محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,799
- پوائنٹ
- 1,069
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ باہر نکلنے سے پہلے سبحان اللہ کہو، یا یہ کہ اگر تم نے ایسا نہ کہا تو تم شیطان سے محبت کرتے ہو!
سوال :
آپ کی ایسے لوگوں کو کیا نصیحت ہے جو سوشل ویب سائٹس پر کچھ جڑی بوٹیوں کی ایسی تصاویر نشر کرتے ہیں جن پر لفظ جلالہ "اللہ " یا کسی جانور کی تصویر جس پر "محمد" لکھا ہوا نظر آتا ہے، اور کہتا ہے کہ یہاں سے آپ سبحان اللہ کہے بغیر مت جائیں، یا پھر کوئی ایسی ڈراؤنی تصویر لگا کر لکھتا ہے کہ جو شیطان سے محبت کرتا ہے وہ چلا جائے گا اور جو شیطان سے محبت نہیں کرتا وہ اللہ اکبر لکھے گا، یا اسی طرح کی پوسٹیں وغیرہ لگانے کا کیا حکم ہے؟
جواب کا متن
الحمد اللہ:
اول:
کسی کو بھی فیس بک کی کسی بھی پوسٹ کو پسند کرنے یا اس پر تبصرہ کرنے کے لیے مجبور کرنا جائز نہیں ہے، یہ طریقہ کار اس سوشل ویب سائٹ کا غلط استعمال ہے، حالانکہ اس ویب سائٹ کو علم کی نشر و اشاعت اور خیر و بھلائی عام کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، ہم اس کے بارے میں پہلے سوال نمبر: (101317) کے جواب میں تنبیہ کر آئے ہیں۔
لوگوں کو دھمکانا اور جو بھی آپ کی پوسٹ پر تبصرہ نہ کرے اسے شیطان سے محبت کرنے والا قرار دینا گھناؤنا کام ہے، اور لوگوں پر الزام تراشی ہونے کے ساتھ اللہ تعالی پر افترا پردازی بھی ہے، اس وتیرے سے ایسی چیز کو کسی پر واجب کرنا لازم آتا ہے، جسے اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واجب قرار نہیں دیا؛ لہذا ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے انسان پر یہ لازم قرار دیا جائے کہ جب بھی کوئی خوش نما چیز نظر آئے تو سبحان اللہ کہے، یا کوئی ناگوار چیز نظر آئے تو اللہ اکبر کہے۔
اللہ تعالی نے افترا پردازی کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
ترجمہ: آپ ان سے کہیے کہ : "میرے پروردگار نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ یہ ہیں: بے حیائی کے کام خواہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ہوں اور گناہ کے کام اور ناحق زیادتی اور یہ کہ تم اللہ کے شریک بناؤ جس کے لیے اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ کے ذمے ایسی باتیں لگا دو جن کا تمہیں علم نہیں" [الأعراف: 33]
اس لیے کوئی بھی شخص ایسا کام کرتا ہے تو اس کے ساتھ بات کا صحیح طریقہ کار یہ ہو گا کہ:
پہلے اسے نصیحت کریں، اگر وہ آپ کی بات مان لے تو اچھی بات ہے وگرنہ اس طرح کا جو کچھ بھی وہ نشر کر رہا ہے اس کی طرف توجہ ہی نہ کریں، یا اسے ڈانٹ پلانے کے لیے اس کے ساتھ دوستی ختم کر دیں ۔
دوم:
نباتات ، یا حیوانات میں سے کسی بھی ایسی چیز کے فریب میں نہیں آنا چاہیے جس کے بارے میں دعوی کیا جا رہا ہو کہ اس پر اللہ کا یا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا نام کندہ ہے، کیونکہ ان میں سے اکثر کی کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ ایسی باتیں کچھ کافر حاسدین اس لیے کرتے ہیں کہ مسلمان اس کی تصدیق کرنے لگ جاتے ہیں، یا پھر یہ کام ایسے لوگوں کی طرف سے ہوتا ہے جو اچھائی کو جھوٹ کے ذریعے پھیلانا چاہتے ہیں، جیسے کہ ماضی میں کچھ لوگ احادیث اس لیے گھڑتے تھے کہ وہ اپنے تئیں عوام کو خیر کی طرف بلا رہے ہیں۔
اس لیے خبروں کے متعلق شرعی منہج پر چلنا انتہائی ضروری ہے، چنانچہ صرف اسی بات کی تصدیق کی جائے جو معتمد افراد بیان کریں، نیز صرف وہی چیز آگے نشر اور پھیلائی جائے جس کے متعلق تاکید ہو جائے کہ اس خبر کو بیان کرنے والا سچا آدمی ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (کسی بھی آدمی کے جھوٹے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کر دے) اس حدیث کو امام مسلم نے حدیث نمبر: (5) کے تحت بیان کیا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:
"اس مسئلے کے متعلق احادیث اور آثار کے معنی اور مفہوم میں اس بات سے روکا گیا ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کر دیا جائے؛ کیونکہ عام طور سنی ہوئی باتوں میں سچ اور جھوٹ سب کچھ ہوتا ہے، تو جب ہر سنی ہوئی بات کو بیان کر دے تو وہ جھوٹ بولے گا؛ کیونکہ وہ ایسی بات بیان کر رہا ہے جو ہوئی ہی نہیں۔" ختم شد
ماخوذ از: شرح مسلم از نووی۔
اور اگر کوئی چیز حقیقی طور پر ثابت بھی ہو جائے تو یہ پھر ان نشانیوں میں شامل ہو گا جن کے ذریعے اللہ تعالی اپنے بندوں کو نصیحت فرماتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
ترجمہ: عنقریب ہم انہیں کائنات میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں گے اور ان کے اپنے اندر بھی، یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ وہ حق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں کہ آپ کا پروردگار ہر چیز پر گواہ ہے ۔[فصلت: 53]
مزید استفادے کے لیے آپ سوال نمبر: (107775) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم
سوال :
آپ کی ایسے لوگوں کو کیا نصیحت ہے جو سوشل ویب سائٹس پر کچھ جڑی بوٹیوں کی ایسی تصاویر نشر کرتے ہیں جن پر لفظ جلالہ "اللہ " یا کسی جانور کی تصویر جس پر "محمد" لکھا ہوا نظر آتا ہے، اور کہتا ہے کہ یہاں سے آپ سبحان اللہ کہے بغیر مت جائیں، یا پھر کوئی ایسی ڈراؤنی تصویر لگا کر لکھتا ہے کہ جو شیطان سے محبت کرتا ہے وہ چلا جائے گا اور جو شیطان سے محبت نہیں کرتا وہ اللہ اکبر لکھے گا، یا اسی طرح کی پوسٹیں وغیرہ لگانے کا کیا حکم ہے؟
جواب کا متن
الحمد اللہ:
اول:
کسی کو بھی فیس بک کی کسی بھی پوسٹ کو پسند کرنے یا اس پر تبصرہ کرنے کے لیے مجبور کرنا جائز نہیں ہے، یہ طریقہ کار اس سوشل ویب سائٹ کا غلط استعمال ہے، حالانکہ اس ویب سائٹ کو علم کی نشر و اشاعت اور خیر و بھلائی عام کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، ہم اس کے بارے میں پہلے سوال نمبر: (101317) کے جواب میں تنبیہ کر آئے ہیں۔
لوگوں کو دھمکانا اور جو بھی آپ کی پوسٹ پر تبصرہ نہ کرے اسے شیطان سے محبت کرنے والا قرار دینا گھناؤنا کام ہے، اور لوگوں پر الزام تراشی ہونے کے ساتھ اللہ تعالی پر افترا پردازی بھی ہے، اس وتیرے سے ایسی چیز کو کسی پر واجب کرنا لازم آتا ہے، جسے اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واجب قرار نہیں دیا؛ لہذا ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے انسان پر یہ لازم قرار دیا جائے کہ جب بھی کوئی خوش نما چیز نظر آئے تو سبحان اللہ کہے، یا کوئی ناگوار چیز نظر آئے تو اللہ اکبر کہے۔
اللہ تعالی نے افترا پردازی کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
ترجمہ: آپ ان سے کہیے کہ : "میرے پروردگار نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ یہ ہیں: بے حیائی کے کام خواہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ہوں اور گناہ کے کام اور ناحق زیادتی اور یہ کہ تم اللہ کے شریک بناؤ جس کے لیے اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ کے ذمے ایسی باتیں لگا دو جن کا تمہیں علم نہیں" [الأعراف: 33]
اس لیے کوئی بھی شخص ایسا کام کرتا ہے تو اس کے ساتھ بات کا صحیح طریقہ کار یہ ہو گا کہ:
پہلے اسے نصیحت کریں، اگر وہ آپ کی بات مان لے تو اچھی بات ہے وگرنہ اس طرح کا جو کچھ بھی وہ نشر کر رہا ہے اس کی طرف توجہ ہی نہ کریں، یا اسے ڈانٹ پلانے کے لیے اس کے ساتھ دوستی ختم کر دیں ۔
دوم:
نباتات ، یا حیوانات میں سے کسی بھی ایسی چیز کے فریب میں نہیں آنا چاہیے جس کے بارے میں دعوی کیا جا رہا ہو کہ اس پر اللہ کا یا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا نام کندہ ہے، کیونکہ ان میں سے اکثر کی کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ ایسی باتیں کچھ کافر حاسدین اس لیے کرتے ہیں کہ مسلمان اس کی تصدیق کرنے لگ جاتے ہیں، یا پھر یہ کام ایسے لوگوں کی طرف سے ہوتا ہے جو اچھائی کو جھوٹ کے ذریعے پھیلانا چاہتے ہیں، جیسے کہ ماضی میں کچھ لوگ احادیث اس لیے گھڑتے تھے کہ وہ اپنے تئیں عوام کو خیر کی طرف بلا رہے ہیں۔
اس لیے خبروں کے متعلق شرعی منہج پر چلنا انتہائی ضروری ہے، چنانچہ صرف اسی بات کی تصدیق کی جائے جو معتمد افراد بیان کریں، نیز صرف وہی چیز آگے نشر اور پھیلائی جائے جس کے متعلق تاکید ہو جائے کہ اس خبر کو بیان کرنے والا سچا آدمی ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (کسی بھی آدمی کے جھوٹے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کر دے) اس حدیث کو امام مسلم نے حدیث نمبر: (5) کے تحت بیان کیا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:
"اس مسئلے کے متعلق احادیث اور آثار کے معنی اور مفہوم میں اس بات سے روکا گیا ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کر دیا جائے؛ کیونکہ عام طور سنی ہوئی باتوں میں سچ اور جھوٹ سب کچھ ہوتا ہے، تو جب ہر سنی ہوئی بات کو بیان کر دے تو وہ جھوٹ بولے گا؛ کیونکہ وہ ایسی بات بیان کر رہا ہے جو ہوئی ہی نہیں۔" ختم شد
ماخوذ از: شرح مسلم از نووی۔
اور اگر کوئی چیز حقیقی طور پر ثابت بھی ہو جائے تو یہ پھر ان نشانیوں میں شامل ہو گا جن کے ذریعے اللہ تعالی اپنے بندوں کو نصیحت فرماتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
ترجمہ: عنقریب ہم انہیں کائنات میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں گے اور ان کے اپنے اندر بھی، یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ وہ حق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں کہ آپ کا پروردگار ہر چیز پر گواہ ہے ۔[فصلت: 53]
مزید استفادے کے لیے آپ سوال نمبر: (107775) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم