محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
کہنا آسان ہے، لیکن کرنا مشکل ہے
کسی سے کسی نئے کام کا مشورہ لو تو اکثر لوگ یہ جملہ کہہ دیتے ہیں کہ ’’کہنا آسان ہے، لیکن کرنا مشکل ہے‘‘ ، کبھی سوچتے نہیں کہ ایسا کہنے کا اثر کیا ہوتا ہے اور یہ جملہ کس طرح کسی انسان کے حوصلے کو پست کر دیتا ہے۔
ہمارا کوئی نوجوان کچھ اچھا کرنا چاہتا ہو، کچھ منفرد سوچ رکھتا ہو، زندگی میں کچھ نمایا کردار ادا کرنا چاہتا ہو، کسی نئے تجارت یا نیا پیشہ اپنانے کے بارے میں سوچ رہا ہو ۔ ۔ ۔ جوں ہی وہ اپنے نئے خیالات کا اظہار کرتا ہے، تو بعض لوگ ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے بغیر سوچے سمجھے کہہ دیتے ہیں ’’ کہنا آسان ہے، لیکن کرنا مشکل ‘‘ اور یوں آغاز میں ہی ان کے حوصلے پست کر دیئے جاتے ہیں اور اُن میں سے اکثر کی پرواز اس جملہ کو سنتے ہی رک جاتی ہے۔
یہ کمزور لوگوں کی کمزور کر دینے والی دلیل ہے۔ یہ ہماری غلامانہ زہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ ہمارے اذہان ابتک غلام ہیں ۔ ۔ ۔ ہم کوئی نئی بات یہ سوچ ہی نہیں سکتے، ہم کوئی نیا کام یہ کر ہی نہیں سکتے اور اگر کوئی سوچنا یا کرنا چاہے تو ہم اس طرح طنز کرتے ہیں: ’’ ارے میاں! کہنا آسان ہے، لیکن کرنا مشکل ہے‘‘۔
جو لوگ تن آسان ہوں اور کسی چیلنج کا مردانہ وار مقابلہ نہ کر سکتے ہوں، وہ وقت کے ساتھ ساتھ دوسروں پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ وہ اپنی میراث کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے۔ جو آسانی سے مل جائے اسے برقرار رکھنا بھی ایک چیلنج ہی ہوتا ہے۔ بے شمار ایسے واقعات ہیں کہ آسانی سے ملنے والی دولت لوگ سنبھال نہیں سکے اور کنگال ہو گئے۔
جس نے زندگی میں کوئی نئی چیلنج کا مقابلہ کیا ہی نہ ہو وہ دوسروں پر طنز ہی کرے گا اور انہیں پست ہمت ہی بنائے گا ۔ ۔ ۔ یہی حقیقت ہے اور ہم میں اکثر لوگ اپنے نوجوانوں کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں۔
یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ زندگی میں کچھ بھی آسان نہیں اور کسی بھی نئے کام میں مشکلات درپیش آتی ہی ہیں لیکن ان مشکلات کا مقابلہ کرنا ہی اصل چیلنج ہے اور مردانگی کا کام ہے۔ کوئی بھی کام آسان یا مشکل نہیں ہوتا، بس عزم اور ارادے کی پختگی مشکل سے مشکل کام کو آسان بنا دیتی ہے۔
بے شک جو کام مشکل ہو اس کے بارے میں صحیح مشورہ دیا جائے کیونکہ مشیر کو امین ہونا چاہے، جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
المستشارُ مُؤْتَمِنٌ (متفق علیہ)
’’جس سے مشورہ کیا جاتا ہے۔ وہ امین بنایا گیا ہے‘‘۔
گویا مشیر کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ نہایت دیانتداری سے مشورہ لینے والے کی خیر خواہی کو ملحوظ رکھ کر بہتر سے بہتر مشورہ دے، لیکن اس کیلئے یہ ضروری نہیں کہ چھوٹتے ہی کہہ دیا جائے:
’’ کہنا آسان ہے، لیکن کرنا مشکل ہے ‘‘۔
آج جو لوگ کہہ رہے ہیں ’’کہنا آسان ہے، لیکن کرنا مشکل ہے‘‘ انہیں کہنے دیجئے۔
۔ ۔ ۔ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ ۔ ۔ ۔(۱۵۹) سورة آل عمران
’’اور اپنے کاموں میں ان سے مشورہ کیجئے اور جب کسی کام کا عزم کر لیجئے تو اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے:
آپ اپنا کام کیجئے۔
نیا کچھ کرنے کا سوچئے۔
اپنی زندگی آپ شروع کیجئے۔
نیا کچھ کیجئے، صرف اپنے لئے نہیں،
ملک و ملت اسلامیہ کیلئے، ساری دنیا کیلئے۔
آج کفار روزانہ ہی دنیا کو نیا کچھ دے رہے ہیں۔
آج ہمارے دشمن ملک انڈیا کے تاجر ساری دنیا میں چھا گئے ہیں۔
اور ہم مسلمان تاجروں کی اولاد ہو کر بھی اپنے ملک میں سمٹے بیٹھے ہیں۔
دیانتداری کے ساتھ تجارت کیجئے، اپنے ملک میں بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی۔
یاد رکھئے دین اسلام کو پھیلانے میں مسلمان تاجروں نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔
آج بھی ہمارے ملک پاکستان کو اور پوری دنیا کو صادق اور امین مسلمان تاجروں کی ضرورت ہے۔
آج بھی آپ ایک اچھے مسلمان تاجر کا کردار ادا کرکے پوری دنیا میں اسلام کا بول بالا کر سکتے ہیں۔
اپنا سوچ بدلئے، صرف پاکستان کو لُوٹنے کے بجائے پوری دنیا میں دیانتداری کے ساتھ اپنی تجارت کو فروغ دیجئے۔
جو کہتے ہیں ’’کہنا آسان ہے، لیکن کرنا مشکل ہے ۔ ۔ ۔ جھوٹ کے بغیر تجارت ممکن نہیں‘‘۔
انہیں کہنے دیجئے! ! !
آج جب کفار بھی سچائی اور دیانتداری کے ساتھ تجارت کر رہے ہیں تو ہم تو مسلمان ہیں، ہمارے لئے تجارت میں سچائی اور دیانتداری کو اپنانا آج کیسے ممکن نہیں رہا؟
آج اس دنیا میں سچائی اور دیانتداری کے ساتھ تجارت کیجئے اور کل آخرت میں انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھی بن جائے۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’سچائی کے ساتھ معاملہ کرنے والا امانت دار تاجر (آخرت میں) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا“ (سنن ترمذی: حدیث نمبر 1209)
اللہ تعالٰی ہمیں سچائی اور امانت داری کے ساتھ تجارت کرنے والا بنائے۔ آمین یا رب العالمین
تحریر: محمد اجمل خان
کسی سے کسی نئے کام کا مشورہ لو تو اکثر لوگ یہ جملہ کہہ دیتے ہیں کہ ’’کہنا آسان ہے، لیکن کرنا مشکل ہے‘‘ ، کبھی سوچتے نہیں کہ ایسا کہنے کا اثر کیا ہوتا ہے اور یہ جملہ کس طرح کسی انسان کے حوصلے کو پست کر دیتا ہے۔
ہمارا کوئی نوجوان کچھ اچھا کرنا چاہتا ہو، کچھ منفرد سوچ رکھتا ہو، زندگی میں کچھ نمایا کردار ادا کرنا چاہتا ہو، کسی نئے تجارت یا نیا پیشہ اپنانے کے بارے میں سوچ رہا ہو ۔ ۔ ۔ جوں ہی وہ اپنے نئے خیالات کا اظہار کرتا ہے، تو بعض لوگ ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے بغیر سوچے سمجھے کہہ دیتے ہیں ’’ کہنا آسان ہے، لیکن کرنا مشکل ‘‘ اور یوں آغاز میں ہی ان کے حوصلے پست کر دیئے جاتے ہیں اور اُن میں سے اکثر کی پرواز اس جملہ کو سنتے ہی رک جاتی ہے۔
یہ کمزور لوگوں کی کمزور کر دینے والی دلیل ہے۔ یہ ہماری غلامانہ زہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ ہمارے اذہان ابتک غلام ہیں ۔ ۔ ۔ ہم کوئی نئی بات یہ سوچ ہی نہیں سکتے، ہم کوئی نیا کام یہ کر ہی نہیں سکتے اور اگر کوئی سوچنا یا کرنا چاہے تو ہم اس طرح طنز کرتے ہیں: ’’ ارے میاں! کہنا آسان ہے، لیکن کرنا مشکل ہے‘‘۔
جو لوگ تن آسان ہوں اور کسی چیلنج کا مردانہ وار مقابلہ نہ کر سکتے ہوں، وہ وقت کے ساتھ ساتھ دوسروں پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ وہ اپنی میراث کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے۔ جو آسانی سے مل جائے اسے برقرار رکھنا بھی ایک چیلنج ہی ہوتا ہے۔ بے شمار ایسے واقعات ہیں کہ آسانی سے ملنے والی دولت لوگ سنبھال نہیں سکے اور کنگال ہو گئے۔
جس نے زندگی میں کوئی نئی چیلنج کا مقابلہ کیا ہی نہ ہو وہ دوسروں پر طنز ہی کرے گا اور انہیں پست ہمت ہی بنائے گا ۔ ۔ ۔ یہی حقیقت ہے اور ہم میں اکثر لوگ اپنے نوجوانوں کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں۔
یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ زندگی میں کچھ بھی آسان نہیں اور کسی بھی نئے کام میں مشکلات درپیش آتی ہی ہیں لیکن ان مشکلات کا مقابلہ کرنا ہی اصل چیلنج ہے اور مردانگی کا کام ہے۔ کوئی بھی کام آسان یا مشکل نہیں ہوتا، بس عزم اور ارادے کی پختگی مشکل سے مشکل کام کو آسان بنا دیتی ہے۔
بے شک جو کام مشکل ہو اس کے بارے میں صحیح مشورہ دیا جائے کیونکہ مشیر کو امین ہونا چاہے، جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
المستشارُ مُؤْتَمِنٌ (متفق علیہ)
’’جس سے مشورہ کیا جاتا ہے۔ وہ امین بنایا گیا ہے‘‘۔
گویا مشیر کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ نہایت دیانتداری سے مشورہ لینے والے کی خیر خواہی کو ملحوظ رکھ کر بہتر سے بہتر مشورہ دے، لیکن اس کیلئے یہ ضروری نہیں کہ چھوٹتے ہی کہہ دیا جائے:
’’ کہنا آسان ہے، لیکن کرنا مشکل ہے ‘‘۔
آج جو لوگ کہہ رہے ہیں ’’کہنا آسان ہے، لیکن کرنا مشکل ہے‘‘ انہیں کہنے دیجئے۔
۔ ۔ ۔ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ ۔ ۔ ۔(۱۵۹) سورة آل عمران
’’اور اپنے کاموں میں ان سے مشورہ کیجئے اور جب کسی کام کا عزم کر لیجئے تو اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے:
آپ اپنا کام کیجئے۔
نیا کچھ کرنے کا سوچئے۔
اپنی زندگی آپ شروع کیجئے۔
نیا کچھ کیجئے، صرف اپنے لئے نہیں،
ملک و ملت اسلامیہ کیلئے، ساری دنیا کیلئے۔
آج کفار روزانہ ہی دنیا کو نیا کچھ دے رہے ہیں۔
آج ہمارے دشمن ملک انڈیا کے تاجر ساری دنیا میں چھا گئے ہیں۔
اور ہم مسلمان تاجروں کی اولاد ہو کر بھی اپنے ملک میں سمٹے بیٹھے ہیں۔
دیانتداری کے ساتھ تجارت کیجئے، اپنے ملک میں بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی۔
یاد رکھئے دین اسلام کو پھیلانے میں مسلمان تاجروں نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔
آج بھی ہمارے ملک پاکستان کو اور پوری دنیا کو صادق اور امین مسلمان تاجروں کی ضرورت ہے۔
آج بھی آپ ایک اچھے مسلمان تاجر کا کردار ادا کرکے پوری دنیا میں اسلام کا بول بالا کر سکتے ہیں۔
اپنا سوچ بدلئے، صرف پاکستان کو لُوٹنے کے بجائے پوری دنیا میں دیانتداری کے ساتھ اپنی تجارت کو فروغ دیجئے۔
جو کہتے ہیں ’’کہنا آسان ہے، لیکن کرنا مشکل ہے ۔ ۔ ۔ جھوٹ کے بغیر تجارت ممکن نہیں‘‘۔
انہیں کہنے دیجئے! ! !
آج جب کفار بھی سچائی اور دیانتداری کے ساتھ تجارت کر رہے ہیں تو ہم تو مسلمان ہیں، ہمارے لئے تجارت میں سچائی اور دیانتداری کو اپنانا آج کیسے ممکن نہیں رہا؟
آج اس دنیا میں سچائی اور دیانتداری کے ساتھ تجارت کیجئے اور کل آخرت میں انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھی بن جائے۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’سچائی کے ساتھ معاملہ کرنے والا امانت دار تاجر (آخرت میں) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا“ (سنن ترمذی: حدیث نمبر 1209)
اللہ تعالٰی ہمیں سچائی اور امانت داری کے ساتھ تجارت کرنے والا بنائے۔ آمین یا رب العالمین
تحریر: محمد اجمل خان
Last edited: