کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
کچھ تذکرہ بھٹو کے ساتھ قومی اتحاد کے مذاکرات کا
مجھے ان دوستوں سے اتفاق ہے، جن کا کہنا ہے کہ سیاسی معاملات کو سیاسی جماعتوں کے ذریعے حل کرنا ہی بہتر تھا اور فوج کو زحمت نہیں دینا چاہئے تھی، مگر جس طرح کا ڈیڈلاک پیدا ہو گیا ہے، اس کو ختم کرنے کے لئے جنرل راحیل شریف کی دل چسپی پر بہرحال اطمینان محسوس کیا جا رہا ہے۔ یہ سیاسی جماعتوں یا فریقین میں بے اعتمادی، بلکہ بد اعتمادی کی اس انتہا کا لازمی نتیجہ ہے جو سامنے آیا ہے اور اس کی ذمہ داری باہمی بد اعتمادی کی اس انتہا تک معاملات کو لے جانے والوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اس لئے الیکشن میں بد عنوانی کی تحقیقات کے ساتھ ساتھ اس بات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہو گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور قیادتوں کے درمیان اس درجے کی بے اعتمادی کے اسباب کیا ہیں اور اس آگ میں تیل ڈالنے اور ڈالتے چلے جانے والے عناصر کون کون سے ہیں؟ .... بہرحال ہماری دعا ہے کہ فوجی قیادت کی یہ دلچسپی معاملات کو سلجھانے تک ہی محدود رہے، سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے حوالے سے انصاف کے تقاضے پورے ہوں، اور انتخابی نظام کو دھاندلیوں کے امکانات سے پاک کرنے کی خواہش جو پوری قوم کی اجتماعی خواہش ہے، جلد از جلد پوری ہو جائے، آمین یا رب العالمین۔
اس مرحلے پر مجھے وہ مذاکرات یاد آ رہے ہیں جو 1977ء کی تحریک نظام مصطفی کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہوئے تھے۔ حکومتی ٹیم وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم، مولانا کوثر نیازی مرحوم، اور عبدالحفیظ پیرزادہ پر مشتمل تھی، جبکہ اپوزیشن، یعنی پاکستان قومی اتحاد کی طرف سے مولانا مفتی محمودؒ، نواب زادہ نصر اللہ خانؒ، اور پروفیسر عبد الغفورؒ مذاکرات کی میز پر بیٹھے تھے۔ ان میں سے عبدالحفیظ پیرزادہ کے سوا سب وفات پا چکے ہیں، اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت فرمائیں اور پیر زادہ صاحب محترم کو صحت و عافیت کے ساتھ تادیر سلامت رکھیں، آمین یا رب العالمین۔
انتخابی دھاندلیوں کو تسلیم کرتے ہوئے انتخابات کے دوبارہ انعقاد پر اتفاق رائے ہو چکا تھا، مگر اس نکتے پر بات پھنس گئی تھی کہ پاکستان قومی اتحاد کی قیادت وزیراعظم بھٹو مرحوم سے یہ کہہ کر استعفے کا مطالبہ کر رہی تھی کہ ان کے وزیراعظم رہتے ہوئے دوبارہ انتخابات کے شفاف ہونے پر اطمینان نہیں ہے۔ وزیر اعظم سے استعفا دینے کے اس مطالبے پر مذاکرات ڈیڈلاک کا شکار ہوگئے تھے اور اس وقت کے آرمی چیف نے ایک مرحلے پر مذاکرات میں شرکت کرکے یقین دلایا تھا کہ وہ آئین اور دستوری حکومت کا تحفظ کریں گے، اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ قوم کے سامنے ہے۔
میں ان مذاکرات کا براہ راست حصہ تو نہیں تھا، لیکن پاکستان قومی اتحاد کے صوبائی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے تحریک نظام مصطفی کا سرگرم کردار تھا اور مذاکرات کے سلسلے میں ہونے والی باہمی مشاورت کے نظام میں بھی شریک تھا۔ اس لئے اب جو کچھ ہو رہا ہے اس میں میرے لئے کوئی بات نئی نہیں ہے اور جو کچھ آئندہ ہونے والا ہے یا جس کی کچھ عرصے کے بعد توقع کی جا سکتی ہے، وہ بھی میرے لئے کوئی حیران کن بات نہیں ہو گی۔ بات کو اس سے زیادہ آگے بڑھانے کی بجائے سر دست قارئین کے مُنہ کا ذائقہ دو تین لطیفوں کے ذریعے کچھ نہ کچھ تبدیل کرنے کی کوشش کروں گا ، جو ان مذاکرات کے دوران رونما ہوئے تھے اور مولانا مفتی محمودؒ نے ہمیں جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے رہنماﺅں کے ایک اجلاس میں سنائے تھے۔ مفتی صاحبؒ نے بتایا کہ جب مذاکرات میں انتخابی دھاندلیوں کو تسلیم کر لیا گیا اور دوبارہ الیکشن پر بھی اتفاق ہو گیا تو بھٹو مرحوم نے کہا کہ مفتی صاحب! مَیں نے آپ کے دونوں مطالبات مان لئے ہیں، اس لئے آپ استعفے کے مطالبے پر اصرار نہ کریں اور کوئی بات تو میری بھی مان لیں، کیونکہ مذاکرات ”کچھ لو کچھ دو“ کے اصول پر ہوتے ہیں اور مجھے بھی اپنی پارٹی کو مطمئن کرنا ہے۔
مفتی صاحبؒ نے جواب دیا کہ بھٹو صاحب آپ مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟ مَیں مولوی ہوں اور مولوی صرف لینا جانتا ہے، دینا اس کی لغت میں ہی نہیں ہے۔ اس پر مفتی صاحبؒ نے بھٹو مرحوم کو ایک لطیفہ بھی سنایا کہ ایک مولوی صاحب کسی گاﺅں کے قریب ایک کنویں میں گر گئے، جہاں سے نکلنا ان کے لئے مشکل ہو گیا۔ شور مچایا تو قریب سے ایک دو نوجوان آ گئے اور ایک نوجوان نے اپنا ہاتھ آگے کر کے کہا کہ مولوی صاحب اپنا ہاتھ مجھے دو تاکہ مَیں آپ کو کھینچ کر باہر نکالوں۔ مولوی صاحب نے ہاتھ دینے سے انکار کر دیا، جس سے عجیب صورت حال پیدا ہو گئی کہ نوجوان اس مولوی صاحب سے ہاتھ پکڑانے کا تقاضہ کر رہا ہے اور مولوی صاحب اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اتنے میں کچھ اور لوگ اکٹھے ہو گئے اور ایک پرانے تجربہ کار بزرگ نے منظر دیکھ کر اس نوجوان سے کہا کہ بیٹا مولوی صاحب سے یہ نہ کہو کہ اپنا ہاتھ دو، وہ کبھی نہیں دیں گے، بلکہ ان سے یہ کہو کہ میرا ہاتھ لو۔ نوجوان نے جونہی کہا کہ مولوی صاحب میرا ہاتھ پکڑو تو انہوں نے فوراً پکڑ لیا اور انہیں کھینچ کر باہر نکال لیا گیا۔
دوسرا لطیفہ بھی انہی مذاکرات کے حوالے سے مفتی صاحبؒ نے سنایا کہ گفتگو کے دوران ایک بار بھٹو مرحوم نے مفتی صاحبؒ سے پوچھا کہ یہ پچاس نمازوں کا کیا معاملہ ہے کہ پہلے پچاس نمازیں فرض کی گئی تھیں، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مداخلت سے پانچ رہ گئیں۔ مفتی صاحبؒ نے جناب نبی اکرم کے سفر معراج کا واقعہ بیان کیا کہ نمازیں پچاس ہی فرض ہوئی تھیں، مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام راستے سے نبی اکرم کو بار بار عرشِ الٰہی کی طرف واپس بھیجتے رہے کہ اتنی نمازیں آپ کی اُمت نہیں پڑھ سکے گی، اس لئے اللہ تعالیٰ سے ان کی تعداد کم کرنے کی درخواست کریں، چنانچہ نبی اکرم کی بار بار درخواست پر یہ نمازیں پانچ رہ گئیں۔ اس پر بھٹو صاحب مرحوم نے مفتی صاحبؒ سے کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ تکلف کیوں فرمایا، نمازیں پچاس ہی رہتیں تو بہتر تھا، آپ مولوی لوگ شب روز نمازوں میں مصروف رہتے اور ہم آرام سے حکومت کرتے۔
لطیفوں کی بات چلی ہے تو میرا خیال ہے کہ مفتی صاحب مرحوم کا بتایا ہوا ایک اور لطیفہ بھی بیان کر دیا جائے جو جنرل ضیاءالحق مرحوم کے ساتھ ان کے دور صدارت میں ہونے والے مذاکرات کے ایک مرحلے میں مفتی صاحبؒ نے شرکائے محفل کو سنایا۔ ان باتوں سے قارئین کو اتنا اندازہ تو ہو گیا ہو گا کہ مفتی صاحب مرحوم خشک مزاج مولوی نہیں تھے، بلکہ بذلہ سنج اور خوش ذوق بزرگ تھے اور بہت سی نا گفتنی باتوں کو لطیفوں کے ذریعے گفتنی بنا دینے کے فن سے آشنا تھے۔ انہوں نے لطیفہ یہ بیان کیا کہ سرجری نے اس قدر ترقی کر لی کہ دماغوں کی تبدیلی بھی اس کے دائرے میں آگئی اور مرنے والوں یا حادثے کا شکار ہونے والوں کے دماغ محفوظ کر کے سرجری کے ذریعے انہیں دوسروں کے سروں میں منتقل کرنے کی صلاحیت میڈیکل سائنس نے حاصل کر لی۔ اس حوالے سے ایک شو روم میں مختلف دماغ سجے ہوئے تھے اور ان پر قیمتیں درج تھیں۔ مولوی کا دماغ دس ڈالر، وکیل کا دماغ 15 ڈالر، تاجر کا دماغ 12 ڈالر، سیاست دان کا دماغ 8 ڈالر وغیرہ۔ سب سے مہنگا دماغ جنرل کا تھا،جس کی قیمت 100 ڈالر درج تھی۔ ایک گاہک نے یہ دیکھ کر کاﺅنٹر پر کھڑے شخص سے پوچھا کہ جرنیل کا دماغ سب سے مہنگا کیوں ہے؟ اس نے بڑی سادگی سے جواب دیا کہ ”اوریجنل ہے، استعمال نہیں ہوا“۔