اسلام ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 368
- ری ایکشن اسکور
- 1,006
- پوائنٹ
- 97
(محمد حسین میمن)
سنن ابن ماجہ میں ایک حدیث موجود ہے جس سے کئی حضرات کو غلط فہمی ہوئی اور وہ اسی غلط فہمی کی وجہ سے انکار حدیث کی طرف مائل ہوئے۔ کیونکہ منکرین حدیث کا شیوہ بالکل عیسائیوں کی طرح ہے کہ وہ بھی قرآن مجید میں تشکیک پیدا کر کے عامۃ الناس کو اسلام سے ورغلاتے ہیں۔ بعین یہی طرز عمل منکرین حدیث کا ہے وہ بھی کتب احادیث سے احادیث کو آڑ بنا کر دین سے دور کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ احادیثِ صحیحہ سو فیصد قرآن مجید کی طرح ہدایت کی ضامن ہیں۔ امی عائشہ کے بارے میں یہ روایت معروف ہے جس کا ذکر سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب رضاعة الکبیر میں ہے ۔ اس حدیث کے مرکزی راوی ''محمد بن اسحاق'' ہیں۔ رضاعت کبیر کے سلسلہ میں تین اسناد سے احادیث موجود ہیں۔ ایک سند یہ ہے:
''من طریق محمد بن اسحاق ، عن عبداللہ بن ابی بکر عن عمرة عن عائشة''
یہ روایت ابن ماجہ رقم ۱۹۴۴، ابو یعلی ، رقم ۴۵۸۸،۴۵۸۷ میں ہے۔
دوسری روایت:
''عن عبداللہ ابن ابی بکر، عن عمرة بنت عبدالرحمن عن عائشة''
یہ روایت امام مالک رحمہ اللہ نے مؤطا میں ۱۷۸۰ پر رقم کی ہے۔
تیسری روایت:
''عن عبدالرحمن بن القاسم عن ابیہ عن عائشة''
صحیح مسلم ، رقم ۳۶۰۰ میں۔
پہلی سند والی حدیث جس میں محمد بن اسحاق ہیں وہ ابن ماجہ میں درج ہے۔
''حدثنا ابو سلمة یحیی بن خلف ، حدثنا عبدالاعلی عن محمد بن اسحاق عن عبداللہ بن ابی بکر عن عمرة عن عائشة رضی اللہ عنہا، قالت: لقد نزلت اٰیة الرجم ، ورضاعة الکبیر عشراً ولقد کان فی صحیفة تحت سریری فلما مات رسول اللہ ﷺ وتشا غلنا بموتہ دخل داجن فاکلھما''
(سنن ابن ماجہ، ابواب النکاح، رقم: ۱۹۴۴)
''سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: رجم کی آیت اور بڑی عمر کے لڑکے کو دس بار دودھ پلانے کے مسئلے پر مشتمل آیت نازل ہوئی تھی۔ یہ دونوں آیتیں ایک کاغذ پر لکھی ہوئی میرے بستر پر پڑی تھیں۔ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو ہم آپ کے کفن و دفن وغیرہ میں مشغول ہوگئے، ایک بکری آئی اور وہ کاغذ کھا گئی۔''
دوسری حدیث میں جس میں عبداللہ بن ابی بکر ہیں وہ یہ ہے :
اما م مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''عن عبداللہ بن ابی بکر عن عمرة بنت عبدالرحمن عن عائشة، قالت کان فیما انزل من القرآن عشر رفعات معلوماتٍ یحرّمن ثم نسخن بخمس معلومات، فتوفی رسول اللہ ﷺ وھن فیما یقرا من القرآن''
(موطا امام مالک، رقم: ۱۷۸۰، مسند الشافعی، ۲۱/۲، اسحاق بن راھویہ، رقم: ۱۰۰۷، صحیح مسلم، ۱۴۵۲، ابو داؤد، رقم: ۲۰۶۲، سنن الترمذی، رقم: ۱۱۵۰، سنن النسائی، رقم: ۳۳۰۷، الدارمی، رقم: ۲۱۷۰، والطحاوی، مشکل الاٰثار، رقم: ۲۰۶۳، ابن حبان شرح، رقم: ۴۲۲۱، سنن الکبری للبیھقی، ۴۵۴/۷)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا پہلے قرآن مجید میں یہ اترا تھا کہ دس بار ددھ پلائے تو حرمت ثابت ہوگی پھر منسوخ ہوگیا اور پانچ بار پلانا ٹھہرا ۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی اور لوگ اس کو قرآن میں پڑھتے تھے۔( یہ لفظ کہ لوگ اس کو قرآن میں پڑھتے تھے یہ زبردست وہم ہے جس کی تحقیق ہم آگے بیان کریں گے۔ ان شاء اللہ)
تیسری روایت جس میں عبدالرحمن بن قاسم ہے وہ یہ ہے:
''وحدثنا عمرو الناقد وابن ابی عمر قالا حدثنا سفیان بن عیینة عن عبدالرحمن بن قاسم عن ابیہ عن عائشة رضی اللہ عنہا قالت: جاءت سھلة بنت سھیل الی النبی ﷺ فقالت یارسول اللہ ﷺ انی ارای فی وجہ ابی حذیفة من دخول سالم وھو حلیفہ فقال النبی ﷺ ''ارضعیة'' قالت کیف ارضعہ وھو رجل کبیر فتبسم رسول اللہ وقال قد علمت انہ رجل کبیر۔ ثم جاءت فقالت: ما رایت فی وجہ ابی حذیفة شیئا اکرھہ''
''سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ اے اللہ کے رسول جب سالم میرے پاس آتا ہے تو مجھے اپنے شوہر ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے چہرے پر ناگواری کے آثار نظر آتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسے دودھ پلا دے۔ سہلہ نے کہا کہ کیسے؟ حالانکہ وہ نوجوان آدمی ہے، رسول اللہ ﷺ مسکرائے اور فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ وہ جوان ہے(ابن سعد نے بیان کیا کہ سہلہ پیالے میں اپنا دودھ ڈالتی اور سالم نے اسے پانچ دفعہ پیا۔ (الزرقانی، ج۳، ص۲۱۶)۔ (پھر دودھ پلانے کے بعد) سہلہ نبی ﷺ سے کہتی ہیں کہ میں نے اپنے خاوند حذیفہ کے چہرے پر اس کے بعد ناگواری نہیں دیکھی۔''
یہ تینوں احادیث آپ کے سامنے ہیں ، دو حدیثوں میں بکری کے کھانے کا کوئی ذکر نہیں ہے، جس میں عبدالرحمن بن قاسم ہیں اور عبداللہ بن ابی بکر ہیں، مگر جس روایت کو محمد بن اسحاق نے نقل کی ہے۔ اس مین بکری کے کھانے کا ذکر موجود ہے۔ اور مزید یہ کہ تینوں روایتیں امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت کی گئی ہیں۔
دراصل محمد بن اسحاق صدوق ہیں، مگر وہ تدلیس میں بھی مشہور ہیں اور مدلس کی روایت اس وقت مقبول ہوتی ہے جب وہ اپنے سے اوپر کی سماعت کی تصریح کر دے۔ اگر وہ صیغہ (عن) سے روایت کریں گے تو روایت مقبول نہ ہوگی مگر ابن ماجہ کی حدیث حسن درجہ کی ہے اور وہاں سماعت کی تصریح موجود ہے۔ مگر محمد بن اسحاق اس روایت کو بیان کرنے میں منفرد ہیں اگر گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو جس روایت میں بکری کے کھانے کا ذکر ہے اس میں محمد بن اسحاق، عبداللہ بن ابی بکر سے روایت کرتے ہیں جب کہ امام مالک رحمہ اللہ نے جب اپنی مؤطا میں روایت نقل کی تو وہاں محمد بن اسحاق ہیں مگر وہاں عبداللہ بن ابی بکر ہیں، اور وہاں وہ کچھ اور روایت کے الفاظ نقل کرتے ہیں۔ جس سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ ابن اسحاق بیان کرنے میں منفرد ہیں۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے کسی نے سوال کیا :
''ابن اسحاق اذا تفرد لحدیث تقبلہ؟ قال لا ''
''جب ابن اسحاق کسی حدیث میں منفرد ہوں تو ان کی روایت قبول کی جائے؟ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا نہیں۔ ''
لہٰذا ابن اسحاق اس روایت میں منفرد ہیں اور وہ خصوصاً احکام میں حجت نہیں ہیں۔
''ان ابن اسحاق لیس بحجة فی الاحکام''
حتی کہ امام احمد رحمہ اللہ نے یہاں تک ان کے بارے میں فرمایا کہ:
''واللہ انی رایتہ یحدث عن جماعة بالحدیث الواحد ولا یفصل کلام ذامن ذا''
(تہذیب الکمال، ج۲۴، ص۴۳۲)
اللہ کی قسم میں نے ابن اسحاق کو جماعت سے ایک حدیث بیان کرتے دیکھا مگر وہ بیان نہ کرتے کہ وہ جو نقل کرتے ہیں کن کن کا کلام ہے۔
مزید ایک دلیل آپ کے سامنے رکھتا ہوں ، جس سے واضح طور پر یہ ثابت ہو جائے گا کہ یہ روایت بیان کرنے میں ابن اسحاق منفرد ہیں اور ان کی یہ روایت مقبول نہیں ۔ مگر اس دلیل سے قبل ایک خدشہ آپ کے سامنے پیش خدمت ہے۔
عبداللہ بن یوسف الجدیح فرماتے ہیں:
اور مجھ اس بات کا خوف ہے کہ ممکن ہے ابن اسحاق نے ایک روایت کو دوسری روایت میں داخل کیا ہو کیوں کہ بکری کا واقعہ کا ذکر تو واقعہ افق میں موجود ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ اتنی (بھولی) اور کمسن لڑکی ہیں کہ آٹا گوندھ کر سو جاتی ہیں۔ پلی ہوئی بکری آ کر اسے کھا جاتی ہے۔ (صحیح البخاری، کتاب المغازی، رقم: ۴۱۴۱، المقدمات الاساسیة، ص۱۷۵)
یہ خدشہ اسی سلسلہ کی کڑی معلوم ہوتی اور مذید اس روایت کی غیر مقبولیت کا اندازہ مسلم کی حدیث سے بھی ہوتا ہے جن کی راویہ خود امی عائشہ رضی اللہ عنہا ہی ہیں۔
امام مسلم رحمہ اللہ صحیح مسلم میں فرماتے ہیں:
''قالت ام سلمة لعائشة رضی اللہ عنہا إ نّہ یدخل علیک الغلام الأ یفع الذی ما احب علی۔۔۔''
ام سلمہ نے عائشہ سے کہا کہ آپ کے پاس غلام ایفع (ایسا لڑکا جو جوانی کے قریب ہو) آتا ہے جس کو میں پسند نہیں کرتی کہ میرے پاس آئے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا تم کو رسول کی پیروی اچھی نہیں اور حالانکہ ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کی بیوی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول سالم میرے پاس آتا ہے اور وہ جوان مرد ہے۔اور ابو حذیفہ اس کا آنا نا پسند کرتا ہے تو نبی ﷺ نے فرمایا تم اس کو دودھ پلا دو کہ وہ تمہارے پاس آیا کرے۔
(صحیح مسلم، ج۲، رقم۳۶۰۳)
اس حدیث سے واضح ہوا کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا رضاعت کبیر کے مسئلے پر قائل تھیں مگر ام سلمہ رضی اللہ عنہا اس پر قائل نہ تھیں، بلکہ صحیح مسلم میں یہاں تک موجو دہے کہ:
''ابی سائر ازواج النبی ﷺ ان یدخلن علیھن احدا بتلک الرضاعة۔۔''
(صحیح مسلم، ج۲، ص۳۱۶، رقم۱۴۵۴)
''نبی کریم ﷺ کی تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن نے انکار کیا کہ ان کے پاس کوئی آئے اس رضاعت کبیر کی وجہ سے۔''
غور طلب بات ہے کہ امی عائشہ اور حفصہ کے علاوہ باقی کوئی بھی اس رضاعت کا قائل نہیں اور دلیل کے طور پر امی عائشہ ، سالم والی حدیث ہی پیش کر رہی تھیں ۔ اگر قرآن مجید میں رضاعت کبیر کی کوئی آیت موجود ہوتی تو کیا عائشہ اس کو پیش نہ کرتیں؟؟
یعنی اگر وہ آیت ہوتی جس کو ابن ماجہ نے نکالا بطریق ابن اسحاق کے تو نبی کریم ﷺ کی ازواج کبھی بھی انکار نہ کرتیں، بلکہ وہ اپنے معاملات اور آراء سے رجوع کرتیں قرآن مجید کی آیت کے بعد اور پھر تمام ازواج مطہرات کا انکار آیت ہونے کے باوجود چہ معنی دارد؟
غور فرمائیں۔ یہیں سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ ابن اسحاق اپنی روایت میں منفرد ہیں اور امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس اگر کوئی ایسی آیت ہوتی تو آپ ضرور پیش کرتیں۔
جہاں تک تعلق اس حدیث کے ٹکڑے کا جس کو ذکر امام مالک نے فرمایا کہ امی عائشہ فرماتی ہیں:
''فتوفی رسول اللہ ﷺ وھن فیما یقراٴ من القرآن''
''جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو لوگ اس کو (یعنی اس آیت کو جس میں دس بار رضاعت کو منسوخ کرکے پانچ مرتبہ رضاعت کے حکم کو نافذ کیا گیا) پڑھتے تھے۔'' (المؤطا ، رقم: ۱۷۸۰)
یہ الفاظ جو مؤطا سے نقل کیے ہیں غیر محفوظ ہیں ۔ کیونکہ ان کے علاوہ جو دو ثقہ راویوں نے جن الفاظ کو ذکر فرمایا ہے ان الفاظ میں یہ نہیں ہیں، جن کا ذکر مؤطا کے راوی عبداللہ بن ابی بکر کر رہے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو لوگ اس (آیت) کو پڑھتے تھے۔
ایک اور نقطہ بھی ملحوظ رکھا جائے کہ عبداللہ بن ابی بکر سے زیادہ ثقہ وہ راوی ہیں جو ان الفاظ کو ذکر نہیں کر رہے۔
ان میں سے ایک قاسم بن محمد بن ابی بکر ہیں۔
ان کی روایت کو امام الطحاوی نے شرح مشکل الاثار رقم ۲۰۶۳ میں بطریق حماد بن سلمة، عن عبدالرحمن بن القاسم ، عن ابیہ عن عمرة عن عائشہ: قال کان مما نزل من القرآن''
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو کچھ نازل فرمایا پھر اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی اس میں یہ بھی تھا کہ دس بار دودھ پلانے یا پانچ بار دودھ پلانے ہی سے محرم کا رشتہ قائم ہوتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب النکاح، رقم ۱۹۴۲، شرح مشکل الآثار ۴۵۶۵۱)
مذکورہ بالا روایت میں شک کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ دس بار یا پانچ بار مگر صحیح مسلم کی حدیث سے واضح ہے کہ پانچ بار دودھ پلانے کا حکم نازل ہوا تھا۔
اس نکتہ کو بھی مد نظر رکھنا بے حد ضروری ہے کہ قرآن مجید کی بعض آیات کی تلاوت منسوخ ہوگئی اور حکم باقی رہا۔
تلاوت منسوخ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ انہیں قرآن مجید میں نہ لکھا جائے نہ ہی نماز میں تلاوت کی جائے اور اس قسم کے مسائل میں اس کا حکم قرآن کا نہیں ہوگا۔ اس کے باوجود اس مذکورہ حکم پر عمل ہوگا کیونکہ اس کا حکم سنت میں ہے۔
دوسرے ''یحییٰ بن سعید الانصاری'' ہیں۔
ان کی روایت بطریق عن عمرة عن عائشہ قالت: انزل فی القرآن عشر رضاعات معلومات ثم انزل خمس رضاعات۔ (مسلم ۱۰۷۵، مسند الشافعی ۲۱/۱)
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں دس بار رضاعتِ معلومات کا حکم اتارا پھر پانچ مرتبہ کا۔
یہ دونوں ثقہ حافظ انہوں نے وہ الفاظ نہیں نقل فرمائے جن الفاظ کو عبداللہ بن ابی بکر نے نقل کیے ہیں کہ نبی ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ اس کو قرآن سے پڑھتے تھے۔
امام الزرقانی مؤطا کی شرح میں رقمطراز ہیں :
''ووکذا قول عائشة رضی اللہ عنہا وھی ما یتلی من القرآن ای من القرآن المنسوخ فلا ارادت من القرآن الثابت لا شتھر عن غیرھا من الصحابة کما اشتھر سائر القرآن والذا قال: مالک رحمہ اللہ ولیس العمل علی ھذا'' (شرح الزرقانی، ۳،ص۳۲۱۹)
یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمانا کہ یہ آیت قرآن سے پڑھی جاتی تھی اگر یہ ثابت ہوتی تو ان کے علاوہ باقی صحابہ کے درمیان بھی یہ آیت مشہور ہوتی جس طرح مکمل قرآن مشہور تھا صحابہ میں۔ اسی لیے امام مالک نے فرمایا کہ اس حدیث پر عمل نہیں ہے۔
یعنی یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ ایک آیت ہو قرآن میں اور اس کی تلاوت بھی ہو رہی ہو اور آج وہ ہمارے سامنے نہ ہو اور اگر یہ آیت ہوتی تو آج بھی نمازوں میں اس کی تلاوت ہوتی نہ ہی یہ صحابہ کرام کے دور میں لکھی گئی اور نہ ہی تابعین نے اس کی تلاوت کی جن پر کچھ ذکر کیا ہو۔
لہٰذا یہ الفاظ کہ نبی ﷺ کے بعد تلاوت ہوتی رہی غیر محفوظ ہیں۔ امام طحاوی نے بھی ان الفاظ کو غیر محفوظ گردانا ہے۔ (دیکھیے شرح مشکل الآثار للطحاوی، ج۵،ص۳۱۳،)