ابو زيدعارف
مبتدی
- شمولیت
- مئی 11، 2015
- پیغامات
- 10
- ری ایکشن اسکور
- 4
- پوائنٹ
- 13
کھانے کے درمیان جائز باتیں کرنا سنت ہے
کھانے کے درمیان جائز باتیں کرنا سنت ہے، سلام کا جواب دینا بلکہ دسترخوان کو تعلیم ودعوت کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔
بعض لوگ کھانے کے دوران باتیں کرنا تو دور کی بات ہے سلام کرنے اور جواب دینے تک کو عیب سمجھتے ہیں حالانکہ سنت اس کے خلاف ہے۔علامہ غزالی نے احیاء علوم الدین میں لکھا ہے کہ چپ چاپ کھانا کھانا عجمیوں کا طریقہ ہے جس کی مخالفت کرنی چاہئے۔ نیز کئی احادیث میں کھانا کھانے کے دوران بات کرنے کا ثبوت ملتا ہے، چند حدیثیں ملاحظہ ہوں:
۱)۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث ہے جو حدیث شفاعت کے نام سے معروف ہے، اس کے ابتدائی الفاظ اس طرح ہیں: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دَعْوَةٍ, فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ, وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ, فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً, وَقَالَ: «أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ....».ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دعوت میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دست کا گوشت پیش کیا گیا اور یہ آپ کو بہت پسند تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے اپنے دانتوں سے ایک بار نوچ کر کھایا اور فرمایا: «میں بروز قیامت سارے لوگوں کا سردار ہوں گا .....»۔
۲)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَ أَهْلَهُ الْأُدُمَ, فَقَالُوا: مَا عِنْدَنَا إِلَّا خَلٌّ, فَدَعَا بِهِ, فَجَعَلَ يَأْكُلُ بِهِ وَيَقُولُ: «نِعْمَ الْأُدُمُ الْخَلُّ نِعْمَ الْأُدُمُ الْخَلُّ». (رواه مسلم)
جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں سے سالن کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ گھر میں سرکہ کے سوا کوئی چیز نہیں، آپ نے اسے ہی طلب کرلیا، اسے کھاتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے : «سرکہ کیا خوب سالن ہے، سرکہ کیا خوب سالن ہے»۔ (یہ مسلم کی روایت ہے)
اس حدیث سے جہاں کھانے کے دوران بات کرنے کا جواز معلوم ہوتا ہے، وہیں کھانے کی تعریف کرنے کا استحباب بھی معلوم ہوتا ہے۔
۳)۔ مسند احمد اور ابن ماجہ میں انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ مجھے میری ماں ام سلیم نے ایک ٹوکرے میں رطب کھجوریں دے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا میں نے آپ کو نہیں پایا، آپ اپنے ایک آزاد کردہ غلام کے پاس نکل گئے تھے جس نے آپ کو دعوت دی تھی، اس نے آپ کے لئے کھانا بنایا، میں پہنچا تو آپ کھانا کھارہے تھے، آپ نے اپنے ساتھ کھانے کے لئے مجھے بلایا، اس شخص نے گوشت اور کدو ملاکر پکایا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو بہت پسند تھا، میں کدو اکٹھا کرکے آپ کے قریب کردیتا (اور آپ اسے تناول فرماتے) جب ہم کھاکر فارغ ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر واپس لوٹے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رطب کھجوروں کا وہ ٹوکرا پیش کیا، آپ نے اس میں سے کھایا اور تقسیم کیا یہاں تک کہ پورا ختم ہوگیا۔
مذکورہ حدیث کو علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے، حدیث کے اندر واضح طور پر موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے دوران انس رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دی، ظاہر ہے کہ یہ بھی کھانے کے دوران بات کرنے میں آتا ہے۔
۴)۔ عمر بن ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کھانے کے دوران کھانے کے آداب سکھلائے۔ پوری حدیث اس طرح ہے:
عن عمر بن أَبي سَلمَة رضي الله عنهما، قَالَ : كُنْتُ غُلاماً في حِجْرِ رسولِ الله - صلى الله عليه وسلم -، وَكَانَتْ يَدِي تَطِيشُ في الصَّحْفَةِ، فَقَالَ لي رسولُ الله - صلى الله عليه وسلم - : «يَا غُلامُ، سَمِّ اللّهَٰ تَعَالَىٰ، وَكُلْ بِيَمينِكَ، وَكُلْ مِمَّا يَلِيكَ». متفقٌ عَلَيْهِ .
عمر بن ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیںکہ میں رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش میں تھا، میرا ہاتھ کھانے کے برتن میں اِدھر اُدھر پھرتا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: «اے بچےّ! بسم اﷲ پڑھو، اور اپنے داہنے ہاتھ سے کھاؤ اور جو تمہارے قریب ہے اس میں سے کھاؤ »۔(یہ بخاری ومسلم کی روایت ہے)
اس حدیث میں کھانے کے تین اہم آداب کی تعلیم دی گئی:
1.کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا۔
2.اپنے داہنے ہاتھ سے کھانا کھانا۔
3.اپنے سامنے اور اپنے قریب سے کھانا۔
http://abdulhadeemadani.blogspot.com/
کھانے کے درمیان جائز باتیں کرنا سنت ہے، سلام کا جواب دینا بلکہ دسترخوان کو تعلیم ودعوت کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔
بعض لوگ کھانے کے دوران باتیں کرنا تو دور کی بات ہے سلام کرنے اور جواب دینے تک کو عیب سمجھتے ہیں حالانکہ سنت اس کے خلاف ہے۔علامہ غزالی نے احیاء علوم الدین میں لکھا ہے کہ چپ چاپ کھانا کھانا عجمیوں کا طریقہ ہے جس کی مخالفت کرنی چاہئے۔ نیز کئی احادیث میں کھانا کھانے کے دوران بات کرنے کا ثبوت ملتا ہے، چند حدیثیں ملاحظہ ہوں:
۱)۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث ہے جو حدیث شفاعت کے نام سے معروف ہے، اس کے ابتدائی الفاظ اس طرح ہیں: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دَعْوَةٍ, فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ, وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ, فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً, وَقَالَ: «أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ....».ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دعوت میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دست کا گوشت پیش کیا گیا اور یہ آپ کو بہت پسند تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے اپنے دانتوں سے ایک بار نوچ کر کھایا اور فرمایا: «میں بروز قیامت سارے لوگوں کا سردار ہوں گا .....»۔
۲)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَ أَهْلَهُ الْأُدُمَ, فَقَالُوا: مَا عِنْدَنَا إِلَّا خَلٌّ, فَدَعَا بِهِ, فَجَعَلَ يَأْكُلُ بِهِ وَيَقُولُ: «نِعْمَ الْأُدُمُ الْخَلُّ نِعْمَ الْأُدُمُ الْخَلُّ». (رواه مسلم)
جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں سے سالن کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ گھر میں سرکہ کے سوا کوئی چیز نہیں، آپ نے اسے ہی طلب کرلیا، اسے کھاتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے : «سرکہ کیا خوب سالن ہے، سرکہ کیا خوب سالن ہے»۔ (یہ مسلم کی روایت ہے)
اس حدیث سے جہاں کھانے کے دوران بات کرنے کا جواز معلوم ہوتا ہے، وہیں کھانے کی تعریف کرنے کا استحباب بھی معلوم ہوتا ہے۔
۳)۔ مسند احمد اور ابن ماجہ میں انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ مجھے میری ماں ام سلیم نے ایک ٹوکرے میں رطب کھجوریں دے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا میں نے آپ کو نہیں پایا، آپ اپنے ایک آزاد کردہ غلام کے پاس نکل گئے تھے جس نے آپ کو دعوت دی تھی، اس نے آپ کے لئے کھانا بنایا، میں پہنچا تو آپ کھانا کھارہے تھے، آپ نے اپنے ساتھ کھانے کے لئے مجھے بلایا، اس شخص نے گوشت اور کدو ملاکر پکایا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو بہت پسند تھا، میں کدو اکٹھا کرکے آپ کے قریب کردیتا (اور آپ اسے تناول فرماتے) جب ہم کھاکر فارغ ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر واپس لوٹے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رطب کھجوروں کا وہ ٹوکرا پیش کیا، آپ نے اس میں سے کھایا اور تقسیم کیا یہاں تک کہ پورا ختم ہوگیا۔
مذکورہ حدیث کو علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے، حدیث کے اندر واضح طور پر موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے دوران انس رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دی، ظاہر ہے کہ یہ بھی کھانے کے دوران بات کرنے میں آتا ہے۔
۴)۔ عمر بن ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کھانے کے دوران کھانے کے آداب سکھلائے۔ پوری حدیث اس طرح ہے:
عن عمر بن أَبي سَلمَة رضي الله عنهما، قَالَ : كُنْتُ غُلاماً في حِجْرِ رسولِ الله - صلى الله عليه وسلم -، وَكَانَتْ يَدِي تَطِيشُ في الصَّحْفَةِ، فَقَالَ لي رسولُ الله - صلى الله عليه وسلم - : «يَا غُلامُ، سَمِّ اللّهَٰ تَعَالَىٰ، وَكُلْ بِيَمينِكَ، وَكُلْ مِمَّا يَلِيكَ». متفقٌ عَلَيْهِ .
عمر بن ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیںکہ میں رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش میں تھا، میرا ہاتھ کھانے کے برتن میں اِدھر اُدھر پھرتا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: «اے بچےّ! بسم اﷲ پڑھو، اور اپنے داہنے ہاتھ سے کھاؤ اور جو تمہارے قریب ہے اس میں سے کھاؤ »۔(یہ بخاری ومسلم کی روایت ہے)
اس حدیث میں کھانے کے تین اہم آداب کی تعلیم دی گئی:
1.کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا۔
2.اپنے داہنے ہاتھ سے کھانا کھانا۔
3.اپنے سامنے اور اپنے قریب سے کھانا۔
http://abdulhadeemadani.blogspot.com/