آپ تو کہتے ہو تصوف جھوٹ ہے تو پھر کہاں سے پیدا ہو گے ہیں۔.
کرامات اہل حدیث - کتب لائبریری - علماء کے حالات و واقعات
محکم دلائل و براہین سے مزین متنوع و منفرد کتب پر مشتمل مفت آن لائن مکتبہ کوءی اہل حدیث بھاءی جواب دے آپ تو کہتے ہو تصوف جھوٹ ہے تو پھر کہاں سے پیدا ہو گے ہیں۔. پھر آپ کہتے کہ صرف اسم ذات کا ذکر کرنا منع ہے تو پھر آپ کے بزرگ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ یعنی صرف اللہ اللہ کا ذکر کرنا،اگر ہم کیہں کے ہمیں انوارات ذکر کرنے سے نظر آتے ہیں تو بدعت وشرک ہو جاتا ہے،اور آپکے بزرگوں کو پورا کمرہ انوارات سے بھرا نظر آ گیا،تو عین اسلام ،بلکہ آپ کے لہے باعثِ فخر ہے ،پلیز کوی اہلحدیث جواب دے۔
اہلحدیث کے خلاف پرپیگنڈا کرنا آل تقلید کی روش ہے آل بدعت کے فورم حق فورم عرف باطل فورم پر بھی یہی سوال موجود ہے اور ادھر بھی اس کا جواب یہ ہے کہ اہلحدیث کا اصول سمجھا جائے وہ درج ذیل ہے
اصول اہلحدیث۔
۱:شیخ العرب والعجم امام بدیع الدین شاہ راشدی ( ہمارا اصول ) سرخی کے تحت لکھتے ہیں کہ ہم سوائے قرآن و حدیث کے کسی دوسرے کے قول ( غیر نبی چاہے کو ئی بھی ہو)کو نہ سند سمجھتے ہیں اور حق مانتے ہیں اور نہ واجب الاتباع جانتے ہیں اور نہ ہی اس کو اس وقت تک اس کو قبول کرتے ہیں جب تک قرآن و حدیث سے موا فق نہ ہو ہم ہر ایک قول کو چاہے وہ مقلد کا ہو یا غیر مقلد کا قرآن و حدیث پر پیش کرتے
ہیں پھر قبول کرتے ھیں۔ہم کسی بھی فقیہ کو دین کے لیئے سند نہیں مانتے پھرہم پراعتراض کرنا کہ یہ فلاں کا قول ہے یا فلاں نے اس طرح لکھا ہے یہ اوٹ پٹانگ مارنا ہے
کسی بھی اہلحدیث نے یہ نہیں کہا کہ فلاں امام یا مجتھد یا اہلحدیث عالم کی کتاب علی الاطلاق معتبر ہے قرآن و سنّت دیکھے بغیراس پرعمل بھی کریں اور فتوی بھی دیں اگر کوئی اس طرح کریگا تو وہ اہلحدیث نہیں۔(مروّجہ فقہ کی حقیقت صفحہ ۵۸)
اسی کتاب کے صفحہ ۵۹ پر لکھتے ہیں خبر دار اہلحدیثوں کا دوسرا کوئی امام نہیں فقط ایک ہی امام قائد اعظم جناب محمّدمصطفی ہیں۔
براۃ اہلحدیث صفحہ ۳۶ میں لکھتے ہیں کہ مذھب اہل حدیث کے لیئے یہ شرط ہے کہ خواہ چھوٹا مسئلہ ہو یا بڑا مسئلہ اس کے لیئے قرآن وحدیث سے حوالہ ضروری ہے۔
۲: حافظ عبداللّہ محدّث غازی پوری لکھتے ہیں کہ واضح رہے کہ ہمارے مذھب کا اصل الاصول اتباع کتاب و سنّت ہے اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اہلحدیث کو اجماع امّت اور قیاس شرعی سے انکار ہے کیونکہ جب یہ دونوں کتاب وسنّت سے ثابت ہیں۔تو کتاب و سنّت کے ماننے میں ان کا ماننا بھیّ گیا۔(براۃ اہلحدیث صفحہ ۳۲)
۳:استاد محترم حافظ زبیر زئی حفظہ اللّہ نے تو الحدیث رسالے کی پشت پر (ہمارا عزم ) بالکل صاف لکھا ہے کہ قرآن و حدیث اور اجماع کی برتر ی سلف صالحین کے متّفقہ فہم کا پرچار۔ اتباع کتاب و سنّت کی طرف والہانہ دعوت ۔قرآن و حدیث کے ذریعے اتّحاد امّت کی طرف دعوت ۔
مزید تفصیل کے لیئے دیکھیں (فتاوی اہل حدیث ۱/۶۹ماہنامہ الحدیث ۱/۴)
۴:مولانا محمد ادریس فاروقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ہم برملا کھتے ہیں کہ ہم ہر اس قول کو تسلیم نہیں کرتے جو نصوص قر آن و سنت کے خلاف ہو اسی طرح ہم ہر اس کرامت کو نہیں مانتے جو نصوص قرآن و سنت کے متصادم ہو۔
(پیش گفتار ،کرامات اہل حدیث ص ۲۸)
۵:شیخ الحدیث محمد علی جانباز لکھتے ہیں کہ ہم قول رسول کی اطاعت کے مکلّف ہیں ہر بزرگ اور ہر شیخ یا امام کی اطاعت و پیروی کے مکلف نہیں
(احکام طلاق پرص ۱۳۶)
۶:امام ابراہیم سیالکوٹی اہل حدیثوں کے متعلق لکھتے ہیں کہ ان سب کے مقابلے میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو سلف امت صحابہ و خیار تابعین کی روش پر قائم تھا ۔یہ لوگ عبادات ومعاملات کی طرح عقائد میں بھی اسی طرز قدیم یعنی اتباع نصوص پر جمے رہے ور ان سے سرمو نہ سرکے نہ تو نئے علوم کی طرف التفات کی اور نہ عقلی طریق پر ان کی تروید کی بلکہ صرف قرآن شریف اور سیرت نبوی کو کافی جان کر انہی پر قناعت کی
(تاریخ اہل حدیث ص۱۰۳)
۷:میرے شیخ محدث العصر ارشادالحق اثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ ہم واشگاف الفاظ میں اظہار کرتے ہیں کہ ہم مسائل اور اپنے عمل کی بنیاد کسی امام کے قول کو نہیں سمجھتے بلکہ امام الانبیاء حضرت محمدﷺ کے قول و عمل کو سمجھتے ہیں
(مقالات ج۱ص ۱۴۹)
۸:استاد محترم مولانا مشر احمد ربانی لکھتے ہیں کہ اہل حدیث کا منہج کتاب و سنت ہی ہے ۔ جو بات کتاب و سنت سے واضح ہو جا تی ہے وہی ہمارا ایمان و عقیدہ، منہج وراستہ ہے اور جو اس سے ٹکرا جا تی ہے وہ ھمارے نزدیک قابل قبول نہیں خواہ وہ بات کسی امام ، مجتھد مفسّر ،مفتی،محدث کی ہی کیو ں نہ ہو
( پیش لفظ، آپ کے مسئل ان کا حل ۱/۲۸)
ایک جگہ لکھتے ہیں کہ اہل حدیث خوش نصیب افراد ہیں جن کے تمام مسائل کی بنیاد کتاب اللہ اور سنت رسول پر ہے ان کے اصول و فروع اور قواعد وضوابط کی اساس و بنیاد محض قرآن و حدیث پر استوار ہے۔
(تفہیم دین صفحہ ۲۵)
۹: راقم الحروف نے اپنے شیو خ (شیخ ارشاد الحق اثری ، شیخ حافظ محمد شریف ،شیخ حافظ مسعود عالم حفظھم اللہ) سے کلاس میں دوران سبق بار بار فرماتے ہوئے یہ سنا کہ قرآن و حدیث کو محدثین کے فہم کے بطابق سمجھنا چاہیئے کوئی نئی راہ نکالے سے ضرور بچنا چاہیئے اسی میں خیر اور بھلائی ہے جس کسی کی بات غلط ہو خواہ وہ کوئی بھی ہو اس کی بات نہ مانو۔
اعلان:۱
علماء اہل حدیث میں جس کسی کا فتوی یا قول قرآن و حدیث یا اجماع کے خلاف ہے اس کو اہل حدیث حجت نہیں مانتے
اعلان :۲
عدم واقفیت کی بنا پر اگر کسی اہلحدیث عالم نے کسی کتاب یا کسی عالم کے متعلق تعریفی کلمات کہے ہوں ا ور اس کی کتاب میں قرآن و حدیث یا اجماع کے خلاف بات موجود ہو ،ہم اہل حدیث اس کی اس بات سے بری ہیں۔اور اس کے متعلق تعریفی کلمات اس کی کتاب یا اس عالم کی ہر بات کو حجت ماننے پر کوئی دلیل نہ سمجھے ۔
اعلان ۳: جو بات بہی اہلحدیث عالم سے غلط ہوئی ہے اس کو ہم مردود و باطل قرار دیتے ہیں
اصول اہلحدیث میں آپ نے بار بار پڑہا کہ قرآن و حدیث کا وہی مفہوم ہم اہلحدیث لیتے ہیں جو سلف صالحین نے سمجھاہے ۔
اب فتاوی دارالعلوم دیو بند( ۳/۱۹۱) کہولئے وھاں لکھا ہے کہ،، اس زمانہ میں چونکہ اس عمل (فاتحہ خلف المام وآمین بلجہر ازنا قل) کرنے والے اکثر وہ لوگ ہیں جو ائمہ دین کے مقلد نہیں ہیں اور محض اپنی خواہشات کے موافق احادیث کے معنی سمجھ کر ان پر عمل کرتے ہیں،،
اب آپ اس کے متعلق جو مرضی کہیں میں کچھ نہیں کہنا چاھتا اسی کتاب کے (۲/۹) لکہا ہے کہ ،، کیونکہ حنفیوں کے دلائل یہ روائتیں نہیں ان کی دلیل صرف امام کا قول ہے۔
دوسری قسط میں اصول احناف کا مطالعہ کریں۔
یہی اہل حدیث کا اصول جس کی بات غلط ہے قرآن و حدیث کے خلاف ہے ہم اس وہ بات تسلیم نہیں کرتے ۔
افسس آل دیوبند پر جو اپنے بڑوں کی بات خواہ کیسی بھی ہو رد نہیں کرتے بلکہ مانتے ہیں اور اسے اپنے گلے کی زینت بناتے ہیں ۔انا للہ و انا الیہ راجعون