محمد طالب حسین
رکن
- شمولیت
- فروری 06، 2013
- پیغامات
- 156
- ری ایکشن اسکور
- 93
- پوائنٹ
- 85
کون کب اور کہاں مرے گا:
مقلد مولوی عاشق الہٰی میرٹھی فرماتےہیں۔
جن دنوں نواب محمود علی خاں صاحب مرحوم رئیس چہتاری جن کےساتھ اخلاص و ارادت کے سبب حضرت کو بھی تعلق تھا علیل ہوئے اور مدہوشی طاری ہوئی سب کو زندگی سے یاس ( بے امیدی ) ہوگئی اس وقت ایک شخص چہتاری سے صرف گنگوہ بھیجے گئے کہ نواب صاحب کےلئے حضرت سے دعا کرائیں چنانچہ وہ آئے اور حضرت سے نواب
صاحب کی حالت بیان کر کے دعائے صحت کی درخواست کی آپ نے حاضرین جلسہ سے فرمایا بھائی دعا کرو چونکہ حضرت نے دعا کا وعدہ نہیں فرمایا اس لئے فکر ہوا اور عرض کیا گیا کہ حضرت آپ دعا فرمادیں اس وقت آپ نے ارشاد فرمایا امر مقرر کر دیا گیا ہے اور ان کی زندگی کے چند روز باقی ہیں حضرت کے اس ارشاد پر اب کسی عرض معروض کی گنجائش نہ رہی اور نواب صاحب کی حیات سے سب کو ناامیدی ہوگئی تاہم قاصد نے عرض کیا کہ حضرت یوں ہی دعا فرمادیجئے کہ نواب صاحب کو ہوش آجائے اور وصیت و انتظام ریاست کےمتعلق جو کچھ کہنا سننا ہو کہہ سن لیں آپ نے فرمایا خیر اس کا مضائقہ نہیں اس کے بعد دعا فرمائی اور یوں ارشاد فرمایا ان شاء اللہ افاقہ ہوگا
چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ نواب صاحب کو دفعۃ ہوش آگیا اور ایسا افاقہ ہوا کہ عافیت و صحت کی خوش خبری دور دور تک
پہنچ گئی کسی کو خیال بھی نہ رہا کہ کیا ہونے والا ہے یکا یک حالت بگڑی اور مخیر دریا دل نیک نفس سخی رئیس نے
انتقال بہ آخرت فرمایا۔ ( تذکرۃالرشید ص 208،209 ج 2 )
حضرت مولانا صادق الیقین صاحب رحمتہ اللہ علیہ ایک بار سخت علیل ہوئے واقفین احباب بھی یہ خبر سن کر پریشان
ہوگئے اور حضرت سے عرض کیا دعا فرمادیں حضرت خاموش رہے اور بات کو ٹال دیا جب دوبارہ عرض کیا گیا تو آپ نے تسلی دی اور فرمایا میاں وہ ابھی نہیں مریں گے اور اگرمریں گے تو بھی میرے بعد چنانچہ ایساہی ہوا کہ اس مرض سے صحت حاصل ہوگئی اور حضرت کے وصال کے بعد اسی سال بہ ماہ شوال حج بیت اللہ کےلئے روانہ ہوئے مکہ معظمہ میں بیمار ہوئے مرض ہی میں عرفات کاسفر کیا یہاں تک کہ شروع محرم میں واصل بحق ہو کر جنت لمعلیٰ میں مدفون ہوئے۔ ( تذکرۃالرشید ص 209 ج 2 )
مولوی نظر محمد خاں نے ایک مرتبہ پریشان ہو کر عرض کیا کہ حضرت فلاح شخص جو والد صاحب سےعداوت رکھتا تھا ان کے انتقال کے بعد اب مجھ سے ناحق عداوت رکھتا ہے بے ساختہ آپ کی زبان سے نکلا وہ کب تک رہے گا
چند روز گزرے تھے کہ دفعۃ وہ شخص انتقال کرگیا۔ ( تذکرۃ الرشید ص 214 ج 2 )
با ختلاف روایت 8 یا 9 جمادی الثانیہ مطابق 11 اگست 1905 ھ کو بیوم جمعہ بعد اذان یعنی ساڑھے بارہ بجے آپ نے دنیا کو الوداع کہا اور اٹھہتر سال سات ماہ تین یوم کی عمر میں رفیق اعلیٰ کی جانب ہنستے اور مسکراتے ہوئے سد ہارے حضرت امام ربانی قد سرہ کو چھ روز پہلے ہی جمعہ کا انتظار تھا بیوم شنبہ دریافت فرمایا تھا کہ آج کیا جمعہ کا دن ہے ؟ خدام نے عرض کیا کہ حضرت آج شنبہ ہے اس کے بعد درمیان میں بھی کئی بار یوم جمعہ کو دریافت کیا حتی کہ جمعہ کا دن جس روز وصال ہوا صبح کے وقت پھر دریافت فرمایا کہ کیا دن ہے اور جب معلوم ہوا کہ جمعہ ہے تو فرمایا انا للہ واناالیہ رجعون۔ ( تذکرۃ ارشید ص 331 ج 2 )
مقلد مولوی ریاض احمد فیض آبادی صدر جمیعۃ علمائے میوات مقلد مولوی حسین احمد صاحب کے ساتھ اپنی آخری ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ حضرت ان شاء اللہ اختتام سال پر حاضر ہوں گا فرمایا کہہ دیا کہ ملاقات نہیں ہوگئی اب تو میدان آخرت ہی میں ان شاء اللہ ملوگے مجمع میرے قریب جو تھا احقر کی معیت میں آبدیدہ ہو گیا حضرت نے فرمایا کہ رونےکی کیا بات ہے کیا مجھے موت نہ آئے گی اس پر احقر نے الحاح کےساتھ کچھ علم غیب اور زیادتی عمر پر بات کرنی چاہی مگر فرط غم کے باعث بول نہ سکا۔
( روزنامہ الجمعیۃ دھلی کا شخ الاسلام نمبر ص 156 )
مقلد مولوی اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں :
حضرت مولانا ظفر حسین صاحب مرحوم مکہ معظمہ میں بیمار ہوئے اور اشتیاق تھا کہ مدینہ منورہ میں وفات ہو حضرت حاجی صاحب سے عرض استفسار کیا کہ میری وفات مدینہ میں ہوگی یا نہیں ؟ حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ میں کیا جانوں عرض کیا کہ حضرت یہ عذر تو رہنے دیجئے جواب مرحمت فرمائیے حضرت نے مراقب ہو کر فرمایا کہ آپ مدینہ منورہ وفات پائیں گے۔ ( قصص الاکابر ص 106 )
مقلد مولوی زکریا فرماتے ہیں کہ:
شیخ ابو یعقوب سنوسی کہتےہیں کہ میرے پاس ایک مرید آیا اور کہنے لگا کہ میں کل کو ظہر کے وقت مر جاوں گا چنانچہ دوسرے دن ظہر کے وقت مسجد حرام میں آیا طواف کیا اور تھوڑی دور جا کر مر گیا۔( فضائل صدقات ص 563 ) ابو علی روزباری رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک فقیر میرے پاس عید کے دن آیا بہت خستہ حال پرانے
کپڑے کہنے لگا کوئی پاک و صاف جگہ ایسی ہے جہاں کوئی غریب فقیر مر جائے میں نے لاپرواہی سے لغو سمجھ کر کہہ دیا کہ اندر آجا اور جہاں چاہے پڑ کے مر جا وہ اندر آیا وضو کیا چند رکعات نماز پڑھی ارو لیٹ کر مر گیا۔
( فضائل صدقات ص 570 )
مقلد مولوی عاشق الہٰی میرٹھی فرماتےہیں۔
جن دنوں نواب محمود علی خاں صاحب مرحوم رئیس چہتاری جن کےساتھ اخلاص و ارادت کے سبب حضرت کو بھی تعلق تھا علیل ہوئے اور مدہوشی طاری ہوئی سب کو زندگی سے یاس ( بے امیدی ) ہوگئی اس وقت ایک شخص چہتاری سے صرف گنگوہ بھیجے گئے کہ نواب صاحب کےلئے حضرت سے دعا کرائیں چنانچہ وہ آئے اور حضرت سے نواب
صاحب کی حالت بیان کر کے دعائے صحت کی درخواست کی آپ نے حاضرین جلسہ سے فرمایا بھائی دعا کرو چونکہ حضرت نے دعا کا وعدہ نہیں فرمایا اس لئے فکر ہوا اور عرض کیا گیا کہ حضرت آپ دعا فرمادیں اس وقت آپ نے ارشاد فرمایا امر مقرر کر دیا گیا ہے اور ان کی زندگی کے چند روز باقی ہیں حضرت کے اس ارشاد پر اب کسی عرض معروض کی گنجائش نہ رہی اور نواب صاحب کی حیات سے سب کو ناامیدی ہوگئی تاہم قاصد نے عرض کیا کہ حضرت یوں ہی دعا فرمادیجئے کہ نواب صاحب کو ہوش آجائے اور وصیت و انتظام ریاست کےمتعلق جو کچھ کہنا سننا ہو کہہ سن لیں آپ نے فرمایا خیر اس کا مضائقہ نہیں اس کے بعد دعا فرمائی اور یوں ارشاد فرمایا ان شاء اللہ افاقہ ہوگا
چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ نواب صاحب کو دفعۃ ہوش آگیا اور ایسا افاقہ ہوا کہ عافیت و صحت کی خوش خبری دور دور تک
پہنچ گئی کسی کو خیال بھی نہ رہا کہ کیا ہونے والا ہے یکا یک حالت بگڑی اور مخیر دریا دل نیک نفس سخی رئیس نے
انتقال بہ آخرت فرمایا۔ ( تذکرۃالرشید ص 208،209 ج 2 )
حضرت مولانا صادق الیقین صاحب رحمتہ اللہ علیہ ایک بار سخت علیل ہوئے واقفین احباب بھی یہ خبر سن کر پریشان
ہوگئے اور حضرت سے عرض کیا دعا فرمادیں حضرت خاموش رہے اور بات کو ٹال دیا جب دوبارہ عرض کیا گیا تو آپ نے تسلی دی اور فرمایا میاں وہ ابھی نہیں مریں گے اور اگرمریں گے تو بھی میرے بعد چنانچہ ایساہی ہوا کہ اس مرض سے صحت حاصل ہوگئی اور حضرت کے وصال کے بعد اسی سال بہ ماہ شوال حج بیت اللہ کےلئے روانہ ہوئے مکہ معظمہ میں بیمار ہوئے مرض ہی میں عرفات کاسفر کیا یہاں تک کہ شروع محرم میں واصل بحق ہو کر جنت لمعلیٰ میں مدفون ہوئے۔ ( تذکرۃالرشید ص 209 ج 2 )
مولوی نظر محمد خاں نے ایک مرتبہ پریشان ہو کر عرض کیا کہ حضرت فلاح شخص جو والد صاحب سےعداوت رکھتا تھا ان کے انتقال کے بعد اب مجھ سے ناحق عداوت رکھتا ہے بے ساختہ آپ کی زبان سے نکلا وہ کب تک رہے گا
چند روز گزرے تھے کہ دفعۃ وہ شخص انتقال کرگیا۔ ( تذکرۃ الرشید ص 214 ج 2 )
با ختلاف روایت 8 یا 9 جمادی الثانیہ مطابق 11 اگست 1905 ھ کو بیوم جمعہ بعد اذان یعنی ساڑھے بارہ بجے آپ نے دنیا کو الوداع کہا اور اٹھہتر سال سات ماہ تین یوم کی عمر میں رفیق اعلیٰ کی جانب ہنستے اور مسکراتے ہوئے سد ہارے حضرت امام ربانی قد سرہ کو چھ روز پہلے ہی جمعہ کا انتظار تھا بیوم شنبہ دریافت فرمایا تھا کہ آج کیا جمعہ کا دن ہے ؟ خدام نے عرض کیا کہ حضرت آج شنبہ ہے اس کے بعد درمیان میں بھی کئی بار یوم جمعہ کو دریافت کیا حتی کہ جمعہ کا دن جس روز وصال ہوا صبح کے وقت پھر دریافت فرمایا کہ کیا دن ہے اور جب معلوم ہوا کہ جمعہ ہے تو فرمایا انا للہ واناالیہ رجعون۔ ( تذکرۃ ارشید ص 331 ج 2 )
مقلد مولوی ریاض احمد فیض آبادی صدر جمیعۃ علمائے میوات مقلد مولوی حسین احمد صاحب کے ساتھ اپنی آخری ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ حضرت ان شاء اللہ اختتام سال پر حاضر ہوں گا فرمایا کہہ دیا کہ ملاقات نہیں ہوگئی اب تو میدان آخرت ہی میں ان شاء اللہ ملوگے مجمع میرے قریب جو تھا احقر کی معیت میں آبدیدہ ہو گیا حضرت نے فرمایا کہ رونےکی کیا بات ہے کیا مجھے موت نہ آئے گی اس پر احقر نے الحاح کےساتھ کچھ علم غیب اور زیادتی عمر پر بات کرنی چاہی مگر فرط غم کے باعث بول نہ سکا۔
( روزنامہ الجمعیۃ دھلی کا شخ الاسلام نمبر ص 156 )
مقلد مولوی اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں :
حضرت مولانا ظفر حسین صاحب مرحوم مکہ معظمہ میں بیمار ہوئے اور اشتیاق تھا کہ مدینہ منورہ میں وفات ہو حضرت حاجی صاحب سے عرض استفسار کیا کہ میری وفات مدینہ میں ہوگی یا نہیں ؟ حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ میں کیا جانوں عرض کیا کہ حضرت یہ عذر تو رہنے دیجئے جواب مرحمت فرمائیے حضرت نے مراقب ہو کر فرمایا کہ آپ مدینہ منورہ وفات پائیں گے۔ ( قصص الاکابر ص 106 )
مقلد مولوی زکریا فرماتے ہیں کہ:
شیخ ابو یعقوب سنوسی کہتےہیں کہ میرے پاس ایک مرید آیا اور کہنے لگا کہ میں کل کو ظہر کے وقت مر جاوں گا چنانچہ دوسرے دن ظہر کے وقت مسجد حرام میں آیا طواف کیا اور تھوڑی دور جا کر مر گیا۔( فضائل صدقات ص 563 ) ابو علی روزباری رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک فقیر میرے پاس عید کے دن آیا بہت خستہ حال پرانے
کپڑے کہنے لگا کوئی پاک و صاف جگہ ایسی ہے جہاں کوئی غریب فقیر مر جائے میں نے لاپرواہی سے لغو سمجھ کر کہہ دیا کہ اندر آجا اور جہاں چاہے پڑ کے مر جا وہ اندر آیا وضو کیا چند رکعات نماز پڑھی ارو لیٹ کر مر گیا۔
( فضائل صدقات ص 570 )