• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیابے وضوء قرآن کوچھوناجائز ہے؟

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ بلا وضو قرآن مجید چھونا جائز ہے ، کیونکہ قرآن وسنت میں اس کی ممانعت نہیں ، سورۃ واقعہ کی جو آیت پیش کی جاتی ہے وہ اس پر منطبق نہیں ہوتی ۔ واللہ اعلم ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مس القرآن
قرآن پاک کو بغیر وضوء چھونا منع ہے۔ البتہ زبانی قراءت کرسکتا ہے۔ جنبی ہونے کی صورت میں زبانی بھی قراءت نہیں کر سکتا۔
قرآن پاک
سورۃ واقعه آیت نمبر 79 میں ہے "لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ" نہیں چھوتے اس قرآن کو مگر پاک۔
سنن الترمذي
جز 1 صفحہ 249 حدیث نمبر 136 میں ہے "عَنْ عَلِيٍّ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقْرِئُنَا الْقُرْآنَ عَلَى كُلِّ حَالٍ مَا لَمْ يَكُنْ جُنُبًا" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حال میں قرآن کی تلاوت فرمالیتے مگر جنبی ہونے کی صورت میں تلاوت نہ فرماتے ۔
قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ عَلِيٍّ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَبِهِ قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ قَالُوا يَقْرَأُ الرَّجُلُ الْقُرْآنَ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ وَلَا يَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ إِلَّا وَهُوَ طَاهِرٌ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ
آدمی قرآن بغیر وضوء زبانی پڑھے مگر مصحف میں نہ پڑھے (یعنی قرآن کو مس نہ کرے) ۔
419 حَدَّثَنِي يَحْيَى عَنْ مَالِك عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ أَنَّ فِي الْكِتَابِ الَّذِي كَتَبَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ أَنْ لَا يَمَسَّ الْقُرْآنَ إِلَّا طَاهِرٌ * مؤطا مالك
قَالَ مَالِك وَلَا يَحْمِلُ أَحَدٌ الْمُصْحَفَ بِعِلَاقَتِهِ وَلَا عَلَى وِسَادَةٍ إِلَّا وَهُوَ طَاهِرٌ وَلَوْ جَازَ ذَلِكَ لَحُمِلَ فِي خَبِيئَتِهِ وَلَمْ يُكْرَهْ ذَلِكَ لِأَنْ يَكُونَ فِي يَدَيِ الَّذِي يَحْمِلُهُ شَيْءٌ يُدَنِّسُ بِهِ الْمُصْحَفَ وَلَكِنْ إِنَّمَا كُرِهَ ذَلِكَ لِمَنْ يَحْمِلُهُ وَهُوَ غَيْرُ طَاهِرٍ إِكْرَامًا لِلْقُرْآنِ وَتَعْظِيمًا لَهُ قَالَ مَالِك أَحْسَنُ مَا سَمِعْتُ فِي هَذِهِ الْآيَةِ ( لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ) إِنَّمَا هِيَ بِمَنْزِلَةِ هَذِهِ الْآيَةِ الَّتِي فِي عَبَسَ وَتَوَلَّى قَوْلُ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى ( كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ فِي صُحُفٍ مُكَرَّمَةٍ مَرْفُوعَةٍ مُطَهَّرَةٍ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرَامٍ بَرَرَةٍ ) * مؤطا مالك
مصنف عبدالرزاق جز 1 صفحه 342
عبد الرزاق عن ابن جريج عن عطاء قال لا يمس المصحف مفضيا إليه متوضىء قلت فبين أيدهما وبين أخبيته ثوب قال ولا الخباء أكف من الثوب المتوضىء وهو في خبائه قال نعم قلت فيأخذه مطبقا قال نعم
عبد الرزاق عن الثوري عن جابر عن الشعبي وطاوس والقاسم بن محمد كرهوا أن يمس المصحف وهو وضوء
عبد الرزاق عن ابن جريج عن عطاء قال أحب أن لا تمس الدراهم والدناينر إلا على وضوء ولكن لا بد للناس من مسها جبلوا على ذلك قال ابن جريج وكره عطاء ان تمس الحائض والجنب الدنانير والدراهم
عبد الرزاق عن معمر عن الزهري قال لاتمس الدراهم التي فيها القرآن إلا على وضوء وقال معمر وكان الحسن وقتادة لا يريان به بأسا يقولون جبلوا على ذلك
عبد الرزاق عن هشام بن حسان قال أرسلني ابن سيرين أسال القاسم بن محمد عن الدراهم التي فيها ذكر الله أيبتاع بها الناس وفيها الكتاب وسألته فقال لا بأس بالكتاب يتبايعون إنما يتبايعون بالذهب والفضة لو ذهبت بالكتاب في رقعة ما أعطوك شيئا ولكن لا تمس الدراهم التي فيها ذكر الله إلا على وضوء
المعجم الكبير للطبراني
جز 3 صفحہ 337 حدیث نمبر 3064میں ہے عَنْ حَكِيمِ بن حِزَامٍ ، قَالَ : لَمَّا بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ ، قَالَ : " لا تَمَسَّ الْقُرْآنَ إِلا وَأَنْتَ طَاهِرٌ " حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (گورنر بنا کر) یمن بھیجا تو فرمایا کہ قرآن کو نہ چھونا مگر یہ کہ تم طاہر(وضوء سے) ہو ۔
المعجم الكبير للطبراني جز 10 صفحہ 452 حدیث نمبر 13039 میں ہے " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:لا يَمَسُّ الْقُرْآنَ إِلا طَاهِرٌ" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن کو نہ چھوئے مگر طاہر(وضوء والا) ۔
بعض لوگوں کو دھوکہ ہوتا ہے کہ درج بالا روایات میں وضوء کا لفظ نہیں بلکہ طاہر کا لفظ آیا ہے اور کہتے ہیں کہ مسلم طاہر ہی ہوتا ہے۔ لفظ طاہر کی تشریح درج ذیل احادیث سے ہوتی ہے۔

سنن الترمذي جز 1 صفحہ 98 حديث نمبر 53 میں ہے "أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ طَاهِرًا أَوْ غَيْرَ طَاهِرٍ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم وضوء فرماتے ہر نماز کے وقت طاہر ہوتے یا غیر طاہر ۔ (یعنی وضوء سے ہوتے یا بغیر وضوء کے ہر نماز کے وقت وضوء فرماتے تھے) ۔
حاشيه ابن القيم جز 1 صفحہ 68
قيل الطهارة شرعت للصلاة من حين المبعث ولم يصل قط إلا بطهارة أناه جبريل فعلمه الطهارة والصلاة
طہارۃ (وضوء) نماز کے لئے لازم ہے ۔ جبرائيل آئے اور انہوں نے طہارت (وضوء) اور نماز سكهلائى ۔
وفي حديث إسلام عمر أنه لم يمكن من مس القرآن إلا بعد تطهره فكيف نظن أنهم كانوا يصلون بلا وضوء
عمر رضى الله تعالى عنہ کے اسلام لانے کے واقعہ میں ہے کہ بے شک قرآن كو بغير طہارۃ (وضوء) چھونا جائز نہیں تو یہ کیسے ممكن ہے نماز (سجده) بلا طہارۃ (وضوء) جائز ہو ـ
اب ملاحظہ فرمائیں محدثین کرام کے اپنی کتب احادیث میں باندھے گئے عنوانات
مؤطا مالك جز 1 صفحہ 199
كتاب القرآن باب الأمر بالوضوء لمن مس القرآن قرآن كو چھونے کے لئے وضوء كا حكم ـ
موطأ مالك جز 2 صفحہ 110
بَاب الْأَمْرِ بِالْوُضُوءِ لِمَنْ مَسَّ الْقُرْآنَ وضوء کا حکم جو قرآن کو چھونا چاہے
سنن البيهقى الكبرى جز 1 صفحه 87
باب نهي المحدث عن مس المصحف
حدث وا لے كو قرآن چھونے كى ممانعت
سنن البيهقى الكبرى جز 1 صفحه 309
كره للحائض مس المصحف حائضہ كو قرآن چھونے كى ممانعت
سنن دارقطنى جز 1 صفحہ 121
باب في نهي المحدث عن مس القرآن بغیر وضوء قرآن چھونے كى ممانعت
شرح زرقانى جز2 صفحه 10
الأمر بالوضوء لمن مس القرآن قرآن كو چھونے کے لئے وضوء كا حكم ـ
تفاسیر
تفسير ابن كثير جز 4 صفحه 123
قاله ابن عباس رضي الله عنهما ومجاهد لدينا أي عندنا قاله قتادة وغيره لعلي أي ذو مكانة عظيمة وشرف وفضل قاله قتادة حكيم أي محكم بريء من اللبس والزيغ وهذا كله تنبيه على شرفه وفضل كما قال تبارك وتعالى إنه لقرآن كريم ثم في كتاب مكنون ثم لا يمسه إلا المطهرون ثم تنزيل من رب العالمين وقال تعالى كلا إنها تذكرة ثم فمن شاء ذكره ثم في صحف مكرمة ثم مرفوعة مطهرة ثم بأيدي سفرة ثم كرام بررة ولهذا استنبط العلماء رضي الله عنه من هاتين الآيتين أن المحدث لا يمس المصحف كما ورد به الحديث إن صح لأن الملائكة يعظمون المصاحف المشتملة على القرآن في الملإ الأعلى فأهل الأرض بذلك أولى وأحرى لأنه نزل عليهم وخطابه متوجه إليهم فهم أحق أن يقابلوه بالإكرام والتعظيم والانقياد له بالقبول والتسليم لقوله تعالى وإنه في أم الكتاب لدينا لعلي حكيم وقوله عز وجل أفنضرب عنكم الذكر صفحا أن كنتم قوما مسرفين اختلف المفسرون في معناها فقيل معناها أتحسبون أن نصفح عنكم فلا نعذبكم ولم تفعلوا ما أمرتم به
تفسير ابن كثير جز 4 صفحه 299
عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى أن يسافر بالقرآن إلى ارض العدو مخافة أن يناله العدو واحتجوا في ذلك بما رواه الإمام مالك في موطئه عن عبدالله بن أبي بكربن محمد بن عمرو بن حزم أن في الكتاب الذي كتبه رسول الله صلى الله عليه وسلم لعمروبن حزم أن لايمس القرآن إلا طاهر
تفسير قرطبى جز 5 صفحه 208
لا يجوز له (جنب) اللبث في المسجد فأحرى ألا يجوز له مس المصحف ولا القراءة فيه إذ هو أعظم حرمة واختلف العلماء في مس المصحف وضوء فالجمهور على المنع من مسه
فتح القدير - (ج 7 / ص 137)

منع المحدث من مسّ المصحف ، وبه قال عليّ ، وابن مسعود ، وسعد بن أبي وقاص ، وسعيد بن زيد ، وعطاء ، والزهري ، والنخعي ، والحكم ، وحماد وجماعة من الفقهاء منهم مالك ، والشافعي۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
صحیح بخاری شریف میں ایک حدیث ہےجسے ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ اس حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سوئے ہوئے تھے، جب اُٹھے تو اپنی آنکھوں کو ہاتھ سے صاف کیا اور پھر سورۃ آل عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت کی۔ پھر لٹکائے ہو مشکیزہ کی طرف بڑھے اور وضو کیا اور نماز شروع کر دی''۔
اس سے مصحف میں دیکھ کر پڑھنے کی دلیل کیسے لی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبانی پڑھا نہ کہ مصحف کو چھو کر۔

ترجمہ : محمد بن سيرین سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں میں بیٹھے اور لوگ قرآن پڑھ رہے تھے پس گئے حاجت کو اور پھر آکر قرآن پڑھنے لگے ایک شخص نے کہا آپ کلام اللہ پڑھتے ہیں بغیر وضوکے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تجھ سے کس نے کہا کہ یہ منع ہے کیا مسیلمہ نے کہا؟
حوالہ : موطاامام مالک:جلد نمبر 1:باب: کلام اللہ بے وضو پڑھنے کی اجازت۔
یہاں بھی بات مصحف میں دیکھ کر پڑھنے کا ذکر نہیں بلکہ حفاظ صحابہ کے زبانی پڑھنے کی بات ہے اور یہ جائز ہے۔

یہ بات صحیح ہے کہ تلاوت ایک چیز ہے اور مس ایک چیز ہے مگر تلاوت کے حکم سے مس کا بھی جواز ملتا ہے کیونکہ قرآن کی تلاوت کا ہمیں حکم ملا ہے اور تلاوت شامل ہے مس اور غیر مس دونوں کو ۔
یہ وہ ”قیاس“ ہے جسے مذموم کہا جاتا ہے۔

ایک اور عقلی بات: قرآن پوری کائنات کے لئے آیا چاہے مسلم ہو یا کافر۔ اگر بغیر وضو کے چھونے کی ممانعت ہوتی تو مذہب اسلام پوری دنیا میں نہیں پھیل پاتا کیونکہ دین کا دارومدار قرآن پہ ہے ۔ اور آپ ﷺ نے غیرمسلم بادشاہوں کو خطوط لکھے جس میں قرآن کی آیات بھی تھیں ۔ اگر قرآن بغیر وضو کے چھونا منع ہوتا تو نبی ﷺ کبھی بھی غیرمسلم کو خط میں قرآنی آیات نہ لکھتے ۔
اسے ایک اور بے عقلی کی بات کہا جائے تو یہ حقیقت سے زیادہ قریب ہی نہیں بلکہ حقیقت ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

راقم نے چھ یا سات ماہ قبل اس مسئلہ پر 222 صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی مضمون لکھا ہے جسے محدث فورم سمیت کسی فورم پر اس لئے شئیر نہیں کیا کہ اتنا تفصیلی مضمون کون پڑھے گا۔ بہرحال اسلم نامی کسی صاحب نے پندرہ روزہ مجلہ ’’صحیفہ اہل حدیث‘‘ میں ایک مضمون بعنوان ’’کیا قرآن چھونے کے لئے کوئی شرط ہے؟‘‘ لکھا ہے جس کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے راقم نے ’’تحقیق کا المیہ‘‘ نامی مضمون لکھا ہے جو آئندہ چند ماہ میں ماہنامہ ’’الحدیث‘‘ کے صفحات کی زینت بنے گا۔ان شاءاللہ
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
بے وضوء قرآن کو چھونے سے متعلق قرآن وصحیح احادیث سے دلائل مطلوب ہیں، بینوا وتؤجروا۔
یہ جواب ہمارے فورم کے معزز رکن @مقبول احمد سلفی صاحب کا ہے ، بغرض فائدہ یہاں نقل کیا جاتا ہے :
بلا وضو قرآن کی تلاوت
دلائل کی روشنی میں قرآن بلا وضو پڑھنے کا جواز نکلتا ہے ، اور جہاں قرآن بغیر وضو کے اور بغیر چھوئے پڑھ سکتے ہیں ، وہیں بلاوضو قرآن چھوکر بھی پڑھا جاسکتا ہے ۔ بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ بلاوضو قرآن پڑھنے کے جوبھی دلائل ہیں ، ان میں چھونے کا ذکر نہیں ہے ۔ چلیں دیکھتے ہیں ، اس بات کی کیا حقیقت ہے ۔
صحیح بخاری شریف میں ایک حدیث ہےجسے ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ اس حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سوئے ہوئے تھے، جب اُٹھے تو اپنی آنکھوں کو ہاتھ سے صاف کیا اور پھر سورۃ آل عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت کی۔ پھر لٹکائے ہو مشکیزہ کی طرف بڑھے اور وضو کیا اور نماز شروع کر دی''۔
(صحیح بخاری مع الفتح ١۱/ ٣٤٣۳۴۳،۳۴۴٣٤٤)۔
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے تلاوت کی اور وضو بعد میں کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب قائم کیا ہے: بے وضو ہونے کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرنا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اثر دیکھیں : عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ کَانَ فِي قَوْمٍ وَهُمْ يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ فَذَهَبَ لِحَاجَتِهِ ثُمَّ رَجَعَ وَهُوَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَلَسْتَ عَلَی وُضُوئٍ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ مَنْ أَفْتَاکَ بِهَذَا أَمُسَيْلِمَةُ ۔
ترجمہ : محمد بن سيرین سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں میں بیٹھے اور لوگ قرآن پڑھ رہے تھے پس گئے حاجت کو اور پھر آکر قرآن پڑھنے لگے ایک شخص نے کہا آپ کلام اللہ پڑھتے ہیں بغیر وضوکے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تجھ سے کس نے کہا کہ یہ منع ہے کیا مسیلمہ نے کہا؟
حوالہ : موطاامام مالک:جلد نمبر 1:باب: کلام اللہ بے وضو پڑھنے کی اجازت۔
اس اثر سے یہ پتا چلتا ہے کہ لوگوں میں قرآن بلاوضو نہ پڑھنے کی غلط فہمی پہلے سے پائی جاتی ہے ۔ اسی سبب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس جھوٹ کا انتساب مسیلمہ کی طرف کیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے یہ بات جھوٹ ہے ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تلاوت الگ چیز ہے اور چھونا الگ چیز ہے ۔ یہ بات صحیح ہے کہ تلاوت ایک چیز ہے اور مس ایک چیز ہے مگر تلاوت کے حکم سے مس کا بھی جواز ملتا ہے کیونکہ قرآن کی تلاوت کا ہمیں حکم ملا ہے اور تلاوت شامل ہے مس اور غیر مس دونوں کو ۔ اگربلاوضو چھوکر تلاوت کرنے کی ممانعت مانی جائے تو اس کے لئے صریح اور صحیح نص چاہئے ۔
ایک اور عقلی بات: قرآن پوری کائنات کے لئے آیا چاہے مسلم ہو یا کافر۔ اگر بغیر وضو کے چھونے کی ممانعت ہوتی تو مذہب اسلام پوری دنیا میں نہیں پھیل پاتا کیونکہ دین کا دارومدار قرآن پہ ہے ۔ اور آپ ﷺ نے غیرمسلم بادشاہوں کو خطوط لکھے جس میں قرآن کی آیات بھی تھیں ۔ اگر قرآن بغیر وضو کے چھونا منع ہوتا تو نبی ﷺ کبھی بھی غیرمسلم کو خط میں قرآنی آیات نہ لکھتے ۔
واللہ اعلم
سوال تھا بلا وضوء قرآن کو چھونے کے بارے۔
جواب میں بلا وضوء قرآن پڑھنے کی روایات لکھ دی گئیں۔
کوئی ایک روایت جس میں بلاوضوء قرآن کو چھونے کی اجازت صراحتاً ثابت ہو لکھ دی جائے۔
 
Top