بخاری سید
رکن
- شمولیت
- مارچ 03، 2013
- پیغامات
- 255
- ری ایکشن اسکور
- 470
- پوائنٹ
- 77
چین کی برآمدات میں اضافے اور کامیابی کی وجہ سے چین اس وقت دنیا میں زرِمبادلہ کے سب سے زیادہ ذخائر کا مالک ہے جو دن بدن بڑھ رہے ہیں اور اس وقت ان کی سطح تین اعشاریہ چار کھرب ڈالر پر ہے جو جرمن معیشت کے کل حجم کے برابر ہے۔ یہ زرِمبادلہ کن کرنسیوں پر مشتمل ہے یہ تو چین کا ریاستی راز ہے مگر چین کے سکیوریٹیز کے جریدے نے چند سال قبل یہ راز افشا کیا تھا کہ ان ذخائر میں سے پینسٹھ فیصد امریکی ڈالرز، چھبیس فیصد یوروز، پانچ فیصد برطانوی پاؤنڈ سٹرلنگ اور تین فیصد جاپانی ین ہیں۔ چین امریکی مرکزی بنک کے بعد امریکہ کا سب سے بڑا قرض خواہ ہے۔ اس کے علاوہ یورپی حکومتیں بھی چین کی مقروض ہیں اور چین کے پاس ان مشکلات کا شکار حکومتوں کے جتنے بانڈ ہیں شاید اتنے یہ حکومتیں دیکھنا نہیں چاہتی ہوں گی۔ یورو کے بحران کے دوران ہر اس موقع پر جب کبھی یہ افواہ یا خبر اڑی یا اشارے کنائے سے پتا چلا کہ چین یورو بانڈز خریدنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے یورو کی قدر میں فوری اضافہ ہوا۔ اب آپ یہ سوچتے ہوں گے کہ یہ تجارتی فاضل سرمایہ جو چین کے پاس ہے اتنا کسی ملک کے پاس ہونا بہت اچھی خبر ہے تو یہ آپ کی بھول ہے کیونکہ پیپلز بینک آف چائنا کے حکام مطابق یہ چین کے لیے مسائل پیدا کر رہا کیونکہ اس کی وجہ سے اس کی کرنسی کے تبادلے کے ریٹ ایک ہی ہیں۔ اتنی بڑی مقدار میں زرِمبادلہ کے ذخائر رکھنا ایک ملک کی کرنسی کو مختلف حملوں سے بچاتا ہے کیونکہ انہیں فروخت کر کے کرنسی کی شرح کو مستحکم رکھا جا سکتا ہے۔ یہ ایک سبق ہے جو چینی مرکزی بینک نے جنوب مشرقی ایشیا کے مالیاتی بحران سے سیکھا تھا۔ چین کے لیے اس کی کرنسی یوان ایک فیصد کے مختصر درجے سے منڈی میں ملتی ہے تو اس میں گراوٹ ہو یا اضافہ زرِمبادلہ کے ذخائر اسے سنبھالا دینے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ خوف تو نہیں ہے کہ امریکی ڈالر یا یورو کی قدر میں کمی ہو گی مگر خدشہ یہ ہے کہ یہ زرِ مبادلہ کے ذخائر ملک کی معیشت میں پیسے کی روانی پر اثر ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور تعمیرات کی قیمتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جب ایک مرکزی بینک زرِمبادلہ کے ذخائر اکٹھے کر لیتا ہے تو وہ اس سے اپنی کرنسی جو چین کے معاملے میں یوان ہے شائع کرتا ہے تاکہ اس سے مزید امریکی ڈالر، یورو، برطانوی پاؤنڈ یا جاپانی ین خرید کر انہیں اپنے ذخائر میں شامل کرتا ہے۔ اس رقم سے پیدا ہونے والے افراطِ زر سے بچنے کے لیے (آپ سوچیں اگر چین نے اپنی آٹھ کھرب کی معیشت میں تین اعشاریہ چار کھرب ڈالر نقدی کا اضافہ کیا ہو) چینی مرکزی بینک اس کے برابر رقم معیشت میں سے نکال لیتا ہے۔ یہ اس کو کچھ اس طرح کرتا ہے کہ وہ ملک کے کمرشل بینکوں کی جمع کروائی گئی رقم پر سود ادا کرتا ہے جس سے وہ اپنی رقم اپنے بینک میں ہی رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اب یہ عمل نامکمل ہوتا ہے کیونکہ کمرشل بینک چاہتے ہیں کہ کہ اگر ان کا سرمایہ مرکزی بینک میں رکھا جائے تو وہ اس سے کچھ زیادہ منافع سود کی صورت میں حاصل کر سکیں گے۔ چین اسے دوسرے ممالک کی نسبت بہتر طریقے پر کرتا ہے جس کی وجہ اس کا ریاستی ملکیتی بینکنگ کا نظام ہے جسے جو کہا جاتا ہے وہ اس پر عمل کرتا ہے۔ اس کے باوجود یہ زرِ مبادلہ کے ذخائر ملک میں کرنسی کی ترسیلات کا ایک بہت بڑا زریعہ ہیں۔ اس میں ایک اور معاملہ یہ ہے کہ مرکزی بینک شاید اس پر اتنا منافع نہ کما رہا ہو جیسا کہ امریکی یا یورپی بانڈز سے آمدن ہوتی ہے۔ اس کی بجائے چین اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو بیرون ملک سرمایہ کاری کے لیے استعمال کرتا ہے۔ چین حقیقی اثاثے خریدنا چاہتا ہے جن میں بندرگاہیں، سہولیات کی کمپنیاں، قدرتی وسائل، ٹیکنالوجی اور مالیاتی کمپنیاں شامل ہیں۔ اس کے چین کے لیے دو فوائد ہیں۔ حقیقی کمپنیاں مالیاتی اداروں کی نسبت بہتر مالیاتی فوائد دیتی ہیں اس سے انہیں بڑے معاشی نتائج حاصل کرنے کا بھی موقع ملتا ہے اور چین کے لیے بڑی کثیر القومی کمپنیاں بھی اس عمل میں بنتی ہیں۔ یہ معاشی ترقی میں استحکام کے لیے بہت ضروری ہے۔ چین دوسرے ممالک کی مثال کی پیروی کرنا چاہتا ہے جنہوں نے اقتصادی ترقی حاصل کی ہے جیسا کہ تائیوان، جنوبی کوریا اور انہی کے برینڈز کی طرح کے بین القوامی برانڈ بنانا چاہتا ہے جیسا کہ سام سنگ یا ایچ ٹی سی ہے۔ یہ چین کا ہدف تھا جب دو ہزار میں اس نے بیرون ملک سرمایہ کاری یا بین الاقوامی سطح پر ابھرنے کی پالیسی کا اجرا کیا تھا۔ اس کے بعد پہلی بیرون ملک سرمایہ کاری 2003 اور 2004 میں یورپ میں تھی جب چینی کمپنی ٹی سی ایل نے فرانس کی تھامسن برینڈ کو خریدا تھا۔ اس کے بعد سے براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری میں بہت اضافہ ہوا ہے اور اب یہ ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ دسمبر میں پہلی بار ایسا ہوا جب ماہانہ ڈیٹا نے ظاہر کیا کہ براہِ راست بیرون ملک سرمایہ کاری ملک کے اندر سرمایہ کاری سے بڑھ گئی تھی۔ حکومت کی ملکیتی کمپنیوں نے بیرون ملک سرمایہ کاری گزشتہ تین دہائیوں سے جاری رکھی ہوئی ہے اور اسے مستقبل میں بھی جاری رکھا جائے گا۔ سٹیٹ گرِڈ جو ملک کی سب سے بڑی توانائی کمپنی ہے نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ آسٹریلیا کی توانائی کی منڈی میں سرمایہ کاری کا دوسرا دور شروع کرے گی۔ بیرون ملک سرمایہ کاری بہت متنوع ہے اور صرف قدرتی وسائل اور توانائی تک محدود نہیں ہے۔ سب سے زیادہ سرمایہ کاری جن خطوں میں کی گئی ہے وہ ایشیا کے دوسرے ملک ہیں جن کے بعد لاطینی امریکہ اور پھر یورپ ہے۔ چینی کمپنیوں کو بیرون ملک سرمایہ کاری کے لیے حکومت سے اجازت درکار ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہی چین سرمایے کی نقل و حرکت پر کڑا اختیار رکھتا ہے۔ اس وجہ سے چینی سرمایہ کاری کو قریباً ’مسابقتی نقصان‘ کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے یعنی چین وہاں سرمایہ کاری کرتا ہے یا کرنے دیتا ہے جہاں اس کی معیشت کو ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ قدرتی یا دوسرے وسائل نہیں بلکہ ٹیکنالوجی اور دوسری زیادہ مالیت کی سہولیات ہیں جن میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے اسی لیے سب زیادہ چینی سرمایہ کاری حاصل کرنے والے بڑے ممالک میں آسٹریلیا، سنگاپور اور امریکہ ہیں۔ اس کے برعکس جن ممالک میں چین سرمایہ کاری کرتا ہے وہاں یہ کچھ زیادہ قابل قبول نہیں ہوتی کیونکہ حکومتی براہِ راست سرمایہ کاری سے ایک سیاسی ردِ عمل پیدا ہو سکتا ہے جیسا کہ آسٹریلیا اور امریکہ کے معاملے میں ہے۔ اس کے علاوہ چین کی نجی کمپنیوں کے لیے کام کرنا بہت مشکل بھی ہوتا ہے کیونکہ ان کے لیے اس بات کا فرق مشکل ہو جاتا ہے کہ کیا سرکاری ہے اور کیا نجی اور یہی وہ حصہ ہے جس میں چین کو اصلاحات کی ضرورت ہے۔ گزشتہ برس یہ فاضل سرمایہ 2008 کی مجموعی قومی پیداوار کے دس فیصد سے گر کر تین فیصد پر آ گیا تھا جس وقت عالمی مالیاتی بحران شروع ہوا تھا۔ اس عرصے میں چین برآمدات نہیں بڑھا سکا کیونکہ درآمد کرنے والے ممالک کی قوتِ خرید میں کمی تھی جس کی وجہ ان کی سست معیشت تھی اور اس کی وجہ سے چین کے مزید زرِ مبادلہ کے ذخائر اکٹھے کرے گا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو گا کہ چین کی بیرونی سرمایہ کاری کو مزید قبولیت ملے گی کیونکہ چین مسابقت رکھنے والی اور پیدواری کمپنیوں پر اپنی ترقی کے لیے زیادہ منحصر ہو گا اور ان کمپنیوں کو سرمایہ جمع کرنے میں بھی مزید مسابقت کا سامنا ہو گا۔ جو واضح ہے وہ یہ کہ چینی کمپنیاں عالمی سطح پر مزید نمایاں ہوں گی اور ان کی کامیابی ان کمپنیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ملک کی ترقی کے لیے بھی اہم ہو گی۔