• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کنیئرڈ کالج، جہاں حجاب پر پابندی ہے

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کنیئرڈ کالج، جہاں حجاب پر پابندی ہے –


ام الہدیٰ

09/02/2017

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ترکی کے ایک ڈرامہ سیریل ’’الف‘‘ کو دیکھتے ہوئے دل سے دعا نکلا کرتی تھی کہ’’یا رب! پاکستان کو کبھی ایسا مت بنانا، ہم کچے پکے ایمان والوں پر وہ آزمائش نہ ڈالنا، ہم ہار بیٹھیں گے!‘‘ اور پھر دل ہی دل میں شکر کیا کرتے تھے، اور ساتھ ہی اپنی ترکی کی ایک سہیلی کو فخر سے بتایا کرتےتھے کہ الحمدللہ، پاکستان جتنا بھی ماڈرن ہوگیا ہے، لیکن پردے والی لڑکی کی طرف آج بھی سب عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں!

گزشتہ روز TEDx Kinnaird کے سلسلے میں اپنی مادرِ علمی کنیئرڈ کالج برائے خواتین جانے کا اتفاق ہوا۔ گریجوشن کے دو سال بعد واپس محبت کے اس محل کی طرف جاتے ہوئے ایک سرشاری کی سی کیفیت طاری تھی۔ اپنی ایک سہیلی کو بھی ساتھ لیا اور Light, Courage, Love کے سلوگن کو بیان کرتے ہوئے کالج کی تعریفیں کرتے رہے۔

تھکے ہوئے ذہن کو تازہ دم کر دینے والی کچھ تقاریر کے بعد ڈیڑھ گھنٹے کے وقفے کا اعلان ہوگیا۔ کھانے پینے کی اشیا اور سپانسرز کے اعلانات کے بعد ازراہِ تکلف یہ اعلان بھی کر دیا گیا کہ جو افراد نماز پڑھنا چاہتے ہیں، وہ مینیجمنٹ سے رابطہ کر کے نماز کے لیے مخصوص حصے کی طرف جا سکتے ہیں۔ اور ہم اپنی معصومیت میں اس ازراہِ تکلف کیے گئے اعلان کو سنجیدہ سمجھ کر مینیجمنٹ کے پاس پہنچے کہ جی نماز کی جگہ بتا دیجیے۔ انہوں نے سر تا پا ہمیں اور ہماری سہیلی کو ایسے دیکھا جیسے ہم نے کوئی بہت عجیب سوال کر دیا ہو۔ پھر بالوں کو پیچھے جھٹک کر بولیں کہ تھوڑا انتظار کریں، ابھی ہم مصروف ہیں۔ تب ہمیں اندازہ ہوا کہ مینیجمنٹ ٹیم کو کسی سے نماز کی ادائیگی کی توقع تھی ہی نہیں، جس کی وجہ سے نماز کی جگہ کا کوئی انتظام کرنے کا تکلف ہی نہیں کیا گیا۔ نماز کا وقت نکلتا جا رہا تھا تو پھر سے ان کے سر پر پہنچ کر جائے نماز کا تقاضا کیا کہ بھئی آپ نے با قاعدہ اعلان کیا تھا، اب بتا دیں کہ کہاں نماز ادا کی جائے۔ سکن ٹائٹ جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس اس طالبہ نے بہت برہمی سے اپنی ہی طرح کے لباس میں ملبوس ایک ساتھی کو کہا کہ جائے نماز لا دو۔ جس نے دو جائے نماز لا کر بہت نخوت سے ہماری طرف بڑھا دیے۔

نماز ادا کرنے کے بعد سوچا کہ ہال میں ہی بیٹھے رہتے ہیں، باہر جا کر کیا کریں گے۔ ہال میں اور بھی کچھ لوگ موجود تھے جو سیلفیاں لینے میں مصروف تھے۔ ہم نے سوچا کہ ہم بھی Logo کے ساتھ ایک آدھ تصویر یادگار کے طور پر بنوا لیں۔ سو سٹیج پر چڑھ کر 2 تصاویر بنوا کر نیچے آ گئے اور ایک کونے میں بیٹھ کر کافی پینے لگے۔ دو چار منٹ گزرے ہوں گے کہ دو سکیورٹی گارڈ اپنی طرف بڑھتے ہوئےنظر آئے۔ جلدی سے نقاب کو ٹھیک کیا تو تب تک وہ عین سامنے پہنچ چکے تھے۔ آتے ہی بولے، آپ دونوں ذرا باہر آ جائیں۔ پہلا گمان یہی گزرا کہ شاید ان کا مقصد یہ ہوگا کہ اندر کافی پینے کی اجازت نہیں ہے، تو ہم اٹھ کر ان کے پیچھے اپنی چیزیں سمیٹے چل پڑے۔ بارہا سوال کیا کہ وجہ تو بتائیں، آخر ہوا کیا؟ ’’ابھی پتا چل جاتا ہے‘‘ ایک گارڈ نے کرختگی سے جواب دیا۔ باہر نکل کر دنگ رہ گئے، جب مینیجمنٹ ٹیم کی دو ممبران، دو خاتون سکیورٹی گارڈز اور ایک ٹیچر کو اپنا گھیراؤ کرتے ہوئے پایا۔ اور پھر سوالوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی۔۔
کون ہیں آپ لوگ؟
کہاں سے آئے ہیں؟
کس یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس ہیں؟
کون سا سبجیکٹ پڑھتے ہیں؟
کہاں گھر ہے؟
والد صاحب کیا کرتے ہیں؟
کس ڈیپارٹمنٹ میں؟
ابھی جواب سہی سے دے بھی نہ پائے تھے کہ انتہائی غصےسے اس ٹیچر نے خاتون سکیورٹی گارڈ سے کہا ، ’’بیک چیک کریں ان دونوں کے‘‘، اس گارڈ نے نہایت تابعداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارا بیگ ہم سے چھینا اور تلاشی لینا شروع کر دی۔ جب کچھ نہ ملا، اور اس سکن ٹائٹ جینز کے یونیفارم والی مینجمنٹ ٹیم کا دل اتنی بےعزتی کر کے بھی نہ بھرا تو مرد سکیورٹی گارڈز اور دیگر مردوں کے درمیان ہم سے ہمارا نقاب اتارنے کا تقاضا کیا گیا تاکہ ہماری شکل کا موازنہ شناختی کارڈ پر دی گئی تصویر سے کیا جا سکے۔ دل میں بےاختیار اپنے حجاب کی خاطر جنگ لڑتی الف کا چہرہ نظر آیا۔ اور پھر نقاب اتارنے کے بجائے ہم نے سوال کیا کہ آپ کو ہم پر اس لیے شک ہے کہ 300 افراد میں سے صرف ہم نے نماز ادا کرنے کا جرم کیا اور سارا وقت پردے میں رہنے کا قصد کیا؟ آگے سے جواب ملا کہ نہیں، دیکھیں حالات آپ کو پتہ ہیں، آج ہماری سکیورٹی بہت سخت ہے۔ اور آپ لوگ سٹیج پر Logo کے ساتھ تصویر لے رہے تھے، وہاں تصویر لینے کی اجازت نہیں ہے، بس صرف اس لیے۔ ہمیں آپ کے مسلمان ہونے یا آپ کے مذہبی ہونے اور آپ کے طرزِ لباس پر کوئی اعتراض نہیں ہے، اور ہم صرف دل میں مسکرا کر رہ گئے کہ ہاں سٹیج پر تصویر لینا تو واقعی ایک سنگین جرم ہے، اور وہ بھی پردے کے ساتھ، اسی لیے تو منع کرنے کے بجائے 4 عدد سکیورٹی گارڈز کا سہارا لیا گیا، دو لڑکیوں کی تلاشی کے لیے! اچھی طرح تلاشی لینے کے بعد ایک خاتون گارڈ کو مسلسل ہمارے تعاقب میں رہنے کا کہہ دیا گیا۔ وہ خاتون واش روم، لان، ہر جگہ ہمارے سائے کی طرح پیچھے چلنے لگی۔ یہ بےعزتی ناقابلِ برداشت تھی، کہ 4 سال جس محل سے مجھے عشق رہا، جن گلیوں اور کمروں کو میں اپنا دوسرا گھر سمجھ کر پھرا کرتی تھی، آج وہاں میں اتنی اجنبی تھی کہ مجھ پر ایک گارڈ کو نظر رکھنے کا کہہ دیا گیا تھا۔ بےاختیار آسمان والےکی طرف دیکھنے کو دل چاہا اور دل میں ترانے کا بول مسکرایا، ’’اے خدا تیرے لیے، بس اے خدا تیرے لیے!‘‘

واپس لان میں آ کر بیٹھے تو احساس ہوا کہ ہمارے چاروں طرف گارڈز دور سے اب بھی ہم پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ ابھی بیٹھے یہ سوچ ہی رہے تھے کہ آگے کیا کریں اب، کہ وہ مینیجمنٹ کی خواتین پھر آن پہنچیں۔ اس بار انہوں نے ہم سے ہمارے موبائل فون کا تقاضا کیا، اور کہا کہ جو تصویریں آپ نے لی ہیں، وہ ڈیلیٹ کر دیں۔ تب یاد آیا کہ بھئی TEDx Kinnaird کی عزت کا مسئلہ تھا، اب کسی پردے والی لڑکی کی Logo کے ساتھ تصویر کا منظرِ عام پر آجانا کوئی معمولی بات تھی؟ اس حرکت نے اگلا قدم خود بخود سجھا دیا Light, courage, Love کا کالج سلوگن، 5 منٹ میں ہی darkness, doubt, hatred میں تبدیل ہو چکا تھا۔ مینیجمنٹ ٹیم نے ہم سے سوال کیا کہ اب آپ کا ہال میں واپسی کا ارادہ ہے کیا؟ جواب میں ہم نے کانفرنس کی فائلیں ان کی طرف بڑھا دیں اور صرف ’’نہیں‘‘ کا جواب دے کر گیٹ کی طرف رخ کیا!

بوجھل دل کے ساتھ گھر آئی تو تب تک صرف اپنی بےعزتی کا احساس تھا۔ رات تک سوشل میڈیا پر پروگرام سے متعلق پوسٹس سے معلوم ہوا کہ اختتام سے پہلے قوالی نائٹ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ رقص وسرور کی محفل کے علاوہ کوئی اور بات کسی پوسٹ میں نہ نظر آئی تو بےاختیار پھر سے آسمان والے کی طرف نظر اٹھی۔ بےیقینی کی سی کیفیت تھی کہ وہ سچ میں مجھ سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اس نے میری دعا کا مان رکھا۔ میری دعا کہ ’’یا اللہ مجھ میں طاقت نہیں ہے، مجھے ہاتھ پکڑ کر گناہ سے دور کر دیجیے گا ہمیشہ!‘‘ اور پھر بےعزتی کا احساس زائل ہو گیا، لیکن دکھ کو ایک دوسرا رخ مل گیا۔ #ShootForTheStars کے تھیم پر میوزک پر سر دھننے والے ان 300 نوجوانوں کو کسی ایک بھی تقریر میں یاد نہ دلایا گیا ہوگا کہ نظریہ پاکستان کیا تھا۔ ان کو اس سنہرے پاکستان کے خواب دکھائے جا رہے تھے جہاں نماز پڑھنے والا اجنبی، پردہ کرنے والا بےوقوف، اردو بولنے والا جاہل ہوگا! کسی نے نہ بتایا کہ ارے! یہ سب تو متحدہ ہندوستان میں بھی کثرت سے تھا۔

آج مجھے اپنےگھر، اپنے ملک میں ایک اجنبی کی طرح دیکھا گیا۔ ہمارے ملک کی نوجوان نسل کی اکثریت اپنے آباؤ اجداد کو کوستی نظر آتی ہے کہ وہ پاکستان کے بننے کے مخالف تھے۔ خدا کی قسم! وہ لا الہ کی اساس رکھنے والے پاکستان کے مخالف نہ تھے۔ وہ صرف پاکستان کے ایسے بن جانے سے ڈرتے تھے جس میں اپنوں کو اجنبی کر دیا جائے گا، کیوں کہ امید دلانے کے بعد جب چراغوں کو بجھایا جاتا ہے، تو صدمے کے دوران ہونے والی تکلیف سے 1000 گنا بڑا حادثہ رونما ہو جاتا ہے۔ وہ بزرگ جانتے تھے کہ آئین میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی شقوں کو اقلیتوں کے راج اور اکثریت والوں کی محکومی کا مطلب پہنا دیا جائے گا۔ ہاں و ہ جانتے تھے، کہ لا الہ پر کٹ مرنے کا جذبہ رکھنے والے کاٹ مارے جائیں گے اور باقی ماندہ اپنی اساس کو جانتے پہچانتے تک نہ ہوں گے۔ وہ ڈرتے تھے کہ پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الااللہ صرف ایک جملہ بن کر رہ جائے گا اور اس کی خاطر بہہ جانے والے خون، لٹی عصمتوں، کٹے جسموں کو مصلحتوں اور غلطیوں کا کفن پہنا کر بھلا دیا جائے گا!

https://daleel.pk/2017/02/09/28142
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کنیئرڈ کالج لاہور میں حجاب پر پابندی –


ڈاکٹر رضوان اسد خان

09/02/2017

14 فروری کو کنیئرڈ کالج لاہور کی
سرخ عمارت سے،
سرخ لباس میں ملبوس،
سرخ غبارے پکڑے،
سرخ گلابوں کے ساتھ،
سرخی پوڈر سے مزین
اور
ناظرین کو سرخ کرتی اداؤں سے لیس..

پر اک حیا کی سرخی سے عاری،
کئی لڑکیاں برآمد ہوں گی اور
کچھ نامعلوم لوگوں کی گاڑیوں میں سوار ہو کر
کچھ نامعلوم منزلوں کی جانب روانہ ہو جائیں گی.

ایسا ہر سال ہوتا ہے. مگر اس سے کالج کے تشخص پر کوئی حرف آتا ہے اور نہ اس کی ’’نیک نامی‘‘ کو کوئی ٹھیس پہنچتی ہے. ہاں البتہ اپنے پورے مغربی اور لبرل ماحول میں ’’ترقی‘‘ کے تمام تر ’’سنہری مواقع‘‘ اور ’’روشن خیالی‘‘ کی ساری ’’موم بتیاں‘‘ فراہم کر دینے کے باوجود بھی جب کسی لڑکی کا حجاب اتروا پھینکنے میں ناکامی انہیں غیظ و غضب میں اپنے ہاتھ چبانے پر مجبور کرتی ہے تو پھر یہ لبرل ازم، سیکولرازم، ہیومن ازم اور جمہوری اقدار وغیرہ کے دلفریب، بلکہ فریبی لبادے اتار پھینکتے ہیں اور ’’ننگے ہو کر‘‘ میدان میں اتر، اپنے ناپاک ہاتھ اس امت کی پاکباز بیٹیوں کی طرف بڑھاتے ہیں.

ام الہدی
جی ہاں، کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا ہے اس ’’مایہ ناز‘‘ ادارے کی ایک مایہ ناز طالبہ ام الہدی کے ساتھ. پہلی ’’غلطی‘‘ بیچاری سے یہ ہوئی کہ جس مادر علمی سے فارغ التحصیل ہوئی تھی، اس کی محبت میں ان کی ایک تقریب میں جا گھسی، بغیر یہ سوچے کہ سینکڑوں لبرلز میں یہ دو نقاب پوش بیبیاں کیسی ’’دہشت‘‘ پیدا کریں گی. کہیں انہیں ہم جنس پرستوں پر حملوں کے واقعات ہی نہ یاد آ جائیں.

پھر دوسرا جرم یہ ہوا کہ پورے مجمع میں سے صرف ان دو بیبیوں کو فکر پڑ گئی کہ نماز بھی پڑھنی ہے. بھئی اب ایسی بھی کیا دقیانوسیت ضد ہی شروع کر دی کہ ہمیں مصلے اور جگہ دی جائے، حالانکہ اعلان انتظامیہ نے خود کیا تھا کہ جس نے نماز پڑھنی ہے اس کے لیے انتظام موجود ہے، مگر وہ محض لبرل ’’اخلاق‘‘ کا کیمرے کے سامنے ماڈلنگ کی خاطر لیپا پوتی والا خوشنما چہرہ تھا. انہیں تو یقین تھا کہ کون ’’سر پھرا‘‘ ایسی جگہ ایسی فرمائش کرے گا، مگر یہ کیا؟ اب ان دو انتہا پسندوں کو سچ مچ مصلے دینا پڑ گئے. اور پھر ادھر ہال میں ہی دونوں ’’اجنبیوں‘‘ نے رقص ابلیس کے بیچ اسے راندہ درگاہ کرنے والے کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو کر سب کا مزہ کرکرا کیا.

چلو یہاں تک بھی ٹھیک تھا. کیمروں میں تو نہیں آئی تھیں ناں. کالج کی عزت اور وقار تو مجروح نہیں ہوئے تھے ناں. مگر جب وقفے کے دوران دونوں ’’بیک ورڈ‘‘ لڑکیوں نے سٹیج پر جا کر دوسرے ’’مہذب شرکاء‘‘ کی طرح دو چار تصاویر بنا لیں تو بس پھر ’’اقلیت‘‘ کو اپنے حقوق پر ڈاکہ پڑتا اور تشخص مجروح ہوتا محسوس ہوا. گارڈ آئے اور دونوں ’’دہشت گردوں‘‘ کو سب کے سامنے ذلیل کر کے باہر لے گئے، تلاشی لی، موبائل چیک کیے اور خاتون گارڈ نے مردوں کے سامنے نقاب اتارنے پر بھی مجبور کیا اور اس وقت تک جان نہ چھوڑی جب تک کہ دونوں ’’سکیورٹی رسک بچیاں‘‘ کالج سے باہر نہ نکل گئیں.

تو جناب دیکھا آپ نے؟
آپ کے اپنے ملک میں ایک اقلیتی گروہ کے ادارے میں آپ کا کیا سٹیٹس ہے، اگر آپ اپنے اسلامی تشخص کو سینے سے چمٹائے رکھنے پر اصرار کریں؟
آپ ان ’’جاہلیت کی نرسریوں‘‘ کی دیواروں پر خون آلود پیڈز تو لگا سکتے ہیں مگر اسلامی حلیے میں، نماز وغیرہ جیسی اسلامی ’’حرکتیں‘‘ کرتے، تصویریں بناتے کالج کا امیج خراب نہیں کر سکتے..
ویسے یہ کون سی جمہوریت ہے جس میں ایک اقلیتی گروہ کی انتظامیہ، اکثریتی گروہ کے ممبران کو ہراساں کرنے میں اس حد تک ’’لبرل‘‘ ہے؟

اگر آج آپ نے حالات کی سنگینی کا ادراک نہ کیا تو کل کو آپ اپنے ہی اسلامی جمہوریہ کے ہر دوسرے ادارے میں ایسے ہی ’’اجنبی‘‘ بن کر رہ جائیں گے.
لیکن:
فطوبی للغرباء..

https://daleel.pk/2017/02/09/29529
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
عصری تعلیمی ادارے، تہذیبِ اسلامی کی قتل گاہیں –


علی عمران

08/02/2017

عنوان بظاہر بہت دہشت ناک ہے، مگر حقیقت کچھ اس سے مختلف بھی نہیں ہے. اس بات کو چھوڑیے بھی کہ ہمارے عصری تعلیمی ادارے کن اداروں کی بھینٹ دے کر کھڑے کیے گئے ہیں، اس بات کو بھی چھوڑیے کہ ان کے قیام کا مقصد کس تہذیب کو فروغ دینا بتایا گیا، اس بات سے بھی صرفِ نظر کیجیے، جو لارڈ میکالے کے حوالے سےزبان زد عام ہے، اس بات کو بھی نظرانداز کیجیے کہ سرسید مرحوم قوم کو مغرب کے معاشرتی علوم ہی پڑھانے کے قائل تھے اور ان کا سمجھنا یہ تھا کہ مغربی ٹیکنالوجی کی تعلیم سے پہلے ضروری ہے کہ ہم مغربی تہذیب اور معاشرت کو سیکھ لیں اور اختیار کرلیں، تاکہ اس ٹیکنالوجی کا بہتر استعمال کرسکیں، نہیں معلوم کہ یہ کون سی منطق تھی، جس کی بدولت مرحوم کا یہ ماننا تھا. ان ساری چیزوں کو چھوڑیے.

تاریخ کے اس جبر کو اگر ہم نے کھول لیا، تو بہت سارے حضرات حیران و پریشان رہ جائیں گے سو ان کو کوہ کھاتے حوالے کر کے تھوڑا سا آگے بڑھتے ہیں، اور معاملہ کسی نامعلوم فلسفے پر بھی معلق نہیں کرتے، کچھ ذاتی مشاہدوں اور متعلقہ احباب کے بیانات ہمارے اس مدعا کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ہمارا موجودہ تعلیمی نظام ہماری اسلامی تہذیب کا گلا گھونٹ رہا ہے، اور یہ کوئی ایسی چیز بھی نہیں، جس کے ثبوت کے لیے لمبے چوڑے بیانات کی ضرورت پڑے.

ہوا یوں کہ ایک مرتبہ حاجی عبدالوہاب صاحب نے ایبٹ آباد میں بیان کیا اور اس میں یہ فرمایا کہ عصری اداروں میں پڑھنے سے انسان (فکری طور پر) مرتد ہو جاتا ہے. ہمارے تبلیغی حلقے میں یہ بات بڑے اچنبھے سے سنی گئی! یہاں تک کہ خود استادِ محترم مولانا طارق جمیل صاحب نے حاجی صاحب محترم سے جا کر عرض کیا کہ حضرت! یہ بات کچھ زیادہ ہی سخت نہیں ارشاد فرمائی!
حاجی صاحب نے فرمایا، ’’دیکھو منے! مجھے یہ بتاؤ کہ اللہ تعالٰی نے اس دنیا کو کس لیے پیدا فرمایا؟ اسی لیے نا کہ اپنی قدرت، طاقت، عطا اور دہش کے خزانے لٹائے؟‘‘
مولانا نے عرض کیا جی ہاں، تو فرمایا کہ ’’اللہ نے تو دنیا بنائی اس لیے کہ اس کی ذات سے فائدہ اٹھایا جائے اور تمہاری سائنس، تمہاری بیالوجی، تمہاری کمیسٹری اور تمہاری فزکس کہہ رہی ہے کہ فلاں مخلوق کے یہ فوائد ہیں، فلاں مخلوق کے یہ فوائد ہیں. اللہ کو بھول کر مخلوق میں لگنا ہی تو دہریت ہے!‘‘

حاجی صاحب کی بات تو اپنی جگہ ایک حال کا بیانیہ ہوسکتی ہے، مگر کالج اور یونیورسٹی سے گزرنے والا ہر ایک آدمی یہ بات ضرور جان سکتا ہے کہ اس کی زندگی سے خدا کے وجود کی ضرورت گم ہوتی جاتی ہے، ہر چیز کو کاز و ایفیکٹ کی روشنی میں پرکھنے والا بھول جاتا ہے کہ کوئی اور بھی ہستی ہے، جو اس کاز و ایفیکٹ کے پورے نظم کو کنٹرول کر رہی ہے. اس نظم میں سے گزرنے سے بندہ خدا سے بےنیاز ضرور ہوتا ہے، تاہم باقی دنیا کی ہر چیز کا محتاج بن جاتا ہے.

ہم جو خود ان سارے مراحل سے گزر چکے ہیں، اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس نظم سے گزر جانے سے، خدا کی ذات مناطقہ کے خدا سے زیادہ نہیں رہتی، جو کائنات کو پیدا کرکے فارغ ہوگیا، اور اب بس تمہارے اوپر اور تمہاری مادہ کے لیے لگن کے اوپر ہے کہ تم کتنا اور کیسا سٹیٹس اپنے لیے زندگی کا منتخب کرتے ہو.

وہ خدا کہ جس کی شان کل یوم ھو فی شان ہے، جو ہر لمحہ کام میں لگا ہوا، کسی کو اٹھا رہا، کسی کو گرا رہا، کسی کو دے رہا، کسی سے لے رہا، کسی کو مار رہا، کسی کو جِلا رہا، کسی کو عزت کے سنگھاسن پر بٹھا رہا اور کسی کو ذلتوں کے ہار پہنا رہا، وہ تو گویا سکرینِ حیات سے بالکل ہی آؤٹ کردیا گیا ہے.

ہاں جب ساری امیدیں فیل ہوجائیں اور ساری کوشیشیں لاحاصل ٹھہریں، تو پاکستان کے بےاختیار صدر کی طرح آخری اپیل کے طور پر اس کی طرف بھی دیکھ ہی لیتے ہیں.

وہ خدا جو محبتوں سے لبریز، قوتوں کا حامل، طاقتوں کا سرچشمہ، دل جس کا محل اور مقام ہے، وہ اس منظرنامے میں نہ صرف یہ کہ دِکھتا ہی نہیں، بلکہ سچ تو یہ ہے فٹ بھی نہیں بیٹھتا..

آخر خدافراموشی کی تہذیب سے جنم لینے والی علمیات اس کے سوا کچھ اور دے بھی سکتی ہیں!

خیر! یہ تو کچھ زیادہ ہی اوپر لیول کی بات ہے، جس کو ہمارے علامے آج ہاتھ لگانے کو بھی تیار نہیں، نظام تعلیم اور تعلیمات کا باب تو ہمارے ہاتھوں سے کب کا نکل چکا اور اب تو اس کی اصلاح اور دینی فکر کا حامل بنانے کا خیال بھی ایک خیال لگنے لگا ہے، مصیبت مگر یہ ہے کہ جو چیز ہمارے قابو میں تھی اور جس پر کنسنٹریٹ کرکے ہم اس نامناسب نظام تعلیم کے اثرات سے خود بھی بچ سکتے تھے اور پنے بچوں کو بھی بچا سکتے تھے، ہم مگر اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں بلکہ کچھ اس رفتار سے ان بنیادوں کو بگاڑ رہے ہیں کہ شاید کسی نظریاتی قوم کے تصور میں بھی نہ ہوگا کہ یوں بھی ہوگا اور وہ ہے نظام تربیت.

نصاب افراد نے پڑھانے ہوتے ہیں، اور نصاب چاہے جتنا بھی بدبودار ہو، مگر بیدار مغز اور حمیت ِدینی کا حامل شخص اس کے اندر سے موتی نکال کر قوم کےسپوتوں کی تربیت کر سکتا ہے. ترکی کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح خالص مادی، دہری اور الحادی تعلیمی نصاب کے ہوتے ہوئے بھی انہوں نے اسلامی تہذیب کی طرف مثبت ترقی جاری رکھی ہے. یہ سب کچھ ان افراد کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے، ان کے دیے ہوئے ماحول کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے، ان کی دی ہوئی تربیت کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے.

ہمارا مسئلہ یوں ہے کہ وہ ادارے جو اپنے طلبہ کو ایک عمدہ ماحول، اخلاقی نظم اور اچھی تربیت فراہم کرکے اس تہذیبی جنگ میں ایک اچھا خاصا بریک تھرو نہ بھی سہی سپیڈ بریکر کا کام تو بآسانی دے سکتے تھے، آج مگر یہ خود ہی دوسری طرف پر کھڑے دِکھ رہے اور وہ کچھ خرابیاں جو محض تعلیمی نظم سے آسکتی تھیں، ان سے دوچند ان کے اندرونی ماحول کی وجہ سے اگتی جا رہی ہیں.

لاہور کی یونیورسٹی میں طالبہ کو دوپٹہ اوڑھنے پر نکالا جانا ہو، بیکن ہاؤس کی لڑکیوں کے حیض والے پیڈز سرعام لٹکانے کی بات ہو، فیصل آباد کی یونیورسٹی کا پی ایچ ڈی کے سٹوڈنٹ کو محض اس وجہ سے نکالنا ہو کہ اس نے فحاشی کی ایک محفل پر فیس بک پر تنقید کی تھی، یونیورسٹیز کے اندر اسلامیات کے ڈیپارٹمنٹس ختم کرنے کی بات ہو یا کل پرسوں میں ہماری محترم بہن ام الہدیٰ کے ساتھ کینیئرڈ کالج میں بدترین اختصاصی سلوک ہو، یہ سب اس تربیت اور ماحول کا اشارہ دے رہا ہے، جو ہماری تعلیم گاہیں دے رہی ہیں. اور تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے معاملہ بگڑتا جا رہا ہے. یہ چند واقعات محض ٹیسٹرز ہیں. یہ کام شروع دن سے ہو رہا ہے.. آج تو دو ہزار سترہ ہے، مگر یہ کوششیں پرانی ہیں.

میں پشاور میں سی اے (c.a) کر رہا تھا. وہاں پر تبلیغی سرگرمیوں سے جڑنا شروع ہوا اور آہستہ آہستہ دینی رجحان بڑھتا گیا. بالآخر یہ ہوا کہ کالج میں ڈاڑھی اور شلوار قمیص کے ساتھ آنے لگا اور پائنچے بھی اٹھے ہوتے تھے.
ہماری ایڈمن ایک خاتون تھی. ایک دن انہوں نے مجھے بلایا اور سختی سے ڈانٹا کہ میں ایسا لباس پہن کر نہ آیا کروں.
میں نے حیرت سے پوچھا، مگر کیوں؟ انہوں نے بتایا کہ کالج کی ڈیپوٹیشن خراب ہوتی ہے اس سے.!
میں نے چند لڑکیوں کے نازیبا کپڑوں کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ ان کے بارے میں آپ کیا فرماتی ہیں؟
بڑے رسان سے فرمایا کہ ان سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں. یہ تو ہمارے ماحول کا حصہ ہے.
میں نے کہا کہ کالج کی شرائط میں وردی کا ذکر تو تھا نہیں کہ ہم اس کو لازمی پہنیں گے، لہذا اگر کوئی کچھ اور پہنتا ہے، تو مجھے بھی اپنی پسند کا لباس پہننے کا حق ہونا چاہیے.
وہ غرائیں، میں نے کہا نا کہ بس نہیں پہنوگے، تو نہیں پہنوگے!
وہ تو خیر میں نے دوسرے ذرائع سے گلو خلاصی کرائی، مگر یہ واقعہ ہمارے تعلیمی اداروں کا ماحول دکھانے کے لیے بہت کافی ہے جبکہ یہ آج سے بارہ سال پہلے کی بات ہے، تو موجودہ احوال کا اندازہ کرنا مشکل نہیں.

میرا ایک شاگرد عمر خان ہے. امریکہ میں پلا بڑھا ہے اور ابھی امریکہ میں ایڈمیشن کر کے آیا ہے، مگر ہمارے ایک سالہ دینی کورس کی وجہ سے رکا ہوا ہے. کہتا ہے کہ یہ پڑھ کر جاؤں گا. بہت ہی خوبصورت اور کیوٹ سا بچہ ہے، اوپر سے ڈاڑھی اور پگڑی باندھتا ہے. مجھے بتانے لگا کہ میں روٹس میں پڑھتا ہوں یہاں اسلام آباد میں، امریکہ میں رہا ہوں، مگر پاکستان میں سنت پر چلنا امریکہ کے مقابلےمیں بہت زیادہ مشکل ہے. کلاس میں ساتھی لڑکے لڑکیاں، یہاں تک کہ استاد اتنا تنگ کرتے ہیں کہ جاں کو آجاتے ہیں. ہمارے ایک بہت ہی محترم بتانے لگے کہ میرا آفس عین اس بلڈنگ کے سامنے ہے، جس میں روٹس کا کیمپس واقع ہے. ایسے مخرب اخلاق مناظر ہوتے ہیں کہ دل دماغ ہولنے لگتے ہیں.

عرض یہ کرنی تھی کہ اس تہذیبی تباہی کو روکنا ہوگا. جن احباب کا اثر و رسوخ ہے، وہ ان اداروں کے ذمہ داران کو سمجھائیں، جن کو مالی وسعت حاصل ہے، وہ دینی تشخص کے حامل عصری علوم کے ادارے کھول لیں. آج کل اس ترتیب کی بہت زیادہ حاجت ہے. اس زمانے میں کہ جب اعلیٰ تعلیم ہی باعزت پیشے کا ایک بنیادی ذریعہ رہ گئی ہے، خواہی نخواہی، لہذا قوم بچوں کو اس سے محروم بھی نہیں کر سکتی اور ان اداروں کے حوالے کرنے کو دل بھی نہیں کرتا، کہ جہاں پر سب سے پہلے ان کے ایمان اور تہذیب پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے.

اس دور کا بہترین جہاد کم خرچ پر قوم کے بچوں کو ایسا تعلیمی ماحول مہیا کرنا ہے، جس میں لوگ اپنے بچوں کو اس اعتماد کے ساتھ بھیج سکیں کہ یہاں پر ان کے بچوں کا دین اور تہذیب محفوظ رہے گی.

https://daleel.pk/2017/02/08/29621
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
شریفین کا شہر اور قوم کی بیٹی کا آنچل !


یہ شریفین کا شہر لاہور ہے، مصنفہ فوزیہ مغل کی مانیں تو "امیر شہر "عمر ثانی شہباز شریف اسی شہر پیرس میں راتوں کو اٹھ اٹھ کر میٹرو بس میں گشت کرتے ہیں کہ کہیں فٹ پاتھ پر کوئی بچہ بھوک سے بلک تو نہیں رہا ہے،کوئی بوڑھی ماں اپنے بچے کو تھپکی دے کر بھوکا سلانے کی کوشش میں ہلکان تو نہیں ہورہی ہے ،خشک راوی کے کنارے کوئی کتا پیاس سے مر تو نہیں رہا ہے ، حضرت شہباز مست قلندر یہاں عدل و انصاف کے نئے عہد تخلیق کر رہے ہیں،مختصر یہ کہ یہاں راوی کنار راوی بیٹھے چین ہی چین لکھ رہا ہے ،ہاں یہ لاہور ہے یہاں مین سٹریم دینی جماعتوں کے مراکز بھی ہیں ،یہاں منصورہ ،تبلیغی رائیونڈ، مرکز القادسیہ،6 راوی روڑ ،منہاج القرآن،جامعہ اشرفیہ ،جامعہ منتظر جیسے دینی تحریکوں کے مضبوط دینی ادارے بھی ہیں،یہ دینی ادارے اور جماعتیں فرانس،جرمنی اور مغربی ممالک کی نقاب اتارو مہم کے خلاف یہاں مظاہرے ،جلسے اور احتجاج بھی کرتے ہیں، ہاں اسی شہر لاہور میں کنئیرڈ کالج برائے خواتین کی پرشکواہ عمارت اور تعلیمی ادارہ بھی ہے ،یہ ادارہ ایک تقریب کا انعقاد کرتا ہے، ام الہدی جو کہ اس مادر علمی کی سابقہ گریجویٹ ہیں ،اس کالج سے فراغت حاصل کیے انہیں دو سال ہوچکے ہیں ،مگر یہاں گزارے خوبصورت روز و شب کی یادیں ان کے ذہن میں اب بھی تازہ ہیں ،ام الہدی کو جب اس تقریب کی خبر ہوتی ہے تو وہ خوشی و سرشاری کی کیفیت میں اپنی سہیلی کے ساتھ سوئے کالج چل پڑتی ہے، کہ دو سال کے طویل دورانیے کے بعد آج موقعہ اور بہانہ ملا ہے کہ کالج کے لان اور بینچوں پر بیٹھ کر ماضی کو آواز دیں ، راستے میں اپنی سہیلی کے آگے کالج کی خوب تعریف بھی کرتی ہے، تقریب میں وقفہ ہوتا ہے، لگ بھگ تین سو شرکاء میں سے یہ دو ہی رب کو یاد کرنے اور نماز پڑھنے کے لیے ایک کونے میں جاتی ہیں ،یہ دونوں برقعہ اوڑھی ہوئی ہوتی ہیں، بس نماز اور برقعہ ان کا جرم ٹھرتا ہے ،منیجمنٹ اور مرد سکیورٹی والے ان دو بہنوں کی تذلیل و تضحیک کرتے ہیں، ان کا نقاب نوچتے ہیں ،ان کے آنچل پر سوال اٹھاتے ہیں، انہیں مجمع لگا کر حراساں کیا جاتا ہے، انہیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ برقعے میں ملبوس یہاں آکر تم نے کالج کی ریپٹیشن خراب کیا ہے،بالآخر ام الہدی تقریب چھوڑے شکستہ دل، بوجھل قدموں اور بے عزتی کا بار گراں اٹھائے خود کو اجنبی محسوس کرتے گھر کو چل دیتی ہے، میں یہاں مدینہ منورہ میں بیٹھے انتظار میں ہوں کہ کب تخت لاہور میں فروکش مریم نواز کے ابا جان قوم کی مریم اس بیٹی کو انصاف دلائیں گے، فوزیہ مغل کے عمر ثانی میٹرو بس میں سوار ہو کر ام الہدی کے گھر پہنچیں گے اور انہیں یقین دلائیں گے کہ عمر ثانی کے ہوتے ہوئے کسی بیٹی کا آنچل نہیں نوچا جاسکتا ہے، ہاں میں انتظار میں ہوں کہ منصورہ سے سراج لالہ اور لیاقت بلوچ کی قیامت میں ریلی نکلے گی جمعیت کے گبھرو جوان ریلی میں آگے آگے ہوں گے اور کنیئرڈ کالج کے سامنے دھرنا دیا جائے گا،حکومت کو مجبور کیا جائے گا کہ ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں ،مرکز القادسیہ والے مال روڑ سے ناصر باغ تک پلے کارڈ اٹھائے مارچ کریں گے، 6 راوی روڑ والے
" تحفظ نقاب و حجاب " تحریک چلائیں گے، ہاں میں انتظار میں ہوں ،اگر ام الہدی کے لیے آواز نہیں اٹھائی جاتی ہے، اسے انصاف نہیں ملتا ہے تو یقین کیجئے میں ہی نہیں اس قوم کا ہر وہ فرد جو دین سے ادنی سا تعلق رکھتا ہے وہ نظام سے مایوس ہوگا ،وہ ان دینی جماعتوں سے بھی متنفر ہوگا جو فرانس و جرمنی کے گوروں کے ہاتھوں مسلمان بہنوں کے نقاب نوچنے پر احتجاج کی سیاست تو کرتی ہیں مگر اپنے گھر میں دیسی اور لنڈے کے انگریزوں کے ہاتھوں تذلیل ہوتی ام الہداوں کی حالت پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں،بخدا بہنوں کے آنچلوں کی حرمت تمہاری پگڑیوں سے بڑھ کر ہے ،اگر لاکھوں شہداء اور ہزاروں آنچلوں کی قربانی دے کر حاصل کیے گیے دیس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی بہنوں اور بیٹیوں کا آنچل محفوظ نہیں ہے تو سمجھیں اس قوم اور اس ملک کا خدا ہی حافظ ہے ۔

فردوس جمال
مدینہ یونیورسٹی
مدینہ منورہ
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

سکول، کالج، یونیورسٹی، سرکار نیم سرکاری ادارہ، کمیونٹی، یا کہیں بھی کوئی خاص پروگرام تشکیل دیا جاتا ہے تو وقت اور حالات کی پیش نظر سکیورٹی کا بندوبست بھی ہوتا ہے سکیورٹی کچھ جگہ ذاتی ہوتی ہے اور کچھ جگہ پرائیویٹ سکیورٹی کمپنیوں سے ہائر کی جاتی ہے۔

ام الہدیٰ سسٹر نے جو اپنی تحریر نے لکھا اس پر جائزہ لیتے ہیں۔

کنیئرڈ کالج، جہاں حجاب پر پابندی ہے۔
ام الہدیٰ۔۔ 09/02/2017
گزشتہ روز TEDx Kinnaird کے سلسلے میں اپنی مادرِ علمی کنیئرڈ کالج برائے خواتین جانے کا اتفاق ہوا۔ گریجوشن کے دو سال بعد واپس محبت کے اس محل کی طرف جاتے ہوئے ایک سرشاری کی سی کیفیت طاری تھی۔

مینیجمنٹ کے پاس پہنچے کہ جی نماز کی جگہ بتا دیجیے۔

پھر بالوں کو پیچھے جھٹک کر بولیں کہ تھوڑا انتظار کریں، ابھی ہم مصروف ہیں۔ اب بتا دیں کہ کہاں نماز ادا کی جائے۔

اس طالبہ نے بہت برہمی سے اپنی ہی طرح کے لباس میں ملبوس ایک ساتھی کو کہا کہ جائے نماز لا دو۔ جس نے دو جائے نماز لا کر بہت نخوت سے ہماری طرف بڑھا دیے۔

ہم نے سوچا کہ ہم بھی Logo کے ساتھ ایک آدھ تصویر یادگار کے طور پر بنوا لیں۔ سو سٹیج پر چڑھ کر 2 تصاویر بنوا کر نیچے آ گئے اور ایک کونے میں بیٹھ کر کافی پینے لگے۔

مینیجمنٹ ٹیم کی دو ممبران، دو خاتون سکیورٹی گارڈز اور ایک ٹیچر کو اپنا گھیراؤ کرتے ہوئے پایا۔

ہم نے سوال کیا کہ آپ کو ہم پر اس لیے شک ہے کہ 300 افراد میں سے صرف ہم نے نماز ادا کرنے کا جرم کیا اور سارا وقت پردے میں رہنے کا قصد کیا؟
آگے سے جواب ملا کہ نہیں، دیکھیں حالات آپ کو پتہ ہیں، آج ہماری سکیورٹی بہت سخت ہے۔ اور آپ لوگ سٹیج پر Logo کے ساتھ تصویر لے رہے تھے، وہاں تصویر لینے کی اجازت نہیں ہے، بس صرف اس لیے۔ ہمیں آپ کے مسلمان ہونے یا آپ کے مذہبی ہونے اور آپ کے طرزِ لباس پر کوئی اعتراض نہیں ہے،

اچھی طرح تلاشی لینے کے بعد ایک خاتون گارڈ کو مسلسل ہمارے تعاقب میں رہنے کا کہہ دیا گیا۔ وہ خاتون واش روم، لان، ہر جگہ ہمارے سائے کی طرح پیچھے چلنے لگی۔ یہ بےعزتی ناقابلِ برداشت تھی، کہ 4 سال جس محل سے مجھے عشق رہا،

مینیجمنٹ ٹیم نے ہم سے سوال کیا کہ اب آپ کا ہال میں واپسی کا ارادہ ہے کیا؟
جواب میں ہم نے کانفرنس کی فائلیں ان کی طرف بڑھا دیں اور صرف ’’نہیں‘‘ کا جواب دے کر گیٹ کی طرف رخ کیا!

https://daleel.pk/2017/02/09/28142


سسٹر ام الہدیٰ نے " مادر علمی کنیئرڈ کالج برائے خواتین " میں دو سال گزارنے کے دوران ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ان دو سالوں میں کنیئرڈ کالج برائے خواتین بلکل بھی شریعت کا پابند نہیں رہا ہو گا ' اور اس کے اس وقت کے ماحول کو دیکھنے کے بعد اور باوجود ام لہدیٰ نے ایڈمشن لیا اور سکون سے دو سال گزارے پھر یہ اچانک سے ٹائٹس اور جینز کیسے۔۔۔۔؟ کنیئرڈ کالج میں اگر حجاب پر پابندی ہوتی تو پھر آپ وہاں کس طرح اپنا وقت نکال پائیں حجاب کے ساتھ؟ آپ کو نماز کے لئے جائے نماز بھی دی گئی اور نماز پڑھنے کے لئے جگہ بھی بتائی گئی جس پر آپ نے وہاں نماز بھی ادا کی۔ آپ کنیئرڈ کالج کی واحد طلبہ نہیں وہاں آپ کے علاوہ اور بھی طالبات حجاب پہنتی ہیں۔ اور کچھ جگہوں پر آپ نے جو تصاویر شیئر کی ہیں وہاں اگر لڑکیوں نے جین پہنی بھی ہوئی ہیں تو اوپر لباس مکمل ہے ڈپٹہ اور چادریں بھی اوڑی ہوئی ہیں۔

سکیورٹی ریزن، ہر ادارہ کے اپنے رولز ہوتے ہیں، جب کوئی مشکوک ہونے والی حرکتیں کرے گا تو پھر اسے ہر طریقہ سے چیک کیا جا سکتا ہے جسطرح آپ وہاں فوٹوگرافی کر رہی ہونگی وہ حرکت مشکوک ہونے کا سبب بنی اور سکیورٹی چیک پر آپ کے لئے دو خواتین کا بندوبست بھی تھا، اگر آپ کے ساتھ ایسا کچھ ہوا تو آپ اس ادارہ پر انگلی نہیں اٹھا سکتیں بلکہ خود پر غور فکر کریں اور آئیندہ ایسی سرگرمیاں کرنے سے پرہیز کریں۔ یہ حجاب اور نماز کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ آپکی مشکوک ایکٹیوٹیز تھیں جس کی وجہ سے آپکے ساتھ ایسا ہوا۔ مینجمنٹ کا سکیورٹی چیک کے بعد انہوں نے آپ سے پوچھا کہ ہال میں واپسی کا ارادہ ہے کیا؟ کیونکہ آپ کلیئر ہو چکی تھیں مگر آپ نے خود ہی وہاں سے جانا چاہا۔

اگر کنیئرڈ کالج کی مینجمنٹ نے آپ کی اس تحریر پر کیس کر دیا تو آپ وہاں کچھ بھی ثابت نہیں کر پائیں گی اور اپنے خود کے لئے اور گھر والوں کے لئے مشکلات پیدا کریں گی۔

والسلام
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
ایک بھائی نے دلیل میں کمنٹس کئے ہیں بلکہ تصدیق کی ہے اسے بھی پڑھ سکتے ہیں۔

Rashid Nazir Ali

میری بھتیجی کی صاحبزادیاں جو کہ نقاب کرتی ہیں کنیرڈ جاتیں ہیں اور انہیں کبھی نقاب کرنے سے نہیں روکا گیا۔ مگر انکے بیکز کی تلاشی لی جاتی ہے اور بعض مواقع پر ان سے اپنی شناخت ثابت کرنے کے لیے نقاب اتارنے کو بھی کہا جاتا ہے۔ اور شناخت کرا چکنے کے بعد انہیں اجازت ہوتی ہے کہ عمارت کے اندر جائیں چاہے اور سیکورٹی کے علاوہ کوئی نقاب اتارنے کی مانگ نہیں کرتا۔

نقاب کرنا ایک عمل ہے اور سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے کسی کی شناخت یقینی بنانا یا اسکے بيگ کی تلاشی لینا ایک دوسرا عمل۔ جہاں تک میں نے اپنی نواسیوں سے پوچھا ہے انکے مطابق کالج میں جو لڑکیاں نقاب نہیں بھی کرتیں انکے بھی بیگ چیک کیے جاتے ہیں سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے۔ اب اگر سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے بیگ چیک کر لیے گۓ اور شناخت یقینی بنانے کے لیے نقاب اتارنے کی مانگ کی گئی تو اس میں یہ کہاں کی بات آ گئی کہ نقاب پر پابندی ہے۔ اگر کنیرڈ میں نقاب پر پابندی ہوتی تو انہیں نقاب اتارے بغیر کالج میں گھسنے نہ دیا جاتا۔ سیکورٹی والوں نے شناخت کے بعد ان محترمہ کو نقاب اتارنے پر اصرار نہیں کیا۔ سیکورٹی کے اس پروٹوکول سے یہ تاثر دینا کہ خدانخواستہ کالج میں نقاب پر پابندی ہے غلط بیانی کی انتہا ہے۔ اگر نقاب پر پابندی ہوتی تو نقاب اتارے بغیر انہیں کالج میں گھسنے نہ دیا جاتا۔ مگر ایک تو غلط بیانی اور اوپر سے اس کو بنیاد بنا کر اسی ویب سائٹ پر مضامین کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ سر اگر اسی کالج میں کوئی دہشت گردی ہو جاۓ اور وجہ یہ نکلے کہ کسی کا بیگ چیک نہیں کیا گیا یہ اسکی شناخت یقینی نہیں بنائی گئی تو سب سے پہلے ہم ہی ہوں گے سیکورٹی پر انگلی اٹھانے والے۔

آپ نے اوپر ذکر کیا کہ جو خواتین نقاب نہیں کرتیں وہ تلاشی سے مبرا ہیں جہاں تک میں نے اپنی نواسیوں سے پوچھا ہے چاہے کوئی نقاب میں ہو یا نہیں سیکورٹی والے انکے بیگز کی تلاشی لیتے ہیں۔ سو تلاشی سے کوئی بھی مبرا نہیں ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
میری اور آپ کی خاموشی


ام الہدیٰ

مدینہ کی گلیوں میں منادی کرنے والے کی صدا گونجتی ہے، کہ پردے کا حکم نازل ہو گیا ہے۔ بازار میں موجود بیبیاں، دیواروں کی طرف رخ پھیر لیتی ہیں، کچھ بالوں سے خود کو چھپاتی ہیں۔ کہ اب تو چادر کے بغیر گھر نہیں جائیں گی۔ بچوں کو دوڑاتی ہیں کہ گھر سے چادر لے آؤ۔ مرد حضرات منادی سنتے ہیں۔ گھروں کو لپک کر گھر کی خواتین کو یہ حکم سناتے ہیں۔ ان کو تاکید سے خود کو ڈھانپنے کا کہتے ہیں۔ مگر کوئی بی بی سوال نہیں کرتی کہ پردہ کس چیز سے کرنا ہے، چادر موٹی ہو یا باریک، آنکھیں کھلی ہوں یا چھپی، اور بس، خود کو ایسے چھپا لیتی ہیں جیسے کہ حق تھا۔ اگلے دن فجر کی نماز میں کوئی بھی خاتون بغیر پردے کے نظر نہیں آتی۔

تاریخ کچھ اوراق الٹاتی ہے اور منظر تبدیل ہوتا ہے۔ شناختی کارڈ ہاتھ میں پکڑے، سکیورٹی گارڈ گردن کو خم دے کر، ڈھیلے سے انداز میں سامنے پردے میں کھڑی لڑکی سے کہتا ہے، ’’یہ آپ کی تصویر تو نہیں ہے، مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ یہ آپ ہی ہیں؟‘‘ لڑکی منت کرتی ہے کہ کسی خاتون سے کہہ دیجیے کہ وہ میری شکل دیکھ لے، مگر ہوس کا مارا گارڈ اپنی اس ذرا سی اتھارٹی کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔۔۔ ’’آپ کو چیک کرنا میری ذمہ داری ہے!‘‘ اور پھر، حوا کی اس باحیا بیٹی کے پاس، اپنا نقاب سرکا دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔۔!

ذرا سوچیے تو سہی ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟ آدم ؑکے بیٹے اور محمد ِؐعربی کی امت کے مرد کی غیرت کیا ہوئی کہ آج وہ خود بنتِ حوا کے پردے کے اترنے کا منتظر ہے؟ امت کی بیٹیوں میں سے چند نے سوال کیے بغیر حیا کو شعار بنایا تو چاروں جانب کانٹے کھڑے کیوں دیکھے؟ اس زہر کو اپنے اندر انڈیلتے رہنے پر احتجاج کی سکت ہم میں کیوں باقی نہ رہی؟

یہ زہر ایک دم ہمارے وجود کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ ہمیں وقتا فوقتا تھوڑی تھوڑی مقدار میں اس کی خوراک دی جاتی رہی۔ یہ عمل غیر محسوس انداز میں جاری رہا کہ کبھی اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی گئی۔

¬¬سر پر دوپٹا اوڑھے خبریں سناتی نیوز کاسٹرز کا دوپٹہ سرکتے سرکتے کندھوں تک جا پہنچا، اور ہم نے یہ گولی نگل لی۔

ڈراموں میں کام کرتی خواتین کی آستین گھٹتی گھٹتی کندھوں تک جا پہنچی، اور ہم نے یہ گولی بھی نگل لی۔

چلتے چلتے یہ زہر ہمارے گھر کی دہلیز پار کر گیا، اور ہماری باحیا بہنوں اور بیٹیوں سے حجاب اتار پھینکنے کا تقاضا کرنے لگا۔ بےحسی کے عالم میں آدم کےبیٹے نے اردگرد نظر دوڑائی تو یہ زہر ہر گھر میں فیشن اور ماڈرنزم کا خوبصورت لبادہ اوڑھے نظر آیا۔ ’’اس دور میں جینے کا یہی تقاضا ہے!‘‘ کے نسخے نے اسے اس گولی کو نگلنے پر بھی آمادہ کر لیا۔

اور نوبت یہاں تک پہنچی، کہ آج جب کوئی سوال نہ کرنے والی اپنے حجاب کی تقدیم کا سوال کر بیٹھے، تو ایک ساتھ کئی انجیکشن اس کے جسم میں بھی اتار دیے جاتے ہیں۔۔

’’منع بھی کیا تھا تمھیں کہ اس ٹینٹ جیسے پردے میں نہ چھپاؤ خود کو!‘‘
’’یہ تو سب کے ساتھ ہو رہا ہے!‘‘

’’لوگوں کے ساتھ اس سے بڑے بڑے واقعات ہوتے ہیں!‘‘

’’تم کیا کر سکتی ہو اس حال میں۔ کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا!‘‘

’’آئندہ کے لیے اس پردے سے جان چھڑا لو، کہ اب تو یہی ذریعہ ہے بچاؤ کا!‘‘


اور پھر وہ سوال نہ کرنے والی، حجاب کے اترنے پر بھی سوال کرنے کی جرات کھو بیٹھتی ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی یا تو حجاب کو اتار پھینکتی ہے یا ہمیشہ کے لیے اپنا اعتماد کھو دیتی ہے! سارے کا سارا ملبہ نسخہ بنانے والے پر ڈالنا عدل نہ ہوگا۔ دوا کو اپنے اندر انڈیلنے والا کیا آنکھیں اور دل نہ رکھتا تھا؟ رکھتا ہے دل، مگر ضمیر کو سلا بیٹھا ہے۔گھر سے باہر حوا کی کوئی بیٹی نظر آئے تو سورۃ النور کا سبق بھول جاتا ہےجس میں اس کو پہلے نظر جھکانے کا حکم دیا گیا ہے:

قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أبْصَارِھِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَھُمْ ۚ ذَٰلِكَ أزْكَىٰ لَھُمْ ۗ إنَّ اللہ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ

’’مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ ان کے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام یہ کرتے ہیں خدا ان سے خبردار ہے۔‘‘

اس حکم کا ادراک اسے اس وقت ہوتا ہے جب ویسی ہی ایک نظر اس کے اپنے گھر تک کسی کے تعاقب میں آ پہنچتی ہے۔ مگر افسوس کہ تب بھی مصلحت آ کر اس کے پاؤں پکڑ لیتی ہے اور وہ سسکتی بلکتی باکرہ کو اس مصلحت کا انجیکشن لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کسی سوال نہ کرنے والی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور وہ سوتی قوم کی غیرت کو جگانے کے لیے خود اٹھ کھڑی ہو تو انگلیاں اسی کے کردار پر اٹھانے کا رواج بھی اسی قوم کا طرّہ امتیاز ہے۔ احتجاج کرنے والے کو عبرت کا نشان بنانے والے بھی ہم خود ہی ہیں۔آواز بلند ہونے پر دبا دیے جانے کے ڈر سے خاموشی میں ہی عافیت جاننے سے انقلاب آیا کرتے ہیں نہ زندگی کے آثار باقی رہتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ غیرت کا جنازہ اٹھ جانا حیا کی موت کی ہی طرف ایک قدم ہے۔ اس سے اگلا سبق تو ہمیں اکثر یاد دلایا جاتا ہی ہے:

’’حیا اور ایمان ہمیشہ اکھٹے رہتے ہیں،جب ان دونوں میں سے کوئی ایک اٹھالیا جائے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔‘‘ (حدیثِ نبویؐ)

https://daleel.pk/2017/02/15/30939
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521

Saba R. Khan
I'm a student there and I have to get my bag checked on the gate and show my face along with student id. Isn't that the whole point of Id card? It's for safety measures. Nothing else

second, we hardly have any events where outsiders are allowed, however, when we do the security is tight than usual. Hence, it was only natural that they asked you about your college and university

Third. There are certain rules in our college. Noone is allowed to take pictures on events so that no picture gets leaked (of any girl) and misused. We care. That's the reason your phone must have been checked

TedX Kinnaird allows only certain selected people to join the talk, which might also be the reason why they asked you names and all since they might have wanted to check the names on the list

Stop taking it all so personally. Kinnaird respects girls with or without Niqab. If you've been a student you should know it BETTER than anyone else. You should stop being so judgemental yourself and try thinking rationally instead

3 · 11 February 2017 21:39

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
داؤد پبلک سکول کراچی میں اسلام مخالف تعلیم :

کراچی کے ایک داؤد پبلک سکول نام نجی ادارے میں کیا گھناؤنے دھندے ہو رہے ہیں یہ سکول سیکنڈری سطح کی طالبات کا ہے جس میں جنسیات سے متعلق تعلیم دی جا رہی ہے اور ہماری بیٹیوں کو اسکارف و دوپٹے سے زبردستی روکا جا رہا ہے جن تعلیمی اداروں میں والدین اپنی اولاد کو اچھی تربیت تعلیم شعور کے لیے بھیجتے ہیں وہاں اگر ان کو بے غیرتی و بے حیائی کی تعلیم دی جائے تو ایسے تعلیمی ادارے کو بند کرنے کی نہیں بلکہ آگ لگا دینے کی ضرورت ہے اور اس گھناؤنی سازش کے پیچھے کارفرما عناصر کو سرعام سنگسار کر دینا چاہیئے تاکہ دوبارہ کوئی ہمارے بچوں کی معصومیت سے کھیلنے کا سوچ بھی نا سکے مجھے دکھ تو اس بات کا ہے کہ آزاد اسلامی ملک میں یہ سب غلاظتیں کون سے عناصر بلا خوف و خطر پھیلا رہے ہیں۔

Dawood Public School
http://www.dps.edu.pk/vision.html
https://www.facebook.com/DPSPage/

 
Top