا کہ اختتام سے پہلے قوالی نائٹ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ رقص وسرور کی محفل کے علاوہ کوئی اور بات کسی پوسٹ میں نہ نظر آئی تو بےاختیار پھر سے آسمان والے کی طرف نظر اٹھی۔ بےیقینی کی سی کیفیت تھی کہ وہ سچ میں مجھ سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اس نے میری دعا کا مان رکھا۔ میری دعا کہ ’’یا اللہ مجھ میں طاقت نہیں ہے، مجھے ہاتھ پکڑ کر گناہ سے دور کر دیجیے گا ہمیشہ!‘‘ اور پھر بےعزتی کا احساس زائل ہو گیا، لیکن دکھ کو ایک دوسرا رخ مل گیا۔ #ShootForTheStars کے تھیم پر میوزک پر سر دھننے والے ان 300 نوجوانوں کو کسی ایک بھی تقریر میں یاد نہ دلایا گیا ہوگا کہ نظریہ پاکستان کیا تھا۔ ان کو اس سنہرے پاکستان کے خواب دکھائے جا رہے تھے جہاں نماز پڑھنے والا اجنبی، پردہ کرنے والا بےوقوف، اردو بولنے والا جاہل ہوگا! کسی نے نہ بتایا کہ ارے! یہ سب تو متحدہ ہندوستان میں بھی کثرت سے تھا۔
آج مجھے اپنےگھر، اپنے ملک میں ایک اجنبی کی طرح دیکھا گیا۔ ہمارے ملک کی نوجوان نسل کی اکثریت اپنے آباؤ اجداد کو کوستی نظر آتی ہے کہ وہ پاکستان کے بننے کے مخالف تھے۔ خدا کی قسم! وہ لا الہ کی اساس رکھنے والے پاکستان کے مخالف نہ تھے۔ وہ صرف پاکستان کے ایسے بن جانے سے ڈرتے تھے جس میں اپنوں کو اجنبی کر دیا جائے گا، کیوں کہ امید دلانے کے بعد جب چراغوں کو بجھایا جاتا ہے، تو صدمے کے دوران ہونے والی تکلیف سے 1000 گنا بڑا حادثہ رونما ہو جاتا ہے۔ وہ بزرگ جانتے تھے کہ آئین میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی شقوں کو اقلیتوں کے راج اور اکثریت والوں کی محکومی کا مطلب پہنا دیا جائے گا۔ ہاں و ہ جانتے تھے، کہ لا الہ پر کٹ مرنے کا جذبہ رکھنے والے کاٹ مارے جائیں گے اور باقی ماندہ اپنی اساس کو جانتے پہچانتے تک نہ ہوں گے۔ وہ ڈرتے تھے کہ پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الااللہ صرف ایک جملہ بن کر رہ جائے گا اور اس کی خاطر بہہ جانے والے خون، لٹی عصمتوں، کٹے جسموں کو مصلحتوں اور غلطیوں کا کفن پہنا کر بھلا دیا جائے گا!
https://daleel.pk/2017/02/09/28142