• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کڑوا سچ جناب حامد میر کی خدمت میں !

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
قلم و قرطاس اور زبان و بیان دو دھاری تلواریں ہیں، اگر ان کے صحیح استعمال سے دین و شریعت کی ترجمانی اور نجاتِ آخرت کا سامان کیا جاسکتا ہے، تو باطل، اہل باطل کی ترجمانی اور حقائق مسخ کرکے اپنی دنیا وآخرت برباد بھی کی جاسکتی ہے۔ جب تک مسلمانوں کے دلوں میں خوفِ خدا، خشیت ِ الٰہی اور فکر ِ آخرت تھی، ناممکن تھا کہ ان کی زبان و بیان اور قلم وقرطاس سے خلافِ حقیقت کوئی بات صادر ہوتی، لیکن جب سے ان کے دلوں سے فکرآخرت اور خوف خدا رخصت ہوا ہے، وہ بلاتکان ہر قسم کا جھوٹ، سچ بولنے اور لکھنے لگے ہیں،اور انہیں یہ احساس تک نہیں رہا کہ کل قیامت کے دن اس کا حساب دینا ہوگا؟یا ہمیں اپنی کسی تحریر و کلام کا جواب بھی دینا ہوگا؟ حالانکہ قرآن کریم میں ہے: "مایلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید" (ق:۱)نہ․․․یں بولتا کوئی بات، مگر ہوتا ہے اس کے پاس ایک نگہبان تیار․․․ یعنی فرشتے خدا کے حکم سے ہر وقت اس کی تاک میں رہتے ہیں ،جو لفظ اس کے منہ سے نکلے، وہ لکھ لیتے ہیں۔ اسی طرح جو بات بھی قلم سے صادر ہو، اس کو بھی محفوظ کرلیا جاتا ہے۔
ایسالگتا ہے کہ کافر تو کافرشایداب مسلمانوں کو بھی اس کا یقین نہیں رہا کہ ہمیں اپنے اچھے بُرے کا جواب دینا ہوگا، یا ہم نے خدانخواستہ کسی کی طرف غلط بات منسوب کی تو عنداللہ اس کو ثابت کرنا ہوگا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ زندہ تو زندہ اب مردے بھی ان کے ظلم و ستم اور کذب و افترأ سے محفوظ نہیں۔ کچھ اسی قسم کا معاملہ روزنامہ جنگ کے ایک کالم نگار جناب حامد "میر" صاحب کا ہے۔ نہیں معلوم کہ وہ کون سے "میروں" سے ہیں؟ بہرحال اللہ تعالیٰ نے ان کو قلم و قرطاس کی "نعمت" اور میڈیا سے وابستگی کی "سعادت" سے نوازا ہے، اور ان کا "بے باک" قلم منہ زور گھوڑے کی طرح آئے دن کسی نہ کسی کی پگڑی اچھالتارہتا ہے۔ تہمت طرازی، الزام تراشی، غلط بیانی اور حقائق کو مسخ کرناتو "میر" صاحب کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، چنانچہ آج سے کوئی ساڑھے پانچ سال قبل بھی روزنامہ جنگ کراچی ۲۵/ اگست ۲۰۰۳ء کی اشاعت میں موصوف نے "ملا پاور" کے نام سے ایک تاریخی جھوٹ تراش کر یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ ۱۹۷۴ء کی اینٹی قادیانی تحریک اور مسئلہ ختم نبوت میں علماء اورکارکنانِ ختم نبوت کا کوئی کردار نہیں تھا اور یہ مسئلہ کسی تحریک کے بغیر محض پی پی پی راہنما ذوالفقار علی بھٹو کی ذاتی دل چسپی سے حل ہوا تھا، چنانچہ وہ لکھتے ہیں: "․․․ذوالفقار علی بھٹو نے ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ کے ذریعہ قانون منظور کرواکر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوایا، ۱۹۷۴ء کی اسمبلی میں بھٹو ملاؤں کے قطعاً محتاج نہ تھے اور نہ ہی اس وقت سڑکوں پر کوئی تحریک چل رہی تھی، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ پاکستانی مسلمانوں کی اکثریت کی مرضی سے ہوا․․․"
کیا کوئی باشعور مسلمان باور کرسکتا ہے کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے ۱۹۷۴ء کی آئینی ترمیم بغیر کسی تحریکی دباؤ کے از خود فرمادی تھی؟ ہمارے خیال میں اتنا بڑا تاریخی جھوٹ "میر" صاحب کے علاوہ کسی کو زیب نہیں دیتا، ورنہ کون نہیں جانتا کہ ربوہ اسٹیشن پر قادیانی جارحیت کے خلاف اٹھنے والی تحریک نے جب مسلمانانِ پاکستان کو بیدار کیا اکابرعلمائے کرام نے مسلمانوں کی قیادت کا فریضہ سر انجام دیا، تو حکومت پاکستان اور جناب ذوالفقار علی بھٹو عوامی دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے؟ کیا اس تحریک میں براہ راست شرکت کرنے والے، شہدأ کے ورثأ اور ہزاروں فرزندانِ توحید اس کے گواہ نہیں کہ یہ تحریک مئی ۱۹۷۴ء سے ستمبر ۱۹۷۴ء تک مسلسل پانچ ماہ تک برپا رہی اور اسی کی برکت سے یہ مسئلہ حل ہواتھا؟ مگر موصوف اس کے برعکس فرماتے ہیں کہ : "نہ ہی اس وقت سڑکوں پر کوئی تحریک چل رہی تھی․․․․۔"
"میر" صاحب اگر ۱۹۷۴ء کی آئینی ترمیم بھٹو صاحب کے دستخطوں کی وجہ سے ان کے کھاتے میں ڈالی جاسکتی ہے اور مسلسل پانچ ماہ تک پوری پاکستانی عوام کی جدوجہد کی نفی کی جاسکتی ہے، تو کیا آپ کسی کو یہ کہنے کی بھی اجازت دیں گے؟ کہ معزول ججوں کی بحالی بھی زرداری صاحب کی مرہون منت ہے اور وکلاء کا اس کے پیچھے کوئی کردار نہیں، کیونکہ زرداری صاحب معزول ججوں کی بحالی میں وکلاء کے قطعاً محتاج نہیں تھے، اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو تحریک ختم نبوت میں علماء کی مساعی کا انکار کیوں کیا جاسکتا ہے؟
اسی طرح انہوں نے اسی کالم میں یہ گوہر افشانی بھی فرمائی تھی کہ:
"جہاد کشمیر کا ۱۹۴۷ء میں آغاز ہوا تو ملاؤں کی طرف سے اس جہاد کو کفر قرار دیا گیا"
ایسا لگتا ہے کہ موصوف کالم لکھتے وقت ہوش میں نہیں تھے یا ان پر نیند کا غلبہ تھا، ورنہ کون نہیں جانتا کہ :
"جب وزیر اعظم پاکستان نوابزادہ لیاقت علی خان مرحوم نے کشمیر میں اعلانِ جنگ کردیا، جس پر پوری قوم ان کی ہمنوا بن گئی، اس جنگ میں مجلس احرار اسلام سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئی اور اس نے حکومت پاکستان کے موقف کی بھرپور اور دو ٹوک حمایت کا اعلان کردیا، مجلس احرارِ اسلام نے اس موقع پر دفاعِ پاکستان کے عنوان پر جلسوں کا اعلان کرکے رائے عامہ ہموار کرنے اور قوم میں جذبہ جہاد پیدا کرنے کی مہم شروع کردی، پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں زبردست جلسے کئے گئے، عوام اور فوج دونوں کا لہو گرمایا گیا، انہیں جہاد کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کیا گیا، مجلس احرار اسلام کے تمام راہنما اس جدوجہد میں شریک ہوگئے۔" (تحریک کشمیر سے تحریک ختم نبوت تک ،از چوہدری غلام نبی، ص:۱۲۵)
 
Top