• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کوٹ رادھا کشن میں میاں بیوی کو زندہ جلائے جانے کی اصل کہانی سامنے آ گئی

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
کوٹ رادھا کشن میں میاں بیوی کو زندہ جلائے جانے کی
اصل کہانی سامنے آ گئی​
06 نومبر 2014 (12:37)

قصور (ویب ڈیسک) قصور کے نواحی گاﺅں کوٹ رادھا کشن میں بھٹہ مالک کی جانب سے زیر حراست مسیحی میاں بیوی کو دہکتے ہوئے بھٹے میں پھینک کر زندہ جلا کر موت کے گھاٹ اتارے جانے کی اصل کہانی سامنے آ گئی ہے ، بھٹہ مالک نے کام چھوڑنے کی پاداش میں مقتول میاں بیوی کو چند روز قبل واپسی کیلئے بلوایا اور ایڈوانس لی گئی رقم کی واپسی کا مطالبہ کرتا رہا ، رقم نہ ملنے پربھٹہ مالک نے مقتولین پر الزام لگایا کہ انہوں نے قرآن پاک کے اوراق جلائے ہیں، بعد ازاں مقامی مساجد میں فجر کی نماز کے بعد اعلانات کرائے گئے جسکے بعد حالات کشیدہ ہو گئے ، مقامی پولیس بھی موقع پر پہنچ گئی لیکن بھٹہ مالک نے قید میں رکھے گئے ملازم شہزاد مسیح اور اسکی بیوی شمع بی بی کو ساتھیوں کی مدد تشدد کے بعد گھسیٹ کر بھٹہ میں پھینک کر لاشیں جلا کر راکھ کر دیں، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے نوٹس لیتے ہوئے واقعہ میں ملوث تمام ملزمان کو گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے انکوائری ٹیم تشکیل دے دی ہے۔

تفصیلات کے مطابق قصور کے نواحی گاﺅں کوٹ رادھا کشن کے چک نمبر 59 میں واقعہ یوسف گجر کے بھٹے پر مارے جانیوالے میاں بیوی میں دیگر بھٹہ مزدوروں کی طرح بھٹہ کے مالک یوسف گجر سے ڈیڑھ لاکھ روپے ایڈوانس لے رکھے تھے اور یہ یرغمالیوں کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے تھے۔ یہ خاندان بھٹہ خشت کے قریب ہی ایک خستہ حال مکان میں اپنے چار بچوں کے ہمراہ مقیم تھا۔ شمع بی بی کا والد اپنے علاقے میں تعویز گنڈا کرتا تھا اور چند روز قبل جب اس کی وفات ہوئی تو شہزاد اور شمع نے مرنے والے کی آخری رسومات میں شرکت کے لئے بھٹہ مالک اور اس کے منشیوں سے اجازت مانگی مگر انہوں نے میاں بیوی کو جانے کی اجازت دینے سے سختی سے اس لیے انکار کر دیا کیونکہ انہیں شبہ تھا کہ اس طرح ان کا مقروض یہ جوڑا فرار بھی ہو سکتا ہے اسی بنا پر مالک کے حکم پر منشیوں نے مسیح میاں بیوی کی کڑی نگرانی شروع کر دی اور بعد ازاں انہیں ایک کمرے میں بند کر دیا، باپ کی آخری رسومات میں شرکت نہ کرنے پر شمع بی بی اور شہزاد کا منشیوں سے جھگڑا بھی ہوا۔

حیران کن امر یہ ہے کہ ایف آئی آر میں ایسے کسی شخص کا ذکر نہیں ہے کہ جس نے شمع یا اس کے خاوند کو مقدس اوراق کی بے حرمتی کرتے دیکھا ہو یا پھر ایسے مقدس اوراق کا کوئی ادھ جلا حصہ یا ٹکڑا پولیس کواس کچرے سے ملا ہو جسکے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ شمع بی بی نے مقدس اوراق جلانے کے بعد انہیں کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا تھا۔ مقامی پولیس کے مطابق بھٹہ مالک یا اسکے منشیوں کو اس قدر شدید رد عمل کا قطعی اندازہ نہیں تھا کیونکہ جیسے ہی یہ افواہ پھیلی تو چک نمبر 59 کے علاوہ دیگر تین دیہات کی مساجد میں اعلانات کر دیے گئے کہ ایک جوڑے نے مقدس اوراق کی بے حرمتی کی ہے اور وہ اس وقت بھٹہ خشت پر موجود ہیں، تو 800 کے قریب افراد نے اکٹھے ہو کر بھٹہ خشت پر دھاوا بول دیا ، مشتعل افراد دونوں میاں بیوی کو کمرے سے نکالنے کے لئے چھت توڑنے لگے تو منشیوں نے ڈر کے مارے دروازہ کھول کر میاں بیوی کو ان کے سپرد کر دیا ، غصے سے بپھرے ہوئے ہجوم نے میاں بیوی کو مار مار کر ادھ مواہ کر دیا اور بعد ازاں دونوں کو بھٹہ خشت کی ایک بھٹی کھول کر اندر پھینک دیا جو چند منٹو ں میں ہی جل کر راکھ ہو گئے۔ مقامی افراد کے مطاقب جب ایک شہری نے 15 پر پولیس کو لوگوں کے ہجوم اور اشتعال کے متعلق آگاہ کیا تو چوکی انچارج محض اپنے چند ساتھی لیکر ہی وقوعہ پر پہنچا اور لوگوں کا اتنا بڑا ہجوم اور غم وغصہ دیکھ کر غائب ہو گیا ، اس افسوسناک واقعے کے قریباً ایک گھنٹہ بعد وہاں پر پولیس پہنچی جس کی تصدیق ایک تفتیشی پولیس افسر نے یہ کہتے ہوئے کی کہ دس محرم کے روز کیونکہ پولیس کو کئی جگہ ڈیوٹی دینا ہوتی ہے اس لیے ہمارے پاس مناسب تعداد میں نفری نہیں تھی جو بروقت پہنچ کر اس واقعہ کو ہونے سے روک سکتی۔

ایک اور گاﺅں کے رہائشیوں نے مقامی اخبا ر کو بتایا کہ یہ بہت بڑا ظلم ہوا ہے اگر میاں بیوی قصوروار بھی تھے تو انہیں پولیس کے حوالے کر کے عدالتوں سے سزا دلوائی دی جاتی ، یہ قتل مذہب کی آڑ میں کیے گئے ہیں اس میں ملوث ملزمان کو سخت سزا ملنی چاہیے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ہلاک ہونے والے میاں بیوی کے بھائی شہباز کے گھر صف ماتم بچھی ہوئی تھی اور افسوس کے لیے لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ وہاں پر موجود خواتین نے بتایا کہ مسیحی برادری کبھی بھی مقدس اوراق کی توہین کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ مقتولین کو محض چند ہزار روپے کی خاطر الزام لگا کر بھٹہ مالکان نے زندہ جلا کر راکھ کر دیا ہے جو کہ کھلی بربریت اور ظلم کی انتہا ہے۔ حکمرانوں کو انصاف کرتے ہوئے ملوث ملزمان کو سر عام پھانسی پر لٹکا دینا چاہیے تاکہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔ ہلاک ہونے والی خاتون شمع کے والد چند روز قبل وفات پا گئے تھے اور انہوں نے ایک صندوق بھی چھوڑا تھا جو کہ شمع اٹھا کر بھٹہ پر لے گئی اور اس نے صندوق میں موجود قرآن پاک اور بائبل کو سنبھال کر اونچی جگہ پر رکھ دیا تھا ۔ گاﺅں والوں کے مطابق منشی افضل نے بھٹہ مالک یوسف گجر کے ساتھ مل کر ایسی چال چلی کہ جو لوگوں کو سمجھ نہ آ سکی اور انہوں نے جذبات میں آ کر سوچے سمجھے بغیر انتہائی اقدام اٹھا لیا اور تحقیق کیے بغیر پہلے میاں بیوی پر تشدد کیا اور بعد میں دہکتے ہوئے بھٹے میں پھینک کر زندہ جلا دیا۔

شہباز کا مزید کہنا تھا کہ مقتولین کے بچے سخت پریشان ہیں اور اپنے ماں باپ کو یاد کر کے زاروقطار رو رہے ہیں، انکی زندگی کو بھی خطرہ ہے، وزیر اعلیٰ پنجاب کو انہیں خود مل کر انصاف کی تسلی دینی چاہیے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ امر واضح ہے کہ اس حادثے میں بھٹہ کے مالک اور منشیوں کی مجرمانہ غفلت کے ساتھ ساتھ پولیس کی لاپرواہی بھی شامل تھی۔

ح
 
Top